"اربعین" کا لفظ عربی زبان میں چالیس کے عدد کے لئے بولا جاتا ہے. اسلامی کلچر میں اس لفظ کو قرآن و احادیث کی روشنی میں مختلف پہلو خصوصا اخلاقی ، تربیتی اور عرفانی اعتبار سے بہت اہمیت حاصل ہے جن کا آنے والی سطور اختصار کے ساته ذکر کیا جاے گا. شیعہ کلچر میں ان امور کے ساته ساته امام حسین علیہ السلام کے اربعین کے عنوان سے بهی اس لفظ کو مزید اھمیت اور عظمت کی نگاہ سے دیکها جاتا ہے. گذشتہ چند سالوں سے اربعین حسینی کے موقع پر کربلاے معلی میں ایک بہت بڑی تعداد میں مومنین و عاشقان حسین ابن علی علیہ السلام کے اکٹها ھونے نے اربعین کے لفظ سے دنیا کی دیگر قوموں کو بهی آشنا کر دیا ہے.
امید ہے امام حسین علیہ السلام کی یاد کو محرم و عاشور سے اربعین تک اس قدر مفید و هدف مند طریقے سے منایا جائے کہ لوگوں کی ظاهری و معمولی آشنائی ایک عمیق شناخت و معرفت میں تبدیل ھو جائے.
اربعین قرآن کی نظر میں
قرآن میں اربعین کا ذکر چند پہلو سے آیا ہے؛
1- حضرت موسی علیہ السلام کی خصوصی تعلیم و تربیت
قرآن نے دو جدا سوروں کی دو آیات میں حضرت موسی علیہ السلام کی چالیس روزہ تعلیمی و تربیتی میعاد کا ذکر فرمایا ہے.
﴿ وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ ﴾(سورہ بقرة: آیت51)
اور یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے موسی سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا پهر تم نے موسی کے جانے بعد بچهڑے کو اپنا خدا بنا لیا در حالیکہ تم ظالم تهے.
وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً( سورہ اعراف 142)
اور ہم نے موسی سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور اس کو مزید دس دن کے ذریعے کامل کیا اس طرح چالیس دن کی میقات پوری ھو گئی.
حضرت موسی علیہ السلام کی یہ وعدہ گاہ کوہ طور ہے جہاں آپ کو پرورردگا کی طرف سے چالیس شب و روز کے لئے بلایا گیا جو فقط تورات دینے کے لئے نہیں تها ورنہ یہ امر ایک دن میں بهی انجام پا سکتا تها، خاص کر ان آیت مبارکہ میں چالیس شبوں(اربعین لیلہ) کا ذکر ہے جبکی حضرت موسی علیہ السلام چالیس راتوں کی طرح چالیس دن کے لئے بهی بلائے گئے تهے اور کوئ امر اگر رات دن ملا کر انجام دیا جاتا ہے تو اس کے لئے دن کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے چالیس دن کا سفر یا چالیس دن کا کورس. رات کا لفظ استعمال کئے جانے کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ رات کا وقت انسان کے تعقل و تفکر، روحانی، معنوی و تعلیمی تربیت اور راه بندگی کو طے کرنے کے لئے دن سے زیادہ کارگر و مفید ثابت ھوتا ہے.
إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا (سورہ مزمل، آیت6)
بیشک رات کا اٹهنا نفس کی خواهشات کو پامال کرتا ہے اور ذکر پروردگار کے لئے زیادہ مناسب ہے.
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی طرف منسوب یہ شعر ہے؛
بقَدْرِ الكدِّ تُكتَسَبُ المَعَــالي
ومَنْ طَلبَ العُلا سَهِـرَ اللّيالي
جس قدر کوشش کی جائے اسی مقدار میں انسان کو بلندیاں حا ل ھوتی ہیں،
جو کمالات کی بلندی چاھتا ہے وہ راتوں کو بیداری میں گزارتا ہے.
