سابق امریکی صدر براک اوباما نے ایسی حالت میں وائٹ ھاوس کو ترک کیا ہے جب ان کے آٹھ سالہ دور میں کوئی مثبت اقدام نظر نھیں آتا بلکہ انسانی حقوق سمیت دیگر کئی ایشوز پر ان کا ریکارڈ بھت خراب نظر آتا ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق دوغلی پالیسیاں اپنانے اور دیگر مشابہہ اقدامات کے باعث عوام کی جانب سے انھیں امریکہ کا کمزور ترین صدر اور امریکی تاریخ کا بدترین صدر جیسے القابات سے نوازا گیا۔ یھاں کچھ سوالات انسان کے ذھن میں آتے ہیں جیسے:
کیا براک اوباما سے پھلے آنے والے امریکی صدور مملکت نے ان موارد میں بھتر عمل کیا تھا جن میں اوباما پر کمزوری، وعدہ خلافی اور دوغلی پالیسیاں اپنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے؟
کیا اوباما سے پھلے آنے والی امریکی حکومتوں نے انسانی حقوق کے دفاع، نسل پرستی کے خاتمے اور غلامی ختم کرنے سے متعلق کوئی عظیم کارنامے انجام دیئے تھے؟
سب سے اھم سوال یہ کہ ایسے مسائل کی بابت اوباما کو شدید تنقید کا نشانہ کیوں بنایا گیا ہے جن کی امریکی سیاست میں تبدیلی تقریباً ناممکن دکھائی دیتی ہے؟
ان تمام سوالات کے جواب میں یہ کھنا درست ھو گا کہ براک اوباما نے اپنی صدارتی مھم کے دوران "تبدیلی" یا Change کا نعرہ لگایا تھا اور اسی نعرے کی بنیاد پر امریکی شھریوں کی حمایت حاصل کر پائی تھی۔
انھوں نے صدر بننے سے پھلے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بدنام زمانہ گوآنتانامو جیل کو بند کریں گے جبکہ ملک کا پھلا سیاہ فام صدر ھونے کے ناطے امریکی سیاہ فام شھریوں میں ان سے یہ امید پیدا ھو گئی تھی کہ وہ ملک میں موجود نسلی تعصبات کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات انجام دیں گے۔ لیکن جب براک اوباما صدر بنے تو انھوں نے کوئی نئی راہ اپنا لی اور قوم کو خود سے مایوس کیا۔ ذیل میں ان کے چند اھم اقدامات بیان کئے گئے ہیں۔
1۔ اوباما جرج بش سے زیادہ جنگ طلب
براک اوباما نے 2008ء میں عھدہ صدارت سنبھالنے کے بعد عوام سے وعدہ کیا کہ وہ ملک میں اقتصادی ترقی کی راہ ھموار کریں گے اور ھر صورت میں جنگ کا خاتمہ کر کے صلح کا پیغام عام کریں گے۔
انھوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ عالمی سطح پر خاص طور پر مشرق وسطی میں امریکی کی فوجی سرگرمیوں کا خاتمہ کرتے ھوئے جنگی صورتحال ختم کر دیں گے۔ لیکن بعد میں انھوں نے نہ صرف اپنے وعدوں پر عمل نہ کیا بلکہ جنگ کی آگ شعلہ ور کرنے میں سابق صدر جرج بش پر بھی بازی لے گئے۔
اب جبکہ وہ وائٹ ھاوس چھوڑ کر چلے گئے ہیں تو اپنے جانشین یعنی ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے نئے کارزار چھوڑ کر جا رھے ہیں اور جرج بش سے ورثے میں ملنے والی صورتحال سے کھیں زیادہ بدتر صورتحال آنے والے امریکی صدر کو سونپ کر جا رھے ہیں۔
براک اوباما نے 8 برس قبل جب جرج بش سے اقتدار اپنی تحویل میں لیا تو امریکہ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں پھنسا ھوا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صدارتی الیکشن میں براک اوباما کی کامیابی بھت حد تک سابق صدر جرج بش کی جنگ طلبانہ پالیسیوں کی مرہون منت تھی۔
اس بات کی واضح دلیل یہ ہے کہ اوباما نے اپنی صدارتی مھم کے دوران جرج بش کی شدت پسندانہ پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ صدر بننے کے بعد عالمی سطح پر امریکی جنگوں کا خاتمہ کریں گے۔ انھوں نے خود کو امریکہ کا نجات دھندہ بنا کر پیش کیا اور امریکہ کو ایسے ملک کے طور پر متعارف کروایا جو جنگ کی آگ میں جل رھا تھا۔
