www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

images
حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کے بارے میں کچھ لکھنا عام انسان کی بس کی بات نھیں، آپ کے فضائل اور مناقب خداوند متعال، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام ھی بیان کرسکتے ہیں۔ آپؑ کائنات کی وہ بے مثال خاتون ہیں، جنھیں دو اماموں کی ماں بننے کا شرف حاصل ھوا۔ آپؑ وہ ممدوحہ ہیں، جس کی مدح سورۃ کوثر، آیت تطھیر اور سورۃ دھر جیسی قرآنی آیتوں اور سوروں میں کی گئی۔ آپؑ وہ عبادت گزار ہیں، جس کی نماز کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور کا سلسلہ قائم ھو جاتا تھا۔ آپؑ وہ صاحب سخاوت ہیں، جس نے فاقوں میں سائل کو محروم واپس نھیں جانے دیا۔ آپؑ وہ باعفت خاتون ہیں، جس کا پردہ تمام زندگی برقرار رھا کہ باپ کے ساتھ نابینا صحابی بھی آیا تو اس سے بھی پردہ فرمایا۔ آپؑ وہ صاحب نظر ہیں کہ جب رسول خدا ﷺکے سوال پر کہ عورت کے لئے سب سے بھتر کیا چیز ہے۔؟ تو اس وقت آپؑ نے فرمایا: عورت کے حق میں سب سے بھتر شے یہ ہے کہ نامحرم مرد اسے نہ دیکھے اور وہ خود بھی کسی نامحرم کو نہ دیکھے۔ "خیر لهن ان لا یرین الرجال و لا یرو نهن"﴿١﴾۔ رسول خدا ﷺ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: "ان الله یغضب لغضبک و یرضی لرضاک"﴿۲﴾۔ بےشک خدا آپ کے غضبناک ھونے سے غصے میں آتا ہے اور آپ کی خوشنودی سے خوش ھوتا ہے۔
انسانیت کے کمال کی معراج وہ مقام عصمت ہے، جب انسان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کے تابع ھو جائے۔ اگر عصمت کبریٰ یہ ہے کہ انسان کامل اس مقام پر پھنچ جائے کہ مطلقاً خدا کی رضا پر راضی ھو اور غضب الٰھی پر غضبناک ھو تو فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا وہ ھستی ہیں کہ خداوند متعال مطلقاً آپ کی رضا پر راضی اور آپ کے غضب پر غضبناک ھوتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو کامل ترین انسانوں کے لئے باعث حیرت ہے۔
ان کی ذات آسمان ولایت کے ستاروں کے انوار کا سرچشمہ ہے، وہ کتاب ھدایت کے اسرار کے خزینہ کی حد ہیں۔ آپؑ لیلۃ المبارکۃ کی تاویل ہیں۔ آپ شب قدر ہیں۔ آپ نسائنا کی تنھا مصداق ہیں۔ آپ زمانے میں تنھا خاتون ہیں، جن کی دعا کو خداوند متعال نے مباھلہ کے دن خاتم النبین کے ھم رتبہ قرار دیا۔ آپؑ کائنات میں واحد خاتون ہیں، جن کے سر پر"انما نطعمکم لوجه الله"﴿۳﴾۔ کا تاج مزین ہے۔ وہ ایسا گوھر یگانہ ہیں کہ خداوند متعال نے رسول خدا ﷺکی بعثت کے ذریعے مومنین پر احسان کیا اور فرمایا: "لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم.. "﴿۴﴾ اور اس گوھر یگانہ کے ذریعے سرور کائنات پر احسان کیا اور فرمایا: "انا اعطیناک الکوثر فصل لربک و انحر، ان شانئک هو الابتر" بے شک ھم نے ھی آپ کو کوثر عطا فرمائی۔ لھذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔ یقیناً آپ کا دشمن ھی بے اولاد رھے گا۔ اس مختصر مقالہ میں ھم سیرت حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا میں موجود چند تربیتی نمونوں کو پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