بنی اسرائیل کی آزمائش
جناب موسی علیہ السلام کی میعاد پہلے تیس دن بیان کی گئ پہر اس میں دس دن بڑها کر چالیس دن کر دیا گیا:
وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً (سورہ اعراف 142)
اس تبدیلی کی وجہ ایک تو جناب موسی علیہ السلام کا چالیس دن کا تعلیمی و تربیتی کورس پورا کرنا تها جیسا کہ کا سورہ بقرہ کی آیت میں چالیس شب کا ذکر بهی ہوا ہے لیکن دس دن بڑها کر میعاد کو تیس سے چالیس دن کرنے کا ایک دوسرا مقصد بنی اسرائیل کا امتحان لینا بهی تها. الہی رهبر حضرت موسی علیہ السلام کی چالیس روزہ غیبت میں بنی اسرائیل نے بچهڑے کی پرستش شروع کر دی اور آپ کے وصی جناب هارون علیہ السلام کو تنها چهوڑ دیا جسے قرآن نے بعد میں آنے والی قوموں خصوصا مسلمانوں کے لئےایک بڑی تاریخی عبرت کے طور پر پیش کیا ہے کہ اگر الہی رھبروں کو چهوڑ دیا جاے تو لوگ سامری جیسے فریب کاروں کا شکار ھو جاتے ہیں، جس کی مثال تاریخ میں بار بار ملتی رھی خصوصا رسول اللہ ﴿ص﴾ کے بعد، اسی لئے رسول اللہ ﴿ص﴾ نے خود کو حضرت موسی علیہ السلام اور امیر المومنین کو حضرت هارون سے تشبیہ دی تهی؛
ألا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى ، إلا أنه ليس نبي بعدي (صحیح بخاری، ج5، 24)
تاریخ کی ان عبرتوں سے استفادہ نہ کرتے ہوے آج بهی بعض لوگ نادانی می یا کسی دیگر غرض الہی رھبروں کو چهوڑ کر آج کی سامریت یعنی نصیریت، ملنگیت، امریکی اسلام و برطانوی شیعت کا شکار ھو رھے ہیں.
بنی اسرائیل کی چالیس سالہ تنبیه
جناب موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو ظالموں اور ستمگروں کے مقابلے میں جهاد کرنے اور فلسطین کی مقدس سر زمین کو ان کے ہاتهوں سے آزاد کرنے کا حکم دیا لیکن انهوں نے نافرمانی کی اور ان کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا جس کی سزا کے طور پہ ارض مقدس کو چالیس سال کے لئے ان پر حرام قرار دیا گیا اور انهیں چالیس سال صحرا میں بهٹکنا پڑا.
یا قوم ادخلوا الارض المقدسہ ... قال فانها محرمہ علیهم اربعین سنہ(سورہ مائدہ 26 - 21)
جسمانی و روحانی تکامل
چالیس سال انسان کے تکامل کی عمر مانی جاتی ہے اور قرآن بهی اس کی تائید کرتا ہے. چالیس سال میں انسان کو جسمانی تکامل بهی حاصل ھو جاتا ہے اور عقلی، فکری، معنوی و روحانی تکامل بهی، البتہ جسمانی تکامل کے بعد اگر مناسب طریقے سے جسم کی حفاظت نہ کی جائے تو ممکن ہےچالیس سال کے بعد جسمانی توانائیوں میں کمی کا احساس ھونے لگے لیکن علمی، فکری، عقلی اور معنوی رشد میں چالیس سال کے بعد اضافے کے امکانات زیادہ ھوجاتے ہیں؛
... حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ (سورہ احقاف، 15)
امام صادق عليه السلام سے روایت ہے : اذا بلغ العبد اربعين سنة فقد انتهي منتهاہ(بحار الانوار، ج6، ص120)
جب انسان چالیس سال کا ھو تو اس کی عقل اپنے کمال کو پھنچ جاتی ہے . البتتہ اگر عقل کو صحیح راہ اور صحیح اصولوں کے ساته استعمال کیا جاتا رھے.
