اسلامی بیداری کی تحریک ایک ایسی نئی اٹھان ہے جس نے گذشتہ دو صدیوں کے دوران عالم اسلام میں نئی روح پھونک دی ہے اور مادہ پرستی میں غرق دنیا میں معنویت کی محوریت میں ایک نئے دور کا آغاز کر دیا ہے۔
ایک ایسی تحریک جسے بزرگ مسلمان مصلح شخصیات نے مضبوط بنایا اور دیکھتے ھی دیکھتے وہ عملی میدان پر چھا گئی۔ جدید دور میں اسلامی بیداری کی تحریک کا مطالعہ کرتے ھوئے ھم اسے تین بڑے مراحل میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ اس تحریر میں ان مراحل پر روشنی ڈالتے ھوئے مغربی دنیا پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
آغاز میں اسلامی بیداری کی ایک جامع تعریف اور اس کے بنیادی ارکان کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ حقیقی اسلامی بیداری کو اپنی مشابہ دوسری تحریکوں اور اسلامی بیداری سے منسوب جعلی تحریکوں سے تشخیص دینے میں مدد فراھم ھو سکے۔
۱۔ اسلامی بیداری کی حقیقت اور وسعت:
محققین اور دانشور حضرات کے درمیان اسلامی بیداری کی تعریف کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اس عنوان سے متعلقہ تحریروں میں بیان کی گئی وضاحتوں کے مطابق اسلامی بیداری ایک ایسی سیاسی اور فکری اسلامی تحریک کا نام ہے جو اکثر اسلامی ممالک میں مختلف ناموں جیسے اسلامی بنیاد پرستی، اسلام خواھی، اسلامی ریڈیکل ازم اور سیاسی اسلام کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔
اسی طرح اس تحریک کو دینی اصلاح گری اور نشاہ ثانیہ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عرب زبان میں بھی اسلامی بیداری کیلئے مختلف اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں جیسے "الصحوہ الاسلامیہ"، "البعث الاسلامی"، "التیار الاسلامی" اور "الحرکہ الاسلامیہ" وغیرہ۔
اسلامی بیداری ایک ایسا معاشرتی عمل ہے جو امت مسلمہ میں بیداری اور آگاھی کے پلٹ آنے پر مشتمل ہے جس کا نتیجہ خوداعتمادی کا حصول اور اپنے دین اور سیاسی، اقتصادی اور فکری خودمختاری پر افتخار کرتے ھوئے بھترین امت کے طور پر دنیا میں اپنا کردار ادا کرنے کا عزم کرنا ہے۔
اسلامی بیداری سے مراد ایسے دینی اعتقادات کا مجموعہ ہے جو موجودہ دور میں دنیا بھر کے مسلمانوں میں پھیل چکے ہیں۔ بعض محققین نے اسلامی بیداری کو عالم اسلام میں موجود معنوی اعتقادات اور رجحانات کے مصادیق میں سے قرار دیا ہے۔ ایک ایسی تحریک جس کا مقصد حقیقی اسلام اور فراموش شدہ دینی تشخص کی جانب لوٹنا اور عالمی استکبار کے پنجوں سے رھائی پانا ہے۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اسلامی تفکر اور مغربی سوچ کے درمیان تنازعہ اور ٹکراؤ انتھائی حساس مرحلے میں داخل ھو چکا ہے۔ اسلامی بیداری کی تحریک میں اس ٹکراؤ کا کردار بھی بھت اھم جانا جاتا ہے۔ یہ ٹکراو مغرب کی جانب سے عالم اسلام کے خلاف ایک بھرپور اور شدید ثقافتی یلغار سے شروع ھوا۔
دوسری طرف اس مغربی یلغار کے مقابلے میں عالم اسلام کے اندر مزاحمتی تحریک نے جنم لیا جسے اس کا ردعمل قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ تحریک جدید مغربی تفکر کے مقابلے میں معرض وجود میں آئی اور اس کا بنیادی مقصد عظیم اسلامی تمدن کا احیاء اور اسلام کو سیاست کے میدان میں واپس لانا تھا۔
اس تحریک کے نتیجے میں سیاسی اسلام کا مفھوم ابھر کر سامنے آیا۔ اسلامی بیداری کی تحریک کا موجودہ بین الاقوامی سیاسی نظام سے ٹکراؤ کے ناطے مغربی دنیا اسے اپنے لئے عظیم خطرہ تصور کرتی ہے۔ لھذا اسلامی بیداری کی تحریک کو اچھی طرح جاننے کیلئے اس پر حکمفرما تفکر اور سوچ کی شناخت ضروری ہے جو اس کی تاریخ کا جائزہ لئے بغیر حاصل نھیں ھو سکتی۔
اسلامی بیداری ایک ایسی اجتماعی آگاھی کا نام ہے جو حقیقی اسلامی اصولوں کے تحت مسلمانوں کے مشترکہ عزم و ارداے پر استوار ہے۔ اسلامی بیداری کی حقیقت ایسے تین بنیادی عناصر پر مشتمل ہے جو تاریخ کے مختلف مراحل سے گزر کر آج ھم تک پھنچے ہیں اور ان کا یہ تاریخی سفر جاری رھے گا۔ یہ تین بنیادی عناصر مندرجہ ذیل ہیں:
الف۔ تعلیمات قرآن و سنت کی پیروی کرتے ھوئے حقیقی اسلام اور مکتب اسلام کے بنیادی اصولوں کی طرف واپسی۔
ب۔ امت اسلامی کو درپیش مشکلات اور مسلمانوں کی پسماندگی کا واحد اور حقیقی راہ حل ھونے کے ناطے وحدت اسلامی اور اتحاد بین المسلمین پر خاص تاکید۔
ج۔ عالمی استکبار سے مبارزہ اور اندرونی طاغوتی قوتوں کا مقابلہ۔
اسلامی بیداری کے تمام بڑے اور متفقہ رھنماوں کا نکتہ اشتراک ان تین سنھری اصولوں کی پاسداری اور ان پر حد درجہ تاکید ہے۔ مصر اور دوسرے اسلامی ممالک میں اسلامی بیداری کے فکری رھنماوں کا اصلی نعرہ "الاسلام ھو الحل" اور تمام دوسرے مادی اور الحادی مکاتب فکر کی نفی رھا ہے۔
