دعائے عرفہ کا شمار ماثور اور معتبر دعاؤں میں ھوتا ہے، جو مفاتیح الجنان سمیت دعاؤں کی تمام معتبر کتابوں میں نقل ہے، امام حسین (ع) نے اس دعا میں دینی تعلیمات کو کوزے میں سمندر کی مانند سمو دیا ہے، اس دعا کی اھمیت بھت زیادہ ہے، یھاں تک کہ احادیث میں عرفہ کے دن روزہ رکھنے کی بھت فضیلت بیان کی گئی ہے، تاھم اگر کوئی شخص بیماری اور ضعف و ناتوانی کی وجہ سے یہ دعا نھیں پڑھ سکتا تو اسے روزہ رکھنے کے بجائے دعائے عرفہ پڑھنی چاھیے۔ اس دعا کا ھر لفظ اور ھر کلمہ بے شمار معارف سے بھرا ھوا ہے، کیونکہ ’’کلام الامام امام الکلام‘‘ ھوتا ہے، ھم اس وقت دعائے عرفہ کے چند اقتباسات کی تشریح پر اکتفاء کرتے ہیں۔
1۔ معرفت شھودی
معرفت، دلیل اور برھان کی دو قسمیں ہیں، انی اور لمّی، جب معلول کے ذریعہ علت کا ادراک ھو جائے تو اسے برھان انّی کھا جاتا ہے، جیسے دھویں سے آگ کا پتہ لگانا اور جب علت سے معلول کا کھوج لگایا جائے تو اسے برھان لمّی سے تعبیر کیا جاتا ہے، شھود اور معرفت کی سب سے اعلٰی قسم یھی ہے۔
اللہ تعالٰی کے وجود پر بھی دلیلیں دو طرح کی ہیں، عام طور پر کھا جاتا ہے کہ برھان نظم و ۔۔۔ خدا کے وجود پر دلیل ہیں، لیکن یہ معرفت کا ادنٰی مرتبہ ہے، امام حسین (ع) دعائے عرفہ میں فرماتے ہیں کہ اے میرے معبود! میں اس کائنات میں جو کچھ بھی دیکھتا ھوں، مجھے ھر شے میں تیرا ھی جلوہ نظر آتا ہے، یہ ساری مخلوق تیری ھی ذات کی کرشمہ سازی ہے، صرف یھی نھیں بلکہ آپ کے علاوہ دوسری کسی شے کا وجود ھی نھیں ہے کہ میں اس کے ذریعے آپکے وجود کا ادراک کرسکوں اور کیونکر وہ دوسری شے آپ تک پھنچنے کے لئے دلیل بن سکتی ہے، حالانکہ وہ وجود میں آنے کے لئے بھی تیری عطا کی محتاج ہے۔
"كَيْفَ يُسْتَدَلُّ عَلَيْكَ بِما هُوَ فى وُجُودِهِ مُفْتَقِرٌ اِلَيْكَ اَيَكُونُ لِغَيْرِكَ مِنَ الظُّهُورِ ما لَيْسَ لَكَ حَتّى يَكُونَ هُوَ الْمُظْهِرَ لَكَ مَتى غِبْتَ حَتّى تَحْتاجَ اِلى دَليلٍ يَدُلُّ عَليْكَ وَمَتى بَعُدْتَ حَتّى تَكُونَ الاْ ثارُ هِىَ الَّتى تُوصِلُ اِلَيْكَ" کیونکر وہ چیز تیری رھنمایی کرسکتی ہے، جو اپنے وجود میں ھی تیری محتاج ہے، آیا تیرے سوا کسی اور شے کے لئے ایسا ظھور ہے، جو تیرے لئے نھیں ہے، یھاں تک کہ وہ تجھے ظاھر کرنے والی بن جائے؟ تو کب غائب تھا کہ کسی ایسے نشان کی حاجت ھو، جو تیری دلیل ٹھرے، تو کب دور تھا کہ آثار اور نشان تجھ تک پھنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ بنیں۔
پروردگار! میں تو جھاں بھی دیکھتا ھوں وھاں تیری ھی ضیاء آفشانی ہے۔ پروردگار! عَمِيَتْ عَيْنٌ لا تَراكَ عَلَيْها رَقيباً، اندھی ہے وہ آنکھ جو تجھ کو اپنا نگھبان نھیں پاتی، جیسا کہ ایسے ھی کلمات امام زین العابدین علیہ السلام نے دعائے ابوحمزہ ثمالی میں ارشاد فرمائے ہیں: الھی بِکَ عَرَفْتُکَ وَ أَنْتَ دَلَلْتَنِی عَلَیْکَ وَ لَوْلا أَنْتَ لَمْ أَدْرِ مَا أَنْتَ، پروردگار! میں نے تجھے تجھ ھی کے واسطے سے پھچانا اور اس راہ میں آپ نے ھی میری رھنمائی فرمائی، اگر آپ نہ ھوتے تو میں ھرگز نہ پھچان پاتا کہ آپ کون ہیں!