قرآنی آیت سے استفادہ ھوتا ہے کہ
چالیس سال کی عمر میں انسان کی بندگی اور کیفیت بندگی اپنے کمال پر پھنچ جاتی ہے اور اگر انسان کو ایسا احساس نہ ھو تو اسے چاھیے کہ اپنی عقل میں شک کرے اور خلقت خدا اور اس کی دی ہوئ نعمتوں میں زیادہ غور و فکر و تعقل و تفکر کے ذریعے عقل میں اضافہ کرنے کی پریکٹس کرے.
امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے تو امام نے جواب میں فرمایا:
ما عبد به الرحمن و اکتسب بہ الجنان (اصول کافی، ج1،ح3)
عقل وہ ہے جس کے ذریعے اللہ کی بندگی کی جائے اور جنت حاصل کی جائے.
اربعین،احادیث کی روشنی میں
معصومین کے کلام میں اربعین کو زندگی کے بعض اھم مسائل سے متعلق قرار دیتے ھوئے اس کے مختلف جهات کو بیان کیا گیا ہے.
1- مومن کی پانچ علامتیں
امام حسن عسکری علیہ السلام روایت نقل کی گئی ہے کہ مومن کی پانچ نشانیاں ہیں؛
1- داھنے ھاته میں انگوٹهی پھننا.
2- اکیاون رکعت(واجب و نافلہ)نماز پڑهنا.
3- نماز میں سجدہ کے وقت ہیشانی کو خاک پر رکهنا.
4- نماز میں بسم اللہ کو بلند آواز میں پڑهنا.
5ـ روز اربعین امام حسین علیہ السلام کے لئے زیارت اربعین پڑهنا.
2- چالیس روز اخلاص
من اخلص العبادہ للہ اربعین صباحا جرت ينابيع الحکمة من قلبه علي لسانه(بحار الانوار، ج53، ص226)
جس نے چالیس دن اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کی اللہ اس کے دل سے اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری کرتا ہے.
3- چالیس احادیث کا حفظ کرنا
امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل ھوئی ہے:
من حفظ من شيعتنا أربعين حديثاً بعثه الله يوم القيامة عالماً فقيهاً و لم يعذّب (بحار الانوارج2، ص153)
ھمارے شیعوں میں سے جس نے چالیس حدیثیں حفظ کیں اللہ قیامت کے دن اسے عالم اور فقیہ کی شکل میں اٹهاے گا اور اس پر عذاب نھیں ھو گا.
چالیس احادیث کا حفظ کرنا یعنی چالیس نورانی احادیث کو اپنی زندگی میں لے آنا کیونکہ احادیث یا قرآنی آیات اشعار کے مانند نھیں ہیں کہ اسے ذھن میں حفظ کر لینا کافی ھو بلکہ اس کے حفظ کرنے کی بھترین جگہ انسان کی زندگی ہے کیوں کہ وہ در حقیقت انسانی زندگی کے لئے ہیں.
4- چالیس دن استغفار کا اثر
من کان آخر قنوتہ فی الوتر استغفر اللہ و اتوب
اليه مائة مرة اربعين ليلة کتبه الله من المستغفرين بالاسحار(بحار الانوار، ج87، ص 224)
جس نے چالیس راتیں نماز وتر کے قنوت میں سو بار استغفر اللہ و اتوب الیہ کہا ہو تو اللہ اسے سحر کے وقت استغفار کرنے والوں میں شمار ھو گا اورقرآن کی اس آیت کا مصداق بنے گا:
وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (سورہ زاریات، 18)
5- چالیس مومن کے لئے دعا
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :
من قدّم أربعين من المؤمنين ثم دعا استجيب له (بحار الانوار، ج86، ص212
کسی نے اپنی دعا سے پہلے اگر چالیس مومن کے لئے دعا کی اس اپنی قبول قبول ھو جائے گی.
اس طرح نماز وتر کے قنوت میں چالیس مومن کے لئے دعا کرنا مستحب قرار دیا گیا ہے.
