(تحریر: علامہ سید جواد نقوی)
ماموریت ذلیلانہ ترین نظام حکومت ہے اے کاش! پاکستان میں آمریت ھوتی ،اے کاش! پاکستان میں ملوکیت ھوتی ،
اے کاش !اس ملک میں جمھوریت ھوتی، اے کاش! اس ملک میں استبداد کا دیو ھی جمھوری قبا پھن کر محوِرقص ھوتا، جو اس قوم پر ظلم تو کرتا لیکن فروخت نہ کرتا، اس ملک کو لوٹ تو لیتا لیکن دشمنوں کو نہ سونپتا، جو عوام کے حقوق چھپن لیتا لیکن اس قوم کے فرزندوں کو نا چیز ڈالروں کے بدلے موجودہ دور کے بردہ داری کے آقاﺅں کو فروخت نہ کرتا۔
ستمبر6 پاکستان کا یوم دفاع ہے لیکن 6 ستمبر 2008روز دفاع پاکستان صدارتی انتخابات عمل میں آئے جس میں زرداری صاحب پاکستان کے بارہویں صدر منتخب ھوئے مذکورہ انتخاب جن حالات میں اور جس پس منظر سے عمل میں آیا ہے اس کے اندر کئی پیغام پائے جاتے ہیں جو پاکستانی قوم کے لئے غیر معمولی اھمیت رکھتے ہیں پرویز مشرف نے تقریباً نو سال پاکستان پر حکومت کی، قوم پر خصومت کی ،فوج پر سالاری اور امریکہ کی خدمت کی، پاکستان پر زیادہ عرصہ جرنیلوں کی حکومت رھی ہے لیکن کبھی کبھار محض تنوّع کے لئے سول حکومت کو موقع دیاگیا ہے۔
پاکستان میں جرنیلوں کے اقتدار کو آمریت سمجھا جاتا ہے اور سیاسی جماعتوں کے اقتدار کو جمھوریت گمان کیا جاتا ہے، پاکستانی عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آمریت اور جمھوریت میں بنیادی فرق کیا ھوتا ہے کیونکہ عملی طور پر دونوں قسم کے طرز حکومت میں چھروں کے بدلنے کے علاوہ کسی طرح کی تبدیلی یا فرق دیکھنے کو نھیں ملا، جو بھی آیا اور جس نعرے کے ساتھ آیا ملک و عوام کے لئے تو کچھ نھیں کرسکا لیکن اپنی ذات اپنے خاندان اور اپنے ساتھیوں کے لئے البتہ بھت کچھ کر گیا، ملک کا خزانہ لوٹ کر اپنے خزانے بھرتے رھے، بڑی کامیابی کے ساتھ بیت المال کو مال البیت بنا لیا، بعض اناڑیوں نے اتنے بھونڈے طریقے سے بدعنوانیاں انجام دیں کہ ساری خلق خدا کو بھی ان کا علم ھو گیا۔
کتابوں میں جمھوریت اور آمریت میں بڑا واضح فرق لکھا ھوا ہے، تاریخ میں آمریت اور جمھوریت کے درمیان جلی فرق دکھائی دیتا ہے، آج دنیا کے مختلف ممالک میں دو نوع نظام نافذ ہیں اور جس میں عملی فرق نظر بھی آرھا ہے لیکن پاکستان ایک ایسی طلسماتی سرزمین ہے جس میں ان دو متضاد نظاموں کا فرق مٹ جاتا ہے،محمود و ایاز ایک ھو جاتے ہیں، دونوں کے چھرے یکسان ھو جاتے ہیں اور دونوں کے نتائج بھی مساوی ھوتے ہیں۔
