www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

283441
اھل مغرب کے ذرائع ابلاغ داعش کو بھت جلاد، بھادر بنا کر پیش کرتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو داعش سے خوفزدہ کیا جائے۔ ابھی حال ھی میں انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس نے گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں بتایا ہے کہ اس وقت دنیا کا امیر ترین دھشت گرد گروہ داعش ہے اور وہ ساٹھ سے اسی لاکھ افراد کو کنٹرول کرتا ہے، اس کے پاس تیس سے پچاس ھزار تک جنگجو موجود ہیں۔ ساٹھ سے اسی لاکھ افراد کو کنٹرول کرنے سے مراد یہ ہے کہ جن قصبوں اور شھروں پر اس کا قبضہ ہے، وھاں آبادی کی کل تعداد اتنی ہے۔
تاھم اس وقت تک عراق کے کئی ایک قصبے اور موصل شھر کا ایک حصہ داعشیوں سے آزاد ھوچکا ہے، اس طرح سے رپورٹ میں بتائی گئی یہ تعداد ایک سال قبل کی صورت حال پر منطبق ھوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میدان جنگ میں یہ ’’بھادر‘‘ پرلے درجے کے بزدل ثابت ھوئے ہیں۔ خاص طور پر ان کی قیادت جب بھی کوئی خطرہ محسوس کرتی ہے تو فرار کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ موصل کا جب عراقی فوج اور عوامی رضاکار فوج نے محاصرہ کیا تو داعش کے کمانڈروں کے فرار کی خبریں آنا شروع ھوئیں۔
ابوبکر بغدادی اپنی بیویوں کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ فرار کرتا رھتا ہے اور اب موصل سے بھی اس کے فرار کی خبریں آ رھی ہیں بلکہ شاید اسے فرار کروایا جا رھا ہے۔ وھی لوگ جو ان سے مسلمانوں کوڈراتے رھتے ہیں، ان کی حسب ضرورت حفاظت کی ’’ذمہ داری‘‘ بھی ادا کرتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ یہ گروہ امیر ترین کیسے بن گیا اور آج اس کے پاس دو ارب ڈالر کی خطیر رقم کیسے جمع ھوگئی۔ کون ہے جو داعش کا سمگل کیا ھوا تیل خریدتا ہے اور کون ہے جو تیل نکالنے اور پھر اسے منتقل کرنے کے لئے وسائل فراھم کرتا ہے۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ شام اور عراق کے علاقوں سے تیل ترکی کے راستے سے گزر کر اسرائیل اور پھر یورپ کی مارکیٹوں میں کیسے پھنچتا ہے۔
یہ ’’بھادر‘‘شھروں میں بم بلاسٹ کرتے ہیں، ھسپتالوں پر حملے کرتے ہیں، قبروں اور مزاروں کو اکھاڑتے ہیں، ریستورانوں اور ھوٹلوں پر دھشتگردانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ گذشتہ روز کربلا سے پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک پرامن شھر حلہ پر کربلا سے آنے والے خالی ھاتھ نھتے زائرین کو ٹرک بم کے ذریعے سے دھشت گردی کا نشانہ بنانا، ان درندوں کی’’بھادری‘‘ کا ایک اور ثبوت ہے۔
یاد رھے کہ کربلا میں محتاط اندازے کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے چھلم کے موقع پر تقریباً تین کروڑ سے زیادہ زائرین موجود تھے۔ ان میں ھندوستان، پاکستان، ایران، افغانستان، قطر، کویت، سعودی عرب، شمالی افریقہ، بحرین، متحدہ عرب امارات، ترکی، مصر، یورپ ، آسٹریلیا اور باقی دنیا سے گئے ھوئے زائرین شامل تھے۔ ان زائرین میں صرف شیعہ ھی نہ تھے بلکہ اھل سنت کی ایک کثیر تعداد بھی موجود تھی، کربلا اور نجف سے سوشل میڈیا پر آنے والی تصویریں اس بات کی بھی شھادت دیتی ہیں کہ ان زائرین میں غیر مسلم بھی شامل تھے۔ ھم نے عیسائی، سکھ، ھندو اور دیگر ادیان کے مذھبی راھنماؤں کو امام حسین علیہ السلام کے حضور اس موقع پر محبت کا خراج دیتے ھوئے دیکھا ہے۔
