حضرت فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا ختمی مرتبت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دختر، امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی باعظمت زوجہ اور سرادارِ جوانان جنت یعنی حضرت حسنین کریمین علیھما السلام کی مادر گرامی ہیں تاھم آپ کی عظمت و پیغام فقط ان رشتوں کے حوالے سے ھی محدود نھیں۔ ویسے بھی الھی معیار عظمت تقویٰ ہے۔
اللہ رب العزت کے ھاں زیادہ عظمت اسی کی ہے جو زیادہ متقی و پرھیزگار ہے۔ حضرت فاطمۃ الزھرا سلام اللہ وہ باشرف ھستی ہیں کہ جن کی عظمت اور مقام کو تمام عالم اسلام میں متفقہ طور پر مانا جاتا ہے۔ عالم اسلام کے تمام مکاتب متفق ہیں کہ آپ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور ان کی سرداری خود رسول اکرم (ص) نے اپنی زبان مبارک سے بیان فرمائی ہے۔ اسی طرح آپ کا اھل بیت علیھم السلام میں شامل ھونا اور آیت تطھیر کا مصداق ھونا بھی تمام عام اسلام میں متفقہ حیثیت رکھتا ہے۔
آیت تطھیر میں اھل بیت نبوت کی طھارت باطنی و روحی کی گواھی خود اللہ رب العزت نے دی ہے۔ رجس یعنی نجاست سے دوری کا یہ دعویٰ اور ارادہ الھی ثابت کرتا ہے کہ بی بی فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا ھرقسم کے کفر و شرک، گناھان صغیرہ و کبیرہ ، فکر و عقیدہ اور عمل کی خطاؤں اور دیگر روحانی امراض (حسد و حرص، بغض و کینہ ، بخل وغیرہ) سے پاک و پاکیزہ تھیں اور یھی چیز آپ کے مقام و مرتبہ اور عظمت کو عالم اسلام بلکہ تمام بنی نوع انسان کیلئے مشعل راہ اور نمونہ کردار و عمل بناتی ہے۔
رسول اکرم (ص) کی حدیث مبارکہ ہے کہ ’’فاطمۃ بضعۃ منی‘‘ یعنی فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا میرا جزو اور حصہ ہے۔ یاد رھے کہ کوئی بھی کل جزو کے بغیر کامل اور مکمل نھیں ھوتا۔ عام طور پر اس روایت کی تفسیر رسول پاک (ص) کی بی بی فاطمہ سے پیار و محبت کی بنیاد پر کی جاتی ہے یعنی رسول پاک (ص) نے بی بی سے کمال محبت کا اظھار کرتے ھوئے حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کو اپنے جسم اطھر مبارک کا حصہ قرار دیا یعنی یہ ترجمہ کیاجاتا ہے کہ فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے یا فاطمہ میرا گوشہ جگر ہے، جبکہ رسول ختم مرتبت کا جو برتاؤ اور سلوک، بی بی فاطمۃ کے ساتھ کتب حدیث و تاریخ میں بیان کیا گیا ہے وہ ایک باپ کا بیٹی کے ساتھ پیار و محبت اور شفقت سے بھت بڑھ کر بلکہ یوں کھنا مناسب ھوگا کہ بھت ھٹ کر ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث جو تمام مکاتب میں یکساں مقبول ہے اور اپنے اندر بھت اسرار و رموز رکھتی ہے وہ یہ کہ ’’فاطمۃ ام ابیھا‘‘ ابیھا یعنی اپنے والد کی ماں۔ اسی طرح مشھور و معروف روایت ہے کہ جب بھی کبھی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا، ختمی مرتبت کے پاس تشریف لاتیں تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی نشست سے کھڑے ھوجاتے۔ آپ (ص) بی بی فاطمہ کا استقبال کرتے اور پھر انھیں اپنی جگہ پہ بٹھاتے۔ اگر رسول پاک (ص) باپ ھونے کی حیثیت سے اپنی دختر کا یوں احترام و اکرام کررھے ھوتے تو پھر ھر باپ کیلئے یہ سنت قرار پاتا کہ وہ اپنی بیٹی کا استقبال و اکرام اسی انداز سے کرے جبکہ واضح اس عمل کو والد کیلئے سنت قرار نھیں دیا گیا۔ جس سے واضح ھوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا رب العزت کے یھاں جو مقام و مرتبہ اور منزلت رکھتی ہیں، اس کا اعتراف اور اس کا اکرام نبی کریم (ص) کو اپنی نشست سے کھڑا ھوکر استقبال کراتا ہے۔
