فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Wednesday, 27 November 2024

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

747501

رزق کے بارے میں کونسی روایت موجود ہے؟ رزق حلال حاصل کرنے کے طریقے کیا ہیں؟ افزائش رزق کے لئے کونسی دعائیں موجود ہیں؟

ایک مختصر
لوگوں کے عام تصور کے خلاف کہ"رزق" کو صرف اس کے مادی مصادیق میں استعمال کرتے ہیں، روایتوں میں لفظ "رزق" وسیع معنی میں استعمال ھوا ہے اور خدا وند متعال کی تمام نعمتوں پر مشتمل ھوتا ہے۔ خواہ وہ نعمت مادی ھو یا معنوی۔ اس کے باوجود مادی رزق کے بارے میں بھی کچھ روایتیں پائی جاتی ہیں کہ تفصیلی جواب میں ھم ان میں سے بعض روایتوں کی طرف اشارہ کریں گے۔
تفصیلی جوابات
سوال میں پیش کئے گئے موضوع پر بحث کرنے سے پھلے، ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ لوگوں کے عام تصور کے خلاف کہ"رزق" کو صرف اس کے مادی مصادیق میں استعمال کرتے ہیں، روایتوں میں لفظ "رزق" وسیع معنی میں استعمال ھوا ہے اور خدا وند متعال کی تمام نعمتوں پر مشتمل ھوتا ہے۔ خواہ وہ نعمت مادی ھو یا معنوی۔ اس لحاظ سے تندرستی، آرام، حج جیسے واجبات بجالانے کی توفیق، اچھے دوست وغیرہ، تمام رزق شمار ھوتے ہیں۔
البتہ حدیث کی کتابوں میں بھت سی ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں جو صرف مادی رزق سے متعلق ہیں، ھم ان میں سے بعض کی طرف مثال کے طور پر ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
1۔ رزق حاصل کرنے کی کوشش: امام جعفر صادق علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: " جو شخص کم رزق کے پیچھے ھو، یہ کام اس کو زیادہ رزق ملنے کا سبب بن جاتا ہے اور اگر کوئی کم رزق کے پیچھے نہ جائے وہ زیادہ رزق کو بھی کھودے گا"۔[1]
2۔ وسعت رزق کے لئے نماز و دعا: کتاب کافی میں اس سلسلہ میں ایک عنوان آیا ہے[2] اور اس میں وسعت رزق کے لئے کئی دعائیں ذکر کی گئی ہیں، من جملہ حضرت امام جعفر صادق (ع) نے زید شجام سے فرمایا: رزق زیادہ ھونے کے لئے واجب نمازوں کے سجدوں میں یہ دعا پڑھیں: "يَا خَيْرَ الْمَسْئُولِينَ وَ يَا خَيْرَ الْمُعْطِينَ ارْزُقْنِي وَ ارْزُقْ عِيَالِي مِنْ فَضْلِكَ الْوَاسِعِ فَإِنَّكَ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم" اے سائلوں کے بھترین پناہ اور اے بھترین بخشش دینے والے، مجھے اور میرے اھل وعیال کو اپنے وسیع فضل سے رزق عطا کر کہ تو صاحب فضل عظیم ہے"[3]
اصحاب پیغمبر(ص) میں سے ایک شخص، چند دن آنحضرت(ص) کی خدمت میں حاضر نھیں ھوا اور ایک مدت کے بعد جب آنحضرت(ص) کی خدمت میں حاضر ھوا، تو رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا: ھمارے پاس آنے میں کونسی چیز تیرے لئے رکاوٹ بنی تھی؟
اس نے عرض کی: بیماری، فقر اور محتاجی۔ آنحضرت (ص) نے اس سے فرمایا: کیا تم نھیں چاھتے ھو کہ ایک ایسی دعا سکھادوں، جس کی وجہ سے خداوند متعال تجھ سے فقر اور بیماری کو دور کرے گا؟
اس نے جواب میں عرض کی: اے رسول خدا(ص) رحمت و دورود خدا آپ پر ھو، جی ھاں ( وہ دعا مجھے سکھائیے) پس رسول خدا (ص) نے فرمایا: کھدو:" لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ تَوَكَّلْتُ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ صَاحِبَةً وَ لَا وَلَداً وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيُّ مِنْ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِيرا".[4]
راوی کھتا ہے: زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ وہ شخص پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں پھر سے حاضر ھوا اور عرض کی: اے رسول خدا(ص)! خداوند متعال نے (اس دعا کے واسطے) مجھ سے بیماری اور فقر کو دور کیا۔
3۔ طلوعین ( اذان صبح سے سورج چڑھنے تک) کے درمیان بیدار رھنا: محمد بن مسلم نے امام باقر(ع) یا امام صادق(ع) سے نماز صبح کے بعد سونے کے بارے میں سوال کیا۔ امام (ع) نے جواب میں فرمایا:" اس دوران رزق تقسیم کیا جاتا ہے، مجھے پسند نھیں ہے کوئی اس وقت سوجائے۔"