سید جمال الدین افغانی سے لے کرامام خمینی(رہ) تک ان تمام عظیم مسلمان مصلحین کے درمیان پائے جانے والے اھم مشترکات میں مختلف اسلامی فرقوں کے درمیان اتحاد اور وحدت پر زور دینا ہے۔ عالم اسلام میں اسلامی بیداری کی بنیاد رکھنے والی عظیم شخصیت سید جمال الدین افغانی کی نظر میں مسلمان فرقوں کے درمیان اتحاد اور وحدت اس قدر اھمیت کی حامل تھی کہ آج تک کسی کو پتہ نھیں چل سکا کہ خود وہ کس فرقے سے وابستہ تھے۔
"اسلامی بیداری کی پھلی موج کے جنم لینے کے بعد بوڑھے استعمار برطانیہ کی جانب سے حجاز میں وھابیت اور ایران میں بھائیت جیسے منحوس اور ناپاک درختوں کے بیج بوئے گئے"۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ان کوششوں کا جاری رھنا اور جدید اسلامی بیداری کی تحریک کے دوران شیعہ سنی اتحاد کی کوششیں انھیں اصولوں کی پیروی کا نتیجہ ہیں۔
استکبار ستیزی اور اندرونی آمریت اور بیرونی استعمار سے مقابلہ بھی اسلامی بیداری کے تمام رھنماوں اور حامیوں کا بنیادی اور مشترک اصول رھا ہے۔
سید جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ کے زمانے میں برطانوی استعمار اور سلطنت عثمانیہ اور قاجاریہ بادشاھت جیسے آمرانہ نظاموں سے مقابلہ، حسن البناء کے زمانے میں مصر اور مسلم ممالک میں سرگرم اخوان المسلمین کی دوسری شاخوں کی جانب سے مغربی اور مشرقی استعماری قوتوں سے مقابلہ اور امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی جانب سے عالمی طاغوت کے خلاف اٹھ کھڑا ھونا اسی بنیادی اصول کے چند واضح نمونے ہیں۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں واضح ھو جاتا ہے کہ مسلمانوں اور اسلام سے منسوب ھر ایسی تحریک اور جدوجھد جس میں ذکر شدہ اصولوں کی پابندی نہ پائی جاتی ھو حقیقی اسلامی بیداری کی تحریک سے نہ صرف کوسوں دور ہے بلکہ اس کے ساتھ تضاد اور تصادم پایا جاتا ہے۔
ایسی تحریک یا جدوجھد یقینی طور پر ایک جعلی اور انحرافی اسلامی تحریک کے طور پر پھچانی جائے گی۔ ایسی انحرافی تحریک کی واضح مثال عالم اسلام میں موجود القاعدہ جیسی دھشت گرد تنظیم اور اس کی سرپرستی میں معرض وجود میں آنے والی تکفیری تحریکوں کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔
القاعدہ اور دوسری تکفیری تحریکیں وحدت اسلامی اور استکبار ستیزی جیسے بنیادی اصولوں سے عاری اور بے بھرہ ہیں لھذا انھیں حقیقی اسلامی بیداری کی تحریک کے ضمن میں قرار نھیں دیا جا سکتا۔
۲۔ اسلامی بیداری کا تاریخی پس منظر:
اسلامی بیداری کی تاریخ کے آغاز کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ بعض محققین رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مکہ سے مدینے کی جانب ھجرت کو اسلامی بیداری کا آغاز قرار دیتے ہیں۔
لیکن دوسرے محققین کی رائے یہ ہے کہ اگرچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مکہ سے مدینہ کی جانب ھجرت اسلامی تاریخ کا ایک انتھائی اھم موڑ ہے لیکن اسے اسلامی بیداری نھیں کھا جا سکتا کیونکہ بیداری کا مطلب "احیاء" اور "نشاہ ثانیہ" ہے جبکہ ھجرت کے وقت مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کا تفرقہ اور اختلاف موجود نھیں تھا اور مدینہ میں ایک نیا اسلامی معاشرہ معرض وجود میں آیا تھا۔
لھذا اس دوران کو اسلامی بیداری کا آغاز قرار نھیں دیا جا سکتا۔ بعض محققین کی نظر میں اسلامی بیداری کی تحریک کا آغاز ایک صدی یا دو صدیاں قبل ھوا۔ معروف عالم دین اور محقق شھید مرتضی مطھری اس بارے میں لکھتے ہیں:
"۱۳ ویں صدی ھجری یا ۱۹ ویں صدی عیسوی کے دوسرے نیمے میں عالم اسلام میں ایک اصلاحی تحریک کا آغاز ھوا۔ یہ تحریک ایران، مصر، شام، لبنان، شمالی افریقہ، ترکی، افغانستان اور برصغیر میں معرض وجود میں آئی۔ ان ممالک میں مسلمان مصلح شخصیات پیدا ھوئیں جنھوں نے اپنے اصلاحی افکار کی مدد سے اسلامی معاشرے کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ یہ تحریکیں کئی صدیوں کے جمود اور مسلمانوں کی پسماندگی کے بعد معرض وجود میں آئیں جنھیں ایک حد تک عالم اسلام پر استعماری قوتوں کی سیاسی جارحیت کا ردعمل قرار دیا جا سکتا ہے"۔
راقم کی نظر میں پھلا نظریہ صحیح نھیں جبکہ دوسرے اور تیسرے نظریے کو ایک حد تک قبول کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی بیداری کی تحریک درحقیقت مسلمانوں کی جانب سے بیرونی استعمار اور اندرونی آمریت کے خلاف ایک ردعمل تھا لھذا بیرونی استعماری قوتوں کے علاوہ اسلامی ممالک کے اندرونی مسائل اور کمزوریوں نے بھی اسلامی بیداری کی تحریک کے زور پکڑنے میں انتھائی اھم کردار ادا کیا ہے۔
