حلب کے آزاد ھونے پر ایسا کیا کچھ ھوگیا کہ عرب مغرب اتحادی ممالک اور پاکستان میں اُن کے غلامان، محبان و عاشقان اِتنے تلملا رھے ہیں۔ ایک طرف حلب کے باسی اپنی آزادی کا جشن منا رھے ہیں تو دوسری طرف شکست خوردہ ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی ایک طبقہ فکر سوگ منا رھا ہے۔
واہ کیا جماعت اسلامی ھمدردی اور ھم فکری اُخوت کا پرچار ہے! اپنے ملک میں تیس سال سے جاری دھشت گردی اور اُس سے متاثر ھونے والے ھزاروں خاندانوں کی مالی معاونت کے بینرز اور پوسٹرز تو دُور کی بات، اِن جماعتوں، جمعیتوں اور دفاعی کونسلوں نے کبھی بھی ملک دشمن دھشت گردوں کی کھل کر مذمت نھیں کی، بلکہ متاثرین کی زبانی دلجوئی تک نھیں کی۔
ھاں ایک کام ضرور کیا، وہ یہ کہ ھزاروں محب وطن فوجی جوانوں کی شھادت کو مشکوک ضرور بناتے رھے۔ لگتا ہے مستقبل قریب میں موصل، اَدلب اور رَقہ شھروں کی متوقع آزادی پر بھی ایسی تباھی و بربادی اور چندے صدقات کے پوسٹرز اور بینرز تیار ھوچکے ھوں گے۔ حلب میں قتل عام اور بربریت کا ویسا ھی پروپیگنڈہ، شوروغوغا اور واویلا کیا جا رھا ہے، جیسا کچھ ماہ پھلے مکہ معظمہ پر یمنی حوثیوں کی طرف سے میزائل حملے کا جھوٹا اور بے بنیاد پراپیگنڈہ کیا جاتا رھا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ استعماری سامراجی ممالک و عرب بادشاھتوں نے ملکِ شام اور حلب شھر کا آخر کیوں انتخاب کیا، اِس کے پسِ پردہ اُن کے کون سے گھناؤنے مقاصد اور مکروہ عزائم تھے۔؟
حلب شام کا خوبصورت اور 25 لاکھ آبادی پر مشتمل دمشق کے بعد دوسرا بڑا شھر ہے۔ حلب کا مطلب "سفید" ہے، جس کی وجہ تسمیہ اُس کی مٹی کی سفید رنگت اور علاقے میں موجود سفید سنگ مرمر ہے۔
حلب شھر میں 86 فیصد مسلمان، 12 فیصد عیسائی اور چند سو یھودی آباد ہیں۔ اِس شھر کی خاص بات یہ کہ حلب شھر کے 74 فیصد باسی اھلِ سنت مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ حلب شھر ترکی کی سرحد سے صرف 28 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
وادیءِ حلب آٹھ پھاڑوں کے گھیرے میں 420 مربع کلومیٹر علاقے پر پھیلا ایک خوبصورت علاقہ ہے۔ حلب شھر کے بالکل درمیان میں دریائے قویق گزرتا ہے، جو حلب شھر کی خوبصورتی کو اور دوبالا کر دیتا ہے۔ حلب میں زیتون اور پستہ کے بے شمار باغات ہیں اور زیتون کے تیل سے بنا حلب کا صابن یورپ میں بھت زیادہ مقبول ہے۔ حلب کے صنعتی علاقے کا نام شیخ نجار ہے۔ جس میں دو ھزار سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ جس میں کپڑے، کمبل، دوا سازی، زرعی سامان، سونے کی ڈھلائی، قیمتی پتھروں اور سنگ مرمر کی کٹائی کے سینکڑوں کارخانے اور فیکٹریاں ہیں۔ صرف اگر سونے یعنی گولڈ کی بات کریں تو ایک سال میں تقریباً 9 ٹن سونے کا بزنس ھوتا ہے۔ صرف یھی شھر ملک کو 5 بلین ڈالر یعنی پانچ کھرب روپے سے زیادہ کا بزنس دیتا ہے اور پورے ملک کی پچاس فیصد مینو فیکچرنگ روزگار صرف یھی شھر فراھم کرتا ہے۔ دُنیا کا سب سے بڑا 13 کلومیٹر طویل، چھتا ھوا بازار بھی حلب میں واقع ہے۔ اِتنی بڑی اور طویل مارکیٹ کا ھونا واقعی بھت زیادہ تجارت اور کاروبار کی نشاندھی کرتا ہے۔