6- استجابت دعا
پیامبر اکرم صلي الله عليه و آله و سلم سے نقل ھوا ہے کہ آپ نے فرمایا: لايجتمع أربعون رجلا في أمر واحد إلا استجاب الله(بحار الانوار،ج93، ص394)
چالیس مومن مل کر کسی امر کا تقاضا نہیں کرتے مگر یہ کہ تو خدا اسے حتما قبول کرتا ہے.
7- نفاق کا علاج
پیامبر اکرم ﴿ص﴾ سے نقل ھوا ہے:
من صلي اربعين يوماً في جماعة يدرک تکبيرة الاُولي کتب الله براءتان: براءة من النار و براءة من النفاق(بحار الانوار، ج88، ص4)
جو مسلسل چالیس دن تک نماز جماعت میں شروع سے حاضر ھو تو وہ دو چیزوں سے محفوظ رھے گا؛ آتش جھنم سے اور نفاق سے.
8- زمین و آسمان کا گریہ
پیامبر اکرم ﴿ص﴾ سے نقل ھوا ہے:
إن السماء و الارض لتبکي علي المؤمن اذا مات أربعين صباحاً و إنما تبکي علي العالم اذا مات أربعين شهراً(بحار الانوار،ج42، ص308)
جب کسی مومن کا انتقال ھوتا پے تو زمین آسمان چالیس دن تک گریہ کرتے ہیں اور اور جب کسی عالم کا انتقال ھوتا ہے تو چالیس مھینہ تک گریہ کرتے ہیں.
9- حدود همسایگی
ایک روایت میں بیان ھوا ہے:
الجوار أربعون داراً من أربعة جوانبها(بحار الانوار، ج84،ص3)
ھر چار طرف سے چالیس مکان تک لوگ ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں.
10- بعثت رسول اللہ ﴿ص﴾
بعض انبیاء اور رسول اللہ ﴿ص﴾ کی بعثت چالیس سال کی عمر میں ھوئی. جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ حضرت عزیز علیہ السلام کس سن میں مبعوث ھوئے؟ امام نے جواب میں فرمایا: بعثه الله و له أربعون سنة(بحار الانوار، ج1، ص،88)
اللہ نے جب عزیز کو مبعوث کیا تو ان کی عمر چالیس سال تهی.
اربعین حسینی کی تاریخی حیثیت
تاریخی لحاظ سے اربعین کے بارے کچه اختلافات ہیں. بعض اھل قلم کا کھنا ہے کہ اربعین کو اھل حرم کا کاروان کربلا واپس آیا تها جبکہ دیگر صاحبان نظر کا کھنا ہے کہ اربعین تک اسیران کربلا نے شام میں عزاداری کی تهی اور اربعین کو یہ کاروان شام سے کربلا کے لئے روانہ ھوا تها لیکن جو چیز یقینی ہے وہ یہ ہے کہ اربعین کے دن پہلے زائر حسین جناب جابر بن عبد اللہ انصاری نے جو رسول اللہ ﴿ص﴾ کے بزرگ صحابی بهی تهے ، نابینا ھونے کے باوجود اپنے غلام عطیہ کے ساته امام حسین علیہ السلام کی قبر اطهر کی زیارت کی. امام کی زیارت کرنے کے لئے جابر بن عبد اللہ انصاری نے مدینہ سے کربلا کا سفر طے کیا، کربلا آنے کے بعد زیارت سے پہلے نھر فرات میں غسل کیا، پهر اپنے غلام عطیہ کے سھارے قبر امام حسین علیہ السلام تک گئے اور خود کو قبر پر گرا کر یا حسین کی فریاد بلند کی.
اس طرح جناب جابر بن عبد اللہ امام حسین علیہ السلام کے پہلے زائر بنے اور اربعین کا دن امام کی زیارت کا پہلا دن قرار پایا.