انیسویں صدی عیسوی میں عالم اسلام عالمی استعماری قوتوں کی جارحیت اور فوجی قبضے سے روبرو تھا۔ ان استعماری قوتوں نے اسلامی ممالک کو توڑ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر ڈالا اور بعض مسلم ممالک شدید شکست کے بعد کمزوری کی جانب گامزن ھونے لگے۔
اسی دوران مسلمان محققین کا مغربی ممالک کی جانب آمدورفت کا سلسلہ شروع ھو گیا اور ان کے ذھن میں مسلمانوں کے زوال کے حقیقی اسباب کے بارے میں سنجیدہ قسم کے سوال ابھرنے لگے۔ اسی طرح مسلمان محققین اور مفکرین کی سوچیں اس بات پر متمرکز ھونے لگیں کہ مسلمانوں کو اس افسوسناک صورتحال سے کیسے باھر نکالا جائے۔
وہ ایک طرف مغربی دنیا میں ترقی، فلاح و بھبود اور نظم و ضبط کی اعلی صورتحال کا مشاھدہ کرتے تھے تو دوسری طرف مسلمان معاشروں میں پائی جانے والی زبوں حالی اور غربت اور کرپشن کو دیکھ رھے تھے۔ لھذا ان کیلئے ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح مسلمان معاشروں کو ان گھمبیر مسائل سے نجات دلائی جائے؟
اس مسئلہ کے حل کیلئے مختلف افراد نے مختلف راہ حل تلاش کئے۔ بعض محققین اور دانشمند حضرات نے غرب کی پیروی کو اس مسئلے کا راہ حل قرار دیا۔ ان کی نظر میں مسلمان معاشروں میں پائی جانے والی پسماندگی اور مشکلات کا واحد راہ حل یہ تھا کہ مسلمان سر سے پاؤں تک مغرب کے پیرو ھو جائیں۔ ان کی طرح کھائیں پئیں، ان کی طرح لباس پھنیں، ان کی طرح زندگی گزاریں اور مختصر یہ کہ پوری طرح مغربی ثقافت میں ڈھل جائیں۔
لیکن ان کے مقابلے میں بڑی تعداد میں ایسے مسلمان مفکرین اور محققین بھی موجود تھے جو ان تمام مسائل کے حل کو حقیقی اسلامی اقدار اور اصولوں کی جانب بازگشت میں تلاش کر رھے تھے۔ یھی وہ محققین اور مفکرین ہیں جنھوں نے اسلامی دنیا میں اسلامی بیداری کی تحریک کی بنیاد ڈالی۔
۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کی دھائیوں میں اسلامی بیداری کی تحریک اپنے عروج پر
"آج جب اسلامی بیداری کی تیسری موج معرض وجود میں آئی ہے تو ھم دیکھ رھے ہیں کہ شیطان بزرگ امریکہ اور دنیا اور خطے میں اس کے چیلے شیطانوں کی جانب سے تکفیری دھشت گرد گروھوں کی صورت میں ایک نام نھاد "جھادی تحریک" معرض وجود میں لائی گئی ہے اور اس پر طرح طرح کے نام جیسے "عرب اسپرنگ" وغیرہ کی اسٹکرز چپکائی گئی ہیں۔"
۱۹۷۳ء میں اسرائیل کے خلاف عرب ممالک کا جھاد، ۱۹۷۹ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور ۱۹۸۱ء میں مصر میں مغرب نواز اور امریکہ کے پٹھو صدر انور سادات کا قتل اس اسلامی بیداری کے چند واضح نمونے ہیں۔
سید جمال الدین افغانی، رشید رضا، سید حسن البنا اور کچھ مدت کے بعد امام خمینی رحمہ اللہ علیہ جیسی عظیم مسلمان شخصیات اور مفکرین کی سوچ اور ان کے تفکر نے نہ صرف اسلامی بیداری کی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی بلکہ اس تحریک سے متعلق نظریہ و عمل میں بھی ایک گھرا رشتہ قائم کر دیا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اسلامی بیداری کی اس تحریک میں ایک تاریخی موڑ ثابت ھوئی۔ دنیا کے اکثر سیاسی و تاریخی ماھرین اس حقیقت کا اعتراف کرتے ھوئے نظر آتے ہیں۔
۳۔ اسلامی بیداری کے بعض اھم تاریخی مراحل:
اسلامی بیداری کی تحریک عظیم تاریخی سرمایے اور مضبوط نظریاتی بنیاد کی حامل تحریک ہے۔ کلی طور پر اسلامی بیداری کی جدید تاریخ کو مندرجہ ذیل تین اھم مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
الف۔ اسلامی بیداری کی پھلی موج، ثقافتی اور سیاسی اصلاحات کا مرحلہ:
اسلامی بیداری کی تحریک کا پھلا مرحلہ سید جمال الدین افغانی اور ان کے ھم عصر دیگر مسلمان مفکرین کی جانب سے عالم اسلام کی موجودہ زبوں حالی کو مطلوبہ صورتحال میں تبدیل کرنے کی غرض سے شروع کی جانے والی جدوجھد کی صورت میں معرض وجود میں آیا۔
سید جمال الدین افغانی کا شمار جدید دور میں اسلامی بیداری کی تحریک کے بانی مفکر اور مشرقی دنیا میں ایک عظیم مصلح مفکر ھونے کے ناطے ان معروف مسلمان شخصیات میں ھوتا ہے جنھوں نے عالم اسلام کو درپیش شدید بحرانی صورتحال کے دوران "مغربی جدیدیت" کی جانب سے مسلمانوں کو درپیش بڑے چیلنجز کو صحیح طور پر درک کرتے ھوئے انتھائی عقلمندی اور ھوشیاری کا ثبوت دیا اور اکثر اسلامی ممالک میں ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے انتھائی اھم سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی تحریکوں کے آغاز میں بنیادی کردار ادا کیا۔
اسلامی بیداری کی پھلی موج کے نتیجے میں نہ صرف شیخ محمد عبدہ، علامہ اقبال، حسن البناء، بشیر الابراھیمی، سنوسی، ملا سعید نورسی، علامہ محمد باقر الصدر، علامہ مرتضی مطھری جیسے عظیم مسلمان مصلحین کے افکار و نظریات منظرعام پر آئے بلکہ عالم اسلام میں کئی فعال اسلامی تحریکوں نے بھی جنم لیا۔