2۔ حقیقی محبت
عشق اور محبت، انسانی فطرت میں شامل ہے، ہر انسان کمال کی حامل شے سے محبت کرتا ہے، کمال حقیقی اللہ تعالٰی کی ذات ہے، لٰھذا امام حسین (ع) اللہ تعالٰی کے عشق میں فانی ھو کر دنیا کی ھر شے پر اپنے محبوب کی رضا کو مقدم کرتے ہیں، فرماتے ہیں: ماذا وَجَدَ مَنْ فَقَدَکَ وَمَا الَّذی فَقَدَ مَنْ وَجَدَکَ، پروردگار! اس نے کیا پایا جس نے تجھے کھویا اور اس نے کچھ نہ کھویا، جس نے تجھ کو پایا، یعنی اگر کسی شخص کو بظاھر پوری کائنات ھی نصیب ھو، لیکن جب اس سے اللہ راضی نھیں ہے تو اس کے پاس کچھ بھی نھیں، اس کا خزانہ خالی ہے، لیکن اگر اسے اپنے ربّ کی رضا حاصل ھو جائے اور بظاھر دنیا کے مال و متاع سے اس کا ھاتھ خالی ہے تو گویا اسے سب کچھ مل گیا ہے۔ امام عالی مقام نے کربلا کے میدان میں محبوب کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنے محبوب کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹا دیا۔ فرمایا:
تَرَکْتُ الْخَلْقَ طُرّافی هَواکا
وَاَیْتَمْتُ الْعِیالَ لِکَیْ اَراکا
میں نے ساری مخلوق کو آپ کی محبت میں چھوڑ دیا اور میں نے اپنے بچوں کو یتیم کیا، تاکہ تجھے پاؤں۔ البتہ بعض اوقات انسان کمال کی تشخیص میں غلطی کرتا ہے اور وہ ایک ایسی شے کو کمال سمجھ بیٹھتا ہے، جو کمال نھیں ھوتی اور شیطان سبز باغ دکھا کر دنیا کے لالچ میں مبتلا کر دیتا ہے۔
امام عالی مقام اس نکتے کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں: خَسِرَتْ صَفْقۃُ عَبْدٍ لَمْ تَجْعَلْ لَهُ مِنْ حُبِكَ نَصيباً! اس بندے کا سودا خسارے والا ہے، جس کو تو نے اپنی محبت کا حصہ نھیں دیا۔ یعنی کتنا بدنصیب اور بدقسمت ہے وہ شخص، جو دنیا کی رنگینیوں میں محو ھوکر ساری زندگی گناھوں اور عیاشیوں میں صرف کرتا رھے، لیکن اسے اس خالقِ یزداں کی محبت کا تھوڑا حصہ بھی نصیب نہ ھو، جو سراسر کمال ھی کمال ہے۔
3۔ خوف الٰھی
عام طور پر انسانوں سے گناہ تب سرزد ھو جاتے ہیں، جب وہ یاد الٰھی سے غافل ھو جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کوئی دیکھ رھا ہے، لٰھذا سیدالشھداء حضرت امام حسین (ع) نے ھمیں گناہ نہ کرنے اور خدا کو حاضر و ناظر جاننے کا ایک بھترین فارمولہ بتا دیا ہے، فرماتے ہیں: اَللَّهُمَّ اِجْعَلْنِي أَخْشَاكَ كَأَنِّي أَرَاكَ، اے اللہ! مجھے ایسا ڈرنے والا بنا دے گویا تجھے دیکھ رھا ھوں، یعنی جب بھی میرا نفس گناہ کی طرف رغبت پیدا کرے اور شیطان مجھے گناہ کرنے پر اکسائے تو اس وقت میں تجھ سے ایسے ڈروں گویا میں تجھے دیکھ رھا ھوں، اگر کسی شخص کو یھی تفکر اور توجہ عبادت میں بھی نصیب ھو جائے تو یھی عبادت انسان کو معراج پر پھنچاتی ہے، امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں: أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاھُفَإِنْ لم تَکُنْ تَرَاہُ فإنہ یَرَاکَ، اپنے ربّ کی ایسی عبادت کر گویا تو اسے دیکھ رھا ہے اور تو اسے دیکھ نھیں سکتا تو وہ تجھے دیکھ رھا ہے۔
