www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

400585
نجف سے کربلاء پیدل چلنے والے زائرین کی خدمت کا سلسلہ جاری تھا۔ ایک رپورٹر نے عراقی خادم سے دریافت کیا کہ جب یہ کروڑوں لوگ اپنے اپنے وطن لوٹ جاتے ہیں تو آپ کو کیسا لگتا ہے۔
دن رات زواروں کی خدمت کرنے والے شخص نے کھا جب یہ عشاق یھاں سے روانہ ھو جاتے ہیں تو گویا ھماری روح ھی نکل جاتی ہے، ایک طویل انتظار کا سلسلہ شروع ھو جاتا کہ کب اربعین کے دن آئیں گے اور ھم زائرین کی خدمت کریں گے۔
یہ جذبہ صرف ایک موکب پر موجود عراقی کا نھیں ہے بلکہ تمام خادمین کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ یہ صدام کے دور حکومت کے خاتمہ کے دنوں کی بات ہے کہ جونھی کوفہ، بصرہ اور بغداد کے اھل تشیع نے میڈیا کے ذریعے سے یہ جانا کہ صدام کی حکومت کا خاتمہ ھوگیا ہے تو انھی دنوں ایام عزاء تھے۔ عزاداروں نے پیدل ھی کربلاء کا رخ کیا، اس سے قبل خفیہ راستوں سے کربلاء کی طرف جاتے تھے، کیونکہ صدام کے دور حکومت میں ھزاروں اھل تشیع کو شھید کیا گیا۔ یھی وجہ تھی کہ کربلاء کے لئے بڑی شاھراوں کی بجائے خفیہ راستوں سے جایا جاتا تھا۔ اس سفر کے دوران اھل تشیع راستوں پر رات میں سفر کرنے والوں کے لئے چراغ سے روشنی اور زمین پر تیر کے نشان سے رھنمائی کرتے تھے، اگر کوئی مسافر راہ مل جاتا تو اس کی گھر میں خدمت کی جاتی۔
صدام کی حکومت کے خاتمہ تک یہ سلسلہ یونھی جاری رھا، لیکن ظالمانہ حکومت کا تختہ الٹا تو اھل تشیع بھی پیدل نجف، بغداد، بصرہ اور کوفہ سے روانہ ھوئے۔ پیدل چلنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ اس موقع پر موجود عالمی میڈیا نے دکھایا کہ صدام کے جانے کے بعد یہ لوگ کس قدر بیتابی سے پیدل کربلاء کی طرف گامزن ہیں۔ پیدل چلنے والوں کیلئے عراقیوں نے خدمت کیلئے چائے، پانی اور کھانوں کا انتظام کیا، رفتہ رفتہ یہ سلسلہ جاری رھا۔ اربعین اور عاشور کے دنوں میں پیدل کربلاء کی طرف سفر میں زائرین کی تعداد بڑھنے لگی اور اس بات کو دنیا نے میڈیا ذریعے سے جانا، یہ وھی میڈیا جو اب کروڑوں زائرین کا پیدل سفر سکھانے قاصر ہے، لیکن اب کی بار گذشتہ سال سے زیادہ زائرین نے شرکت کی اور اگلے سالوں میں یہ تعداد اس سے بھی زیادہ بڑھ جائے گی۔
سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ کربلا کی طرف سفر کا آغاز کس زائر نے کیا، جبکہ آئمہ معصومین (ع) کے فرامین کے مطابق اس کی اھمیت بھی بیان کی گئی ہے۔ معروف اھلسنت محقق محمد عامر حسینی لکھتے ہیں کہ 20 صفر المظفر 61ھ کو جابر بن عبداللہ الانصاری کی کربلا آمد اور وھاں پہ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت والے واقعے کو چھپایا گیا اور یہ ظاھر کرنے کی کوشش بھی ہے کہ اھل بیت اطھارعلیھم السلام کا سیاسی کیمپ جسے بجا طور پہ کبار صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین کے ایک بھت بڑے دھارے کی مدد حاصل تھی، اسے ایک اقلیتی ٹولہ بناکر دکھایا جائے اور قیام حسین کے بعد پیدا ھونے والے ردعمل کو بھی ھلکا سا ارتعاش بناکر دکھایا جائے۔
