یہ وھی الزامات ہیں جو ابوذر پر دھرے گئے اور اسے اسی بلاد حرمین میں ربذہ کی جانب بےدخل کر دیا گیا۔
یہ وھی الزامات ہیں جو یزید نے حسین (ع) پر دھرے، یہ وھی الزامات ہیں جو میثم تمار کو سن کر سولی پر جھولنا پڑا۔ ان الزامات کا تانا بانا اسی شاھی فکر سے جڑا ھوا ہے جو اپنے مخالفین کو راہ سے ھٹانے کے لیے ھر حربے کا استعمال کرتی ہے۔ مگر تاریخ سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ ابوذر، میثم تمار اور حسین ابن علی (ع) کو مجرم ٹھہرانے والے معدوم ھو گئے اور وہ جو کل ملزم ٹھہرائے گئے تھے آج حق گوئی، استقلال اور حریت کا استعارہ قرار پائے۔
گذشتہ دنوں بلاد الحرمین کی ایک عدالت نے مسلکی جذبات بر انگیختہ کرنے، دھشت گردوں کی مدد کرنے، خلیجی راھنماؤں اور علماء کی توھین کرنے نیز خدا کے خلاف اعلان جنگ کرنے جیسے الزامات لگا کر قطیف کے ایک راھنما شیخ نمر باقر النمر کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا۔ شیخ نمر باقر النمر کون ہیں؟ انھیں کب اور کیوں گرفتار کیا گیا؟ کیا وہ واقعاً مندرجہ بالا جرائم کے مرتکب ھوئے؟ ان کے مطالبات کیا ہیں؟ یہ اور اس قسم کے سینکڑوں سوالات اس قضیے کی خبر جاننے کے بعد ذھن انسانی میں ابھرتے ہیں۔
گذشتہ سال کا واقعہ ہے کہ شیخ نمر باقر النمر کو سعودی حکومت نے بلاد الحرمین کے مشرقی شھر قطیف سے زخمی کرنے کے بعد گرفتار کیا۔ شیخ نمر کی گرفتاری کا سبب ان کے وہ جرات مندانہ خطابات قرار دیئے جاتے ہیں جن میں انھوں نے سعودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی اور سعودی عرب کے مشرقی خطے کے محروم عوام کے حقوق کی بازیابی کے لیے عوام کو میدان عمل میں اترنے کی دعوت دی۔ یہ شیخ نمر باقر النمر کی پھلی گرفتاری نھیں تھی۔ آپ کے والد نے بھی اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ سعودی عقوبت خانوں میں گزارا۔ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ھوئے شیخ نمر بھی متعدد بار پابند سلاسل کیے گئے۔
شیخ نمر ایک بلند پایہ عالم دین ھونے کے ساتھ ساتھ ایک جری اور پرجوش خطیب ہیں۔ آپ اکثر خطبات جمعہ میں کھتے تھے کہ میں کلمہ حق ادا کرنے سے نھیں ڈرتا۔ چاھے اس کے لیے مجھے پابند سلاسل کیا جائے، مجھ پر تشدد ھو یا مجھے شھید کر دیا جائے۔ اپنی تقاریر میں انھوں نے اکثر کھا کہ سعودی حکومت کی نظر میں شاھی خاندان کے افراد پھلے درجے کے شھری جبکہ ان سے متمسک افراد دوسرے درجے کے شھری اور مشرقی خطے میں بسنے والے افراد تیسرے درجے کے شھری ہیں۔ وہ کھتے تھے کہ الشرقیہ کے عوام وہ لوگ ہیں جن کی مٹی سے کالا سونا نکال کر تم (سعودی شاھی خاندان) اپنی تجوریاں بھرتے ھو، لیکن اس خطے میں غربت ہے کہ روز بروز بڑھتی چلی جا رھی ہے۔ وہ کھلے عام سعودی حکمرانوں کو للکار کر کھتے تھے کہ تم نے اس خطے کے عوام کے وقار کو مجروح کیا اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کو سلب کیا۔ یھاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قطیف اور سعودیہ کے مشرقی علاقے وہ مقامات ہیں جھاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور انھی ذخائر کے طفیل آج سعودیہ کا شاھی خاندان عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رھا ہے۔