اسلامی بیداری کے نتیجے میں جنم لینے والی ان تنظیموں اور تحریکوں میں عرب دنیا میں اخوان المسلمین، برصغیر میں جماعت اسلامی، ایران میں فدائیان اسلام کے نام سرفھرست ہیں۔
اسلامی بیداری کے اس پھلے مرحلے یا پھلی موج کی بانی شخصیات نے عالم اسلام کو موجود بحرانوں پر قابو پانے اور موجودہ زبوں حالی سے باھر نکلنے کیلئے اسلام کے بنیادی اصولوں کی پیروی اور ان کے اجراء کو اپنا لائحہ عمل قرار دیا۔
یہ ایک ایسا قیمتی تجربہ تھا جس نے بعد میں عالم اسلام میں اسلامی بیداری کی ایک اور زیادہ بڑی اور عظیم موج کی پیدائش کا زمینہ فراھم کیا۔
یہ عظیم موج امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی سربراھی میں ایران میں اسلامی انقلاب کی عظیم کامیابی کی صورت میں ظاھر ھوئی اور عالم اسلام پر اس کے اثرات کی گھرائی اور وسعت پھلی موج کی نسبت کھیں زیادہ تھی۔
اسلامی بیداری کی پھلی موج کی خصوصیات:
عالم اسلام میں رونما ھونے والی اسلامی بیداری کی پھلی موج مندرجہ ذیل خصوصیات کی حامل تھی۔
۱۔ یہ اسلامی تحریک زیادہ تر پرامن طریقے سے انجام پائی اور بھت ھی نادر مواقع پر مسلح جدوجھد کا سھارا لیا گیا۔ اس تحریک پر گفتگو کا طریقہ غالب رھا اور قلم، بیان اور انفرادی گفتگو کے ذریعے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی گئی۔
۲۔ اسلامی بیداری کے پھلے مرحلے کی ایک اور خصوصیت مسلمان مفکرین کی جانب سے انفرادی طور پر اور خودجوش انداز میں فعالیت انجام دینا ہے۔ اکثر مسلمان مصلح شخصیات نے اپنا کام مسلسل سفر کی حالت میں رہ کر کیا اور مختلف مسلمان معاشروں میں جا کر اخبار، مجلات اور کتب کی صورت میں اسلامی سوچ کو پھیلانے کی کوشش کی اور ھر قسم کی احتجاجی تحریک یا مظاھروں کے انعقاد سے گریز کیا۔
۳۔ اس مرحلے میں مسلمان مصلح شخصیات اور اسلامی بیداری کے سربراھان کی زیادہ تر توجہ موجودہ حکمرانوں اور حکمفرما سیاسی نظاموں کی اصلاح پر تھی اور انھوں نے کوئی نیا متبادل سیاسی نظام پیش کرنے کی کوشش نھیں کی تھی۔
۴۔ اکثر محققین کی نظر میں اسلامی بیداری کے پھلے مرحلے کا آغاز مصر سے ھوا جب انیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں مغربی مھم جو فوجی کمانڈر نیپولین نے اس ملک پر فوجی حملہ کرتے ھوئے اس پر فوجی قبضہ جما لیا۔
یہ حملہ درحقیقت مغربی دنیا کی جانب سے عالم اسلام پر سیاسی اور اقتصادی تسلط اور فکری اور ثقافتی یلغار کا آغاز تھا جس کے ردعمل میں پورے عالم اسلام میں اسلامی بیداری کی لھر پیدا ھوئی۔ اسی وجہ سے اکثر محققین کی نظر میں اسلامی بیداری درحقیقت مغربی دنیا کی جانب سے عالم اسلام پر فوجی جارحیت اور ثقافتی یلغار کا ایک ردعمل قرار دی جاتی ہے۔
سید جمال الدین افغانی، علامہ محمد اقبال، شیخ محمد عبدہ، عبدالرحمان کواکبی، مولانا ابوالاعلی مودودی، آیت اللہ میرزای شیرازی اور حسن البناء کو اسلامی بیداری کی پھلی موج کے اھم مصلحان اور سربراھان کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔
ب)۔ اسلامی بیداری کی دوسری موج، انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی:
اسلامی بیداری کی دوسری موج کا آغاز بیسویں صدی عیسوی میں امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی سربراھی میں ایران میں اسلامی انقلاب کی عظیم کامیابی کی صورت میں ھوا۔
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی سربراھی میں جنم لینے والی انقلابی تحریک درحقیقت اسلامی تاریخ میں جنم لینے والی گذشتہ تمام انقلابی تحریکوں کا نقطہ اوج تھا جس میں ان تمام انقلابی تحریکوں کے اھداف اور آرزوئیں محقق ھوئیں اور عملی صورت اختیار کی۔
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی اس انقلابی تحریک کی بنیادیں
"اسلامی بیداری کی دوسری موج یعنی انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد ھم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کی پشت پناھی سے سعودی عرب میں جھوٹی مھدویت کا دعویدار التیجانی کی تحریک رونما ھوتی ہے اور اسی طرح مصر اور دوسرے اسلامی ممالک میں جماعہ المسلمین، التکفیر اور الھجرہ جیسی مسلحانہ تحریکیں معرض وجود میں لائی جاتی ہیں تاکہ ان کی مدد سے انقلاب اسلامی ایران کو بھی بدنام کیا جا سکے۔ "
مدینہ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عظیم اسلامی تھذیب و تمدن پر استوار تھیں اور اس کا واحد ھدف مسلمانوں کو ان کی دست رفتہ عزت اور عظمت دوبارہ لوٹانا تھا۔
