اب شاید سر جوڑ کر سارے شیطان اس لئے بیٹھے ہیں کہ ایک ایسا مشترکہ پلاٹ تیار ھو جس کے تحت ھمارا بھرم بھی رہ جائے اور وہ مقاصد بھی حاصل ھو جائیں جو ایک دس لاکھ یمنیوں کے برابر کسی ایک فرد کے قتل سے ھو سکتے ہیں اب یہ تو وقت ھی بتائے گا امریکہ یورپ و ترکی سمیت کس کو اس صحافی کے قتل سے کیا ملا اور کس کے نام کتنے تیل کے کنویں الاٹ ھوئے سودا کتنے میں ٹھہرا۔
“میں نے اپنا گھر، اپنی فیملی، اپنا کام سب چھوڑا اور میں اپنی آواز بلند کر رھا ھوں۔ اس کے برخلاف کام کرنا ان لوگوں کے ساتھ غداری ھوگی جو جیلوں میں پڑے ھوئے ہیں۔ میں بول سکتا ھوں جبکہ بھت سے لوگ بول بھی نھیں سکتے۔ میں آپ کو بتانا چاھتا ھوں کہ سعودی عرب ھمیشہ ایسا نھیں تھا۔ ھم سعودی اس سے بھتر کے حقدار ہیں”[۱]
شاید یھی وہ الفاظ ہیں جو جمال خاشقجی کی صفحہ روزگار سے دائمی گمشدگی کا سبب بن گئے ۔ کتنا عجیب ہے کہ۱۵کتوبر ۲۰۱۸ء بروز جمعہ کو جمال خاشقجی کا کالم چھاپنے والے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ان کی گمشدگی کو اجاگر کرنے کے لیے ان کے کالم کی جگہ ’دی مسنگ وائس‘ یعنی ’گمشدہ آواز‘ کی جو شہ سرخی خالی چھوڑ دی تھی وہ اب تک اپنے گمشدہ کالم نگار کا انتظار کر رھی ہے ، تب سے لیکر اب تک ان کے قتل کے سلسلہ سے تو دنیا بھر کے اخبارات میں مسلسل بھت کچھ چھپ رھا ہے لیکن جمال کا قلم ان کے سر کے ساتھ قلم کر کے خاموش کر دینے والوں سے دو ٹوک انداز میں کوئی سوال کرنے والا نھیں ہے کہ تمام تر انسانی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ھوئے تم نے ایک ایسے صحافی کو سفاکانہ انداز میں موت کے گھاٹ کیوں اتار دیا جس نے تمھارے سامنے لب کشائی کی ھمت کی تھی ؟
یوں تو زبانی جمع خرچی کرنے والے بھت ہیں لیکن کوئی نہ ھی وقت کی فرعونوں کی لگام کسنے والا ہے اور نہ ھی پوچھنے والا ہے ھزار منھ ہیں تو ھزار ھا باتیں ، اور یہ جو جو کچھ آپ میڈیا میں دیکھ رھے ہیں اسکی حیثیت گیدڑ بھبکیوں سے زیادہ نھیں ، کیا کھیں آپ نے دیکھا ہے کہ کوئی انسان مجرم کو سزا دینے کی بات کھے اور پھر یوں مکر جائے کہ مجرم کے بعض متعلقین سے ھمارے اچھے تعلقات و روابط ہیں ھم انھیں خراب نھیں کر سکتے ؟
لیکن جمال خاشقجی کے معاملہ میں سزا دینا تو دور ہے اگر بے طرف تفتیش کی بات کی جائے تو بھی نھیں ھو رھی ہے کہ کھیں تیل کے کنویں بند ھو گئے تو کیا ھوگا جو کچھ ہے وہ دکھاوا ہے اور پھر رائے عامہ کے سامنے کچھ نہ کچھ تو کرنا ھی ھوگا ورنہ مغرب کی جانب سے اظھار آزادی کے نعرے کا کیا بنے گا ؟
یاد رھے کہ جمال خاشقجی پر مغرب وامریکہ کی عنایت تھی خاشقجی گرچہ مذھبی اعتبار سے مالکی مذھب کے حامل تھے لیکن تقریبا لیبرل طرز فکر کی چھاپ ان کی زندگی پر دکھتی تھی اسی وجہ سے مغرب خاص کر امریکہ میں انھیں ایک بے باک و ایسے سچے صحافی کے طور پر جانا جاتا تھا جو اپنے اصولوں کا پابند ہے لیکن انھیں اصولوں کے بنانے والوں نے اپنے ھی آدمی کو نھیں چھوڑا کہ دنیا پرستوں کا ایک ھی اصول ھوتا ہے اور وہ ہے مفاد پرستی، جب تک ان کا مفاد ہے سب کچھ ہے لیکن جھاں مفاد کو خطرہ ھوا یا چھوٹے مفاد سے بڑا مفاد ٹکرایا وھیں سب کچھ ختم اور ایک نام نھاد با اصول صحافی کے اس کے تمام تر اصولوں کے ساتھ لاش کے ٹکڑے نظر آتے ہیں ۔
