مفسرقرآن کریم اورشیعوں کےمرجع تقلید آیت اللہ جوادی آملی نےاپنی کتاب (امام مھدی علیہ السلام موجود موعود) میں مکتب اھل بیت علیھم السلام میں انتطارکے مفھوم کے بارے میں لکھا ہےکہ انتظارکے حقیقی معنیٰ کی وضاحت کے لیےمتعدد روایات موجود ہیں کہ جن میں سے ایک روایت یہ ہے کہ ابوبصیر حضرت امام صادق علیہ السلام سے اس طرح نقل کرتے ہیں :(لیعدن احدکم لخروج القائم ولو سهما۔ ۔ ۔) بنابریں جو شخص حقیقت میں امام زمانہ علیہ السلام کا منتظرھونا چاھتا ہے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو تیار کرے اگرچہ ایک تیر کو آمادہ کرکے۔
اس روایت میں غوروفکر کرنےمعلوم ھوتا ہے کہ انسان جب تک جھاد اورجنگ کے میدان کا مرد نہ ھو وہ اپنےآپ کو آنحضرت کے سچے اورحقیقی منتظرین کے زمرے میں قرارنھیں دے سکتا ہے اور یہ وھی بلند معنیٰ ہےکہ ماہ مبارک رمضان کی راتوں کی نورانی دعاوں میں جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:(وقتلا فی سبیلک مع ولیک فوفق لنا)۔ جو شخص اپنے آپ کو حضرت ولی عصرعلیہ السلام کےظھورکا منتظرسمجھتا ہےاوران کے ذریعے امورکی اصلاح کی امید رکھتا ہے لیکن خود اھل جھاد نھیں ہے اس نے بیھودہ بات کی ہےاورحقیقت میں وہ منتظرنھیں ہے کیونکہ وہ چاھتا ہے کہ اس راہ میں اسے کسی قسم کی مصیبت اورمشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جبکہ امام زمانہ علیہ السلام کے ظھور کے حقیقی انتظار کا معنی ھرلحاظ سے اپنے آپ کو تیارکرنا ہے۔
بے شک ظھورکےبعد امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف جنگ کریں گے، بنابریں ایسے افراد ان کی مدد کرسکیں گے کہ جو اس میدان کے تجربہ کارھوں گے اوراگرکوئی جنگ کا ماھرنہ ھوا تو وہ بیکار ہے۔ علمی جھاد کے میدان میں قلم اورخطابت کے اسلحہ سے لیس اورعملی میدان میں جنگ وجھاد کے اسلحہ اوراس کے نئے نئے طریقوں کی تعلیم حاصل کرنا حقیقی انتظارکے لیے لازم وضروری ہے۔اب اگر وہ دونوں میدانوں کا مجاھد ھو اورمناسب اسلحہ سے لیس ھو تو دونوں میدانوں کے اجروثواب سے ھمکنار ھوگا۔(طوبی لھم وحسن ماب) ۔ البتہ امام زمانہ علیہ السلام کی کامیابی کا ایک اھم حصہ انسانی معاشرے کی ثقافتی ترقی کے مرھون منت ہے۔
نتیجہ یہ کہ مکتب اھل بیت علیھم السلام میں امام زمانہ علیہ السلام کے ظھورکےانتظارکا عمیق معنیٰ یہ ہے کہ ایک طرف ھدایت کےائمہ کی سنت کی پیروی کرنا ہے اوردوسری جانب اللہ کی راہ میں جھاد کے لیےعلم اورایمان کےاسلحہ سے مسلح ھونا ہے۔
امام باقرعلیہ السلام نے فرمایا:(رحم الله عبدا حبس نفسه علینا! رحم الله عبدا أحیا أمرنا) یہ نورانی کلام ثقافتی میدان میں حقیقی انتظار کے جلوہ کی واضح علامت ہے۔ کیونکہ منتظرانسان کو اس میدان میں اپنے آپ کو الھی اوامر کے دائرے میں قراردینا چاھیے اورقرآن وعترت کے دستورات کی مخالفت نھیں کرنی چاھیے۔: انتظارکی حقیقت یہ ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کا منتظر،معتقد اورعارف اپنی معرفت کی بنا پران کےامرکا احیاء کرتا ہے اوراپنے آپ کو ان کے اوامر کے دائرے میں قراردیتا ہے تاکہ اس کے باطن سے فیض الھی کا چشمہ پھوٹ کراس کے ظاھر میں جلوہ کرے۔
حقیقت انتظارامام زمانہ (عج) کےامرکا احیاء ہے: آیت اللہ جوادی آملی
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1298