لغت میں سیرۃ، رفتار کے معنی میں آیا ہے۔ "حسن السیره؛ یعنی خوش رفتار یا اچھی رفتار۔"﴿۵﴾ ابن منظور کے مطابق سیرۃ سے مراد: "سنت" اور "طریقہ" ہے۔ جیسے "السیره:السنه؛ سیرت یعنی سنت اور راہ و روش کے معنی میں ہے۔" سار بهم سیرة حسنة" یعنی ان کے ساتھ اچھا رویہ اور سلوک کے ساتھ پیش آیا۔
اصطلاح میں سیرہ کسی انسان کی زندگی کے مختلف مراحل اور مواقع میں چھوڑے ھوئے نقوش اور کردار کے مجموعہ کو "سیرۃ" کھا جاتا ہے، جسے دوسرے انسان اپنے لئے نمونہ عمل بنایا جاسکیں۔﴿٦﴾ صاحب مفردات کے مطابق "رب" مصدری معنٰی کے لحاظ سے کسی چیز کو حد کمال تک پھچانے، پرورش اور پروان چڑھانے کے لئے استعمال ھوتا ہے۔﴿۷﴾
صاحب التحقيق کا کھنا ہے اس کا اصل معنٰی کسی چیز کو کمال کی طرف لے جانے اور نقائص کو تخلیہ اور تحلیہ کے ذریعے رفع کرنے کے معنٰی میں ہے۔﴿۸﴾
بنابراین اگر اس کا ريشہ (اصل) "ربو" سے ھو تو اضافہ کرنا، رشد، نمو اور موجبات رشد کو فراھم کرنے کے معنٰی میں ہے، لیکن اگر "ربب" سے ھو تو نظارت، سرپرستی و رھبری اور کسی چیز کو کمال تک پھنچانے کے لئے پرورش کے معنٰی میں ہے۔
شھید مرتضٰی مطھری لکھتے ہیں: تربیت انسان کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے۔ ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں (انسان، حیوان، پودوں) میں موجود ھوں، انھیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کھتے ہیں۔ اس بناء پر تربیت صرف جانداروں سے مختص ہے۔ سیرہ تربیتی ھر اس رفتار کو کھا جاتا ہے، جو دوسروں کی تربیت کی خاطر انجام دی جاتی ہے۔ اس بناء پر انسان کی ھر وہ رفتار جو وہ دوسروں کے احساسات، عواطف، یقین و اعتقاد اور شناخت پر اثرانداز ھونے کے لئے انجام دیتا ہے، سیرت تربیتی کھا جاتا ہے۔﴿۹﴾
الف۔ گھرىلو اور ازدواجى نمونہ
زندگى اىک اىسا مرکز ہے، جس مىں نشىب و فراز پائے جاتے ہیں۔ زندگى مىں کبھی انسان خوش، کبھى غمگىن، کبھى آسائش اور کبھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر مىاں بىوى بابصىرت اشخاص ھوں تو وہ سختیوں کو آسان اور ناھموار کو ھموار بنا دىتے ہیں۔ حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا اس میدان مىں اىک کامل اسوه اور نمونہ ہیں۔ آپ بچپن سے ھى سختى اور مشکل مىں رھیں۔ اپنى پاک طبىعت اور روحانى طاقت سے تمام مشکلات کا سامنا کیا اور جب شوھر کے گھر مىں قدم رکھا تو اىک نئے معرکہ کا آغاز ھوا، اس وقت آپ کى شوھردارى اور گھرىلو زندگى کے اخلاقىات کھل کر سامنے آئے۔ اىک دن امام علىؑ نے جناب فاطمهؑ سے کھانا طلب کیا، تاکہ بھوک کو برطرف کرسکىں، لىکن جناب فاطمهؑ نے عرض کیا کہ میں اس خدا کى قسم کھاتى ھوں، جس نے مىرے والد کو نبوت اور آپ کو امامت کے لئے منتخب کیا، دو دن سے گھر مىں کافى مقدار مىں غذا نھىں ہے اور جو کچھ غذا تھى، وه آپ اور آپ کے بىٹے حسنؑ اور حسىنؑ کو دىدی ہے۔ امام نے بڑى حسرت سے فرمایا، اے فاطمهؑ آخر مجھ سے کیوں نھیں کھا کہ میں غذا فراھم کرنے کے لئے جاتا تو جناب فاطمهؑ نے عرض کىا: "يَا أَبَا الْحَسَنِ إِنِّي لَأَسْتَحْيِي مِنْ إِلَهِي أَنْ تُكَلِّفَ نَفْسَكَ مَا لَا تَقْدِرُ عَلَيْه"‏ اے ابوالحسن مىں اپنے پروردگار سے حیاء کرتى ھوں کہ میں اس چیز کا سوال کروں، جو آپ کے پاس نہ ھو۔﴿١۰﴾
ب۔ سیاسى نمونہ
حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا کے سیاسی اخلاقىات کو درج ذىل عناوىن کے تحت دیکھا جا سکتا ہے، جیسے امام اور حجت خدا کا دفاع، امامت اور رھبرى کى کامل پىروى اور فدک کے متعلق مختلف میدانوں میں مقابلہ اور جنگ و جهاد کے بندوبست مىں خوشى اور دلسوزى سے حاضر رھنا۔ سب سے پھلے آپ نے غصب شده حق کو گفتگو سے حل کرنے کى کوشش کى اور قرآن کرىم کى آیات سے دلیلیں قائم کیں۔ حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا خلیفہ کے پاس تشرىف لے گئىں اور فرماىا: "لِمَ‏ تَمْنَعُنِي‏ مِيرَاثِي‏ مِنْ أَبِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ، وَ أَخْرَجْتَ وَكِيلِي مِنْ فَدَكَ؟! وَ قَدْ جَعَلَهَا لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ بِأَمْرِ اللَّهِ تَعَالَى؛﴿١١﴾؛ تم کیوں مجھے میرے بابا کی میراث سے منع کر رھے ھو اور تم نے کیوں میرے وکىل کو فدک سے بے دخل کر دیا ہے، حالانکہ الله کے رسول نے الله کے حکم سے اسے میرى ملکیت مىں دىا تھا۔" اسى طرح جب خلافت کا حق چھینا گیا تو دفاع امامت مىں پورا پورا ساتھ دیا اور آپ حسن و حسىن کا ھاتھ پکڑ کر رات کے وقت مدىنہ کے بزرگوں اور نمایاں شخصىات کے گھر جاتیں،ر انھیں اپنى مدد کى دعوت دیتیں اور پىغمبر کى وصیت یاد دلواتیں۔﴿١۲﴾ حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا فرماتى ہیں، اے لوگو! کیا میرے والد نے على کو خلافت کے لئے معىن نھیں فرمایا تھا، کیا ان کى فداکاریوں کو فراموش کر بیٹھے ھو، کیا میرے پدر بزرگوار نے یہ نھیں فرمایا تھا کہ مىں تم سے رخصت ھو رھا ھوں اور تمھارے درمیان دو عظىم چىزىں چھوڑے جا رھا ھوں، اگر ان سے متمسک رھوگے تو ھرگز گمراه نھیں ھوگے اور وه دو چىزیں ایک الله کى کتاب اور دوسری میری اھل بىت ہیں۔
ج۔ اقتصادى نمونہ
حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا اقتصادى اخلاقىات مىں بھى ھمارے لئے اسوه کامل ہیں۔ سخاوت کے میدان میں آپ اپنے پدر بزرگوار کے نقش قدم پر چلتی تھیں۔ آپ نے اپنے بابا سے سن رکھا تھا "السخى قرىب من الله" سخى الله کے قرىب ھوتا ہے۔ جابر بن عبدالله انصارى کا بیان ہے کہ رسول خدا نے ھمیں عصر کى نماز پڑھائى، جب تعقیبات سے فارغ ھوئے تو محراب مىں ھمارى طرف رخ کرکے بیٹھ گئے۔ لوگ آپ کو ھر طرف سے حلقہ مىں لئے ھوئے تھے کہ اچانک ایک بوڑھا شخص آیا، جس نے بالکل پرانے کپڑے پھنے ھوئے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر رسول خدا نے اس کى خیرت پوچھى، اس نے کھا اے الله کے رسول میں بھوکا ھوں، لٰھذا کھانے کو کچھ دیجئے، میرے پاس کپڑے بھى نھیں ہیں، مجھے لباس بھى دیں۔ رسول خدا نے فرمایا فى الحال میرے پاس کوئی چىز نھیں ہے، لیکن تم اس کے گھر جاؤ جو الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور الله اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں، جاؤ تم فاطمہ کى طرف اور بلال سے فرماىا تم اسے فاطمہ کے گھر تک پھنچا دو۔ فقیر حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا کے دروازه پر رکا اور بلند آواز سے کھا نبوت کے گھرانے والو، تم پر سلام۔ شھزادى کونین نے جواب مىں کھا تم پر بھى سلام ھو۔ تم کون ھو؟ کھا مىں بوڑھا اعرابى ھوں، آپ کے پدر بزرگوار کى خدمت مىں حاضر ھوا تھا، لیکن رسول خدا نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ مىں فقیر ھوں، مجھ پر کرم فرمائیں، خدا آپ پر اپنى رحمت نازل فرمائے۔
حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا نے اپنا ھار یا گردن بند جو آپ کو حضرت حمزه کى بیٹى نے ھبہ کیا تھا، اتار کر دے دیا اور فرمایا امید ہے کہ خدا تم کو اس کے ذرىعے بھتر چىز عناىت فرمائی۔ اعرابى ھار لے کر مسجد مىں آیا، حضور مسجد مىں تشرىف فرما تھے، عرض کیا اے رسول خدا: فاطمہ زھرا نے یہ ھار دے کر کھا اس کو بیچ دىنا، حضور یہ سن کر روپڑے، اس وقت جناب عمار ىاسر کھڑے ھوئے، عرض کیا یارسول الله کیا مجھے یہ ھار کے خریدنے کى اجازت ہے۔ رسول خدا نے فرمایا خرید لو۔ جناب عمار نے عرض کى اے اعرابى یہ ھار کتنے مىں فروخت کرو گے، اس نے کھا کہ اس کى قیمت یہ ہے کہ مجھے روٹى اور گوشت مل جائے اور ایک چادر مل جائے، جسے اوڑھ کر مىں نماز پڑھ سکوں اور اتنے دینار جس کے ذرىعے مىں گھر جا سکوں۔ جناب عمار اپنا وه حصہ جو آپ کو رسول خدا نے خیبر کے مال سے غنىمت مىں دیا تھا، قیمت کے عنوان سے پىش کرتے ھوئے کھا: اس ھار کے بدلے تجھے بیس دینار، دو سو درهم، اىک بردیمانى، ایک سوارى، اتنى مقدار مىں گیهوں کى روٹیاں اور گوشت فراھم کر رھا ھوں، جس سے تم بالکل سیر ھو جاؤگے۔ جب یہ سب حاصل کیا تو اعرابى رسول خدا کے پاس آیا۔ رسول خدا نے فرمایا، کىا تم سیر ھوگئے ھو؟ اس نے کھا مىں آپ پر فدا ھو جاؤں بے نیاز ھوگیا ھوں۔
جناب عمار نے ھار کو مشک سے معطر کیا، اپنے غلام کو دیا اور عرض کیا اس ھار کو لو اور رسول خدا کى خدمت مىں دو اور تم بھى آج سے رسول خدا کو بخش دیتا ھوں۔ غلام ھار لے کر رسول خدا کى خدمت مىں آیا اور جناب عمار کى بات بتائى۔ رسول خدا نے فرمایا یہ ھار فاطمہ کو دو اور تمھیں فاطمہ کو بخش دیتا ھوں۔ غلام ھار لے کر حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا کى خدمت مىں آیا اور آپ کو رسول خدا کى بات سے آگاه کیا۔
حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا نے وه ھار لیا اور غلام کو آزاد کر دىا۔ غلام مسکرانے لگا۔ حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا نے وجہ پوچھى تو غلام نے کھا مجھے اس ھار کى برکت نے مسکرانے پر مجبور کیا، جس کی برکت سے بھوکا سیر ھوا اور برھنہ کو لباس اور غلام آزاد ھوگىا پھر بھی یہ ھار اپنے مالک کے پاس پلٹ گىا۔﴿١۳﴾
خلاصہ یہ کہ حضرت زھراؑ منصب امامت کے لحاظ سے تو اگرچہ پیغمبر گرامیﷺ کی جانشین نھیں تھیں، لیکن وجودی کمالات اور منصب عصمت و طھارت کے لحاظ سے کوئی دوسری خاتون اولین و آخرین میں سے ان جیسی نھیں ہے۔
جناب سیدہ علمی، عملی، اخلاقی اور تربیتی حوالے سے نمونہ عمل ہیں۔ انسان کی دینی و دنیاوی سعادت اس بات میں مضمر ہے کہ وہ ان ھستیوں سے متمسک رھے، جنھیں اللہ نے "اسوہ حسنہ" قرار دیا ہے۔
بنابراین حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا ھمارے لئے زندگی کے ھر شعبے میں نمونہ عمل اور قابل تقلید ہے۔ "السّلام علیک أیّتها الصدّیقة الشهیدة الممنوعة إرثُها، المکسور ضلعها، المظلوم بعلها، المقتولِ وَلَدُها"
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی
حوالہ جات:
۱۔ حلیۃ الاولیاء ج2ص40۔
۲۔ المستدرک علی الصحیحین، ج3 ص154۔
۳۔ انسان،9۔
۴۔ آل عمران،164۔
۵۔ فیروز آبادی، القاموس المحیط، بیروت، دارالکتاب العربیہ، ۱۴۳۲ھ، ص۴۳۹۔
۶۔ محمد بن مکرم ابن منظور، لسان العرب، بیروت: دارالفکر، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۳۸۹؛ فخرالدین محمد طریحی، مجمع البحرین، تھران: مرتضوی، ۱۳۷۵، ج۳، ص۳۴۰ ۔
۷۔ معجم مقاييس اللغه، ص378؛ لسان العرب، ج2، ص1420؛ مجمع البحرين، ج2، ص63؛ محمد مرتضي حسینی زبيدي، تاج العروس من جواهر القاموس، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۴ق، چ اول، ص459 و460۔
۸۔ مرتضٰی مطھری، تعلیم و تربیت در اسلام، تھران: صدرا، ۱۳۳۷ش۔، ص۴۳۔ مرتضٰی ۔
۹۔ محمد داؤدی، سیرہ تربیتی پیامبر و اھل بیت، تربیت دینی، بی تا،ج ۲، ص۲۳۔
۱۰۔ باقر مجلسی٬ مجلسی٬ بحار الانوار٬ مؤسسه الوفا بیروت٬ 1404ق٬ ج43 ٬ص59۔
۱۱۔ قزوینی، محمد کاظم، مترجم الطاف حسین، فاطمه زهرا من المهدی الی الحد، قم٬ قزوینی فاونڈیشن، 1980، ص343۔
۱۲۔ ابراهیم امینی، اسلام کی مثالی خاتون، (مترجم، اختر عباس)، دارالثقافه اسلامیه،1470 ھ، ص191۔
۱۳۔ مجلسی٬ محمد باقر٬ بحار الانوار٬ ج43 فص56و57۔

Add comment


Security code
Refresh