www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

200603
حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کے بارے میں کچھ لکھنا عام انسانوں کی بس کی بات نھیں، اس عظیم شخصیت کے بارے میں گفتگو کرنے کے لئے صاحب عصمت اور عالی بصیرت کا حامل ھونا چاھیے،کیونکہ اس کے بغیر آپؑ کے وجود کو کوئی درک نھیں کرسکتا۔ آپ کے فضائل اور مناقب خداوند متعال، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام ھی بیان کر سکتے ہیں۔
کتاب فضل ترا آب بحر کافی نیست
کہ تر کنم سر انگشت و صفحہ بشمارم
سمندر سیاھی، درخت قلم اور جن و انس لکھنے والے بن جائے تب بھی آپ کے فضائل بیان نھیں کرسکتے۔ علامہ اقبال انھی افراد میں سے تھے، جنھیں خدا نے عالی بصیرت عطا کی انھوں نے حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کی شان میں ایک نظم کہہ کر اپنی عقیدت کا اظھار کیا ہے، یھاں ھم اسی نظم کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ آپؑ کی والدہ ملیکۃ العرب تھیں، لیکن آپؑ نے کبھی آرام کی زندگی پسند نھیں کی۔ آپ نے ھمیشہ اپنے کردار کو نمونہ عمل بنا کر رکھا۔ والد مختار کائنات تھے، لیکن کبھی آپ نے اس رشتے سے فائدہ نھیں اٹھایا اور تمام زندگی ھر طرح کی مصیبت و زحمت برداشت کرتی رھی۔ شوھر مشکل کشاء تھے، لیکن آپؑ نے تمام زندگی کسی طرح کی فرمائش نھیں کی اور ھمیشہ شوھر کی خدمت کرنے کے بعد وقت آخر معذرت طلب کی کہ اگر کوئی کوتاھی ھوگئی ھو تو معاف کر دیں۔ آپؑ کے فرزند جنت کے جوانوں کےسردار تھے۔
آپؑ کائنات کی وہ بے مثال خاتون ہیں، جنھیں دو اماموں کی ماں بننے کا شرف حاصل ھوا۔ آپؑ وہ ممدوحہ ہیں، جس کی مدح سورہ کوثر، آیت تطھیر اور سورہ دھر جیسی قرآنی آیتوں اور سوروں میں کی گئی۔ آپؑ وہ عبادت گزار ہیں، جس کی نماز کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور کا سلسلہ قائم ھو جاتا تھا۔ آپؑ وہ صاحب سخاوت ہیں، جس نے فاقوں میں سائل کو محروم واپس نھیں جانے دیا۔ آپؑ وہ باعفت خاتون ہیں، جن کا پردہ تمام زندگی برقرار رھا کہ باپ کے ساتھ نابینا صحابی بھی آیا تو اس سے بھی پردہ فرمایا۔ آپؑ وہ صاحب نظر ہیں کہ جب رسول خدا ﷺکے سوال پر کہ عورت کے لئے سب سے بھتر کیا چیز ہے؟ تو اس وقت آپؑ نے فرمایا: عورت کے حق میں سب سے بھتر شے یہ ہے کہ نامحرم مرد اسے نہ دیکھے اور وہ خود بھی کسی نامحرم کو نہ دیکھے۔(خیر لهن ان لا یرین الرجال و لا یرو نهن) رسول خدا ﷺ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں :(ان الله یغضب لغضبک و یرضی لرضاک) بےشک خدا آپ کے غضبناک ھونے سے غصے میں آتا ہے اور آپ کی خوشنودی سے خوش ھوتا ہے۔ انسانیت کے کمال کی معراج وہ مقام عصمت ہے، جب انسان کی رضا و غضب خدا کی رضا و غضب کے تابع ھو جائے۔ اگر عصمت کبریٰ یہ ہے کہ انسان کامل اس مقام پر پھنچ جائے کہ مطلقاً خدا کی رضا پر راضی ھو اور غضب الٰھی پر غضبناک ھو تو فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا وہ ھستی ہیں کہ خداوند متعال مطلقاً آپ کی رضا پر راضی اور آپ کے غضب پر غضبناک ھوتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو کامل ترین انسانوں کے لئے باعث حیرت ہے۔ ان کی ذات آسمان ولایت کے ستاروں کے انوار کا سرچشمہ ہے، وہ کتاب ھدایت کے اسرار کے خزینہ کی حد ہیں۔
جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا وہ ھستی ہیں، جو نسل اسماعیل میں اول امام کی شریک حیات اور گیارہ ائمہ کی ماں ہیں۔ جن کے متعلق توریت کے سفر تکوین کے سترھویں باب میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اطلاع دی۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا وہ ہیں، جو یوحنا کے مکاشفات میں ایک عظیم علامت کے طور پر آسمان پر ظاھر ھوئیں۔ آپؑ لیلۃ المبارکۃ کی تاویل ہیں۔ آپ شب قدر ہیں۔ آپ نسائنا کی تنھا مصداق ہیں۔ آپ زمانے میں تنھا خاتون ہیں، جن کی دعا کو خداوند متعال نے مباھلہ کے دن خاتم النبین کے ھم رتبہ قرار دیا۔ آپؑ کائنات میں واحد خاتون ہیں، جن کے سر پر (انما نطعمکم لوجه الله) کا تاج مزین ہے۔ وہ ایسا گوھر یگانہ ہیں کہ خداوند متعال نے رسول خدا ﷺکی بعثت کے ذریعے مومنین پر منت رکھی اور فرمایا:(لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم..) اور اس گوھر یگانہ کے ذریعے سرور کائنات پر منت رکھی اور فرمایا: (انا اعطیناک الکوثر فصل لربک و انحر ،ان شانئک هو الابتر) بے شک ھم نے ھی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔ لھذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔ یقیناً آپ کا دشمن ھی بے اولاد رھے گا۔
حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا علامہ اقبال کے کلام میں:
علامہ اقبال نے حضرت فاطمہ زھراء علیھا السلام کو بطور اسوہ پیش کیا ہے، یہ اقبال کی بصیرت کی علامت ہے، یعنی اقبال کی نظر میں حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کی شخصیت بشریت کے لئے اسوہ ہیں۔ خداوند تبارک و تعالٰی نے انبیاء کرام اور ائمہ اطھار علیھم السلام کو واسطہ فیض قرار دیا ہے اور تمام فیوضاتِ ظاھری اور معنوی اُنھی ھستیوں کے ذریعے مخلوق تک پھنچتے ہیں، کیونکہ یہ وسائطِ فیضِ خدا ہیں، ان کی ذات سے مخلوق تک جو فیض پھنچتے ہیں، ان میں سے ھدایت، معرفت اور علم ہے، جو مقصدِ بعثت اور مقصدِ خلقتِ معصومین ہے۔ قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺکو خداوند تبارک و تعالٰی نے بطورِ اسوہ پیش کیا ہے (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ الله اُسْوَة حَسَنَة) حضرت ابراھیم اور دوسرے انبیاء علیھم السلام کو بھی خدا نے بعنوانِ اسوہ پیش کیا۔
علامہ اقبال نے بھی حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کو پوری انسانیت مخصوصاً خواتین کے لئے ایک بھترین نمونہ عمل کے طور پیش کیا۔ علامہ اقبال سے پھلے ائمہ معصومین علیھم السلام نے انسانوں کی ھدایت کے لئے پھلے ھی فرمایا تھا، چنانچہ امام زمان عجل اللہ تعالٰی الشریف فرماتے ہیں :(في إبنَةِ رسُولِ اللهِ (ص) لِي أسوَهٌ حَسَنَهٌ) بے شک رسول خداﷺکی بیٹی میرے لئے نمونہ عمل ہے۔
اقبال کی نظر میں بھی پنجتن پاک کا گھرانہ مقدس و مطھر ہے۔ اس لئے اس گھر کی چوکھٹ پر اپنی جبینِ نیاز جھکانے کو باعثِ افتخار سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبال پر خدا نے یہ لطف کیا ہے کہ اُنھیں غیر معمولی بصیرت عطا کی ہے۔ یہ بصیرت خدا نے سب کیلئے رکھی ھوئی ہے، لیکن خدا اُن کو دیتا ہے، جو اس کے قدردان ھوں، جو اپنی ابتدائی بصیرت کو دُنیا کے چھوٹے اُمور میں صرف کر دیں تو خدا عالی بصیرت ان کو نھیں دیتا، لیکن جو اپنے اندر اس گوھر کے قدردان ھوتے ہیں، خدا اُنھیں بصیرتِ عظیم عطا کرتا ہے۔ تاریخ بشریت میں انگشت شمار لوگ ہیں، جو بصیرتِ برتر کے مالک ہیں۔ علامہ اقبال حضرت فاطمہ زھراء علیھا السلام کی بارگاہ میں عقیدت کا اظھار کرتے ھوئے فرماتے ہیں۔
مریم از یک نسبتِ عیسٰی عزیز
از سہ نسبت حضرت زھرا عزیز