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے حقیقی اسلامی فقاھت اور اسلامی تمدن کی صحیح اور کامل پھچان کے بل بوتے پر اور اسی طرح مسلمانان عالم کی موجودہ صورتحال اور مغربی استعمار کے جدیدترین ھتھکنڈوں کی درست شناسائی کی مدد سے اسلام کی نشاہ ثانیہ کی بنیاد ڈالی اور اپنا شرعی وظیفہ انتھائی احسن اور بھرپور طریقے سے سرانجام دیا۔
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی جانب سے پیش کردہ دینی اور ثقافتی ماڈل جس کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر استوار ہے، نے انسان کو درپیش مشکلات اور ضروریات کا بھترین راہ حل پیش کیا ہے۔
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی جانب سے سیاسی اسلام کے پیش کردہ ماڈل کی جامعیت انسانی معاشروں میں اس کے روز بروز مقبول ھوتے چلے جانے اور عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لینے کا باعث بنی ہے۔
انقلاب اسلامی ایران نے امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی قیادت میں متحرک سیاسی اسلام کو اپنا محور و مرکز قرار دیتے ھوئے شھادت، جھاد، ظلم ستیزی، عدالت خواھی اور کفار کے تسلط کی نفی جیسے مفاھیم و تصورات کو ایک بار پھر زندہ کرتے ھوئے، نرم طاقت کے اوزاروں کو بروئے کار لاتے ھوئے اور عالمی سطح پر موجود اصلی – فرعی کی ظالمانہ تقسیم بندی کے مقابلے میں مستضعفین – مستکبرین کی تقسیم بندی کو متعارف کرواتے ھوئے درحقیقت ایک عظیم نظریاتی سونامی کی بنیاد ڈالی جس کی امواج ایران کی جغرافیائی حدود کو پار کر کے پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔
آج کی دنیا میں دینی و مذھبی افکار کو پیش کرنا انقلاب اسلامی ایران اور بانی انقلاب اسلامی ایران کے تفکر کے اھم ثمرات میں سے ایک ہے۔ انقلاب اسلامی ایران نے آج کی سیکولر دنیا میں "معنویت کی جانب بازگشت" اور "گھری روحانی زندگی" کا نعرہ بلند کیا ہے۔
یہ انقلاب، اسلامی تھذیب و تمدن میں معنویت جیسے گرانبھا گوھر کے دوبارہ پلٹ آنے کا باعث بنا ہے جو صدیوں سے فراموشی کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔ یہ وھی قیمتی عنصر ہے جس سے مغربی تھذیب و تمدن غافل ہے اور اس کا سب سے بڑا نکتہ ضعف بن چکا ہے۔
معنویت اور روحانیت ھی وہ بنیادی عنصر ہے جو ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے کچھ ھی مدت پھلے انسانی معاشرے کیلئے افیون قرار دیئے جانے کے بعد دور پھینک دیا گیا تھا۔
انقلابی اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد عالمی سطح پر اسلامی تعلیمات اور افکار اس شدت سے ابھر کر سامنے آئے کہ اسلام دشمن عناصر اس کے خلاف بھرپور مھم چلانے پر مجبور ھو گئے۔ لھذا ھم دیکھتے ہیں کہ مغربی مفکرین کی جانب سے اسلام کا مقابلہ کرنے کیلئے "war of civilazations" جیسے بیھودہ قسم کے نظریات پیش کئے جانے لگے۔
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی جدوجھد اور اس کے نتیجے میں انقلاب اسلامی ایران کی عظیم کامیابی ھی وہ چیز تھی جس کے باعث دنیا بھر کے مسلمانوں میں خوداعتمادی پیدا ھوئی اور انھیں حوصلہ ملنے لگا۔
اسلام کی اس عظیم جیت کے بعد مسلمانان عالم میں یہ امید پیدا ھو گئی کہ اب مغرب کے مقابلے میں عالم اسلام کی عقب نشینی اور شکستوں کا خاتمہ ھونے والا ہے اور اسلامی دنیا کی کامیابیوں کے نئے اور سنھری دور کا آغاز ھونے لگا ہے۔
لھذا انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی اسلامی تاریخ کا وہ اھم موڑ ہے جس میں عالم اسلام کے عظیم مصلح حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے اسلامی بیداری کی پھلی موج کے بعد پیدا ھونے والے جمود کو اسلامی بیداری کی دوسری عظیم موج کے ذریعے توڑ ڈالا اور اسلامی دنیا میں ایک نئی روح پھونک دی۔
انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی اور دنیا بھر میں اس کے انقلابی پیغام کے پھیلاؤ نے عالم اسلام میں ایک سیاسی زلزلہ ایجاد کر دیا جیسا کہ دنیا نہ اس زلزلے کے ابتدائی اثرات کو اسرائیل کی غاصب صھیونیستی رژیم کے خلاف اٹھنے والی نئی انتفاضہ اور جھادی تحریک کی صورت میں دیکھا اور فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ لبنانی جیسی اسلامی مزاحمتی قوتیں معرض وجود میں آئیں۔
اسلامی بیداری کی دوسری موج کی خصوصیات:
۱۔ اسلام پر حد سے زیادہ تاکید۔
۲۔ منظم انداز اور اداروں کا قیام۔
۳۔ وسعت اور کثیر مراکز کا حامل ھونا (عالم اسلام کے مختلف حصوں میں جنم لینے والی تحریکوں کے اپنے مختلف مراکز اور قائدین کا ھونا)۔
۴۔ تسلسل اور دوام۔
۵۔ مغربی دنیا پر ثقافتی اور فکری طور پر اثرانداز ھونا۔
۶۔ عالمی استکباری قوتوں خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل سے مقابلہ اور مسئلہ فلسطین پر خاص توجہ دینا۔
