حضرت زینب کبریٰ علیھا السلام کی زندگانی کے بارے میں سینکڑوں سال سے ھزاروں محققین اور علماء کتابیں لکھتے آرھے ہیں، لیکن یہ ایک بیکران سمندر ہے، جس میں جتنا بھی غوطہ ور ھاتھ پاوَں چلائیں، انتھا کو پھنچنا ناممکن ہے۔ ھم بھی آپ کی زندگانی کے چند پھلوئوں پر اختصار کے ساتھ کچھ لکھنے کی کوشش کریں گے۔
1۔ ولادت باسعادت:
حضرت امام علی علیہ السلام اور حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کی پانچ اولاد تھیں، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام، حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیھا، حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیھا و حضرت محسن علیہ السلام۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا ۵ جمادی اول ھجرت کے پانچویں یا چھٹے سال یا شعبان کے مھینے میں ھجرت کے چھ سال بعد مدینہ منورہ میں پیدا ھوئیں اور 15 رجب 62 ھجری میں 56 یا 57 سال کی عمر میں رحلت کر گئیں۔ بعض لوگ ان کے سال وفات کو 65 ھجری بتاتے ہیں، اس اعتبار سے آپ 60 سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ آپ کی آرامگاہ کے بارے میں محققین کے درمیان اختلاف ہے، لیکن معروف ترین قول دمشق ہے، جھاں ھر روز ھزاروں کی تعداد میں زائرین دنیا کی مختلف جگھوں سے حاضر ھوتے اور ان کی بارگاہ اقدس سے مستفیض ھوتے ہیں۔
محمد بحرالعلوم کھتے ہیں: اس میں کوئی فرق نھیں ہے کہ سورج کھاں غروب ھو جائے، جو چیز اھمیت کی حامل ہے، وہ یہ ہے کہ اس سورج کی شعائیں جو روشنی بخش اور قیامت تک غروب نھیں ھونگی، دنیا کے لوگ روشنی کی ان شعاعوں سے مستفید ھوتے آرھے ہیں۔
ان کا مشھور ترین نام زینب ہے، جو لغت میں "نیک منظر درخت" کے معنی میں آیا ہے[2] اور اس کے دوسرے معنی "زین أَب" یعنی "باپ کی زینت" کے ہیں۔ متعدد روایات کے مطابق حضرت زینب سلام اللہ علیھا کا نام پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا؛ البتہ آپؐ نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ زھراء علیھما السلام کی بیٹی کو وھی نام دیا، جو جبرائیل خدا کی طرف سے لائے تھے۔[3] جب رسول اللہ(ص) نے ولادت کے بعد انھیں منگوایا تو ان کا بوسہ لیا اور فرمایا: میں اپنی امت کے حاضرین و غائبین کو وصیت کرتا ھوں کہ اس بچی کی حرمت کا پاس رکھیں؛ بےشک وہ خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیھا سے مشابھت رکھتی ہے۔[4]
2۔ شریک حیات اور اولاد
شرم و حیا عبداللہ بن جعفر کی راہ میں رکاوٹ تھا اور وہ حضرت علی علیہ السلام کی بیٹی سے شادی کرنے کا ارادہ ظاھر نھیں کرسکتے تھے؛ بالآخر ایک شخص نے عبداللہ کا پیغام حضرت علی علیہ السلام کو پھنچایا اور کھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جعفر بن ابی طالب سے کس قدر محبت کرتے تھے اور ایک روز آپؐ نے جعفر طیار کے بچوں کی طرف دیکھا اور فرمایا: "ھمارے لڑکے ھماری لڑکیوں کے لئے ہیں اور ھماری لڑکیاں ھمارے لڑکوں کے لئے ہیں۔" چنانچہ بھتر یھی ہے کہ آپ اپنی بیٹی زینب (سلام اللہ علیھا) کا نکاح عبداللہ بن جعفر سے کرائیں اور بیٹی کا مھر ان کی والدہ حضرت زھرا (سلام اللہ علیھا) کے مھر کے برابر 470 درھم قرار دیں۔