اسی طرح امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:" صبح کے وقت سونا منحوس ہے انسان کے چھرہ کو زرد اور بدصورت بنا دیتا ہے۔ اور اس قسم کی نیند، بدبخت انسانوں کی نیند ہے اور خداوند متعال طلوع فجر سے آفتاب چڑھنے تک کے زمانہ میں اپنے بندوں کے درمیاں رزق تقسیم کرتا ہے۔[5]
4۔ نماز شب پڑھنا: امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک شخص نے امام (ع) کی خدمت میں تنگ دستی کے بارے میں شکوہ کرنے کے لئے زبان کھولی اور حد سے زیادہ گلہ شکوے کئے اور نزدیک تھا کہ بھوک کے بارے میں بھی شکوہ کرے۔ امام (ع) نے اس سے فرمایا: اے مرد! کیا تم نماز شب پڑھتے ھو؟ عرض کی: جی ھاں۔ امام (ع) نے اس کے ساتھی کی طرف رخ کرکے فرمایا: جو شخص تصور کرتا ہے کہ وہ نماز شب پڑھتا ہے اور دن کو بھوکا رھتا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے۔ بیشک خداوند متعال نے نمازشب کے ذریعہ دن کے رزق کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی ہے۔[6]"
رزق کو وسعت بخشنے والے اعمال، بھت زیادہ ہیں، لیکن ھم یھاں پر ان ھی پر اکتفا کرتے ہیں۔ البتہ بعض اسباب جو رزق میں کمی کا سبب بن جاتے ہیں، خلاصہ کے طور پر ان کی طرف بھی ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
1۔ نیت: البتہ، نیت، دونوں صورتوں(رزق کے کم و زیادہ ھونے میں) موثر ہے۔ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں:" مرد کا رزق اس کی نیت کے برابر ہے۔"[7] اس کلام سے مراد یہ ہے کہ، رزق کے کم و زیاد ھونے میں انسان کی نیت موثر ہے۔ پس اگر اس کی نیت اور قصد یہ ھو کہ اس کے خاندان اور دوسروں کو بھی رزق میں وسعت دے تو خداوند متعال اس کے رزق میں اضافہ کرتا ہے اور اگر اس کی نیت ان کو تنگ دست رکھنا ھو تو خداوند متعال اسے بھی تنگ دستی میں قرار دے گا۔
2۔ بعض کام انجام دینا بھی، روایتوں میں رزق میں کمی ھونے کا عنوان بیان کیا گیا ہے۔
حضرت علی (ع) فرماتے ہیں:" رزق کو کم کرنے والے امور یہ ھیں‏: مکڑی کا جال گھر میں رکھنا، حمام ( باتھ روم) میں حاجت بشری کرنا، جنابت کی حالت میں خورد ونوشت، درخت گزکی لکڑی سے خلال کرنا، کھڑے حالت میں بالوں میں کنگی کرنا، کوڑاکرکٹ کو گھر میں جمع کرنا، جھوٹی قسم کھانا، زنا، نماز مغرب وعشا کے درمیان سونا، سورج طلوع ھونے سے پھلے سونا، جھوٹ بولنے کی عادت ڈالنا، لھو لعب کی آواز سننا، رات کو کسی حاجتمند کو مسترد[نا امید] کرنا، خرچ و مخارج میں اعتدال کی رعایت نہ کرنا، صلہ ارحام کو منقطع کرنا۔[8]
رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے:" بیس خصلتیں رزق میں کمی واقع ھونے کا سبب بنتی ہیں، من جملہ: قضائے حاجت کے لئے بستر سے عریان حالت میں بلند ھونا، کھانا کھاتے وقت ھاتھ نہ دھونا، روٹی کے ٹکڑوں کی بے احترامی کرنا، لھسن اور پیاز کے چھلکوں کو نذرآتش کرنا، گھر کے دروازہ کی چوکھٹ پر بیٹھنا، رات کو جھاڑو دینا، گھر کو لباس کے ایک حصہ سے صاف کرنا، آستین سے سرو صورت خشک کرنا، گندھے برتن کو رات کے وقت نہ دھونا، پانی کے برتن کا ڈھکنا کھلا رکھنا، مسجد سے نکلنے میں جلدی کرنا، صبح صویرے بازار جانا اور رات ھونے تک بازار میں رھنا، فقراء سے روٹی خریدنا،اولاد پر نفرین کرنا، پھنے ھوئے لباس کی سلائی کرنا، پھونک مارکے دیا بجھانا۔[9]
حوالے:
۱ ۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج 5، ص 311، ح 29، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365ش.
۲ ۔ملاحظہ ھو: الکافی، ج 2، ص 550،" بَابُ الدُّعَاءِ لِلرِّزْقِ"۔
۳۔ ایضاً۔ ص 551، ح4.
۴۔ ایضاً، ص 551، ح3.
۵ ۔ طوسی، محمد بن حسن، الاستبصار، ج 1، ص 350، ح 2، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1390ق.
۶ ۔ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیه، ج 1، ص 474، ح 1371، انتشارات جامعۀ مدرسین، قم، 1413 ق.
۷۔ آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم، ص 399، انتشارات دفتر تبلیغات، قم، 1366ش.
۸۔ طبرسی، علی بن حسن، مشکاة الأنوار، ج1، ص 128، کتابخانۀ حیدریه، نجف، 1385ق.
۹ ۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 73، ص 314 ح1، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ق.

Add comment


Security code
Refresh