فلسفہ اربعین
اسلامی کلچر میں اربعین کو اس قدر اهمیت اس لئے دی گئی ہے کیونکہ انسان کسی عمل کو اگر بار بار انجام دے تو اگرچہ وہ عمل اس کے لئے سخت ھو پهر بهی مسلسل تکرار اور پریکٹس کے نتیجے اس کا انجام دینا آسان ھو جاتا ہے. اسی لئے اسلامی تعلیمات میں بعض اعمال کے بار بار انجام دینے اور دعاوں کو بار بار پڑهنے خصوصا چالیس دن پڑهنےکی تاکید کی گئی ہے، خاص کر عرفان و اخلاق کے باب میں اگر انسان کو معرفت کے درجات طے کرنے ہیں یا اپنے اندر کوئی اخلاقی صفت ایجاد کرنی ہے تو اس کے لئے چالیس کو بہت اھمیت دی گئی ہے، یعنی انسان چالیس دن تک کسی ایک ذکر سے مسلسل سروکار رکهے اور اس پر غور و فکر کرے تو اس ذکر کا اثر اس کے اوپر ظاھر ھو گا اور اس کی نورانیت اسے حاصل ھوگی، اسی طرح چالیس دن تک اگر کسی اخلاقی صفت پر پابندی سے باقی رھا جائے تو وہ صفت اس کی روح کا حصہ اور اس کے لئے ملکہ بن جاتی ہے.
اھل عرفان اس طرح چالیس چالیس دن کی پابندی کے ذریعے اپنے اندر عرفانی، اخلاقی اور الھی صفات پیدا کرتے ہیں.البتہ یہ عمل اھل عرفان سے مخصوص نھیں ہے، کوئی بهی انسان اگر اپنے اندر کچه صفات پیدا کرنا چاھتا ہے تو اسے یہ مرحلہ طے کرنا ھوگا.
چلہ باندهنے کا لفظ بهی اسی مفهوم کو بیان کرنے کے لئے تها لیکن هندی کلچر سے متاثر ھو کر چلہ کے مفھوم میں تحریف کر دی گئی . چلہ چھل سے لیا گیا ہے اور چهل یعنی چالیس. اربعین عربی لفظ ہے اور چهل فارسی ہے . چلہ کے معنی دهاگہ، رسی یا زنجیر بانده کر بیٹهنا نھیں ہے بلکہ چلہ یعنی چالیس دن کے لئے کسی صفت کو اپنانے اور اس کی پابندی کرنے کا عھد کرنا ہے، اسی طرح کوئی ذکر یا کسی عمل کو مسلسل چالیس دن انجام دینے کا خود سے عهد کرنا چلہ کھلاتا ہے.
اربعین حسینی کو روایات میں اس قدر اهمیت دینے کی ایک اھم وجہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے ذکر اور آپ کے عظیم اهداف و مقاصد کو عاشور کے بعد بهلا نہ دیا جائے بلکہ سید الشھدا علیہ السلام کی یاد اور آپ کے زندگی بخش پیغام و باطل شکن طرز زندگی کو اپنا کر اس کی اس قدر مشق کی جائے ذکر امام حسین علیہ السلام کرنے والے معاشرے حقیقی حسینی معاشرے میں تبدیل ہوتے چلے جائیں.
امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب و انصار کا پروردگار سے عشق،اخلاص و بندگی، اللہ تبارک و تعالی اور اس کے دین کی بقاء کے لئے انتھائی درجہ کی کوشش و جهاد، ان کا صبر و شکر، استقامت و پائیداری، بصیرت و ایمان، ایثار و قربانی، نجابت وپاکیزگی، عزت و آزادی، توحید محوری و ولایت پذیری،اطاعت و جذبہ نصرت، حق پرستی و عدالت طلبی، ظلم ستیزی و مبارزہ، بلند الھی اهداف اور ان پر یقین اور اس طرح کے دیگر عظیم الهی و انسانی اقدار( valuse) کربلا والوں کو اصلی میراث ہیں اور اربعین انهیں صفات کی مشق و تمرین کرکے حسینی رنگ میں ڈهلنے کا نام ہے تا کہ ان حسینی و کربلائی صفات کے ذریعے خود کو اور امت کو نجات دی جا سکے.
تحریر ،حجت الاسلام والمسلمین اخترعباس جون