شام اور شامی لوگوں کی بدقسمتی کہ دُنیا کے چند مقتدر و طاقتور ممالک اور ایجنسیوں نے اپنے زُعم میں عراق و یمن کے ساتھ شام کے لوگوں کا بھی سیاہ و تاریک مقدر لکھ کر داعش، القاعدہ اور اِس جیسے درجنوں لشکروں اور جتھوں کے خونی ھاتھوں میں تھما کر شام میں اُتار دیا۔ دُنیا بھر سے تربیت یافتہ جنگجوؤں کی بھرتی اور روانگی کو تیز تر کر دیا گیا۔
افغانستان اور پاکستان میں دھشت گردی کے محاذوں کو کافی حد تک بند کرکے ساری توجہ شام، عراق اور یمن پر مرکوز کر دی گئی۔ شام میں دُنیا بھر سے آئے شدت پسند درجنوں لشکروں کو ضم کرکے "باغی شامی فوج" کا نام دے کر مغربی اتحادیوں نے تربیت اور اسلحہ فراھم کرنا شروع کر دیا، فنڈنگ عرب اتحاد کے حصے میں آئی۔ ترکی نے دُنیا بھر سے آنے والے جنگجوؤں کو شام میں پھنچانے اور زخمی جنگجوؤں کے علاج معالجے کا ذمہ لے لیا۔ اسرائیل نے بھی اِس کارِ شر میں حسبِ توفیق مدد کی حامی بھر لی۔
اکتوبر 2011ء میں غیر ملکی سازش اور منصوبہ بندی سے اندرونِ ملک منتخب جمھوری صدر بشار الاسد کے خلاف مظاھروں کا آغاز سب سے پھلے اِسی صوبے حلب میں کرایا گیا، جس کی سرحد ترکی سے ملتی ہے۔ حلب کی عوام نے حکومت مخالف مظاھروں کا جواب ایک بھرپور ریلی کی شکل میں دیا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اِس ریلی میں حکومت کی حمایت میں پندرہ لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔
کچھ ماہ بعد دشمن اپنی اصلیت پر اُتر آیا، عوام کو مارنے اور حکومتی و سکیورٹی اداروں کو خوفزدہ کرنے کیلئے خودکش کار بم دھماکوں کا آغاز کر دیا۔
دُنیا بھر سے کرائے پر بھرتی کئے گئے 6 سے 7 ھزار شدت پسندوں کو حلب کی جانب بھیج کر مختلف علاقوں میں لڑائی کا آغاز کر دیا گیا۔ سب سے زیادہ نشانہ پولیس تھانوں، سکیورٹی اداروں اور عوامی مقامات کو بنایا گیا۔ شامی باغی گروہ نے مقامی لوگوں کے گھروں پرقبضہ کرکے اُن کو بنکر اور مورچوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔ فوج اور پولیس سے مقابلے میں بے گناہ شھریوں کو ڈھال بنایا جاتا، جس سے سکیورٹی اداروں کو مشکلات کا سامنا رھا۔ شھر بھر میں کار بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور لوٹ مار کا بازار گرم ھوگیا۔ حلب پر مکمل کنڑول حاصل کرنے کیلئے فری سیرین آرمی اور سیرین عرب آرمی نے ظلم و ستم کے پھاڑ توڑ دیئے۔ اِس فنڈڈ اور برانڈڈ لڑائی میں حلب کے ھزاروں برس پرانے تاریخی آثارِ قدیمہ کو تباہ کر دیا گیا۔