اسے تاریخ صحافت کے بے رحم طنز کے طور پر بھی دیکھا جا رھا کہ واشنگٹن پوسٹ میں اپنے کالم its time to divide Syria ” اب ملک شام کی تقسیم کا وقت آ گیا ہے ” کے تحت انھوں نے جس فکر کی عکاسی کی تھی وھی فکر ان کی لاش کے ٹکڑوں پر اب سیاست کر رھی ہے جبکہ دوسری طرف شام کی تقسیم کے سلسلہ سے ان کےمذکورہ کالم کے عنوان کو ان کی لاش کے ٹکڑوں کی تیار شدہ تصاویر کے ساتھ پیش کیا جا رھا ہے جبکہ شام کے ایک رکن پارلیمان “فارس شھابی ” کی ٹوئٹر کی یہ پوسٹ بھی خوب گردش کر رھی ہے کہ” خاشقجی ھمیں افسوس ہے کہ تمھارے آقاوں نے تمھیں ھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا”۔ ایک طرف گول میزوں پر بڑے بڑے سیاسی رھنماوں کے ھاتھوں میں کھنکتے جاموں کے ساتھ قھقوں کی آوازیں ہیں تو دوسری طرف خاشقچی کی استنبول کے قونصل خانےکی فضاوں میں تیرتی ھوئی چیخیں،وہ چیخیں جو حقوق بشر کے علمبرداروں سے اپنا انصاف مانگ رھی ہیں۔
جو کچھ خاشقجی کے ساتھ ھوا وہ بھت ھی بعید ہے کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے تاریخ صحافت میں کسی کے ساتھ ھوا ھو ان کامغرب نواز ھونا بھی انھیں اسی سبب نھیں بچا سکا کہ وہ مغرب نواز ضرور تھے لیکن شاید اب کار آمد نھیں رہ گئے تھے مغرب نوازی کے باجود وہ یہ حقیقت نھیں سمجھ سکے مغرب نوازی کے ساتھ ساتھ انھیں اپنے اس ضمیر کی آواز کو تھپک کر سلا دینا چاھیے تھا جو گاھے بہ گاھے ایک دنیا کی آمر ترین حکومت پر تنقید کو شہہ دے رھی تھی ، وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ انھیں ایک صحافی کی طرح نھیں ایک تاجر کی طرح بالکل ویسے ھی سوچنا چاھیے اور کھنا چاھیے تھا جیسے صحافت کے لباس میں دیگر تاجر سوچتے اور کھتے ہیں کاش وہ ایسی ھی سوچ و فکر کے حامل ھوتے جیسے امریکی صدر ٹرنپ کی سوچ ،فکر اور ان کی زبان ہے تو شایدان کی جان بچ جاتی اور اگر نہ بھی بچ پاتی تو کم از کم مرنے کے بعدمچھلی کی طرح آری سے ٹکروں میں تقسیم نہ ھوتی کہ اس تجارت پیشہ سیاست میں کچھ تو ٹرنپی فکر کے خریدار نکل ھی آتے ،لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رھے اور اپنے بعض مغربی پرستاروں کی بنائی مصنوعی ھوا کا شکار ھو گئے جنھوں نے انھیں اپنے سر کا تاج بنا لیا تھا ، اور انھوں نے یہ سمجھنے میں غلطی کی جو مغرب ان کی تحریروں کو آب و تاب کے ساتھ اپنے اخباروں اور روزناموں کی زینت بنا رھا ہے جو ٹی وی چینلز ان کے تجزیوں اور تبصروں کو کھلے دل سے نشر کر رھے ہیں وہ سب کے سب زنجیری حلقوں کی صورت ایک ایسی جگہ سے متصل ہیں جھاں مفاد دیکھ کر بات ھوتی ہے ، لھذا اگر ان کے مفاد میں کسی صحافی کا ٹکڑوں میں بنٹ جانا ھوگا تو وہ ایسا کریں گے اور شور مچا کر خاموش ھو جائیں گے ، اور اگر مفاد میں یہ ھوگا کہ خود ھی سازشوں کے تحت لائے گئے ولی عھد کو ھٹا لیا جائے چاھے اس کے لئے ایک صحافی کی بھینٹ کیوں نہ دینا پڑے تو وہ یہ بھی کریں گے لیکن