ج۔ اسلامی بیداری کی تیسری موج، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں جنم لینے والی اسلامی تحریکیں:
سال ۲۰۱۱ء کے آغاز میں مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں جنم لینے والی سیاسی تحریکوں کے باعث بعض نئی سیاسی تبدیلیاں رونما ھونا شروع ھو گئیں جن کی تیزرفتاری اور دھماکہ خیز ھونے کے باعث سیاسی ماھرین نے انھیں "سونامی" کا نام عطا کیا۔
یہ سونامی ایک ایسے خطے میں رونما ھوئی جو انسانی تاریخ کا ایک اھم ثقافتی و تھذیبی مرکز تصور کیا جاتا ہے اور تین توحیدی ادیان یعنی یھودیت، عیسائیت اور اسلام اسی خطے سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
مزید یہ کہ یہ خطہ قدرتی وسائل جیسی نعمت سے بھی مالامال ہے اور مغربی دنیا کیلئے انتھائی درجہ کی جیوپولیٹیکل اھمیت کا حامل بھی ہے۔
ان تحریکوں میں انجام پانے والے عوامی احتجاج پر مذھبی رنگ چھایا رھا ہے۔ عوام نے اپنے مطالبات کے اظھار کیلئے نماز جمعہ کا سھارا لیا اور مذھبی نعرے لگائے۔ لھذا انھیں بجا طور پر اسلامی بیداری کی تحریک کا نام دیا جا سکتا ہے۔
دسیوں سال کے جمود اور خاموشی کے بعد عرب اقوام کی جانب سے سیاسی بیداری کا مظاھرہ درحقیقت ان عظیم مسلمان مصلحین کی محنتوں اور زحمات کا نتیجہ ہے جنھوں نے اسلامی بیداری کی پھلی موج کے دوران اس خطے میں فعالیت انجام دی اور مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ یہ عرب اقوام اپنے حقیقی تشخص کی جانب پلٹنا چاھتی ہیں اور اندرونی آمریت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
خطے میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی اس تیسری موج کی سب سے اھم خصوصیت اس کا اسلامی تشخص ہے۔ اسلامی بیداری کی یہ موج درحقیقت اسی تحریک کا تسلسل ہے جس کی بنیاد ایک زمانے میں سید جمال الدین افغانی جیسی عظیم مصلح شخصیت نے رکھی تھی۔
اسلامی بیداری کی پھلی موج کی مانند آج جنم لینے والی یہ تیسری موج بھی امت مسلمہ کو درپیش مشکلات اور چیلنجز کیلئے ایک اسلامی راہ حل کی تلاش میں ہے اور سیاست، اقتصاد، اخلاق اور معاشرت میں اسلامی اقدار کا احیاء چاھتی ہے۔
مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں سڑکوں پر نکلے مسلمان عوام اسلامی تھذیب و تمدن کے احیاء کے طالب ہیں اور وہ مغربی تھذیب جیسی دوسری اجنبی تھذیبوں سے اقدار قرض لینا نھیں چاھتے۔
ان انقلابی تحریکوں میں شامل افراد کی جانب سے پرشکوہ انداز میں نماز جمعہ کا قیام، اللہ اکبر جیسے اسلامی نعروں کا زبان پر لانا، کامیابی حاصل ھونے کے بعد سجدہ شکر کا ادا کرنا، اپنی تقاریر کے دوران آیات قرآن کریم کو بیان کرنا، اسلامی تنظیموں اور جماعتوں جیسے مصر میں اخوان المسلمین اور تیونس میں النھضہ کا بھرپور انداز میں سرگرم عمل ھو جانا ان کے اسلامی ھونے ما منہ بولتا ثبوت ہیں۔
یہ سب حقائق ظاھر کرتے ہیں کہ اس وقت سیاسی اسلام نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور یہ وھی چیز ہے جس سے عالمی استعماری قوتیں بری طرح خوف زدہ ہیں۔
اسلامی بیداری کی تیسری موج کی صورت میں ظاھر ھونے والی اسلامی تحریکوں کا مقصد عالمی تسلط پسندانہ استعماری نظام اور خطے میں موجود اس کے کٹھ پتلی حکمرانوں سے مقابلہ کرتے ھوئے ان سے چھٹکارا پانے اور ان کی جگہ اسلامی اصولوں پر مبنی جمھوری حکومتوں کا قیام ہے۔
یہ تحریکیں اب تک خطے کی کئی کٹھ پتلی حکومتوں کا تختہ الٹنے میں کامیابی سے ھمکنار ھو چکی ہیں۔ اسلامی بیداری کی تیسری موج کا آغاز تیونس سے ھوا۔ تیونس میں مسلمان عوام مغرب نواز ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کے خلاف اٹھ کھڑے ھوئے اور بھت جلد اسے اپنے ملک سے نکال باھر کیا۔
کچھ ھی عرصے کے اندر یہ موج شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے دوسرے ممالک تک سرایت کر گئی۔ تیونس میں آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد یکے بعد دیگرے مصر میں ڈکٹیٹر حسنی مبارک اور لیبیا کا آمر حکمران معمر قذافی بھی اقتدار چھوڑنے پر مجبور ھو گئے۔
اسی طرح بحرین میں آل خلیفہ رژیم، سعودی عرب میں آل سعود رژیم اور یمن میں علی عبداللہ صالح کے خلاف بھی عوامی تحریک نے زور پکڑ لیا ہے۔
اسلامی بیداری کی تیسری موج شمالی افریقہ اور مشرق وسطی میں بڑے پیمانے پر سیاسی تبدیلیوں کا باعث بنی ہے۔
دوسری طرف امریکہ، مغربی ممالک اور خطے کے بعض ممالک کی جانب سے بھرپور کوشش کی جا رھی ہے کہ ان تحریکوں کے اسلامی پھلو کو ظاھر نہ ھونے دیا جائے بلکہ ان سیاسی تحریکوں کو اپنے حقیقی راستے سے منحرف کرتے ھوئے اسے لبرل ڈیموکریسی کی سمت پھیر دیا جائے۔