جس طرح داعش نے موصل میں حضرت دانیال نبی، حضرت یونس نبی اور حضرت عزیر نبی علیھما السلام کے مزارات بم دھماکوں سے اُڑا دیئے تھے، اُسی طرح یھاں پر بھی اُن کے پیروکاروں نے حلب کی تاریخی جامع مسجد کو آگ لگا دی اور کئی عیسائی عبادت گاھوں کو بھی جلا دیا گیا۔ ’’اسلامک فرنٹ‘‘ نامی تنظیم نے تاریخی حلب قلعہ، حلب میوزیم، کئی مساجد اور کلیساؤں کے تباہ کرنے کو عالمی میڈیا پر خود تسلیم کیا۔
یہ سوال تو بنتا ہے کہ جب حلب میں بربریت عروج پر تھی اور لوگوں کو باغیوں کا ساتھ نہ دینے پر کنوؤں میں پھینکا جا رھا تھا، گولیاں ماری جا رھی تھی، ذبح کیا جا رھا تھا اور دریائے قویق میں ھاتھ پاؤں باندھ کر دریا بُرد کیا جا رھا تھا تو کیا اُس وقت جماعت اسلامی و دیگرجماعتوں نے چپ کا روزہ رکھا ھوا تھا اور پوسٹ پیڈ کالم نگاروں کے قلم کی روشنائی ختم ھوگئی تھی؟
جب 29 اپریل 2013ء کو لیوک موگل سن نے نیویارک ٹائمز میں اپنے آرٹیکل "The River Martyrs"میں لکھا تھا کہ حلب شھر پر قبضے میں 15 ھزار شھری تہہ تیغ کر دیئے گئے، جن میں ڈیڑھ ھزار وہ معصوم بچے مار دیئے گئے، جن کی عمر پانچ سال سے بھی کم تھی تو اُس وقت طیب اردگان اور پاکستانی ھمدردگان کھاں تھے۔؟
وہ پبلک پارک اور باغ جو ’’بوستانِ القصر‘‘ کے نام سے جانا پھچانا جاتا تھا، جب قبرستان میں تبدیل ھوکر ’’باغِ شھداء‘‘ بن گیا تو حلب پر غاصبوں کے حامی کون سے کنٹریکٹ کی تکمیل میں مصروف تھے۔؟
جب حلب کے مردوں اور لڑکوں کی روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی تشدد زدہ لاشیں دریائے قویق میں بھانے پر اِس دریا کا نام تبدیل کرکے ’’دریائے شھداء‘‘ رکھا گیا تو جماعتی پرچارک کون سا اور پراجیکٹ سائن کر رھے تھے۔؟
جب 15 مارچ 2013ء کو انگلینڈ کے اخبار ڈیلی سٹار نے یہ خبر دی تھی کہ اِس بیرونی یلغار میں حلب کی ایک سو سے زائد فیکٹریوں میں اِس طرح سے لوٹ مار کی گئی جیسے مالِ غنیمت لوٹا جاتا ہے اور اُن فیکٹریوں کا قیمتی سامان اُسی طرح سیدھا ترکی بھیج دیا گیا، جس طرح شام کا لوٹا ھوا تیل ترکی کو بھیجا جاتا رھا ہے؛ اب حلب کے مونس و غمخوار اُس وقت کھاں خوابِ خرگوش کے مزے لے رھے تھے؟
جب ظلم و ستم کی تاریک آندھی سے بچ کر شامی عربی لوگ نام نھاد عرب ممالک میں پناہ نہ ملنے کی وجہ سے یورپی ممالک کا تکلیف دہ اور پرُخطر سفر کر رھے تھے اور ایلان کردی جیسے معصوم اور پھول سے بچے، کشتیاں اُلٹنے سے یخ، ٹھنڈی اور بے رحم موجوں کا نشانہ بن رھے تھے؛ اُس وقت یہ مذکورہ انسانی حقوق کے علمبردار کون سے اجلاسوں اور میٹنگوں میں مصروف تھے۔؟
شام نے ھر محاذ پر درانداز اور جارح بیرونی دھشت گردوں کا مقابلہ جاری رکھا۔ جب شام کو بین الاقوامی سازش اور اُن کے عالمی نام نھاد سھولت کاروں کا بخوبی علم ھوا تو اُس نے بھی اپنے قریبی دوست ممالک روس، ایران اور لبنان سے مدد کیلئے باضابطہ رابطہ کیا۔ شام کی سرکاری درخواست پر ایران، روس اور لبنان کے رضاکار دستوں اور فوجی مشیروں کو شام میں تعنیات کیا گیا۔