شیخ نمر سعودی حکومت کو بلاد حرمین اور الشرقیہ میں منظم فرقہ وارنہ امتیازی رویے کا مجرم تصور کرتے ہیں اور اس کی پالیسیوں کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔ آپ اپنی تقاریر میں اکثر کھتے تھے کہ عدل و انصاف کا قیام جھاد کے بغیر ممکن نھیں اور پامال شدہ حقوق ایثار، قربانی اور شجاعت کے بغیر واگزار نھیں کرائے جاسکتے۔ انھوں نے اپنے خطبات جمعہ میں بارھا کھا کہ الشرقیہ کے عوام اب توھین اور تجاوز کو مزید برداشت نھیں کریں گے۔ وہ کھتے تھے کہ میں جانتا ھوں کہ آخر کار تم مجھے گرفتار کرو گے، کیونکہ تمھاری منطق اور راہ و روش گرفتاری، تشدد اور قتل و غارت ہے لیکن آگاہ رھو کہ ھم تمھاری اس روش سے نھیں ڈرتے، ھمیں خدا کے سوا کسی کا خوف نھیں۔
شیخ نمر نے یہ تقاریر دنیا کے کسی جمھوری ملک میں نھیں کیں، نہ ھی شیخ نمر کسی مغربی ملک میں سیاسی پناہ لیے ھوئے تھے۔ نمر باقر النمر نے یہ نعرہ مستانہ ایک مطلق العنان حکومت کے خلاف بارود اور سنگینوں کے سائے میں بلند کیا۔ انھوں نے یہ صدا سعودی عقوبت خانوں میں اپنی زندگی کے کئی سال بسر کرنے، اذیتیں جھیلنے اور مظالم کا مشاھدہ کرنے کے بعد بلند کی۔ یہ نحیف سا مرد قلندر تن تنھا سعودیہ کے مضبوط شاھی نظام کی فصیلوں سے ٹکڑا گیا۔ اس انتظامی شکنجے میں طائر محصور کی یہ صدائے آزادی اگرچہ کوئی معنی نہ رکھتی تھی پھر بھی نہ جانے کیوں یہ دیوانہ اپنی جان لٹائے بنا نہ ٹلا۔
شیخ نمر کی صدائے رندانہ الشرقیہ کے نوجوانوں کے دلوں میں کچھ یوں گھر کر گئی کہ اب وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے نھیں گھبراتے۔ آٹھ ماہ قبل شیخ نمر کی گرفتاری کے بعد الشرقیہ میں گرفتاریوں اور ریاستی قتال کا نہ تھمنے والا وہ سلسلہ شروع ھوا جس کے سبب کئی بوڑھے والدین اپنی زندگی کے آخری سھاروں سے محروم ھوگئے، مگر شیخ نمر کا آزادی، استقلال اور عزت کے لیے جلایا ھوا جرات و ھمت کا چراغ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود آج بھی سعودی عرب کے صوبہ الشرقیہ کے ھر گھر میں روشن ہے۔
حکومت جانتی ہے کہ اس شخص کا قتل اور آزادی دونوں شاھی خاندان کے لیے نقصان دہ ہیں۔ یھی سبب ہے کہ آج وہ شیخ نمر پر، وہ الزامات دھر رھے ہیں جو ھر دور کا مطلق العنان حکمران اپنی حکومت و اقتدار کے باغیوں پر دھرتا ہے۔ یہ وھی الزامات ہیں جو ابوذر پر دھرے گئے اور اسے اسی بلاد حرمین میں ربذہ کی جانب بےدخل کر دیا گیا۔ یہ وھی الزامات ہیں جو یزید نے حسین (ع) پر دھرے، یہ وھی الزامات ہیں جو میثم تمار کو سن کر سولی پر جھولنا پڑا۔ ان الزامات کا تانا بانا اسی شاھی فکر سے جڑا ھوا ہے جو اپنے مخالفین کو راہ سے ھٹانے کے لیے ھر حربے کا استعمال کرتی ہے۔ مگر تاریخ سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ ابوذر، میثم تمار اور حسین ابن علی (ع) کو مجرم ٹھہرانے والے معدوم ھو گئے اور وہ جو کل ملزم ٹھہرائے گئے تھے آج حق گوئی، استقلال اور حریت کا استعارہ قرار پائے۔