2۔ پراکسی وارز اور حکومتوں کی سرنگونی پر مبنی اوباما کی پالیسیاں
اگر ھم صدر براک اوباما کے دوران صدارت کا ایک کلی خاکہ پیش کرنا چاھیں تو کھیں گے کہ ان کی مدت صدارت میں دیگر ممالک میں بغاوتوں کے منصوبے بنائے گئے، ڈرون طیاروں سے دنیا کے مختلف حصوں میں انسانوں کا قتل عام کیا گیا، ۳۴ افریقی ممالک سمیت دنیا کے ۶۰ مختلف ممالک میں امریکی فوجی اڈے قائم کئے گئے اور اقتصادی ھتھکنڈوں کے ذریعے لاطینی امریکی ممالک میں حکومتیں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ چین کے خلاف اشتعال انگیز اقدامات، شام میں جنگ کو طول دینا، عراق میں بدامنی کی فضا پیدا کرنا اور لیبیا میں تباہ و بربادی پھیلانا بھی براک اوباما کے دورہ صدارت کے اھم کارنامے ہیں۔ اسی طرح برازیل میں صدر ڈلما روزیف کے خلاف بغاوت کی حمایت اوباما کی انھیں پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہے۔
3۔ خفیہ جنگوں کا آغاز
فروری 2009ء میں صدر براک اوباما نے اعلان کیا کہ وہ اکتوبر 2010ء تک عراق میں موجود 1 لاکھ 60 ھزار فوجیوں کی تعداد کم کر کے 50 ھزار فوجیوں تک لے آئیں گے جس پر انھیں چند ماہ بعد یعنی دسمبر میں امن کا نوبل انعام بھی حاصل ھوا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دوران دنیا کے مختلف حصوں میں بغیر پائلٹ کے ڈرون طیاروں کے ذریعے انجام پانے والے امریکی حملوں میں بے سابقہ اضافہ رونما ھوا۔
صدر براک اوباما کے 8 سالہ دورہ صدارت میں ڈرون حملوں کے ذریعے قتل کئے جانے والے افراد کی تعداد 2900 ہے جن میں 900 عام شھری شامل ہیں۔ ان حملوں کی اکثریت افغانستان میں انجام پائی ہے۔
4۔ خفیہ اور پراکسی وارز کی وسعت میں اضافہ
صدر براک اوباما کے پھلے چار سالہ دورہ صدارت میں ان کی پالیسی جنگ کے پھیلاو پر مبنی رھی ہے جس کی بنیاد پر دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ نے جنگ کی آگ لگائی۔ اس کی ایک واضح مثال دنیا کے مختلف حصوں میں امریکی کمانڈوز تعینات کرنا ہے تاکہ وہ خفیہ کاروائیاں انجام دے سکیں۔ 2011ء کے آخر تک ان خفیہ کاروائیوں کی تعداد 120 تک جا پھنچی۔ ایسی ھی خفیہ کاروائیوں میں سے ایک معروف ترین کاروائی پاکستان کے شھر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ٹارگٹ کلنگ تھی۔
القاعدہ کے رھنما اسامہ بن لادن کو ٹھیک اس وقت نشانہ بنایا گیا جب شام میں خانہ جنگی اپنے ابتدائی مراحل سے گزر رھی تھی۔ اوباما کے دور صدارت میں امریکی خفیہ کاروائیوں کا دائرہ پاکستان، افغانستان، یمن، صومالیہ اور عراق کی حد تک بڑھ گیا اور ان علاقوں میں امریکی فوجی تعینات کر دیئے گئے۔ یوں اوباما دور میں سابق امریکی صدر جرج بش کے دور سے 60 فیصد زیادہ فوجی تعینات کئے گئے۔
5۔ انسانی حقوق کے بارے میں دوغلی پالیسیاں
جب بحرین میں شروع ھونے والی عوامی احتجاجی تحریک کو کچلنے کیلئے سعودی عرب کی افواج جزیرہ شیلڈ فورسز کے عنوان سے بحرین میں داخل ھوئیں تو امریکہ نے اس پر کوئی ردعمل ظاھر نہ کیا اور اسے خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کا اندرونی مسئلہ قرار دے دیا۔