کتابیں لکھنے والے معلوم نھیں کھاں پڑھ کر آئے ہیں جو بار بار اصرار کرتے ہیں کہ آمریت اس نظام کو کھتے ہیں جس میں ایک فرد کا ارادہ عوام یا جمھور پر مسلط ھوتا ہے اور ملوکیت یا آمریت میں جمھور کی کوئی حیثیت نھیں ھوتی فقط آمر کی اطاعت اور فرمانبرداری ان کا کام ہے جبکہ جمھوریت میں اقتدار عوام کا ھوتا ہے حاکم عوام کانمائندہ یا خدمت گزار ھوتا ہے آمریت میں عوام حاکم کے رحم و کرم پر ھوتی ہے لیکن پاکستان میں ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ سے یہ بتایا جارھا ہے کہ ان دونوں نظاموں کی تعریف میں اصلاح کی ضرورت ہے اورآئندہ دونوں کی ایک ھی تعریف کی جائے۔
مصوّر پاکستان اور مفکر جھان حضرت علامہ اقبال پاکستان بننے سے پھلے ھی فرما گئے تھے کہ دونوں مذکورہ طریقہ کار میں کوئی فرق نھیں ہے فقط لبادے یا وردی کا فرق ہے ،ابلیس کی مجلس شوریٰ کے عنوان سے نظم میں ابلیس کے مشیر کی رائے یہ ہے:
ھوں، مگر میری جھاں بینی بتاتی ہے مجھے جو ملوکیت کا اک پردہ ھو کیا اس سے خطر!
ھم نے خود شاھی کو پھنایا ہے جمھوری لباس جب ذرا آدم ھوا ہے خود شناس و خود نگر
شیطان کے چیلے کی رائے یہ ہے کہ آمریت کے اوپر پڑے ھوئے پردے سے کیا ڈرنا، یہ جو آپ کو جمھوریت نظر آتی ہے یہ وھی لباس ہے جو ھم نے ملوکیت و آمریت کو پھنایا ہے کیونکہ آج کا انسان خودشناس و خود نگر ھو گیا ہے لھذا آمریت جمھوری لبادے کے اندر پیش کی ہے ۔ سلطنت کے عنوان سے نظم میں فرماتے ہیں:
ہے وھی سازِ کھن مغرب کا جمھوری نظام
جس کے پردوں میں نھیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمھوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
گر میں گفتارِ اعضائے مجالس الاماں
یہ بھی ایک سرمایہ داروں کی ہے جنگ ِزرگری
مغرب کا نام نھاد جمھوری نظام در اصل وھی پرانا ساز ہے جس کے پردوں میں نوائے قیصری اور صدائے ملوکیت کے علاوہ کچھ بھی نھیں ہے، استبداد و آمریت کا خوفناک دیو جمھوری قبا پھن کا رقص اور پائے کوبی میں مشغول ہے اور تم اس کا ظاھر دیکھ کرسمجھتے ھو کہ یہ آزادی کی نیلم پری ہے، پارلیمنٹ، اصلاحات ،مراعات اور حقوق سب طبِ مغرب کے خواب آور نسخے ہیں ،پارلیمنٹ اور سینیٹ کے اعضا ءکی شعلہ بیانی سے الاماں، در اصل یہ جنگ ذرگری ہے یعنی ظاھری اور دکھاوے کے اختلافات اور بیانات ہیں جن کا مقصد محض عوام کو فریب دینا ہے۔
مغربی جمھوریت کی اس سے بھتر توصیف ممکن نھیں ہے اس وقت پوری دنیا، خاص کر مسلمان ممالک میں جس جمھوریت کا پرچار کیا جا رھا ہے ، جس کے ٹھونسنے کے لئے جمھور کا قتل عام ھو رھا ہے وہ یھی شیطانی نظام ہے جس کے اندر استبداد ،آمریت اورسرمایہ داری کا دیو چھپا ھوا ہے آج شیطان بزرگ جس جمھوری نظام کا علمبردار بنا ھوا ہے وہ در اصل ابلیسی ملوکیت ہے انسانیت کش لشکر ہے، جس نے جھان اسلام کو نابود کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، جس نے افغانستان اور عراق پر قبضہ کر لیا ہے اور باقی مسلمان ممالک پر اپنے مھرے مسلط کئے ھوئے ہیں ،جمھوریت کا یہ ڈھونگ پورے عالم اسلام میں رچا ھوا ہے، لیکن پاکستان کی صورت حال اس سے مختلف ہے، اس ملک میں عام تاثر کے بر خلاف جمھوریت اور آمریت کی کشمکش نھیں ہے، ملوکیت اور عوامی اقتدار کی جنگ نھیں ہے، اس سرزمین پر دو قوتیں نھیں ہیں ممکن ہے باقی ممالک میں ایسے ھی ھو بلکہ یقینا ایسے ھی ہے لیکن پاکستان میں آمریت ہے نہ جمھوریت ہے، حقیقت میں ایک تیسرے طرز کی حکومت ہے جس کا سیاسی کتابوں میں کوئی تذکرہ نھیں ہے در اصل پاکستان میں جمھوریت اور آمریت کے بجائے ماموریت ہے، پاکستانی حکمران جس لبادے میں ھوں وردی میں ھوں یا دستار کے ساتھ ھوں یا معمولی لباس میں ھوں در اصل مامور ہیں جلال جرنیلی ھو یا جمال جمھوری ھو، دونوں مامور ہیں در اصل پاکستان کے نام سے ایک خطہ ارضی تو ضرور آزاد ھوا لیکن اس خطہ پر رھنے والے کبھی بھی آزاد نھیں ھوئے، غلامی کا طوق انھوں نے گردن سے ھرگز نھیں اتارا، غلاموں کو آمریت کی اجازت ھوتی ہے نہ جمھوریت کی ، ان کے لئے ھمیشہ ماموریت ھوتی ہے، انھیں آقاوں کے فرامین بجا لانے کے لئے حکومت دی جاتی ہے ،ان کا کام فقط آقاﺅں کے سامنے دُم ھلانا ھی ھوتا ہے، غلام بدلتے رھتے ہیں لیکن ماموریت نھیں بدلتی، تھکے ھوئے اور تاریخِ استعمال گزرے ھوئے، نوکروں کو بدلا جاتا ہے، ان کی ماموریت وھی رھتی ہے، قوم کی اکتاھٹ ختم کرنے کے لئے کبھی جر نیلوں کو ماموریت دی جاتی ہے کبھی سیاسی جماعتوں، کبھی صاحبان دستار کو اور کبھی مامورینِ بدکردار کو۔ ،غلاموں کا سب کچھ آقاوں کے لئے ھوتا ہے، غلاموں کے تبادلے ان کے اپنے اختیار میں نھیں۔
ماموریت کے طرز حکومت میں دیگر ممالک بھی شامل ہیں اس وقت مصر، اردن، سعودی عرب، قطر ،کویت و غیرہ میں یھی نظام نافذ ہے ،پاکستان سمیت مذکورہ ممالک کے حکمرانوں کو جو ماموریت دی گئی، اس میں اپنے ممالک کو پسماندہ رکھنا ، اپنے عوام کو روز مرہ مشکلات میں الجھانا،فرقہ واریت کو ھوا دینا مسلمان ممالک کے درمیان اختلافات پیدا کرنا،آقاوں کی اسلحہ ساز فیکٹریوں سے اپنے قومی سرمایہ سے اسلحہ خریدنا، مسلمان ممالک میں پست اور مبتذل ،گٹھیا کلچر کو فروغ دینا، فساد و فحشاء کو عام کرنا،نئی نسل کو مذھب و دین سے دور کرنا، غلامانہ ذھنیت بنانے والے تعلیمی نظام کو فروغ دینا، قوم کی لوٹی ھوئی ثروت سے مغربی ممالک میں املاک اور جائیدادیں خریدنا، اسرائیل کے منحوس وجود کو تسلیم کرنا، اپنی سرزمینوں کو بحرانوں کا شکار کرکے نا امن بنانا،اپنے عوام کو بجلی، آٹے جیسی روزمرہ کی ضرورتوں سے محروم کرنا، دھشت گردوں کو تربیت دینا ، اور ا ن کی سرپرستی کرنا،مسلمانوں کے اندر وحدت برقرار نہ ھونے دینا۔
