ایک کسان اپنے دوست کے پاس گیا اور اُس سے کھا مھربانی کرکے اپنا خچر کچھ دیر کے لئے مجھے دے دو، میں بازار سے گندم لا کر واپس پھنچا دوں گا۔ دوست نے جب یہ بات سنی تو کھنے لگا انتھائی معذرت! خچر اس وقت گھر پر نھیں ہے، ھمارے ھمسائے کو کوئی ضروری کام پیش آیا تھا، جس کہ وجہ سے وہ خچر کو لے کر گیا ہے، ابھی وہ یہ باتیں کر ھی رھے تھے کہ اچانک اندر سے خچر کی آواز آئی۔ کسان خچر کی آواز سن کر کھنے لگا تم تو کہہ رھے تھے کہ خچر گھر پہ نھیں ہے، پھر یہ آواز کیسی؟
دوست نے کھا تم کتنے احمق و بے وقوف ھو، میں تمھارا دوست اور انسان ھوتے ھوئے تم میری بات پر یقین نھیں کر رھے ھو اور خچر جو کہ ایک حیوان ہے، اُس کی بات پر یقین کر رھے ھو، بھت افسوس کی بات ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی دھواں دار تقریریں اور اشتعال و تعصب پر مبنی احکامات نے ھل چل مچا دی ہے، ساری دنیا کی بات ایک طرف، خود امریکی میڈیا اور عوام کو بھی یقین نھیں آ رھا کہ امریکہ کو بھی کبھی ایسا وقت دیکھنا پڑے گا۔ سپر پاور جو دوسروں کو تھذیب، آزادی و جمھوریت کے درس دیتا تھا، آج خود درس کا مستحق ھوگیا ہے۔
امریکی صدارتی انتخابات، ھیلری کلنٹن کی شکست اور روس کی مداخلت یہ سب ایک الگ موضوع ہے۔ اگر ھم چند سال پیچھے کی جانب دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں نے کس طرح امریکی عوام اور دنیا کو بے وقوف بنایا ہے، صرف دو ھزار ایک سے اب تک یعنی ان سولہ سالوں میں دھشت گردوں کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی آمریت اور جھوٹ سب کے سامنے ہے، اس کی تازہ مثالیں عراق، عرب اسپرنگ اور شام ہیں۔ کس طرح عالمی حقوق کے چیمپیئن نے جھوٹ کے ذریعے ساری دنیا خصوصاً مشرق وسطٰی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا، دھشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر داعش جیسے تکفیریوں کو پروان چڑھایا، ڈیموکریسی اور آزادی کے نام پر ملکوں کو تباہ کیا، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے تک یہ سب ایک پردے کے پیچھے ھو رھا تھا۔
مغربی عوام سمیت مسلمان بھی یھی سوچتے تھے کہ امریکہ انسانی حقوق کا حامی ہے، چونکہ امریکی حکومت و یھودی لابی اپنے مکر و فریب کو ایک پُرکشش لبادے میں اوڑھ کر دنیا کے سامنے پیش کر رھے تھے۔
انھوں نے کس طرح افغانستان، عراق، تیونس، مصر، لیبیا، ترکی، شام، ایران، سوڈان، صومالیا اور یمن میں عوامی دوست بن کر انسانیت کو تباہ کیا (پاکستان میں ڈرون اٹیک اور ڈومور کی باتیں الگ ہے) یہ سب کے سامنے عیاں ہے، لیکن کبھی مسئلہ فلسطین پر کوئی ایسا ردعمل نھیں دکھایا، فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم اُس کو کبھی نظر نھیں آئے، غاصب اسرائیل کے پاس موجود ایٹم بم کبھی نظر نھیں آیا، لیکن صدام کے کیمیائی ھتھیار، پاکستان کی ایٹمی طاقت اور ایران کے میزائلوں سے اُس کی نیندیں حرام ہیں۔