لیکن دوسری طرف جب شام میں تکفیری دھشت گروھوں نے اپنی کاروائیوں کا آغاز کیا اور ایران نے شام کی قانونی حکومت اور صدر بشار اسد کی درخواست پر اپنے فوجی مشیر شام بھیجے تو اس کے خلاف امریکہ نے شدید ردعمل ظاھر کیا اور اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
یھاں سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ امریکہ بحرین میں مستبد آل خلیفہ رژیم کو اقتدار میں باقی کیوں رکھنا چاھتا ہے؟ اس سوال کے جواب کیلئے خلیج فارس میں امریکی مفادات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ امریکی نیوی کا پانچواں بحری بیڑہ اس وقت بحرین میں تعینات ہے لھذا امریکی حکومت بحرین میں ایسی جمھوریت کا فروغ نھیں چاھتی جس کے نتیجے میں ایک شیعہ حکومت برسراقتدار آجائے۔
دوسری طرف چونکہ امریکہ مجبور ھو کر عراق سے اپنی فوجیں باھر نکال چکا ہے، لھذا بحرین میں اپنی فوجی موجودگی خطے سے متعلق اسٹریٹجک اھداف کیلئے انتھائی ضروری سمجھتا ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ بحرین میں کسی بھی قسم کی بنیادی سیاسی تبدیلی کا خواھاں نھیں۔
بحرین میں پرامن عوامی احتجاجی تحریک کی حمایت نہ کرنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ واشنگٹن خطے میں شیعہ قوتوں کی طاقت میں اضافے سے خوفزدہ ہے کیونکہ اس طرح اس کے روایتی اتحادی سعودی عرب کو بڑا خطرہ درپیش ھو سکتا ہے۔ اگر بحرین میں جاری عوامی انقلابی تحریک کامیابی سے ھمکنار ھو جاتی ہے اور شیعہ اکثریتی ملک ھونے کے ناطے وھاں ایک مضبوط شیعہ حکومت برسراقتدار آجاتی ہے تو یہ امر سعودی عرب کیلئے بھت زیادہ خطرناک ثابت ھو سکتا ہے۔
مزید برآں، بحرین خطے میں سب سے بڑے پیمانے پر امریکی مصنوعات درآمد کرنے والا ملک تصور کیا جاتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق 2011ء میں بحرین میں امریکی درآمدات کی کل قیمت 668 ملین ڈالر تھی جو بحرین کی آبادی کے لحاظ سے بھت بڑی رقم ہے۔ چنانچہ امریکی حکومت اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے بحرین میں اپنی پٹھو مستبد اور آمر حکومت کی حمایت کر رھی ہے۔
6۔ سعودی حکومت کے ھاتھوں بیگناہ یمنی شھریوں کے قتل عام پر مجرمانہ خاموشی
صدر براک اوباما کے دور حکومت میں سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کی مدد سے اپنے جنوبی ھمسایہ ملک یمن پر فوجی چڑھائی کر دی۔ یمن خطے کے فقیر ترین ممالک میں شمار ھوتا ہے۔ اس سعودی جارحیت کے نتیجے میں اب تک ہھزاروں بیگناہ یمنی شھری اپنی جان سے ھاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
دوسری طرف اس حملے کے نتیجے میں یمنی عوام شدید غربت اور افلاس کا شکار ھو چکے ہیں۔ یمن پھلے سے ھی انتھائی پسماندہ ملک تھا اور اب جنگ کے باعث اسپتالوں اور اسکولوں کو شدید نقصان پھنچا ہے۔ سعودی حکومت نے یمن کے انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پھنچایا ہے۔ جب یمنی فوج اور الحوثی قبائل کے جوابی حملے میں متحدہ عرب امارات کے 45 فوجی ھلاک ھوئے تو سابق امریکی صدر براک اوباما نے ابوظھبی کے ولیعھد اور متحدہ عرب امارات کے نائب کمانڈر محمد بن زائد النھیان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور فوجیوں کی ھلاکت پر اپنے افسوس کا اظھار کرتے ھوئے کھا کہ امریکی عوام متحدہ عرب امارات اور ھلاک شدہ فوجیوں کے اھلخانہ سے دلی ھمدردی رکھتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ھلاک شدہ فوجی یمن کی سرزمین میں قابض قوت کے طور پر موجود تھے اور اس ملک پر جارحیت کی حالت میں دفاع کرنے والی قوتوں کے ھاتھوں ھلاک ھوئے۔