ان کو نہ آزادی بیان سے غرض ہے نہ اظھار خیال کی حریت سے کوئی مطلب یہ تو ھر جگہ اپنا مفاد دیکھتے ہیں ، اور اب جبکہ ایک تاجرانہ ذھنیت دنیا کی سب سے بظاھر مقتدر حکومت کو چلا رھی ھو تو مفادات کے تحت ھی سب کچھ آگے بڑھے گا با این ھمہ یہ ضرور ہے کہ ان کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ وہ سعودی عرب کے ولی عھد محمد بن سلمان اور بادشاہ سلمان بن عبد العزیز کے کٹر نقاد تھے، اور دونوں پر ھی کھلے الفاظ میں تنقید کرتے تھے ، اور یھیں پر غچا کھا گئے انھیں لگا ان کی تنقیدوں کی پذیرائی جب امریکہ سے لیکر یورپ میں ہے اور ان کے پرستار دنیا بھر میں موجود ہیں تو ان کی آواز کو دبانا اتنا آسان نھیں ھوگا یھی سوچ کر وہ اپنے پیروں چل کر اس اژدھا خانے پھنچ گئے یھاں ۱۸ لوگ اپنی اپنی محولہ ذمہ داریوں کوانجام دینے کے لئے ان کا انتطار کر رھے تھے اور پھر وہ سب کچھ پیش آیا جو آپ نے میڈیا کے ذریعہ سنا اور دیکھا ۔
لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ جو آزاد کھے جانے والامغربی میڈیا ان کے قتل کےبعد سے اب تک ان کے قتل کو چو طرفہ کیوریج دے رھا ہے اور مسلسل ایسے پروگرام اور ٹاک شوز نشر کر رھا ہے جو جمال خاشقجی کے ارد گرد گھوم رھے ہیں وہ بھی جب بات اصلی قاتلوں کی آتی ہے تو حاشیوں میں چلا جاتا ہے ، یہ بات اپنے آپ میں کیا قابل غور نھیں کہ جمال خاشقجی کے سفاکانہ قتل کے تشھیری غبارے میں ھوا بھرنے والا بھی یھی میڈیا ہے اور اس کے بعد یھی میڈیا بے سر پیر کی سعودی حکومت کی جانب سے صفائیوں کو بھی خوب خوب نشر کر رھا ہے ۔
یہ سب ایسی صورت میں ہے کہ جمال خاشقجی کوئی معمولی آدمی نھیں تھے بلکہ امریکہ کی نظر میں ایک جمال خاشقجی کی قیمت دس لاکھ یمنی لوگوں کی زندگی سے بڑھ کر تھی[۲]۔
کتنا زبردست قسم کا کنفیوژن ہے ، ایک طرف ایک ایسا شخص موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے جس کی زندگی دس لاکھ یمنیوں سے بڑھ کر ہے تو دوسری طرف تمام تر سچائی آنے کے باجود مزید سچ کے سامنے آنے کا انتظار کیا جاتا ہے ، کیا یہ پھلے سے سجا ڈراما نھیں لگتا کہ تم جیسے ھی اظھار خیال کروگے ھم فورا ھی اس کی تائید کر دیں گے کہ ھمیں آپ کی بات پر یقین ہے اور مکمل اطمینان ہے یہ اور بات ہے کہ ھماری انٹلی جنس کی چیف ھمارے اطمینان کے بعد ترکی کا دورہ کریں گی تاکہ حقیقت واضح ھو سکے اس کے بعد تمھارے ھر بیان کے بعد ھمارا بیان بھی تبدیل ھوتا رھے گا تم بھی ۷۰ سالہ دوستی کے رشتے کو نبھاتے رھنا ھم بھی تمھیں اپنی غلامی کا صلہ تمھاری ھاں میں ھاں ملا کر کبھی جھڑک کر کبھی شاباشی دیکر دیتے رھیں گے۔
اب تو انٹلی جنس کے ذریعہ تحقیق کا کام بھی پورا ھو گیا چنانچہ خبروں کے مطابق واشنگٹن میں امریکی انٹیلیجنس ایجنسی سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا ھیسپل نے صدر ٹرمپ کو جمال خاشقجی کو قتل کے حوالے سے اب تک کی جانے والی تحقیقات کی اطلاعات فراھم کر دی ہیں قابل ذکر ہے کہ جینا ھیسپل خاشقجی قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں گذشتہ ھفتے استنبول گئی تھیں اور اطلاعات کے مطابق وھاں انھیں سعودی قونصلیٹ میں جمال خاشقجی کے قتل کے وقت کی آڈیو ریکارڈنگ بھی سنوائی گئی موصولہ اطلاعات کے مطابق اس ریکارڈنگ میں جمال خاشقجی کے ساتھ تفتیش اور بعد میں قتل کرنے کے دوران ھونے والی گفتگو موجود ہے۔