صرف چار ملکی اتحادی فوج اور رضاکاروں کا مغربی و عرب اتحادی داعش اور باغی لشکروں کے ساتھ بھرپور لڑائی کا آغاز ھوا۔ شام پر مسلط کردہ جنگ میں اھم اور کلیدی کردار روسی فضائیہ نے سرانجام دیا۔ بالآخر جولائی 2016ء میں حلب میں موجود شر پسندوں اور اِنتھاء پسندوں کی آخری سپلائی لائن کو کاٹ دیا گیا۔ پانچ ماہ تک عالمی دھشت گردوں نے سپلائی لائن کی بحالی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن بے سود۔ جب دشمن کو اپنی شکست واضح نظر آنے لگی تو شرپسندوں کے پالن کاروں اور سھولت کاروں نے درمیان میں آکر دھشت گردوں کو محفوظ راستہ دینے کیلئے مذاکرات کئے۔
بین الاقوامی معاھدے کے تحت ایک نھیں دو نھیں بلکہ 300 خصوصی بسوں کا انتظام کرکے نہ صرف محفوظ راستہ دیا گیا بلکہ دھشت گردوں کی خواھش پر شام کے شھر اَدلب پھنچا دیا گیا۔ اگر شامی اتحاد چاھتا تو ھزاروں عوام کے ھزاروں قاتل دھشت گردوں کا خاتمہ کرسکتا تھا، لیکن شامی اتحاد نے مسلط کردہ جنگ کو بھی اسلامی اصولوں سے لڑا اور اپنے اَزلی دشمن کو اپنے ھی مقبوضہ شھر ادلب باحفاظت جانے دیا۔ اِس طرح 16 دسمبر 2016ء کو حلب شھر کو جدید اور مھذب دُنیا کے وحشی اور غیر مھذب غاصبوں، لٹیروں اور حملہ آوروں سے آزاد کرا لیا گیا۔
حلب کی جنگ کوئی عام جنگ نھیں تھی بلکہ بھت بڑی جنگ تھی۔ اِس لئے تو اِسے ’’جنگوں کی ماں‘‘ کا نام دیا جا رھا ہے اور چار برس پر محیط اِس شھر کا محاصرہ جو شامی فوجیوں اور رضاکاروں نے کئے رکھا، کو سب سے طویل جنگی محاصرے کا نام دیا جا رھا ہے۔
حلب پر واویلا اور شور و غوغا غاصبوں اور چوروں کی طرف سے اِس لئے کیا جا رھا ہے کہ حلب کی آزادی سے تخلیق کاروں، سھولت کاروں اور حملہ آوروں کو تین محاذوں پر شکست ھوئی ہے۔
ایک تو یہ کہ ترکی سرحدی شامی صوبہ حلب میں 40 ھزار شدت پسندوں کے ھونے کے باوجود عرب مغرب اتحاد کی شکست کا مطلب اب شام میں زیادہ دیر ٹھہرنے کے اِمکان ختم ھوگئے۔
دوسرا عرب مغرب اتحاد حلب کو نوفلائی زون بنانے کا خواب دیکھ رھا تھا، وہ بھی شرمندہءِ تعبیر نہ ھوسکا بلکہ ڈراؤنا خواب ثابت ھوا۔
تیسرا اور بڑا مقصد اسرائیلی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے شامی فوج اور لبنانی حزب اللہ کو کمزور کرنا اور ایران کو تنھا کرکے باغی گروھوں اور لشکروں کیلئے ایک خود مختار علاقے کے قیام کی کوششیں تھیں، جو بارآور ثابت نہ ھوسکیں۔
واضح سی بات ہے کہ حلب کے محاذ پر شکستِ فاش کی خفت، ھزیمت اور شرمندگی سے بچنے کیلئے لٹیروں، غاصبوں اور چوروں کے پاس شور مچانے کے علاوہ کچھ بھی تو نھیں بچا۔
تحریر: طاھر عبداللہ
حلب کی آزادی، چور مچائے شور
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1430