حضرت علی علیہ السلام نے رشتہ قبول کیا اور یہ رشتہ و نکاح 17 ھجری کو انجام پایا اور بھت جلد عبداللہ بن جعفر، علی (ع) کی دعا سے فراوان مال و دولت کے مالک اور جود و سخا کی بنا پر جواد کریم کے لقب سے مشھور ھوئے۔" حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے شرط رکھی کہ آپ حسین (علیہ السلام) سے شدید محبت کی بنا پر ھر روز آپ کا دیدار کرنے اور سفر کی صورت میں بھائی کے ھمراہ جائیں گی اور عبداللہ نے دونوں شرطیں مان لیں۔[5] خدا نے حضرت زینب (سلام اللہ علیھا) اور عبداللہ کو پانچ اولادیں عطا فرمائیں: چار بیٹے (علی، عون، عباس اور محمد) اور ایک بیٹی (ام کلثوم)۔[ 6]
3۔ فضائل:
خاندان پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و علی علیہ السلام میں پلنے والے تمام مرد و خواتین صاحب فضیلت ہیں اور ھر ایک دوسروں کے لئے نمونہ ہے، ان افراد میں سے ایک زینب کبریٰ ہیں، جنھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و علی علیہ السلام و زھراء سلام اللہ علیھا کی آغوش میں پرورش پائی۔ ان کی فضیلت اس مختصر مقالے میں ذکر کرنا ممکن نھیں، لیکن کچھ فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
1: عالمہ و مفسرہ
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی طرف سے کوفہ، ابن زياد کے دربار نیز دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار عالمانہ کلام و خطبات، سب آپ کی علمی قوت کے ثبوت ہیں۔ آپ نے اپنے والد حضرت علی علیہ السلام اور والدہ حضرت زھرا سلام اللہ علیھا سے احادیث بھی نقل کی ہیں۔[7] علاوہ ازیں والد ماجد امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خلافت کے دور میں کوفی خواتین کے لئے آپ کا درس تفسیر قرآن بھی حضرت زينب سلام اللہ علیھا کی دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔[8] حضرت زينب سلام اللہ علیھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی و زھراء علیھما السلام کی بیٹی ھونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسول (ص) تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت و بیان حدیث کے رتبے پر فائز تھیں۔
چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔[9] امام سجاد علیہ السلام آپ کی علمیت کو بیان کرتے ھوئے فرماتے ہیں: انت عالمہ غیر معلمہ فھمۃ غیر مفھمہ۔
2۔ فصاحت و بلاغت:
حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیھا کی فصاحت و بلاغت کا شاھکار ان کے خطبوں میں نظر آتا ہے، خصوصاً جو خطبہ ابن زیاد کے دربار میں آپ نے دیا، اس سے اس وقت کے لوگ بھی انگشت بہ دنداں ھوئے تھے اور یہ کھتے ھوئے نظر آرھے تھے کہ آج علی ابن ابی طالب علیہ السلام زندہ ھو کر خطبہ دے رھے ہیں۔ آپ فصاحت اور بلاغت میں عرب میں مشھور تھی۔ اسی اثناء میں ایک ماہ و سال دیدہ مرد نے روتے ھوئے کھا: میرے ماں باپ فدا ھوں، ان پر جن کے بوڑھے بھترین بوڑھے، ان کے اطفال بھترین اطفال، ان کی خواتین بھترین خواتین اور ان کی نسل تمام نسلوں سے والاتر و برتر ہے۔[10]
3۔ زھد و عبادت:
حضرت زینب كبریٰ سلام اللہ علیھا راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں کبھی بھی تھجد کو ترک نھيں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اھتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کھلائیں۔[11] آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی رات کو بھی ترک نہ ھوئی۔ فاطمہ بنت الحسین سلام اللہ علیھا کھتی ہیں: شب عاشور پھوپھی زینب سلام اللہ علیھا مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رھیں، نماز و راز و نیاز میں مصروف تھیں اور آپ کے آنسو مسلسل جاری تھے۔[12] خدا کے ساتھ حضرت زینب سلام اللہ علیھا کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ امام حسین علیہ السلام نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ھوئے فرمایا: یا اختي لا تنسيني في نافلة الليل" ترجمہ: میری بھن! نماز شب میں مجھے مت بھولنا۔[13]
