ایک شیعہ معاشرہ میں کربلا اور انتظار دو الک الگ قضایا نھیں ایک دوسرے سے جڑے مفاھیم ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں کربلا ھمارا ماضی ہے ظھور امام عصر علیہ السلام ھمارا مستقبل ہے۔
ھر پر بار سماج و معاشرے میں رائج ثقافت و فرھنگ کے ریشے اور اس کی بنیادیں ماضی کے اقدار و تحفظات میں پنھاں ھوتی ہیں گرچہ معاشرہ آج کی فضاوں میں سانسیں لے رھا ہے آج کی دنیا میں جی رھا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنے ماضی سے علیحدہ ھو کر نھیں جیتا اور یقین سے کھا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ ھو اپنے ماضی کو فراموش کر کے آگے نھیں بڑھ سکتا ہے۔
ھر معاشرہ اپنے وجود کو منوانے کے لئے اپنی تاریخ کا محتاج ہے اپنے ماضی کی خدمتوں کو یاد رکھے بغیر دو قدم نھیں چل سکتا اور اسی بنا پر ایک سماج و معاشرہ کے آئندہ کے خطوط کو آنے والے سے زیادہ گزشتہ کل میں پنھاں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی لئے کھا جاتا ہے کہ معاشرہ کے طول و عمق عرض پر مشتمل تینوں ابعاد کو گزشتہ کل متعین کرتا ہے جس کے بغیر معاشرہ کی تعمیر ممکن نھیں ۔
یہ بات قابل غور ہے کہ گرچہ تمام کے تمام ھی انسانی معاشرہ اپنی ایک متعین سمت رکھتے ہیں اور ان کے اپنے اپنے مثبت و منفی پھلو ھوتے ہیں جنھیں وہ حال کے آئینہ میں دیکھ کر مستقبل کے لئے ایک بھتر کل کی تشکیل کے لئے کام میں لاتے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نھیں کہ ایسا معاشرہ ھمارے سامنے نھیں ہے جس کے کل کی تعمیر میں تخیلات و توھمات کا دخل نہ ھو خیال پردازی نہ ھو موھومات نہ ھوں اس لئے کہ ان کے ساتھ دو بڑی مشکلیں ھوتی ہیں؛
۱۔ ان کا ماضی قوت و ضعف کا مجموعہ ھوتا ہے جس میں بھت ضروری ھوتا ہے کہ بر وقت مثبت اور مضبوط پھلووں کو صحیح و بجا طور پر منتخب کیا جائے۔
۲۔ یہ مستقبل کو لیکر جو خواب دیکھتے ہیں اس کی حقیقی پیرایہ میں ایک بازبینی کی ضرورت ھوتی ہے تاکہ ان کی آرزوں کو عملی ھونے کا موقع مل سکے ۔
انھیں معاشروں میں ایک ایسا سماج بھی ہے جس کا ماضی بھی درخشاں ہے جس کا مستقبل بھی روشن ہے جس کے کل کی ضمانت بھی موجود ہے جس کے گزشتہ کل کی ضمانت اس کی درخشاں تاریخ ہے یھی وہ معاشرہ ہے جو اپنے گزشتہ کل کی ذمہ داریوں کو نبھاتے ھوئے آنے والے کل کے لئے ایک مضبوط نظام حیات دے سکتا ہے۔
یہ وہ سماج ہے جس کا ماضی بھی درخشان ہے جس کا مستقبل بھی روشن ہے اگر ھم ایسے سماج کو ڈھونڈنے نکلیں تو ملے گا یہ وہ سماج ہے جس کی جڑیں امامت و ولایت میں گڑی ہیں یہ وہ سماج ہے جس کے ماضی میں حرکت ہے جوش ہے ولولہ ہے قربانیاں ہیں شھادتیں ہیں مقتل ہے دار و رسن ہے اور یہ ھر جگہ سر بلند ہے یہ وہ معاشرہ ہے جس کے پاس چودہ ایسے ھدایت کے سلسلہ ہیں جن سے ایسا نور ساطع ہے جو قیامت تک کے لئے رشد و ھدایت کی راہ کو نورانی کرتا رھے گا۔ اس معاشرہ میں حرکت بھی ہے خاموشی و سکوت بھی، عزم جھادی بھی ہے تقیہ بھی شھادت بھی ہے زندان و قید بھی، اس معاشرہ کا نصف النھار کربلا ہے ۔
کربلا وہ سلسلہ ہے جس نے آنے والی نسلوں کو ایک ایک زنجیر کے حلقے کی صورت میں دوسرے سے جوڑ کر رکھا اور یھی وجہ ہے کہ جھاں پر اس سماج و معاشرہ کی اعلی ترین تشکیل ہے ظھور امام عصر علیہ السلام کی شکل میں وھاں بھی یھی کربلا کا سورج جگمگاتا نظر آ رھا ہے۔
تحریک کربلا اور عقیدہ مھدویت اس سماج کے دو ایسے حقیقی عناصر و رکن ہیں جنکے بغیر اس معاشرہ کو سمجھنا مشکل ہے جب اس معاشرہ کی ایک سمت کربلا ہے دوسرے سمت مھدویت ہے تو اب ضروری ہے کہ ھم اپنی ذمہ داری کو پھچانیں اور اس بات پر یقین رکھیں کہ کل ھمارا ھوگا۔
ایک شیعہ معاشرہ میں کربلا اور انتظار دو الک الگ قضایا نھیں ایک دوسرے سے جڑے مفاھیم ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں کربلا ھمارا ماضی ہے ظھور امام عصر علیہ السلام ھمارا مستقبل ہے۔
امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی حکومت کا قیام بغیر کربلا کے بغیر نا مفھوم ہے، تصور حکومت مستضعفین ایک ایسا تصور ہے جس کی پشت پناھی خلا میں نھیں حقیقت کی فضاوں میں ہے لھذا ضروری ہے کہ کل کی تعمیر کے لئے ھمارا ماضی ھمارے سامنے واضح ھو ۔
جب ھم کربلا کے سلسلہ سے غور کرتے ہیں اور اپنے اس درخشان ماضی کو دیکھتےہیں تو ھمیں ایک الھی نظام نظر آتا ہے پروردگار کی کچھ سنتیں نظر آتی ہیں اس کے امتحان کا ایک نرالا انداز نظر آتا ہے جو ھم سے مطالبہ کرتا ہے کہ یہ سنتیں تکرار ھو سکتی ہیں یہ امتحان پھر ھو سکتا ہے لھذا ھمیں خود کو تیار رکھنا ہے ۔
قیام حسینی و مھدوی میں الھی سنتوں کا وجود اور ھماری ذمہ داریاں :
فلسفہ تاریخ اور اجتماعی مطالعات کے سلسلہ سے ھونے والی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہے الھی سنتیں اور اس کی جانب سے ھونے والے امتحانات نہ تبدیل ھونے والے قوانین کی شکل میں حوادث و واقعات پر حاکم ہیں اور قرآن کریم کی بھت سی آیات کریمہ سنن الھی کے ایک قانونی مدار میں حرکت کرنے کو بیان کر رھی ہیں ۔
سماج و معاشرہ کو ایک خاص قانون [۱] کے تحت چلانے کے سلسلہ سے قرآن کریم اور دیگر اسلامی متون میں جو کلمہ استعمال ھوا ہے اسے سنت کھا گیا ہے۔ یھاں پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قرآن کریم میں نقل ھونے والے قصص، حوادث اور تاریخی واقعات اپنے دور کے کسی ایک خاص گروہ یا ایک خاص دور سے متعلق ھونے کے باوجود اسی سے مخصوص نھیں ہیں بلکہ ان کے اندر عمومیت پائی جاتی ہے۔
اور ھر دور کے انسانوں کے لئے ہیں اور یھی وجہ ہے کہ قرآن کریم انسانوں کو ترغیب دلاتا ہے کہ کائنات کے بارے میں غور کیا جائے اور دنیا میں سیر و سفر کے ذریعہ اللہ کی نعمتوں کے سلسلہ سے اپنے مشاھدات کی روشنی میں حقائق کا ادراک کیا جائے حتی گزشتہ لوگوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے اور اپنے لئے سعادت و کمال کی راھوں کا انتخاب کیا جائے ۔
تاریخی واقعات کے سلسلہ سے قرآنی ھدایات کے پیش نظر ھم کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ کے ان اھم واقعات میں جو انسانی زندگی کے سلسلہ سے ایسے راھنما اصول پیش کرتے ہیں جن پر چل کر بشریت کمال واقعی تک پھنچ سکتی ہے ایک بے نظیر واقعہ کربلا ہے جو گرچہ بھت مختصر سے عرصہ میں رونما ھوا لیکن اپنے اندر صدیوں پر محیط ایسی تعلیمات لئے ھوئے ہیں جس کی روشنی میں بشریت کو معراج ملتی رھے گی ۔
اس مختصر سے واقعہ میں امتحان الھی کے دشوار و عالی ترین نمونے موجود ہیں جو حق و باطل کے معرکہ کے درمیان متجلی ھوتے ہیں کربلا کے بعد ایک اور پروردگارکی عظیم سنت جسے دنیا میں جاری و ساری ھونا ہے اور جس میں بنی نوع بشر کو اپنا دشوار ترین امتحان دینا ہے ظھور امام زمان عج اللہ تعالی فرجہ الشریف ہے جس میں ساری دنیا میں عدالت کا پرچم لجرائے گا اور برسوں سے ظلم و ستم کی چکی میں پستی بشریت کو جام عدالت سے سیراب کیا جائے گا ۔اب چاھے واقعہ کربلا جو یا ظھور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا مرحلہ دونوں ھی میں ھم سب کا امتحان ہے بس فرق یہ ہے کہ واقعہ کربلا میں امتحان ھو چکا ہے اور ظجور کے بعد امتحان ھونا باقی ہے۔
ایسے میں ضروری ہے کہ ھم ان الھی سنتوں کو سمجھیں اور جانیں جو کربلا میں نافذ تھیں اور بعد کربلا ظھور امام زمانہ عج کے وقت دوبارہ تکرار ھوں گی یقینا کربلا میں رائج الھی سنتوں کی امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قیام عدالت پر تطبیق ھماری نصرت امام کی راہ میں معاون و مددگار ھوگی ۔
۱۔ تفصیل کے لئے رجوع کریں ، محمد نوری ، عبر ھای عاشورا ، ص ۲۴
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
کربلا اور انتظار کے درمیان الھی سنتوں کا رابطہ اور ھم
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1277