اس انداز کا احترام و اکرام صحابہ کرام اور بعد ازاں سب عالم اسلام کیلئے ایک روشن حجت قرار دیا گیا کہ فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا اگرچہ دختر پیغمبر، زوجہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب اور والدہ حسنین کریمین کی حیثیت سے قابل احترام ہیں مگر آپ بی بی کی عظمت و منزلت اور مقام و مرتبہ صرف ان کوششوں میں محدود نھیں ہے۔ حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ کی ایک اور حدیث مبارکہ جسے تمام مکاتب قبول کرتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ ’’جس کسی نے فاطمہ (س) کو خوش و راضی کیا اس نے مجھے راضی کیا اور جس کسی پر فاطمہ (س) غضب ناک ھوئیں اس پر میں غضب ناک ھوں‘‘ ۔ اگر اس روایت کو ان روایات و احادیث مقبرہ اور آیات قرآنی سے ملایاجائے کہ جن میں خوشنودی خدائے بزرگ و برتر کو خوشنودی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیھا و آلہ وسلم میں منحصر قرار دیا گیا اور غضب رسول پاک کو غیض و غضب خدائے تعالٰی کا مصداق بتایا گیا ہے تو پتہ چلے گا کہ حضرت سیدہ کی رضا و خوشنودی، اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی ہے اور سیدہ کی ناراضی اور غصہ اللہ رب العزت کا غیض و غضب ہے۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کا یھی مقام و مرتبہ ہے اور بضعۃ منی (جزو رسالت) ھونے کا تقاضہ ہے کہ حضرت بی بی فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا سب مسلمانوں کیلئے مشعل راہ اور نمونہ کردار و تقوی قرار پاتی ہیں اور اسی سے عمومی طور پر پائی جانے والی اس غلط فھمی کا بھی ازالہ ھوتا ہے کہ جھاں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کو صرف عورتوں کیلئے مثال اور رھنما بیان کیا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نھیں کہ مرد اور عورتیں کچھ امتیازات رکھتے ہیں ماں، بیوی اور بھن و بیٹی کی حیثیت ھو یا امور خانہ داری و گھر داری، ان حوالوں سے ایک مثالی خاتون ھی عورتوں کیلئے نمونہ عمل قرار پا سکتی ہے اور یہ اعلٰی کردار حضرت فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیھا کی زندگی میں ایک روشن چراغ کی مانند سب خواتین کیلئے واضح اور حجت کا مقام رکھتا ہے۔
اسی لیے ختمی مرتبت کی معروف حدیث مبارکہ ہے کہ سیدۃ النساء العالمین ہیں، یعنی حضرت زھرا سلام اللہ علیھا تمام عورتوں کی سردار ہیں لیکن بحیثیت انسان تقرب الھی اور روحانی و معنوی ترقی اور حسن سلوک کی نازل سب عورتوں اور مردوں کیلئے یکساں ہیں۔ اسی لیے حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگرچہ مرد ہیں لیکن ’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ‘‘(سورہ احزاب آیت 21) کی روشنی میں سب مرد وز ن رسول پاک کی زندگی سے نمونہ اور اسوہ حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا (دیگر مخدارات عصمت و طھارت) اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی، معاشرے میں کردار اور عبادت خدا اور تقوائے الھی کی ادائیگی میں سب مرد وزن کیلئے نمونے اور اسوے کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ وہ سبق ہے کہ جو آج عالم اسلام کو اس عظیم بی بی کی زندگی سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