4۔ تدبیر اور مدیریت:
کاروان حسینی کی مدیریت و سرپرستی واقعہ عاشورا کے بعد آپ کے ذمے ھی تھی، امام حسین علیہ السلام نے آخری وداع میں اسی صلاحیت اور مدیریت کے پیش نظر اھل حرم کو آپ کے سپرد کیا تھا۔
5۔ شجاعت و حماسہ:
اس بات کی شاھد حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی وہ مقاومت ہے، جو حیوان صفت دشمنوں کے مقابلے میں آپ نے کی تھیں۔ جب قافلہ اسراء کوفہ پھنچا تو تماشائی جمع تھے۔ راوی نقل کرتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ زینب کبریٰ سلام اللہ علیھا اس طرح خطبے دے رھی تھی، گویا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کوفے میں خطبہ دے رھے ھوں۔ آپ خطبہ دیتی جا رھی تھی اور فرماتی تھیں: وائے ھو تم پر، آیا تم لوگ جانتے ھو کہ تم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگر گوشوں کو کس طرح شھید کیا؟ کونسا عھد تم لوگوں نے توڑا اور کن خواتین کو تم لوگ بازاروں میں لے آئے ھو۔؟ کس حرمت کو تم نے توڑ دیا ہے۔؟ نزدیک ہے کہ آسمان لوگوں کے سروں پر پھٹ جائے اور زمین میں شگاف پڑ جائے، پھاڑ ریزہ ریزہ ھو جائیں اور زمین بکھر جائے، تمھیں جو مھلت ملی ہے، اس سے مغرور نہ ھو، چونکہ خدا کو سزا دینے میں جلدی نھیں، انتقام کا وقت آئے گا۔ آپ نے ایسے دندان شکن تاریخی خطبے دیئے کہ روای کھتا ہے: لوگ حیرانی اور پریشانی کے عالم میں ھاتھوں کو دانتوں سے کاٹ رھے تھے، گویا حشر کا سماں ھو۔
روای کھتا ہے: ایک بوڑھا ھاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرتے ھوئے یہ کہہ رھا تھا، آپ کے بزرگان بھترین بزرگان، خواتین بھترین خواتین اور جوان بھترین جوان ہیں، آپ کا فضل بھت عظیم ہے۔
اسی طرح ابن زیاد کے دربار میں اپنا تعارف کراتے ھوئے سیدہ زینب سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں: تمام تعریفیں خداوند متعال کے لئے، جس نے ھمیں اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے شرافت و کرامت سے نوازا، ھمیں ھر طرح کے رجس سے پاک رکھا، تم فاسق و رسوا ھو اور فاسق جھوٹ بولتا ہے۔ جب ابن زیاد نے پوچھا: آپ نے اپنے بھائی کے بارے میں خدا کے برتاو کو کیسے پایا۔؟ علی کی شیر دل بیٹی نے فرمایا:
"ما رائیت الا جمیلا" میں نے جو بھی دیکھا اچھا دیکھا، قیامت کے دن دیکھ لینا کہ کون کامیاب و سرفراز ھوگا اور کون ناکام و بدبخت۔
6۔ صبر و استقامت:
آپ کے صبر و استقامت کو ملاحظہ کرنے کے لئے وھی حوادث و مشکلات کافی ہیں، جو عاشورا کے دن پیش آئے۔ آپ صبر و ایثار کی پیکر تھیں، ایک لطیف روحیہ کے مالک ھونے کے باوجود حریم رسول کا آپ نے بھترین دفاع کیا۔ دوسری طرف بھتر 72 عزیزوں کو کھو چکی ہیں، عزیز افراد کے ابدان کو قطع قطع کیا گیا اور ان کی لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جا رھے تھے۔ اسیروں، بیماروں اور یتیموں کی ذمہ داری بھی آپ پر تھی، ان تمام سختیوں کے باوجود بھائی کے ناتمام کردار کو تکمیل تک پھنچانے میں کوتاھی نھیں کی۔
حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) صبر و استقامت کی وادی میں بےمثل شھسوار تھیں۔ جب بھائی حسین (علیہ السلام) کے خون میں ڈوبے ھوئے جسم کے سامنے پھنچیں تو رخ آسمان کی طرف کرکے عرض کیا: خدایا! اس چھوٹی سی قربانی اور اپنی راہ کے مقتول کو ھم آل رسول (ص) سے قبول فرما۔[14]
ایک محقق کا کھنا ہے کہ: زینب (س) کے القاب میں سے ایک "الراضية بالقدر والقضاء" ہے اور اس مخدَّرہ نے شدائد اور دشواریوں کے سامنے اس طرح سے استقامت کرکے دکھائی کہ اگر ان کا تھوڑا سا حصہ مستحکم پھاڑوں پر وارد ھوتا تو وہ تھس نھس ھو جاتے، لیکن اس مظلومہ نے بےکسی، تنھائی اور غریب الوطنی میں "كالجبل الراسخ..." (مضبوط پھاڑ کی مانند) تمام مصائب کے سامنے استقامت کی۔[15]
آپ نے بارھا امام سجّاد علیہ السلام کو موت کے منہ سے نکالا؛ منجملہ ابن زیاد کے دربار میں، جب امام سجّاد علیہ السلام نے عبیداللہ ابن زياد سے بحث کی تو اس نے آپؑ کے قتل کا حکم دیا۔ اس اثناء میں حضرت زینب (س) نے اپنے ھاتھ بھتیجے کی گردن میں ڈال دیئے اور فرمایا: "جب تک میں زندہ ھوں تم کو، انھیں قتل نھيں کرنے دونگی۔[16]
7۔ مالکہ کرامت:
کرامت ایک خدائی عطیہ ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا: [ولقد کرمنا بنی آدم ۔۔]اسراء۷۰؛ اس قیمتی خدائی عطیہ کی حفاظت اور کم قیمت میں اسے بیچ نہ دینا ان وظائف میں سے ایک ہے، جسے عقل و شرع نے انسان کو ذمہ دار بنایا ہے۔ عاشور کے دن کرامت و شخصیت انسان کی پاسداری اور شجرہ طیبہ کا دفاع انجام پائے، واقعہ کربلا کے بعد دشمن نے کوشش کی کہ کاروان حسینی کی تحقیر کرے اور ان کا مذاق اڑائے، تاکہ ان سے انتقام لے لیں، لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیھا پیامبر انقلاب و عاشورا نے ان کے اس قصد کو ناکام بنا دیا، حقیقی معنوں میں شخصیت و کرامت انسانی کی پاسداری کی اور سپاہ یزید میں بارھا آپ نے یہ اعلان کیا کہ اس واقعہ میں ھم نے عزت و کرامت کے سوا کچھ نھیں دیکھا۔
8۔ حجاب و پاکدامنی
آپ کے حجاب و پاکدامنی کے بارے میں تاریخ میں منقول ہے: جب بھی حضرت زینب سلام اللہ علیھا مسجد النبی (ص) میں اپنے جد امجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرقد انور پر حاضری دینا چاھتیں تو امیرالمؤمنین علیہ السلام حکم دیتے تھے کہ رات کی تاریکی میں جائیں اور حسن و حسین علیھما السلام کو ھدایت کرتے تھے کہ بھن کی معیت میں جائیں۔
چنانچہ ایک بھائی آگے ھوتا تھا، ایک بھائی پیچھے اور حضرت زینب سلام اللہ علیھا درمیان میں ھوتی تھیں۔ ان دو بزرگواروں کو والد بزرگوار کا حکم تھا کہ مرقد النبی (ص) پر لگا ھوا چراغ بھی بجھا دیں، تاکہ نامحرم کی نگاہ قامت ثانی زھراء سلام اللہ علیھا پر نہ پڑے۔[17]
یحیی مازنی کھتے ہیں: میں مدینہ میں طویل عرصے تک امیرالمؤمنین علیہ السلام کا ھمسایہ تھا؛ خدا کی قسم اس عرصے میں، مجھے کبھی بھی حضرت زینب سلام اللہ علیھا نظر نہ آئیں اور نہ ھی ان کی صدا سنائی دی۔[18]
9۔ روای حدیث:
اندیشہ اسلامی کے حفظ و انتقال کے اھم کاموں میں سے ایک نقل روایت ہے اور راوی حدیث کی خاص شرایط ھوتی ہیں، حضرت زینب سلام اللہ علیھا تمام دیگر فضائل کے ساتھ اس فضیلت کی بھی حامل تھیں۔ آپ نے اپنی والدہ گرامی، اپنے بابا اور بھائیوں سے روایات نقل کی ہیں۔ آپ صحابۃ الرسول (ص) تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت و بیان حدیث کے رتبے پر فائز تھیں۔
چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے حضرات معصومین علیھم السلام سے متعدد حدیثیں مختلف موضوعات میں نقل کی ہیں، منجملہ: شیعیان آل رسول (ص) کی منزلت، حب آل محمد، واقعۂ فدک، ھمسایہ، بعثت وغیرہ۔
10۔ مدافع ولایت
آپؑ نے کئی مواقع پر امام سجاد علیہ السلام کی جان بچائی اور دشمنوں کے شر سے اس آفتاب امامت کو غروب ھونے سے بچایا۔ جب امام حسین علیہ السلام نے شھادت سے قبل صدائے استغاثہ بلند کیا تو سید سجاد علیہ السلام بستر بیماری سے اٹھے اور ھاتھ میں تلوار لے کر عصا کے سھارے بابا کی مدد کے لئے خیمے سے نکلے تو امام حسین علیہ السلام نے بھن سے مخاطب ھو کر فرمایا: بھن میرے عزیز کو سنبھالو، کھیں دنیا نسل محمدی سے خالی نہ ھو جائے۔
حمید ابن مسلم روایت کرتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ جب شمر نے سید سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاھا تو زینب بنت علی بیمار کربلا پر گر گئیں اور کھا خدا کی قسم جب تک میں قتل نہ ھو جاوں، میں اسے قتل نھیں ھونے دوں گی۔ جب اسیروں کا قافلہ ابن زیاد کے دربار میں داخل ھوا تو امام سجاد علیہ السلام اور ابن زیاد کے درمیان گفتگو ھوئی تو اس بدبخت نے امام سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاھا تو علی کی شیر دل بیٹی نے سید سجاد علیہ السلام کو اپنے حلقے میں لیا اور اس سے مخاطب ھو کر فرمایا: اے ابن زیاد بس کر، جتنا خون تم نے بھایا ہے، کیا وہ کافی نھیں ہے۔؟ خدا کی قسم میں ان کو قتل نھیں ھونے دوں گی، یھاں تک کہ تو مجھے قتل نہ کرے۔
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی
منابع:
قرآن مجید
1۔ جبران مسعود، الرّائد، ترجمہ رضا انزابی، ط دوم، مشهد، آستان قدس رضوی، 1376، ج 1، ص 924۔
2۔ باقر شریف القرشی، السیده زینب،ص 39/ حسن الهی، زینب كبری عقیله بنی هاشم، تهران، آفرینه، 1375، ص 29 /سیدكاظم ارفع، حضرت زینب (س) سیره عملی اهل بیت، ص 7۔
3۔ ابوالقاسم الدیباجی، زینب الكبری بطلة الحرّیة، ط. الثانیة، بیروت، البلاغ، 1417، ص 15 / سید نورالدین جزائری،وہی ماخذ، ص 44
4۔ ذبیح اللہ محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج 13، ص 41۔
5۔ ابن عساکر، اعلام النساء، ص190۔ ذبیحالله محلاتی، ریاحین الشریعه، ج 3، ص 41و ترجمه زینب کبری، ص 89.
6۔ ابن عساکر، اعلام النسا، ص189
7۔ دلائل الامامة طبری، ج 3. ذبیح الله محلّاتی، ،ص57۔
8۔ نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج 16، ص 210؛ وسایل الشیعه، ج 1، ص 13 و 14 و بحارالانوار، ج 6، ص 107۔
9۔ ذبیح الله محلّاتی، ، ج 3، ص 56و 73۔
10۔ جعفر النقدی، وہی ماخذ، ص 61.
11۔ احمد صادقی اردستانی، وہی ماخذ، ص 106۔
12۔ ذبیح الله محلّاتی، ج 3ص62/ جعفر النقدی،
13۔ سید عبدالحسین دستغیب، زندگانی حضرت زینب، تهران، كاوه، ص 19۔
14۔ محمّد محمّدی اشتهاردی، وہی ماخذ، ص 99۔
15۔ سید علی نقی فیض الاسلام، خاتون دوسرا، ص 185۔
16۔ سید نورالدین جزائری، ص 24۔
17۔ محمّد باقر مجلسی، بحارالانوار، ج 45، ص 117۔
18۔ علی نظری منفرد، قصّه كربلا، ص 371۔
عالمہ غیر معلمہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی زندگانی پر ایک طائرانہ نظر
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 2680