پھلی ذی الحجۃ کو حضرت علی اور فاطمہ زھرا علیھما السلام کی شادی کی سالگرہ کی مناسبت سے یوم ازدواج کھا جاتا ہے۔
اس شادی کا سب سے بڑا ثمرہ ’’شجرہ امامت‘‘ ہے، اور اس کے بعد علماء، دانشمندوں، صالحوں اور شھیدوں پر مشتمل ایسی بابرکت نسل ہے جس نے آج تک اسلام کو تحفظ بخشا ہے۔
ترجمہ: افتخار علی جعفری
تمام انبیاء نے اپنی نبوت کے دعوے کی سچائی پیش کرنے کے لیے معجزے پیش کئے۔ آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان معجزوں کے علاوہ جو آپ نے اپنے عصر حیات میں پیش کئے ایک ایسا جاودانی معجزہ بھی پیش کیا جو آج تک موجود ہے اور کوئی اس کو چیلنج نھیں کر پایا ہے اور وہ ہے ’’قرآن کریم‘‘۔
قرآن کریم کے معجزہ ھونے پر بھت ساری دلیلیں موجود ہیں ان میں سے ایک دلیل قرآن کی غیبی خبریں ہیں جو اس کے الھی ھونے اور اس کے لانے والے کے نبی ھونے کو ثابت کرتی ہیں۔
غیبی خبریں کیا ہیں؟
لفظ ’’ غیب‘‘ سے مراد ھر وہ چیز ہے جو انسان کے سامنے نہ ھو یا اس کے حواس کے ادراک سے باھر ھو۔ یہ لفظ قرآن کریم کی بھت ساری آیتوں میں اسی معنیٰ میں استعمال ھوا ہے۔
لھذا غیبی خبریں ان واقعات کی عکاسی کرتی ہیں جو عصر وحی سے بھت پھلے یا بعد رونما ھوئے اور اس وقت ان کے بارے میں جاننا متعارف ذرائع سے ناممکن تھا۔
ماضی کی غیبی خبریں
قرآن کریم نے گزرے زمانے کی خبریں بیان کرنے بعد ان کے غیبی ھونے پر تاکید کی۔ مثال کے طور پر حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا: "ذلِكَ مِن اَنباءِ الغَيبِ نوحيهِ اِلَيك؛ یہ ان غیب کی خبروں میں سے ہے جو ھم نے آپ کو وحی کی ہے۔ ( سورہ یوسف، آیت ۱۰۲﴾
اس طرح کی داستانیں جو قرآن کریم نے گزشتہ زمانے کی بیان کی ہیں ان کے بارے میں حتی پوری زندگی تحقیق اور ریسرچ کرنے سے بھی آگاھی حاصل نھیں ھو سکتی چونکہ کسی بشر نے ان واقعات کو نقل کیا ھی نھیں۔ نیز اسی طرح انسان کی خلقت کی کیفیت کو بیان کرنے والی آیتیں کہ انسان کو کس طرح سے مٹی سے اللہ نے پیدا کیا، یہ سب ماضی کی غیبی خبریں ہیں۔
مستقبل کی غیبی خبریں
قرآن کریم نے اسی طرح مستقبل اور آنے والے زمانے کے بارے میں بھی غیبی خبریں بیان کی ہیں کہ جن میں سے بعض خبریں رونما ھو چکی ہیں اور بعض واقعات جیسے دنیا کے خاتمہ اور قیامت کے برپا ھونے کے حوالے سے دی گئی غیبی خبریں ابھی محقق نھیں ھوئیں۔
قرآن کریم کے نازل ھونے کے بعد جو غیبی خبریں محقق ھوئیں ان میں سے بعض جیسے روم کا ایران پر فتح حاصل کرنا، (سورہ روم، آیت ۳) جنگ بدر میں کفار کی شکست( سورہ قمر، آیت ۴۴،۴۵) اور فتح مکہ اور مشرکین کے مسلمان ھونے کی خبر( سورہ فتح، آیت ۲۷) کی مثال دی جا سکتی ہے ان خبروں کا محقق ھونا اسلام اور رسول اسلام کی حقانیت پر منہ بولتا ثبوت ہے۔
پیغمبر﴿ص﴾ اور ابتر ھونے کی تھمت
تاریخ کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کے تین بیٹے تھے قاسم، عبد اللہ اور ابراھیم۔ یہ تینوں بیٹے بچپنے میں ھی دنیا سے گزر گئے اور اس سن تک نھیں پھنچ پائے کہ ان سے کوئی اولاد باقی رہ پاتی۔ یہ چیز جاھل عربوں کے نزدیک جو بیٹی کو کوئی اھمیت نھیں دیتے تھے آپ پر مقطوع النسل کی تھمت لگانے کا باعث بنی۔ لھذا انھوں نے پیغمبر اکرم (ص) کی شان و منزلت کو گھٹانے کے لیے آپ کے خلاف اس کو ایک بھترین حربہ کے طور استعمال کیا۔
جناب عبد اللہ کی موت کے بعد اور مدینہ ھجرت سے پھلے ایک دن ’’عاص بن وائل‘‘ کہ جو مشرکین کے سرداروں میں سے ایک تھا نے پیغمبر اکرم (ص) کو مسجد الحرام میں دیکھا اور آپ سے گفتگو کی۔ قریش کا ایک گروہ جو مسجد میں بیٹھا ھوا تھا نے اس سے کھا: تم کس سے بات کر رھے تھے؟ کھا: اس ابتر مرد سے( ابتر یعنی مقطوع النسل، جس کی کوئی اولاد نہ ھو﴾
قدرت کو اپنے حبیب کی شان میں مشرکین کی یہ گستاخی پسند نہ آئی اور اسی مقام پر سورہ کوثر نازل کیا جس میں مستقبل کے بارے میں ایک اور غیبی خبر دی۔ اس سورے نے پیغمبر اکرم(ص) کو کوثر اور کثیر نعمتوں کی بشارت دی۔ اور آپ کے دشمنوں کو ابتر کھا: بِسمِ اللَّـهِ الرَّحمـٰنِ الرَّحِيم. إِنَّا أَعطَيْنَاكَ الكَوْثَر. فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانحَر. إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الأَبْتَر.
کوثر کا مطلب
کوثر کے معنی اور حقیقت کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ حضرت فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا، خیر کثیر، حوض کوثر، جنت میں ایک نھر، بے شمار اولاد وغیرہ علماء نے لفظ کوثر کے معنیٰ بیان کئے ہیں۔
لیکن چونکہ خداوند عالم نے خود اس سورہ کی آخری آیت إِنَّ شانِئَک هُوَ الأَبْتر میں پیغمبر اکرم﴿ص﴾ کے دشمن کو مقطوع النسل اور ابتر کھا ہے اس سے یہ واضح ھو جاتا ہے کہ اس سورے میں کوثر سے مراد نسل کثیر ہے جو خداوند عالم نے آپ کی بیٹی کے ذریعے سے قرار دی ہے۔
نسل سادات کی غیبی خبر
سورہ کوثر کا یہ مفھوم کہ رسول اسلام(ص) کی نسل ’’نسل کثیر‘‘ ھو گی اور آپ کا دشمن مقطوع النسل ھو گا قرآن کریم کی ان غیبی خبروں میں سے ایک ہے جو اس وقت ھم سب کے سامنے محقق اور ثابت ھو چکی ہے اور یہ خبر قرآن کریم کے معجزہ ھونے پر ایک اور واضح دلیل ہے۔
عصر حاضر میں حضرت زھرا(س) سے نسل رسول(ص) دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے اور پوری دنیا میں نسل سادات کے برابر کوئی دوسری نسل نظر نھیں آتی۔ سادات کو مختلف القاب جیسے، ’’سید‘‘، ’’شریف‘‘، ’’شاہ‘‘، ’’شاھزادہ‘‘، ’’امیر‘‘، ’’میر‘‘، اور ’’ میرزا‘‘ سے تمام ملکوں میں یاد کیا جاتا ہے۔ اور بھت سارے علاقوں میں شیعہ سنی ھندو عیسائی سب کے نزدیک ان کا خاص احترام ہے۔
اگر یہ جان لیا جائے کہ طول تاریخ خاص طور پر بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں اس نسل پر مظالم کے پھاڑ توڑے گئے گروہ گروہ کی صورت میں ان کا قتل کیا گیا، ملک بدر کیا گیا، انھیں دیواروں میں چنا گیا، تو اس وقت قرآن کریم کے معجزہ ھونے کی اھمیت اور زیادہ سمجھ میں آتی ہے۔
ایران اور جھان میں سادات کے اعداد و شمار
گزشتہ دور میں نقابت(نسل پرکھنے) کے ادارے موجود تھے جو سادات کی نسل کا اندارج اور ان کے امور کی سرپرستی کی ذمہ داری کو سنبھالے ھوئے تھے۔ یہ ادارے سید ھونے کے جھوٹے دعویداروں کی راہ میں بھی رکاوٹ ھوتے تھے اور لوگوں کو شرعی احکام سے غلط فائدہ بھی نھیں اٹھانے دیتے تھے۔
ابھی بھی مصر اور یمن جیسے ملکوں میں دار النقابہ موجود ہیں لیکن بھت سارے ممالک میں یہ چیز نھیں پائی جاتی لھذا ان ممالک میں سادات کی تعداد کے بارے میں دقیق اطلاع حاصل کرنا مشکل ہے۔
لیکن کلی اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت کم سے کم ساٹھ میلین(چھے کروڑ) سید پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ البتہ یہ تعداد صرف ان سادات کی ہے جن کے باپ سید ہیں اور باپ کی طرف سے ان کا رشتہ رسول خدا (ص) سے ملتا ہے جبکہ فقھاء کی نظر میں سید ماں کے بطن سے بھی پیدا ھونے والی اولاد سادات کھلاتی ہے۔ جنھیں اصطلاح میں میرزا کھا جاتا ہے اگر ماں کی طرف سے بھی پیدا ھونے والی سادات کو اضافہ کیا جائے تو مذکورہ تعداد میں قابل توجہ اضافہ ھو جائے گا۔
اس وقت 65 لاکھ سے زیادہ سادات(باپ کی طرف سے) ایران میں قید حیات ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایرانی سال ۱۳۹۴ میں ایران میں آبادی کے اوسط میں 1.4 فیصد سادات تھے جبکہ اس سال یعنی ۱۳۹۶ میں سادات کی تعداد 2.5 فیصد ھو چکی ہے۔
پھلی یا چھٹی ذی الحجۃ، کوثر کا نقطہ آغاز
جب حضرت فاطمہ زھرا(س) کی عمر مبارک حد بلوغ کو پھنچی تو بڑے بڑے صحابہ، قبیلوں کے سردار، مال و ثروت کے مالک آپ کے رشتے کے لیے پیغمبر اکرم﴿ص﴾ کی خدمت میں حاضر ھونے لگے۔ لیکن رسول خدا(ص) فرماتے تھے: ’’فاطمہ کا رشتہ پروردگار عالم خود متعین فرمائے گا‘‘۔
کئی رشتوں کو ٹھکرانے کے بعد، اصحاب سمجھ گئے کہ علی بن ابی طالب کے علاوہ فاطمہ سے شادی کی قابلیت کوئی نھیں رکھتا۔ اس وجہ سے علی علیہ السلام کے پاس گئے اور کھا: قریش کے بزرگوں نے رسول کی بیٹی کا رشتہ مانگا لیکن پیغمبر اکرم﴿ص﴾ نے ان کے جواب میں فرمایا ہے کہ فاطمہ کا معاملہ اللہ کے ھاتھ میں ہے۔ ھمیں امید ہے کہ اگر آپ ان سے رشتہ مانگیں گے تو آپ کو مثبت جواب ملے گا۔
حضرت علی(ع) جناب فاطمہ زھرا(س) کی منگنی کے لیے گئے اور اپنی خواھش پیش کی، پیغمبر اکرم﴿ص﴾ نے فرمایا: اے علی! آپ سے پھلے بھی اس خواھش کو لے کر بھت سارے لوگ آ چکے ہیں لیکن جب بھی میں فاطمہ سے پوچھتا تھا تو فاطمہ بے رغبتی کا اظھار کرتی تھیں۔ صبر کرو تاکہ میں فاطمہ سے معلوم کر لوں‘‘۔ اس کے بعد رسول خدا جناب فاطمہ زھرا کے پاس گئے اور فرمایا: علی بن ابی طالب وہ شخص ہے جس کی رشتہ داری، فضائل اور اس کے اسلام کے بارے میں آپ جانتی ہیں۔ میں نے خدا سے دعا کی ہے کہ آپ کا اس سے رشتہ جوڑے جو اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور بھترین ھو۔ اب علی نے آپ کا رشتہ مانگا ہے اس بارے میں آپ کی کیا نظر ہے؟ جناب زھرا سلام اللہ علیھاخاموش ھو گئیں، اور اپنے رخ انور کو نھیں موڑا۔ اللہ کے رسول نے جب ان کے چھرے پر ناراضگی کے آثار نمایاں نھیں دیکھے تو اٹھے اور فرمایا: اللہ اکبر! سکوتھا اقرارھا‘‘ ان کی خاموشی رضامندی کی علامت ہے، اتنے میں جناب جبرئیل نازل ھوئے اور کھا: اے محمد! فاطمہ کو علی ابن ابی طالب کے عقد میں دے دو کہ خداوند عالم نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے لیے پسند کیا ہے‘‘۔
تاریخ نے ان دو انوار کی شادی کی مختلف تاریخیں بیان کی ہیں لیکن ان تاریخوں میں سن دو ھجری پھلی اور چھٹی ذی الحجہ زیادہ معروف ہیں۔
ان دو انوار کے عقد ازدواج کا سب سے بڑا ثمرہ ’’امامت کا شجرہ مبارکہ‘‘ ہے اور اس کے بعد علماء، دانشوروں، مجاھدوں، صالحوں اور شھیدوں پر مشتمل نسل سادات ہے جنھوں نے آج تک اسلام کو ھر گزند سے محفوظ رکھا ہے۔
قرآن کریم کا اعجاز اور علی و فاطمہ علیھما السلام کی شادی کا ثمرہ
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1703