4۔ شکرگزاری
نعمت دینے والے کا شکر ادا کرنا عقل سلیم اور انسانی فطرت کا تقاضا ہے، تاھم امام حسین (ع) ایک باریک اور ظریف نکتے کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں کہ انسان بھلا ایسے منعم کا شکر کیسے بجا لا سکے گا، جس کے بدن کے اعضاء بھی ذات کردگار کی دی ھوئی امانت ہیں اور چہ بسا انسان اسی امانت کا بھی لحاظ نھیں رکھتا اور اسے منعم کی نافرمانی میں استعمال کرتا ہے۔
فرماتے ہیں: پروردگار! پس کیا چیز لے کر تیرے سامنے آوں، آیا اپنے کان، اپنی آنکھ، اپنی زبان یا اپنے پاؤں، کیا سب میرے پاس تیری نعمتیں نھیں ہیں؟ اور ان سب کے ساتھ میں نے تیری نافرمانی کی، پس تیرے پاس میرے خلاف حجت اور دلیل ہے، کیف و انیٰ ذالک و جوارحی کلھا شاھدۃ علی بما قد عملت، حالانکہ یھی اعضاء میرے اعمال پر شاھد اور گواہ ہیں۔
درحقیقت! انسان جب اپنے نفس کا غلام بن جاتا ہے اور شیطان کے جال میں پھنس جاتا ہے تو وہ اپنے عظیم ترین گناہ بھی بھول جاتا ہے یا اس کی توجیہ کرنے لگتا ہے اور اس کے مقابلے میں اسے اپنی معمولی نیکیاں بھی بھت بھلی لگتی ہیں، حالانکہ اس کا یہ کم عمل بھی ریا اور دکھاوے سے خالی نھیں ھوتا۔
امام عالی مقام (ع) فرماتے ہیں: من کانت محاسنہ مساوی فکیف لاتکون مساویہ مساوی، جس شخص کی خوبیاں بھی برائیاں تو اس کی برائیاں کیوں نہ برائیاں شمار کی جائیں گی۔
5۔ عیبوں کی پردہ داری
کتنا ستارالعیوب ہے وہ ربّ جو بار بار گناہ کرنے پر بھی انسان کا عیب آشکار نھیں کرتا، حالانکہ اگر انسان کے یہ گناہ اس کے اپنے قریبی عزیر و آقارب کے سامنے ظاھر ھو جائیں تو وہ ضرور اس کے ساتھ تعلقات اور ناطہ توڑ دیں گے۔
امام حسین (ع) فرماتے ہیں: عَظُمَتْ خَطیئَتی فَلَمْ یفْضَحْنی وَ رَآنی عَلَی الْمَعاصی، عظیم گناہ مجھ سے سرزد ھوئے، لیکن آپ نے مجھے رسوا نھیں کیا اور مجھے گناہ کرتے دیکھ لیا، لیکن پھر بھی میرے گناہ کو برملا نھیں کیا۔ البتہ یہ پردہ داری اس دنیا تک محدود ہے، تاکہ انسان توبہ کرلے، لیکن آخرت کو ’’تبلی السرایر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، جس میں تمام مخفی اور پوشیدہ راز آشکار ھو جائیں گے اور ’’فزع اکبر‘‘ عظیم رسوائی کا نام بھی کھا گیا ہے، جب سب انسان ایک دوسرے سے بھاگنے لگیں، کیونکہ مخفی راز کھل جائیں گے۔
دعا ہے! اللہ تعالٰی امام حسین (ع) کے صدقے دنیا اور اخرت میں ھمیں عظیم رسوائی سے حفظ و امان میں رکھے!
تحریر: ساجد مطھری
دعائے عرفہ کے چند اقتباسات کی تشریح
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1803