شیخ نمر باقر النمر کے ساتھ سعودی حکومت جو بھی معاملہ کرے، آج اس کی طاقت اسے اس بات کی اجازت دیتی ہے لیکن تاریخ کبھی کسی مجرم کو معاف نھیں کرتی۔ اگر تاریخ نے فرعون، ابرھہ، ابوجھل، ابولھب، یزید اور ان جیسوں کو تمام تر شاھی اقتدار اور قوت کے باوصف نھیں بخشا تو پھر یہ یاد رکھنا چاھیے کہ آج بھی کیا جانے والا ھر ظلم تاریخ کے ابواب کا حصہ بن رھا ہے۔ اگر یزید قریش کے باعزت و عظمت خاندان کا فرد ھونے کے باوجود زمانے سے عزت نھیں پاسکا تو خادم الحرمین کھلوانے والے جان لیں کہ ان کے پاس تو ایسی کوئی نسبت بھی نھیں۔
جھاں تک دنیا میں انسانی حقوق کے نعرے بلند کرنے والوں اور سوات کی معصوم بچی کے زخموں پر پیٹنے والوں کا تعلق ہے تو ان سے نہ پھلے توقع تھی اور نہ اب ہے۔ ان سے توقع کی بھی کیسے جا سکتی ہے، اربوں ڈالر کا کاروبار، زرمبادلہ، علاقائی مفادات ایسی شراب ہے جو اچھے اچھوں کو ھوش نھیں آنے دیتی۔ انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والے ادارے سال کے آخر میں الشرقیہ، بحرین، یمن فلسطین پر اپنی مفصل رپورٹیں شائع کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ھم نے اپنا فرض منصبی انجام دے دیا۔ عالمی حکمرانوں کا احوال کسی سے کب پنھاں ہے، اب تو اس بات کا تذکرہ کرتے ھوئے بھی شرم محسوس ھوتی ہے اور یوں محسوس ھوتا ہے جیسے ایک کھلی حقیقت کو بار بار دھرا کر لوگوں کی سمع خراشی کی جا رھی ہے۔
شام کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے گذشتہ ایک سال میں مغربی طاقتیں اور عرب حکمران نہ جانے کتنی دفعہ جمع ھوئے۔ عرب ریاستوں اور یورپی دارالحکومتوں میں روزانہ باغیوں کے اجتماعات منعقد کروائے گئے۔ ھر قوت اپنی استطاعت کے مطابق اس کار خیر میں شریک ھوئی۔ فوجی ساز و سامان سے لے کر مذھبی تشاویق تک کونسی ایسی چیز ہے جس کی کسر چھوڑی گئی۔ اب تو یہ بھی سنا ہے کہ مجاھدین کے حوصلوں کو بلند کرنے کے لیے "جھاد النکاح" کا فتویٰ جاری کر دیا گیا ہے۔ وہ خواتین جن پر سے اسلام نے جھاد ساقط کیا تھا کو تشویق دلائی جا رھی ہے کہ وہ بھی میدان جنگ میں جا کر مجاھدین کے ساتھ شریک جھاد ھوں۔ سوات کی بیٹی ملالہ کے زخموں پر بان کی مون، اوباما اور دیگر عالمی قائدین کا نوحہ اور آہ و فغاں تو ھمارے سامنے کی بات ہے۔ حیرت ہے تو یھی کہ اتنے نرم دل اور آگاہ انسانوں کو الشرقیہ، بحرین، یمن، فلسطین اور برما کے انسان کیوں نظر نھیں آتے؟ تحریر: سید اسد عباس تقوی