7۔ نائن الیون حادثے میں جاں بحق افراد اور ان کے اھلخانہ کے جذبات سے چشم پوشی
جب امریکہ کے قانون ساز اداروں میں نائن الیون حادثے میں ملوث ھونے کے ناطے سعودی حکومت کو قانونی سزا دینے کی باتیں ھونے لگیں تو سابق امریکی صدر براک اوباما نے خبردار کیا کہ وہ ایسے ھر قانون کو ویٹو کر دیں گے جس میں سعودی حکومت کے خلاف کسی قسم کا اقدام اٹھایا گیا ھو۔ لیکن اس کے باوجود امریکی کانگریس نے نائن الیون حادثے کا شکار افراد کے اھلخانہ کو یہ حق دیا کہ وہ سعودی حکومت کے خلاف خسارے کا مقدمہ درج کر سکتے ہیں۔ براک اوباما نے کانگریس کے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن اراکین کو ایک خط لکھا جس میں کھا گیا تھا کہ حکومتوں کے خلاف ایسا اقدام دنیا کے مختلف حصوں میں دھشت گردی کے خلاف امریکی کاروائیوں میں خلل کا باعث بن سکتا ہے۔
8۔ امریکی حمایت یافتہ دھشت گردوں کے ھاتھوں بیگناہ انسانوں کا قتل عام
معروف امریکی سیاسی ماھر اور سنٹر فار دی اسٹڈی آف گلوبلائزیشن کی اھم ترین شخصیت اسٹیفن لینڈمین کے بقول شام میں جاری جنگ صدر بشار اسد کی جنگ نھیں بلکہ امریکہ اسے کنٹرول کر رھا ہے لھذا شام میں جاری خانہ جنگی وھاں کے اندرونی مسائل کے باعث شروع نھیں ھوئی بلکہ وائٹ ھاوس نے اپنے آلہ کار عناصر کی مدد سے شام میں بدامنی پھیلائی ہے اور شام میں ھونے والے سارے خون خرابے کا اصلی ذمہ دار امریکہ ہے۔
صدر براک اوباما کی سربراھی میں امریکی حکومت نے ھمیشہ شام میں سرگرم حکومت مخالف مسلح دھشت گرد گروھوں کی مدد کی ہے۔ امریکہ کے حمایت یافتہ گروھوں میں داعش بھی شامل ہے۔ صدر براک اوباما کی کوشش تھی کہ معتدل گروھوں کا بھانہ بنا کر دھشت گرد مسلح گروھوں کو نابود ھونے سے بچایا جائے اور اس طرح شام حکومت کو خانہ جنگی میں الجھائے رکھے۔
صدر براک اوباما نے اپنا دور صدارت ختم ھونے سے دو ھفتے قبل الوداعی تقریر میں اعلان کیا کہ 2017ء میں دھشت گرد گروہ داعش کا خاتمہ ھو جائے گا۔ انھوں نے اپنی اس پیشن گوئی کی کوئی دلیل یا وضاحت پیش نہ کی۔
شام کے اخبار "الثورہ" کے مطابق صدر براک اوباما کے اس اعلان کے ساتھ ھی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک آڈیو ٹیپ جاری کی جس میں سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور شام میں سرگرم متعدد دھشت گرد گروھوں کے سربراھان کے درمیان ملاقات کا راز فاش کیا گیا تھا۔ اس ٹیپ میں کھا گیا کہ امریکہ نے داعش کی بنیادیں رکھیں اور اس اقدام کا مقصد شام میں صدر بشار اسد کی حکومت گرانا تھا۔
الثورہ اس بارے میں مزید لکھتا ہے: "اگر براک اوباما کی جانب سے 2017ء میں داعش کی نابودی سے متعلق یقین دھانی اس بنیاد پر ہے کہ جو کوئی کسی دھشت گرد گروہ کو تشکیل دیتا ہے جب بھی چاھے اسے نابود بھی کر سکتا ہے تو اس میں کوئی شک نھیں کہ وہ امریکی عوام سمیت پوری دنیا سے جھوٹ بول رھے ہیں کیونکہ امریکہ نے افغانستان میں القاعدہ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد سابق سوویت یونین کا مقابلہ کرنا تھا لیکن اس کے بعد القاعدہ کو ختم کرنے میں ناکام رھا اور آج تک القاعدہ کی کئی ذیلی شاخیں دنیا کے مختلف حصوں میں سرگرم عمل ہیں"۔
9۔ گوآنٹانامو جیل جھاں عدالتی کاروائی کے بغیر افراد کو قید میں رکھا جا رھا ہے