دوسرے ممالک کے پُرامن حالات کو خراب کرتے کرتے اب نوبت خود اپنی آئی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں ایک ایسا صدر سامنے آگیا ہے، جس نے اوباما، بش اور امریکی ڈیموکریسی کے حقیقی چھرے کو دنیا کے سامنے واضح کر دیا ہے۔
لیکن جب دشمن مدمقابل آتا ہے تو اُس کے ھمراھی بھی کھل کے سامنے آ جاتے ہیں، جب ڈونلڈ ٹرمپ نے سات مسلم ممالک پر پابندی عائد کر دی تو تقریباً ساری دنیا نے اس کی مخالفت کی، تمام انسانی حقوق اور تارکین وطن کے تحفظ کی تنظیموں نے مظاھرے اور عدالت سے رجوع کیا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے امریکہ سے فوری طور پر سفری پابندیاں ھٹانے کا مطالبہ کر دیا، اُدھر جرمن چانسلر انجیلا میرکل کا کھنا تھا پابندیاں غلط اور نزاع انگیز ہیں، تو دوسری جانب مسلمانوں کی حمایت میں برطانیہ میں جاری آن لائن پٹیشن پر دستخطوں کی تعداد اٹھارہ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ اِدھر ایران نے بھی امریکہ کو منہ توڑ جواب دیا ہے، لیکن مسلمانان اسلام اُس وقت دنگ رہ گئے، جب سعودی عرب کے وزیر تیل خالد الفلیح اور متحدہ عرب امارات کے وزیر دفاع شیخ عبداللہ بن زیدالنھیان نے امریکی فیصلے کا دفاع کیا۔
آخر مسلمان حکمران کیوں ھوش کے ناخن نھیں لیتے؟ امریکہ اور اس کے حواریوں نے ایک ایک کرکے تمام مسلم ممالک کو ایک دوسرے سے جدا کیا ہے، افغانستان سے شروع ھوئی جنگ آج گھر گھر پھنچ گئی ہے، صدام اور قذافی سمیت دیگر پیروکاران مغرب کو امریکہ نے استعمال کرنے کے بعد ایک ایک کرکے ختم کر دیا ہے، دنیا کے کسی کونے میں بھی کوئی حقوق انسانیت اور آزادی بشر کی بات کرے تو امریکہ و اسرائیل اُس کے خلاف صف بندی شروع کرتے ہیں۔ یہ سب ان چند سالوں میں ھماری آنکھوں کے سامنے رونما ھونے کے باوجود مسلمان اور مسلم حکمران کیوں مغربی کی گود میں بیٹھتے ہیں اور ان سے اپنی بقاء کی بھیگ کیوں مانگتے ہیں؟
اب تو گرین کارڈ کی خاطر اسلام کو گالیاں دینے والوں کی بھی عقل ٹھکانے آگئی ھوگی؟ دنیا میں کسی بھی جگہ پر ایک چیونٹی مر جائے تو واویلا مچانے والے امریکہ میں نسلی تعصب اور مظاھروں پر خاموش کیوں ہیں۔؟
مسلم خواتین کے پردے کو دقیانوسی اور دھشت گردی کھنے والے آج ٹرمپ کی کھلی بدمعاشی پر اور تعصب پر کیوں خاموش ہیں؟
ان کو صرف ایک ھی ڈائیلاگ یاد رھتا ہے، تمھارا کتا، کتا ہے ھمارا کتا ٹومی ہے۔ دیگر مسلم ممالک اور او آئی سی کو مسلم ممالک پر پابندی اور ٹرمپ پالیسی پر خاموش نھیں بیٹھنا چاھیے، ایران کی طرح جامع اور منہ توڑ جواب دینا چاھیے، جو تمام مسلمانوں کے مفاد میں ھو، ورنہ امریکہ جھوٹ بولتا رھے گا اور کل ھماری باری ھوگی۔
تحریر: ناصر رینگچن
جھوٹ کا انجام ذلت و رسوائی۔۔۔۔
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1372