صرف ایران سے عراق کے لئے جو ویزے جاری کئے گئے ان کی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ ہے۔ پاکستان سے تقریباً 50 ھزار دوھرا ویزا صرف ایرانی سفارتخانے نے جاری کیا۔ ان تمام زائرین کی حفاظت اور خدمت جس انداز سے عراقی عوام اور حکومت نے کی ہے، لفظوں میں نہ اسے خراج تحسین پیش کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کی عکاسی کی جاسکتی ہے۔
داعش نے پھلے ھی چھلم شھدائے کربلا کے موقع پر دھشتگردانہ حملے کی دھمکی دی تھی، لیکن عراقی حکام کا کھنا ہے کہ انھوں نے داعشی تکفیریوں کے شدت پسندوں کی ایک کارروائی اس وقت ناکام بنا دی، جب انھوں نے اربعین کے موقع پر کربلا کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تھی۔ ان میں چھ خودکش بمبار مغربی قصبے عین تمر میں داخل ھوئے تھے۔ ان میں سے پانچ کو گولی مار کر ھلاک کر دیا گیا تھا، جبکہ چھٹے خودکش بمبار نے خود کو اڑا دیا تھا۔ جس سے آٹھ شھری جاں بحق ھوگئے تھے۔ اس موقع پر داعش کی دیگر تمام کوششوں کو بھی ناکام بنا دیا گیا اور جب چھلم کا دن کامیابی سے پرامن طور پر گزر گیا تو اپنے گھروں اور ملکوں کو لوٹتے ھوئے وحشی داعشیوں نے حلہ میں مذکورہ کارروائی کی ہے۔
داعش کی خبر رساں ایجنسی عماق نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ھوئے کھا ہے کہ انھوں نے اس حملے میں 200 کے قریب افراد کو ھلاک اور زخمی کیا ہے۔ داعشیوں اور ان کے سرپرستوں کو معلوم ھونا چاھیے کہ وہ لوگ جو کربلا کے شھیدوں کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے جاتے ہیں، وہ شھادتوں اور شھیدوں سے قلبی نسبت رکھتے ہیں۔ انھیں ایسے حملوں کے ذریعے شھداء سے اظھار مودت و محبت سے روکا نھیں جاسکتا۔
حرم امام حسین علیہ السلام میں زیارت کے لئے جانے والے قافلوں پر پھلے بھی بھت سے حملے کئے جاچکے ہیں، بھت سے زائرین شھید کئے جا چکے ہیں، سامرہ اور کاظمین، نجف اور کربلا، کئی مرتبہ خون میں نھا چکے ہیں، لیکن دنیا جانتی ہے کہ عاشقان شھادت کے قافلوں کی تعداد کم نھیں ھوئی بلکہ روز بروز بڑھتی چلی جا رھی ہے۔
آپ گذشتہ دس برس ھی کو سامنے رکھیں اور نجف و کربلا کے راھیوں کو شمار کرنا شروع کریں۔ اس راستے کے راھی جانتے ہیں کہ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوبوں سے محبت خود آنحضرتؐ سے محبت کا فطری اور ناگزیر تقاضا ہے۔
کسی بھی ملک سے جب کوئی شخص یا قافلہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے روانہ ھوتا ہے تو آج کے ذرائع ابلاغ کی وجہ سے اس کے علم میں ہے کہ عراق میں ان دنوں کیا گزر رھی ہے۔ داعش اور اس جیسے دیگر گروھوں کی دن رات کی سفاکانہ کارروائیوں کی خبریں ان کے کانوں سے ٹکراتی رھتی ہیں اور سوشل میڈیا پر وہ خاک و خون میں لوٹ جانے والے مظلوموں کی فلمیں اور تصویریں دیکھتے رھتے ہیں، جو عراق کے مختلف شھروں میں داعشی تکفیریوں کے ھولناک حملوں کا نشانہ بنتے رھتے ہیں۔ کون نھیں جانتا کہ اپنا مال دنیا صرف کرکے، اپنا آرام تج کرکے، خوف اور وحشت کی فضاؤں کے سامنے مسکراتے ھوئے عاشقان کربلا دیوانہ وار اپنے گھروں سے نکلتے ہیں، انھیں بارود سے نھیں ڈرایا جاسکتا۔ دنیا گواہ ہے کہ جس بستی اور جس قصبے میں کسی زائر کربلا کی لاش واپس آتی ہے، وھاں سے اگلے برس لوگ یوں نکلتے ہیں کہ فیض کی یہ بات حرف بہ حرف پوری ھو جاتی ہے:
قتل گاھوں سے چن کے ھمارے علَم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
تحریر: ثاقب اکبر

Add comment


Security code
Refresh