ایک اور اھم نکتہ جسے یھاں بیان کرنا ضروری ہے کہ جس طرح ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پر ایمان اور آپ (ص) سے عشق و محبت تمام عالم اسلام کیلئے نکتہ وحدت ہے اسی طرح جیسا کہ ان سطور میں بی بی کے حوالے سے متفق احادیث و روایات بیان کی گئیں۔ حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی ذات بابرکات بھی تمام عالم اسلام کیلئے اتحاد اور وحدت یکجھتی کیلئے مرکز کی حیثیت رکھتی ہیں۔
آج جب کہ ملت اسلامیہ کو سازشوں سے مختلف گروھوں اور فرقوں میں بانٹ دیا گیا ہے اور یہ سازشیں جاری ہیں، ان سازشوں کا مرکز یقیناً اسلام دشمن سامراجی طاقتیں ہیں، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی ذات مبارکہ عالم اسلام کی وحدت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
معروف ہے کہ آپ کی شھادت 13،14، 15 جمادی الاول کو ھوئی جبکہ بعض روایات میں آپ کی شھادت 3 جمادالثانی بتائی جاتی ہے اور وہ بھی اس عالم میں کہ آپ کا یہ فرمان دل کو چھلنی چھلنی کردیتا ہے (اس فرمان کو زوجہ مولوی عبدالعزیز، ام حسان نے لال مسجد محاصرے کے ایام میں بھی بیان کیا) ’’مجھ پر اس قدر مصائب ٹو ٹ پڑے کہ وہ اگر روشن دنوں میں پڑتے تو وہ بھی تاریک راتوں میں تبدیل ھوجاتے‘‘ بھت اھم ہے کہ ان ایام شھادت یعنی ایام فاطمیہ سے شایان شان طریقے سے استفادہ کریں۔ آپ بی بی اور آپ کی سیرت و کردار اور تعلیمات کے تذکرہ سے اپنی روح اور ایمان کو پاکیزہ کیا جائے۔ اس حوالے سے مجالس و محافل اور سیمینار کا انعقاد بھی ھونا چاھیے اور پرنٹ و الیکڑانک میڈیا کو بھی اپنا کردار سے ادا کرنا چاھیئے۔
ھم اس تحریر کا اختتام حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے مشھور و معروف خطبہ کے چند اقتباسات سے کرتے ہیں جس میں بی بی سلام اللہ علیھا نے مختلف فرائض و واجبات کے فلسفے اور مقاصد کو بیان کیا ہے۔ آپ کے خطبے کے یہ جملے آپ کی عظمت اور اعلٰی علمی و روحانی مقام کی گواھی دیتے ہیں، آپ سلام اللہ علیھا نے فرمایا’’ اللہ تعالٰی نے ایمان کو شرک سے تمھاری تطھیر کیلئے لازمی قرار دیا ہے اور نماز کو اس لیے فرض قرار دیا تاکہ وہ تکبر سے تمھیں پاک کردے اور زکوۃ کو تمھارے نفوس کے تزکیے (طھارت) اور رزق میں اضافے کیلئے واجب قرار دیا۔ روزے کو تمھارے اخلاص کو ثابت کرنے کیلئے لازم کیا اور دین کو طاقت بخشنے کیلئے حج کو واجب کیا اور عدل کو اس لیے ضروری قرار دیا تاکہ تمھارے دلوں کو آراستہ و پیراستہ کردے اور ھماری اطاعت کو ملت کے نظام کیلئے واجب قرار دیا اور ھماری یعنی اھل بیت کی قیادت و امامت کو ملت کو تفرقہ و انتشار سے محفوظ رکھنے کیلئے قرار دیا اور جھاد کو عزت اسلام قرار دیا ہے۔
اللہ تعالٰی ھمیں عشق و محبت سیدہ النساالعالمین اور پیروی و اطاعت حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے ذریعے خوشنودی خدا اور خوشنودی رسول خدا حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تحریر: آئی اے خان
سیدۃ النساء العالمین فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیھا، مشعل راہ
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 2257