لیکن مصر، تیونس، بحرین، یمن، لیبیا اور دوسرے ممالک میں مسلمان عوام کی جانب سے نماز جمعہ کے عظیم اجتماعات، اللہ اکبر کے نعروں اور قرآن کریم کے سائے میں مظاھروں کے انعقاد نے ان تمام سازشوں کو ناکامی کا شکار کر دیا ہے۔
یہ سب حقائق ظاھر کرتے ہیں کہ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے مسلمان عوام مغربی طرز کی لبرل ڈیموکریسی نھیں چاھتے بلکہ اسلام کے دائرے میں رھتے ھوئے اسلامی جمھوری نظام کے قیام کے خواھاں ہیں۔
اسلامی بیداری کی امواج کی مشترکہ خصوصیات:
کلی طور پر کھا جا سکتا ہے کہ اسلامی بیداری کی امواج خاص طور دوسری اور تیسری موج کی تین بنیادی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ اسلامی بیداری کی ان تحریکوں کا عوامی اور خودجوش ھونا۔ جیسا کہ ھم نے مشاھدہ کیا ہے کہ ان تحریکوں میں معاشرے کے ھر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے حصہ لیا ہے۔
ان تحریکوں کے اھداف و مقاصد کسی قوم یا فرقے کی حد تک محدود نھیں بلکہ سامنے آنے والے مطالبات میں صرف اسلام کو مدنظر قرار دیا گیا ہے۔
انقلاب اسلامی ایران کی مانند مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں جنم لینے والی حالیہ تحریکوں میں بھی خطے کے انقلابی مسلمان عوام اسلامی اقدار کے احیاء اور اسلام کے دیئے گئے سیاسی نظام کے برسراقتدار آنے کیلئے جدوجھد کرنے میں مصروف ہیں۔
۲۔ ان تحریکوں کی دوسری بڑی خصوصیت ان پر اسلامی رنگ کا حاوی ھونا ہے۔ ان تحریکوں کی روح اور نوعیت مکمل طور پر دینی اور اسلامی ہے۔ معاشرے میں موجود اکثر مسلمان افراد کی جانب سے انقلابی تحریک میں شمولیت، اسلامی اقدار جیسے حجاب، دینی سرگرمیوں میں ایک دوسرے سے تعاون اور زندگی کے تمام پھلووں میں شریعت اسلامی کے نفاذ کا مطالبہ، اسلامی تنظیموں اور گروھوں کی تشکیل اور ان کا سیاسی و اجتماعی سطح پر موثر کردار ادا کرنا، دینی رھنماوں اور علماء حضرات کا سیاست کے میدان میں حاضر ھونا، اسلامی تنظیموں جیسے اخوان المسلمین کا سیاسی جدوجھد میں شرکت کرنا، مذھبی اور دینی اجتماعات جیسے نماز جمعہ کا وسیع پیمانے پر انعقاد، اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا جانا اور ایسی ھی بے شمار دوسری نشانیوں سے ظاھر ھوتا ہے کہ امت مسلمہ میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی یہ موج معاشرے سے سیکولرزم کو حذف کر کے حقیقی اسلامی تشخص کی جانب بازگشت کی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔
۳۔ اسلامی بیداری کی تحریک کی تیسری خصوصیت مغربی تسلط سے چھٹکارا پانے میں انقلاب اسلامی ایران کی پیروی ہے۔ اسلامی بیداری کی تحریک درحقیقت استکبار ستیز اور امریکہ اور اسرائیل مخالف ہے۔ خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک کے آغاز سے ھی مسئلہ فلسطین بھی ایک بار پھر زندہ ھو گیا اور عالم اسلام کے بدن پر یہ پرانا زخم پھر سے تازہ ھونے کے بعد اس سے خون رسنا شروع ھو گیا۔ اسلامی بیداری کی برکت سے مسلمان اقوام میں ایک بار پھر قبلہ اول اور بیت المقدس کی آزادی کی امید مستحکم ھو گئی۔
خطے میں جنم لینے والی انقلابی تحریکوں میں نہ صرف اندرونی آمریت اور عالمی استعماری قوتوں کے تسلط سے رھائی پر زور دیا گیا بلکہ ساتھ ھی ساتھ قبلہ اول مسلمین کی اسرائیل کی غاصب صھیونیستی رژیم کے پنجوں سے آزادی کو بھی مدنظر قرار دیا گیا ہے۔
ھم دیکھتے ہیں کہ مصر جو ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے دور میں اسرائیل کے اسٹرایٹجک اتحادیوں میں شمار کیا جاتا تھا اور حزب اللہ لبنان کے خلاف اسرائیل کی جانب سے تھونپی گئی ۲۲ روزہ جنگ کے دوران اس کے ساتھ انتھائی قریبی تعاون کرتا رھا تھا، انقلابی تحریک کے آغاز کے بعد اسرائیل کے مقابلے میں آ کھڑا ھوتا ہے۔
لھذا اسلامی بیداری کی تیسری موج کی چند اھم اور بڑی خصوصیات جیسے اسلامی رنگ، استکبار ستیزی، آمریت ستیزی اور طاغوت سے مبارزہ طلبی نے اسے جدید دور میں اسلامی بیداری کی ایک بڑی موج میں تبدیل کر دیا ہے۔
اسلامی بیداری کی تیسری موج سے حاصل ثمرات:
۱۔ معاشرے میں اسلام اور قرآن کا احیاء اور جمھوری طریقہ کار کو پھلی ترجیح حاصل ھونا۔
۲۔ اسلامی تفکر اور سوچ کی بھرپور صلاحیتوں اور توانائیوں کا منظرعام پر آنا۔
۳۔ دین اور سیاست کا ایک دوسرے سے جدا نہ ھونے پر تاکید پانا۔
۴۔ اقتصادی اور اجتماعی مسائل و مشکلات کی جانب توجہ۔
۵۔ اسلامی شریعت اور وظائف کی انجام دھی پر زور دینا۔
آج جب دنیا یر حکمرانی کے دعوے دار مغربی نظام یعنی لبرل ڈیموکریسی اور سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام شدید بحران سے روبرو ہے، اسلامی بیداری کی تیسری موج کے اثرات کی شدت توقع سے کھیں زیادہ ظاھر ھوئی ہے۔