جابر بن عبداللہ الانصاری کی کربلا آمد کے بارے عطیہ بن سعد بن جنادہ کوفی روایت کرتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ الانصاری نے فرات پہ پھنچ کر اچھی طرح سے غسل کیا، پھر بازار سے جا کر نئے کپڑے خریدے اور قبر امام حسین علیہ السلام کا رخ کیا اور اس دوران آپ نے ذکر حسین جاری رکھا اور جب یہ قبر امام حسین علیہ السلام پہ پھنچے تو انھوں نے اپنے آپ کو قبر امام پہ گرا دیا۔
قبر کو اپنے گالوں سے مس کیا اور اتنا روئے کہ غش کر گئے۔ جب اٹھے تو انھوں نے قبر پہ کھڑے ھوکر کچھ یوں کھا بے شک میں گواھی دیتا ھوں کہ آپ خاتم النبین کے بیٹے ہیں اور دو وصیت والے کے بیٹے ہیں۔ آپ سلیل ھدایت ہیں اور جن کو کساء میں چھپایا ان میں آپ کا نمبر پانچواں ہے، آپ سید النقبا کے بیٹے ہیں اور عورتوں کی سردار فاطمۃ الزھراسلام اللہ علیھا کے بیٹے ہیں۔ آپ کی حیات طیب، آپ کی موت طیب اور میں گواھی دیتا ھوں آپ پہ جو گزرا، وہ ویسے ھی ہے جیسے آپ کے بھائی ابن زکریا پہ گزرا تھا۔
جابر بن عبداللہ الانصاری کی 20 صفرالمظفر 61ھ کو قبر امام حسین رضی اللہ عنہ حاضری کے بعد سے مسلم سماج کے اندر سے ھر 20 صفرالمظفر کو کربلا حاضری کی ایک روایت شروع ھوئی اور آج تک یہ جاری و ساری ہے اور اسے قریب قریب سبھی مذاھب کے ماننے والوں نے اس روایت کو شرف قبولیت بخشا ہے، یہ ایک عالمی فیسٹویل بن گیا ہے اور یہ انسانیت سے محبت اور ظلم کے خلاف تجدید عھد کرنے والا ایونٹ بن گیا ہے۔
بے شک اھل سنت اور اھل تشیع کے نزدیک 20 صفر المظفر یعنی اربعین کی ایک مذھبی حیثیت اور تعبیر ہے، لیکن عالمی سطح پہ اس کی ایک عمومی اور مطلق اھمیت بن گئی ہے اور یہ امام حسین علیہ السلام کے عالمی استعارہ بن جانے سے جڑی ہے۔
30 ھزار کی لشکر یزید کی فوج کے سامنے 72 افراد کی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مزاحمت کی یاد بن جانے والا یہ ایونٹ ان سب شھیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے والا واقعہ بن چکا ہے اور اس دن کو زندہ کرنے کا کریڈٹ جابر بن عبداللہ الانصاری اور عطیہ بن سعد بن جنادہ کوفی کو جاتا ہے۔ عطیہ نے جبر و ظلم کے خلاف تاریخی مزاحمت کو اتھاس کے پنوں پہ محفوظ رکھنے کی بھت بڑی قیمت ادا کی۔ اسے کوفہ سے جلاوطن ھونا پڑا، پھر اس نے فارس میں محمد بن قاسم ثقفی کے ھاتھوں بڑا تشدد سھا اور سو کوڑے کھائے، خراسان میں جلاوطنی کاٹی اور پھر وھاں سے بھی روپوشی کی زندگی گزاری اور 61ھ کے بعد سے مسلسل اس نے بنو امیہ کے خلاف زیر زمین لڑائی کی، وہ بیک وقت ایک مجاھد آزادی بھی تھے اور ساتھ ساتھ وہ مظلوموں کی تاریخ کے شاھد اور گواہ بھی تھے۔
کروڑوں زائرین کی خدمت انجام دینے اور اس عظیم سفر کا آغاز کرنے والے صحابی جابر بن عبداللہ الانصاری اور سفر زیارت کی روایت کو زندہ کرنے پر پر دنیا بھر کے عاشقین امام عراقیوں کے ساتھ ساتھ جابر بن عبداللہ الانصاری اور عطیہ بن سعد بن جنادہ کوفی کا شکریہ ان الفاظ سے کرتے ہیں۔
تم شریف لوگوں میں سے ھو
تم کریم لوگوں میں سے ھو
امام حسین کی خدمت و محبت کیلئے
جو کچھ ہے سب لٹا رھے ھو
پروردگار برکت ڈالے
تمھاری نعمتوں میں اضافہ کرے
ھم آپ کے شکر گزرا ہیں
ان تمام سخاوتوں میں
ان قربانیوں پر
جو امام کی راہ میں پرخلوص ہیں
تحریر: توقیر ساجد

Add comment


Security code
Refresh