پاکستانی عوم نے گذشتہ ۸ یا ۹ سالوں میں اس نظام کا بخوبی تجربہ کر لیا ہے وردی پوش جرنیل نے قوم کو کس ذلت و رسوائی تک پھنچا دیا ہے، عوام کے دلوں سے فوج کی محبت کو ختم کردیا ہے،پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ بنا کر پاکستانی دشمنوں کی رسائی ان تک ممکن بنادی ہے، محسن پاکستان جناب قدیر خان کو آقاﺅں کے کھنے پر مجرم بنا کر پیش کیا، افغانستان میں پاکستان کی ساری سرمایہ کاری کو فون کال پر نابود کردیا ہے،اپنے عوام پر فوج سے حملے کروائے ہیں ،پاکستان کے ھوائی اڈے اور دیگر وسائل، امریکہ کے سپرد کر دیئے ہیں ،بلوچستان میں حماقت کرکے علیحدگی کی تحریکوں کو جنم دیا ہے، پوری دنیا میں ملک و قوم کا وقار نیچے گرا دیا ہے،پاکستان کو سیاسی طور پر تنھا کر دیا ہے،کشمیر کے ساتھ کھلی خیانت کی ہے ، پاکستان کے آئین کو بازیچہ بنائے رکھا ہے، پاکستان کے فرزندان ، عورتوں اور بچوں کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے ھاتھوں فروخت کیا ہے ،اقتصادی اور معیشتی حوالے سے ملک کو دیوالیہ بنا دیا ہے،شوکت عزیز جیسے امریکی مامور کو ملکی تقدیر کا مالک بنا دیا ہے، امریکہ کو ھر منہ مانگی مدد اور خدمت فراھم کی ہے،ملک میں سلامتی کا بحران کھڑا کیا ہے ، چند ڈالروں کے بدلے امریکہ کی جنگ میں اپنے ملک و قوم کا سب کچھ ڈبو دیا ہے ،امریکی خفیہ ایجنسیوں کی ،ہر ملکی و قومی راز تک دسترسی بڑھا دی ہے، قوم کو تڑہیاں دی ہیں جبکہ امریکہ کے سامنے دُم ھلائی ہے،اس پست نوکر کی ماموریت اتنی ھی تھی جب اس سے بڑھ کر مزید کسی کام کے قابل نھیں رھا، تو اسے ھٹادیا گیا اور اس کے بجائے تازہ دم مامور میدان میں اتارے گئے ہیں جن کو مذکورہ ماموریتوں کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مزید فرائض بھی سونپے گئے ہیں، کھلم کھلا قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی ہے،اس کا نام تبدیلی، انقلاب، جمھوریت رکھا ،سادہ لوح عوام نے بھی آنکھیں بند کرکے اسے قبول کر لیا، ووٹ ڈال کر اس کا حصہ بن گئے ہیں۔
اس وقت پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ماموریت لینے اور اسے نبھانے کی دوڑ میں شریک ہیں، اس میں مذھبی جماعتیں بھی ہیں اور سیکولر پارٹیاں بھی شامل ہیں لیکن ان سب میں سے اُسے ماموریت سونپی جاتی ہے جو دوسروں سے بڑھ کر خدمت کر سکتا ھو، نئے فرائض میں کشمیر کو بیچنا باقی ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنا باقی ہے، معاذ اللہ ملک کو توڑنا باقی ہے، ملک کے اندر اندرونی خانہ جنگی شروع کرنا باقی ہے،افغانستان و عراق کی طرح امریکی فوجوں کے لئے میدان ھموار کرنا باقی ہے ، قدیر خان جیسے مزید کار آمد افراد کا فروخت کرنا باقی ہے ،مذھبی دھشت گردی اور فرقہ واریت میں تیزی لاکر دینی مدارس پر پابندی لگانا باقی ہے تعلیمی نصاب سے اسلامی و دینی تعلیمات نکالنا باقی ہے ،ملک کو دیوالیہ بنا کر ناکام ریاست کا اعلان کرنا باقی ہے۔
ماموریت ذلیلانہ ترین نظام حکومت ہے اے کاش! پاکستان میں آمریت ھوتی ،اے کاش! پاکستان میں ملوکیت ھوتی ،اے کاش !اس ملک میں جمھوریت ھوتی، اے کاش! اس ملک میں استبداد کا دیو ھی جمھوری قبا پھن کر محوِرقص ھوتا، جو اس قوم پر ظلم تو کرتا لیکن فروخت نہ کرتا، اس ملک کو لوٹ تو لیتا لیکن دشمنوں کو نہ سونپتا، جو عوام کے حقوق چھپن لیتا لیکن اس قوم کے فرزندوں کو نا چیز ڈالروں کے بدلے موجودہ دور کے بردہ داری کے آقاﺅں کو فروخت نہ کرتا۔
علامہ اقبال کا فرمانا ہے کہ غلاموں کی ھر چیز مختلف ھوتی ہے ،ان کا دین بھی الگ ھوتا ہے، ان کی نمازیں بھی جدا ھوتی ہے ، ان کی سیاست بھی نرالی ھوتی ہےاور ان کی حکومت بھی سَوا ھوتی ہے کیونکہ غلاموں کو فقط ماموریت ملتی ہے اور فرائض سونپے جاتے ہیں، ان کی تذلیل کی جاتی ہے، انھیں رسوا کیا جاتا ہے، انھیں مضحکہ عالم بنایا جاتا ہے ،انھیں اپنے ھاتھوں سے تباہ کیا جاتاہے بعض کا خیال ہے موجودہ بحرانی صورت حال نئے صدر کا امتحان ہے اور نئی حکومت کی آزمائش ہے ایسا ھرگز نھیں ہے، بلکہ در اصل یہ پاکستانی قوم کا امتحان ہے کہ استکباری ،سامراجی اور شیطانی طاقتوں کے گماشتے ان پر حکومت کرتے ہیں، یہ عالمی طاقتوں کے مھرے بدل بدل کر پاکستانی عوام کے شعور کا منہ چڑھا رھے ہیں، امریکہ کے یہ مامورین قوم کو فاقوں سے مار کر ختم کر دیں گے، چھرے بدلنے سے قوم کی حالت نھیں بدلے گی، غلام اور مامور بدلنے سے فاقے ختم نھیں ھوں گے، جرنیلوں اور سیاستدانوں کے درمیان جنگِ زرگری سے دھوکہ نہ کھائیں ، ایک کو اتار کر دوسرے کو تخت نشین نہ بنائیں، کبھی جرنیلوں کے آنے کے جشن اور کبھی سیاستدانوں کے آنے کے جشن نہ منائیں بلکہ ایک دفعہ اور ھمیشہ کے لئے اپنی گردن سے غلامی کا طوق اتار کر پھینک دیں ،غیروں کے چنگل سے اپنا ملک و قوم چھڑائیں ،آمریت و جمھوریت کے مداری کے کھیل کو ختم کرکے عزت و شرف کے ساتھ جئیں۔ اقبال نے فرمایا تھا کہ: آمریت و جمھوریت دونوں چنگیزیت بن جاتی ہیں جب سیاست دین سے جدا ھو جائے ۔
جلال پادشاھی ھو یا جمھوری تماشا ھو
جداھودین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی