18 ذی الحج قریب آگئی ہے اور ساری دنیا میری آنکھوں کے سامنے گردش کناں ہے۔ ایک منظر ابھرتا ہے، نمایاں ھوتا ہے اور رفتہ رفتہ آنکھوں سے اوجھل ھو جاتا ہے۔ پھر ایک نیا منظر ابھرنے لگتا ہے، آنکھوں کے سامنے سے گزرتا ہے اور دھندلکوں میں کھو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور منظر آنکھوں کو متوجہ کرنے لگتا ہے۔ آخری حج کے بعد انسانیت کے کارواں سالار کا قافلہ بطحا کی وادیوں سے نکلتے ھوئے مدینہ طیبہ کی طرف رواں ہے۔ حرا سے اتر کر جب وہ قوم کی طرف آئے تھے تو ایک ایک کرکے قافلہ تشکیل دینے لگے تھے۔ کوہ صفا پر پکارا اور کبھی دار ارقم میں دشمنوں کی نگاھوں کی اوٹ میں بیٹھ کر سمجھایا، یھاں تک کہ ایک بڑا کارواں تشکیل پا گیا۔ وحی کے زمزمے گونجتے رھے، جبریل کی رفت و آمد تازہ سندیسوں کی نوید بنی رھی اور کبھی تسلی و تشفی کا سامان پیدا کرتی رھی۔ ساری باتیں جو پھنچانا تھیں پھنچا دیں، جو اصول بتانا تھے بتا دیئے، جو فروع سمجھانا تھے سمجھا دیئے، ھر ایک کے ظرف کی پیمائش کئے ھوئے تھے اور بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر تقسیم کر رھے تھے۔ کچھ باتیں سب سے کھیں۔ کچھ خبریں خواص کو دیں۔ دم واپسیں نزدیک آیا تو ضروری ھوگیا کہ معنویت و حقیقت کے آئندہ کارواں سالار کا اعلان کر دیا جائے۔ منشائے الٰھی ’’بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ‘‘ کے الفاظ میں گونج رھا تھا۔ ادھر اصرارِ اعلام تھا اور ادھر دانائے اسرار تھا۔ حکیم بشریت دلوں کی دھڑکنوں کو سن رھا تھا اور جانتا تھا کہ ظاھر میں کیا ھمھمہ ھوگا اور دلوں میں کیا غلغلہ ھوگا۔ آخر اس کا بازو پکڑا کر بلند کیا، جو دنیا و آخرت میں اس کا بھائی قرار پایا تھا اور اعلان ھوا:
من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ
جس کا میں مولا ھوں، پس اس کا یہ علی مولا ہے۔
کھتے ہیں فضائیں بَخّ بَخّ سے گونج اٹھیں اور بلند ترین قامت کے ایک رفیق راہ نے پکار کر کھا:
اے علی! آپ کو مبارک ھو، مبارک ھو کہ آپ نے اس حال میں صبح کی کہ آپ میرے اور ھر مومن و مومنہ کے مولا قرار پائے۔ پھر ایک ایک کرکے بیعت کا سلسلہ شروع ھوا۔
ھمارے سوچنے کی بات ہے کہ کیا محمد مصطفٰی محبوب خداؐ بعد میں بھی ھر مومن و مومنہ کے مولا ہیں، ھاں ضرور ہیں تو کیا آج بھی علی ھر مومن و مومنہ کے مولا ہیں، ھاں ضرور ہیں تو آئیں پھر سے بیعت کرتے ہیں تاکہ
علی کے توسط سے مدینۂ علمِ نبوی میں راہ پا سکیں،
علی کے ذریعے حقیقت قرآن سے وابستہ ھوسکیں،
علی سے وابستہ ھو کر عبادت الٰھی سے عشق کا سلیقہ سیکھ سکیں،
علی کے ذریعے مقاصد بعثت نبوی کے دفاع کا جذبہ پا سکیں،
علی کے وسیلے سے صبر و استقامت کا درس لے سکیں،
علی کے وجود سے عدل و انصاف کی سربلندی کا ولولہ اخذ کرسکیں،
علی کے فیض سے تقوی الٰھی کو زاد راہ بنانے کا نمونہ پا سکیں،
علی سے عصر حاضر کی صھیونیت کے خلاف خیبر شکنی کا راز جان سکیں،
علی سے خارجیت کی آنکھ پھوڑنے کا فن سیکھ سکیں،
علی سے مجبور و مقھور انسانوں کی نجات کے اصول پا سکیں،
علی سے نفاق و دوروئی سے مقابلے کی حکمت جان سکیں،
علی سے مناجات با خدا کے آداب لے سکیں،
علی سے نبئ برحقؐ سے عھد وفا نبھانے کا طریقہ جان سکیں اور
علی سے روز محشر لوائے حمد کا سایہ طلب کر سکیں۔
اس لئے کہ علی آج بھی اسی طرح اھل ایمان کے مولا ہیں، جس طرح آج بھی محمد مصطفٰیؐ اھل ایمان کے مولا ہیں۔ آج امت محمدی جن مصائب سے دو چار ہے، اس سے نکلنے کی سبیل علی کی سیرت سے نکلے گی۔ ھم اپنے بھٹکے ھوئے حکمرانوں سے جب تک مایوس نہ ھوں گے، علی کے پرچم تلے جانے کی آرزو پیدا نہ ھوگی۔
البتہ ھمیں جاننا چاھیے کہ وہ مولی الموحدین ہیں، امیرالمومنین ہیں اور امام المتقین ہیں۔ ان کی قیادت کی قبولیت کا تقاضا اور ان سے بیعت کی شرط توحید پرستی، ایمان اور تقویٰ ہے۔ ان اوصاف کی طرف رغبت یعنی علیؑ کی طرف رغبت، علی سے بیعت، بیعت با علی اور علی کی ھمراھی۔ محمدؐ اور علیؑ بت شکن ہیں۔ ان کی ھمراھی جذبۂ بت شکنی کے بغیر میسر نھیں، داخلی و خارجی سب بتوں پر ضرب کاری ضروری ہے، تاکہ محمدؐ و علیؑ کی بیعت نصیب ھوسکے۔
عصر حاضر کے خارجی بتوں کو پھچانے بغیر ان سے رزم آرائی ممکن نھیں۔ محمدؐ و علیؑ انسانیت کے غمگسار اور نجات دھندہ ہیں، انسانیت کے درد و رنج کو سمجھے بغیر انسانوں کا غمگسار نھیں بنا جاسکتا۔ گروھوں، قبیلوں، علاقوں، جغرافیوں، فرقوں، مسلکوں، نسلوں، زبانوں اور رنگوں میں بٹی ھوئی انسانیت کو علیؑ ایک حرم الٰھی کی طرف رغبت کی دعوت دے رھے ہیں۔ یہ ھر تقسیم انسانیت کا درد ہے اور حرم الٰھی کی طرف رغبت وحدت و توحید کا راستہ ہے، جو ھر رنج کا مداوا ہے۔
جیسے خانہ کعبہ انسانیت کا مرکز محسوس ہے، اسی طرح علی اس مرکز کا بے عیب اور لاریب رھنما ہے کہ جس کے بارے میں ھادی بشریت نے واضح فرما دیا کہ
علی کی مثال کعبہ کی سی ہے۔
کعبہ مرکزیت و اتحاد کی علامت ہے۔
کعبہ حرم امن الٰھی ہے۔
لیکن یہ کعبہ۔۔۔ امن الٰھی کا حرمِ صامت ہے
علی وہ کعبہ ہے جو امن الٰھی کا حرمِ ناطق ہے
دنیا کو اگر امن و سلامتی سے ھمکنار کرنے کی امنگ سینوں میں موجزن ہے تو آئیں غدیر خم میں چلتے ہیں۔ 18 ذی الحج آنے کو ہے۔ نبی کریمؐ کی صدا گونجنے والی ہے کہ جس کا میں مولا ھوں علی بھی اس کے مولا ہیں۔ آئیں ھم موجود ھوں اور دل کی آنکھوں سے محمدؐ کا چھرۂ نورانی دیکھیں اور ان کا اعلامِ عام اپنے دل کے کانوں سے سنیں اور پھر ایمانی جذبے سے لپک کر علی کی بیعت کریں اور دل کی زبان سے کھیں! اے علیؑ! آپ کو مبارک ھو، مبارک ھو کہ آپ نے اس حال میں صبح کی کہ آپ میرے اور ھر مومن و مومنہ کے مولا قرار پائے۔
تحریر: ثاقب اکبر
آئیں پھر علی علیہ السلام سے بیعت کریں
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1480