فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Wednesday, 27 November 2024

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

714370

مرجعیت اور تقلید سے کیا مراد ہے؟ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟
ایک مختصر
فتوی کے معنی میں" مرجعیت" ایک فقھی اصطلاح ہے کہ اس کے مقا بلے میں، " تقلید" کا مفھوم قرار پا یا ہے، یعنی اگر کوئی شخص " مرجع" ہے تو دوسرے لوگ اس کے مقلد ہیں۔ اس لحاظ سے " مرجعیت" کے مفھوم کے تجزیہ کے لئے " تقلید" کے معنی کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔
فارسی زبان میں تقلید کے معنی دلیل کے بغیر کسی کی پیروی کرنا ہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے مشھور شعر :
خلق را " تقلید شان" بر باد داد
اے دوصد لعنت بر این تقلید باد
میں اسی مفھوم کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لیکن فقھی اصطلاح میں " تقلید" سے مراد کسی غیر ماھر کا ایک تخصصی امر میں کسی ماھر کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اسی وجہ سے پھلے مفھوم کے بر خلاف جو عقلا کی نظر میں منفی اور مذموم ہے ۔ اس کے دوسرے معنی مکمل طور پر قابل قبول ہیں اور دینی مسائل میں تقلید کے جائز ھونے کی سب سے اھم دلیل، یھی عقلائی نکتہ ہے کہ ایک غیر ماھر انسان کو تخصصی مسائل میں اس امر کے ماھر شخص کی طرف رجوع کرنا چاھئیے۔
تقلید کے تمام لفظی دلالت "فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون"[ سورہ نحل/ 43] اگر کسی چیز کو نھیں جانتے ھو تو اس کے عالموں سے سوال کرو"میں مضمر ہے اور یھی امر عقلا کی نظر میں بھی قابل قبول ہے۔ اس توصیف کے پیش نظر، فقیہ کی مرجعیت، اس کے فقہ میں مھارت اور تخصص اور شرعی منابع سے احکام الھی کے استنباط کی قدرت ہے۔
منابع:
اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لئے مندرجہ ذیل منابع کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے:
مھدی ھادوی تھرانی کی کتاب " ولایت و دیانت" قم مؤسسہ فرھنگی خانہ خرد، طبع دوم 1380 ش۔

Add comment


Security code
Refresh