امریکہ نے 2002ء میں گوآنٹانامو جیل کی بنیاد رکھی جس کا مقصد اس جیل میں افغانستان جنگ کے قیدیوں کو رکھنا تھا۔ اس کے بعد عراق جنگ کے قیدی بھی اسی جیل میں رکھے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس جیل میں استعمال ھونے والے غیرانسانی ھتھکنڈے فاش ھوتے گئے جن میں مصنوعی طریقے سے غرق کرنا (واٹر بورڈنگ) اور حواس خمسہ کا مکمل خاتمہ شامل تھا۔ ٹارچر کے ان غیرمعمولی ھتھکنڈوں کے فاش ھونے کے بعد امریکی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کے دعووں کی حقیقت کا بھانڈا پھوٹ گیا اور عالمی میڈیا میں اس پر سوالات اٹھنا شروع ھو گئے۔
گوآنٹانامو جیل میں انجام پانے والے یہ اقدامات امریکی تاریخ کی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں قرار دی گئیں۔ لھذا اس عالمی رائے عامہ کے تناظر میں سابق امریکی صدر براک اوباما نے 2009ء میں اپنی صدارتی الیکشن مھم کے دوران امریکی عوام سے وعدہ کیا کہ وہ ایک سال کیلئے اس جیل کو بند کر دیں گے۔ اس کے بعد 22 جنوری 2009ء کو وائٹ ھاوس نے اعلان کیا کہ اگلے 120 دن تک گوآنٹانامو جیل بند کر دینے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے لیکن نومبر 2010ء سے لے کر اب تک اس جیل میں 173 قیدی موجود ہیں اور ان میں سے اکثریت ایسے قیدیوں کی ہے جنھیں دنیا کی کسی عدالت میں پیش نھیں کیا گیا۔ جب براک اوباما نے امریکہ کے صدر کے طور پر عھدہ سنبھالا تو گوآنٹانامو جیل میں 242 قیدی تھے جن میں سے 190 قیدیوں کو 42 دیگر ممالک کی جیلوں میں منتقل کر دیا گیا۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے بغیر کسی فرد جرم عائد کئے اور عدالتی کاروائی چلائے بڑے پیمانے پر افراد کو گوآنٹانامو جیل میں رکھنے کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ھوئے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس جیل کو بند کر دے۔
یاد رھے امریکی حکومت نے گوآنٹانامو جیل میں دنیا کے مختلف ممالک سے افراد کو صرف اس بنیاد پر قید کر رکھا اور انھیں دن رات ٹارچر کا نشانہ بنایا جا رھا ہے کہ ان پر دھشت گردی میں ملوث ھونے کا گمان ہے۔ اس جیل میں بدترین ٹارچر کیا جاتا ہے جبکہ بعض رپورٹس کے مطابق متعدد قیدی ٹارچر کے دوران ھلاک بھی ھو چکے ہیں۔ سابق امریکی صدر براک اوباما اپنے 8 سالہ مدت صدارت میں اس جیل کو بند کرنے میں ناکام رھے اور اس طرح انھوں نے صدر بننے سے پھلے صدارتی مھم کے دوران عوام سے کئے گئے وعدوں کی کھلی خلاف ورزی کی۔
مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں یہ کھنا غلط نہ ھو گا کہ تاریخ میں براک اوباما کا نام اچھے انداز میں ذکر نھیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ امریکی تجزیہ کار اور مصنف اسٹیفن لنڈمین نے کھا ہے کہ اوباما حکومت کی جانب سے بحرین کی پرامن عوامی احتجاجی تحریک کے خلاف آل خلیفہ رژیم کے ظالمانہ اقدامات کی حمایت اور وائٹ ھاوس کی جانب سے اپنے پست اھداف کے حصول کیلئے شدت پسندی کو مزید فروغ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ھونے کے باعث تاریخ میں براک اوباما کا چھرہ جرج بش سے بھی زیادہ شدت پسندانہ اور منحوس دکھایا جائے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ براک اوباما ایک جنگی مجرم اور بھت بڑا جھوٹا شخص ہے۔
تحریر: علی محسنی
اوباما امریکی تاریخ کے بدترین صدر کیوں؟
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1371