شاید اسی کا اثر ہے کہ مسلسل سعودی قونصل خانے میں ان کی موت کا انکار کرتے آئی سعودی انتظامیہ نے بھی نہ صرف ان کی موت کو قبول کر لیا ہے بلکہ حیرت انگیز طور پر گزشتہ جمعرات کو پھلی بار اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ استنبول میں جمال خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی تین ھفتے پھلے کی گئی تھی ، اب شاید سر جوڑ کر سارے شیطان اس لئے بیٹھے ہیں کہ ایک ایسا مشترکہ پلاٹ تیار ھو جس کے تحت ھمارا بھرم بھی رہ جائے اور وہ مقاصد بھی حاص ھو جائیں جو ایک دس لاکھ یمنیوں کے برابر کسی ایک فرد کے قتل سے ھو سکتے ہیں اب یہ تو وقت ھی بتائے گا امریکہ یورپ و ترکی سمیت کس کو اس صحافی کے قتل سے کیا ملا اور کس کے نام کتنے تیل کے کنویں الاٹ ھوئے سودا کتنے میں ٹھہرا ، البتہ اتنا سوء ظن بھی اچھا نھیں یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح ترکی نے ابتداء میں اپنا سخت موقف رکھا پھر اسمیں ذرا نرمی آ گئی دوبارہ اس میں سختی آ جائے اور کسی ایک کا ضمیر جاگ جائے اور اس متازعہ قتل کی گتھیاں سلجھ جائیں ، بعید نھیں کہ رجب طیب اردگان ھی سعودی عرب سے دو ٹوک انداز میں خاشقچی کی لاش کوتحویل دینے کا مطالبہ کر بیٹھیں اور پھر لاش کے ٹکڑوں کے ذریعہ اس کیس کے ٹکڑے ایک دوسرے سے مل جائیں لیکن یہ سب احتمالات ہیں ان کے بارے میں یقین سے کچھ نھیں کھا جا سکتا۔
البتہ اس درمیان جو بات یقین سے کی جا سکتی ہے وہ یہ کہ دنیا پھچان لے کہ جس دس لاکھ یمنیوں کے برابر اپنے ھی آدمی کے ساتھ امریکی حکومت انصاف نہ کر سکی وہ دنیا کے ساتھ کیا انصاف کرے گی ، سعودی عرب کی معیت میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے امریکی صدر کے بیانات کافی حد تک یہ بیان کرنے کے لئے کافی ہیں کہ گم شدہ آوازوں تک ھرگز وہ نھیں پھنچ سکتے جن کی بساط سیاست پر بلند قھقھے ھر تنقیدی آواز کو دبا کو نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل کا کریہہ منظر پیش کرتے ہیں ۔
جمال خاشقجی تو ایک محض ایک گمشدہ آواز ہے نہ جانے کتنی ھی آوازیں ایسی ہیں جنھیں ھمیشہ کے لئے دبا کر خاموش کر دیا گیا ، وہ شھید نمر کی آواز ھو ، کہ فتحی شقاقی کی یا شیخ یسین وشھہید ابو ثریا کی آوازیں ،کتنی ھی ایسی آوازیں ہیں جو سیاست کے قھقوں کے درمیان گم ھو کر رہ گئیں ہیں کسی پر کیا فرق پڑا ایک آواز اور سھی اور پھر یہ تو ان کی اپنی ھی تھی ۔
حواشی :
[۱] ۔ https://www.bbc.com/urdu/world-45794133
[۲]۔ https://www.zerohedge.com/news/2018-10-17/world-american-politics-one-khashoggi worth-one-million-yemeni-lives
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
سیاست کے قھقوں کے درمیان” گمشدہ آواز “
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1304