اسلامی بیداری کی تحریک کے اثرات صرف مشرق وسطی اور عالم اسلام تک ھی محدود نھیں رھے بلکہ خود مغربی دنیا میں بھی سرمایہ دارانہ ظالمانہ نظام کے خلاف اور عدالت خواھی کے حق میں تحریکیں جنم لینے کا باعث بنے ہیں۔
اس کی ایک واضح مثال امریکہ میں جنم لینے والی "وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک" ہے جس میں امریکہ کی ۹۹ فیصد عوام وھاں پر موجود ۱ فیصد ظالم سرمایہ دار طبقے کے خلاف اٹھ کھڑی ھوئی۔
مشرق وسطی کے اسلامی ممالک میں سرمایہ دارانہ حکومتوں اور نظاموں کے خلاف جنم لینے والی انقلابی تحریکیں درحقیقت اسلامی بیداری کی ایک نئی موج شمار کی جاتی ہے جو ان ممالک میں پائے جانے والے اقتصادی بحران، غیرعادلانہ طبقانی نظام کی موجودگی، حکمرانوں کی بے انصافی اور عالمی استعماری قوتوں کی نوکری کے خلاف ایک عوامی ردعمل ہے۔
جس طرح اسلامی بیداری کی پھلی موج نے اسلامی بیداری کی دوسری موج کے جنم لینے کا زمینہ فراھم کیا بالکل اسی طرح اسلامی بیداری کی دوسری موج نے اسلامی بیداری کی تیسری موج کے جنم لینے میں انتھائی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
اسلامی بیداری کی تیسری موج کا رول ماڈل انقلابی اسلامی ایران ہے۔ انقلابی اسلامی ایران کی کامیابی کے نتیجے میں ایران میں تشکیل پانے والا اسلامی جمھوری نظام پوری اسلامی دنیا کیلئے بھترین ماڈل ہے۔
خطے میں جنم لینے والی حالیہ انقلاب تحریکیں اسی رول ماڈل کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔ اسلامی جمھوری نظام ھی وہ آئیڈیل نظام ہے جو اسلام کی نشاہ ثانیہ اور عظیم اسلامی تھذیب و تمدن کے احیاء کی ضمانت فراھم کر سکتا ہے۔ اسلامی بیداری کی تیسری موج درحقیقت عظیم اسلامی تھذیب و تمدن کے قیام کیلئے کوشاں ہے۔
یھاں اس نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ اسلامی بیداری کی تینوں امواج کے جنم لینے کے دوران عالمی استعماری قوتوں کی جانب سے اس کے مقابلے میں بعض منحرف اور جعلی تحریکیں بھی معرض وجود میں لائی گئیں اور انھیں اسلامی بیداری کا نام بھی دیا گیا۔
جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی بیداری کی پھلی موج کے جنم لینے کے بعد بوڑھے استعمار برطانیہ کی جانب سے حجاز میں وھابیت اور ایران میں بھائیت جیسے منحوس اور ناپاک درختوں کے بیج بوئے گئے۔ اگرچہ ایران میں بزرگ شیعہ فقھاء کی موجودگی اور جدوجھد کی برکت سے بھائیت کا درخت زیادہ پروان نہ چڑھ پایا لیکن وھابیت کے درخت نے حجاز سے نکل کر اکثر عرب ممالک اور برصغیر پاک و ھند کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کے منحوس اور شیطانی اثرات آج ھم اسلامی دنیا میں فرقہ واریت اور قتل و غارت اور دھشت گردی کی صورت میں مشاھدہ کر رہے ہیں۔
اسی طرح اسلامی بیداری کی دوسری موج یعنی انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد ھم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کی پشت پناھی سے سعودی عرب میں جھوٹی مھدویت کا دعویدار التیجانی کی تحریک رونما ھوتی ہے اور اسی طرح مصر اور دوسرے اسلامی ممالک میں جماعہ المسلمین، التکفیر اور الھجرہ جیسی مسلحانہ تحریکیں معرض وجود میں لائی جاتی ہیں تاکہ ان کی مدد سے انقلاب اسلامی ایران کو بھی بدنام کیا جا سکے۔
بالکل اسی طرح آج جب اسلامی بیداری کی تیسری موج معرض وجود میں آئی ہے تو ھم دیکھ رھے ہیں کہ شیطان بزرگ امریکہ اور دنیا اور خطے میں اس کے چیلے شیطانوں کی جانب سے تکفیری دھشت گرد گروھوں کی صورت میں ایک نام نھاد "جھادی تحریک" معرض وجود میں لائی گئی ہے اور اس پر طرح طرح کے نام جیسے "عرب اسپرنگ" وغیرہ کی اسٹکرز چپکائی گئی ہیں۔ اگر کھا جائے کہ ان احمق اور بے وقوف تکفیریوں نے جتنا عالم اسلام کو نقصان پھنچایا ہے اتنا اسلام کے حقیقی دشمنوں یعنی امریکہ اور اسرائیل نے بھی نھیں پھنچایا تو بے جا نہ ھو گا۔
موجودہ عالمی حالات اور اسلامی دنیا کی صورتحال کے پیش نظر توقع کی جاتی ہے کہ اسلامی بیداری کی تیسری موج اپنے بنیادی عناصر جیسے اسلام خواھی، اتحاد اور وحدت اسلامی اور استکبار ستیزی کو حفظ کرتے ھوئے انقلاب اسلامی ایران اور امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی انقلابی جدوجھد اور ان کے اسلامی و انقلابی افکار کو اپنا رول ماڈل بناتے ھوئے اپنے راستے پر ثابت قدم رھے گی اور خدا پر توکل کرتے ھوئے اور اس کی نصرت پر ایمان رکھتے ھوئے آگے کی جانب قدم بڑھاتی رھے گی۔
خدا کرے اس اسلامی بیداری کی برکت سے ھم ایک دن حقیقی اسلام کی کامیابی اور شیطان بزرگ اور اس کے چیلوں کی ناکامی کا نظارہ کر سکیں۔ آمین
تحریر: محمد عبداللھی