جنابِ مریمؑ بھت باعظمت اور پاکیزہ خاتون ہیں۔ علامہ اقبال کی نظر میں حضرت مریم سلام اللہ علیھا اسوۂ ہیں، خدا نے جناب مریم سلام اللہ علیھا کو بعنوانِ اسوہ متعارف کروایا ہے۔ حضرت مریم سلام اللہ علیھا ابھی پیدا بھی نھیں ھوئی تھیں کہ خداوند تبارک و تعالٰی نے قصہ مریم بتانا شروع کر دیا کہ مریم پیدا کیسے ھوئی، دُنیا میں کیسے آئی؟ انسانیت کے درجات ہیں، اگر ایک شخصیت اعلٰی درجے فائز ھو تو اس کے معانی یہ نھیں ہیں کہ چھوٹے یا نچلے درجے پر جو ہے، وہ ناقص ھو۔ حضرت مریم سلام اللہ علیھا اسوۂ کاملہ ہیں۔ حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کا اسوہ ھونا حضرت مریم سلام اللہ علیھا سے برتر ھونے کی وجہ سے ہے، نہ یہ کہ حضرت مریم سلام اللہ علیھا میں کوئی نقص ہے، بلکہ حضرت زھراء سلام اللہ علیھا میں فراوان کمالات ہیں، لھذا پھلے اقبال اسے بطور اسوۃ پیش کرتا ہے، جسے قرآن نے پیش کیا ہے۔
حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کی عظمت اور مقام بیان کرنے کیلئے اقبال نے ایک مسلم قرآنی و الٰھی اسوہ پھلے چنا ہے اور ان کو پیش کرکے کھا کہ مریم کے بارے میں کسی کو شک و شبہ نھیں ہے کہ اسوہ ہے، کیونکہ جناب مریم سلام اللہ علیھا وہ ھستی ہیں، جن کی عصمت پر قرآن میں اور آسمانی کتابوں میں گواھی دی گئی ہے۔
حضرت زکریا علیہ السلام جن کو خدا نے حضرت مریم سلام اللہ علیھا کا کفیل بنایا۔ جناب مریم سلام اللہ علیھا نوجوانی میں اس قدر پاکیزہ اور باکمال ہیں کہ حضرت زکریا علیہ السلام مریم سے متاثر ہیں اور مریم سے الھام لیتے ہیں۔ رسول خدا جناب مریم سلام اللہ علیھا سے الھام لیتے ہیں۔
قرآن کا مشھور واقعہ ہے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام محراب میں داخل ھوئے اگرچہ کفیل اور ذمہ دار تھے، دیکھتے ہیں کہ حضرت مریم سلام اللہ علیھا کے پاس بھت ساری چیزیں موجود ہیں۔ حضرت زکریا علیہ السلام حضرت مریم سلام اللہ علیھا سے سوال کرتے ہیں کہ یہ سب کھاں سے آیا ہے؟ حضرت مریم سلام اللہ علیھا نے فرمایا کہ یہ سب خدا کی طرف سے آیا ہے، خدا جسے چاھتا ہے دیتا ہے۔ (كلُّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا قَالَ يَامَرْيَمُ أَنىَ‏ لَكِ هَاذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيرْ حِسَاب) جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں جاتے تو اس کے پاس طعام موجود پاتے، پوچھا: اے مریم! یہ (کھانا) تمھارے پاس کھاں سے آتا ہے؟ وہ کھتی ہیں: اللہ کے ھاں سے، بے شک خدا جسے چاھتا ہے، بےحساب رزق دیتا ہے۔
پس مریم ایک اسوۂ کاملہ ہیں، لیکن حضرت زھراء برتر اسوہ ہیں، یعنی مقام حضرت زھراء سلام اللہ علیھا مقام حضرت مریم سلام اللہ علیھا سے برتر ہیں۔ جناب مریم اپنے زمانے کے عورتوں کی سردار تھیں، لیکن حضرت زھراء سلام اللہ علیھا تمام عورتوں کی سردار ہیں۔
رسول خدا فرماتے ہیں: (کانت مریم سیدة نساء زمانها اما ابنتی فاطمه فهی سیدة نساء العالمین من الاولین و الاخرین) جابر بن عبداللہ انصاری نقل کرتے ہیں: ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت بھوکے تھے، آپؐ حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کے گھر تشریف لائے اور کھانے کا سوال کیا۔ حضرت زھراء سلام اللہ علیھا نے جواب دیا کہ گھر میں کچھ بھی نھیں، یھاں تک کہ حسنین بھی بھوکے ہیں۔ رسول خدا واپس چلے گئے، اتنے میں ایک عورت نے دو روٹیاں اور گوشت ایک کا ٹکڑا جناب حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کی خدمت میں لے کر آئی۔ آپؑ نے اسے پکایا اور رسول خدا ﷺ کو کھانے پر دعوت دی، درحالیکہ حسنین علیھم السلام اور حضرت علی علیہ السلام بھی بھوکے تھے۔ آپ نے غذا کے برتن کو رسول خدا ﷺ کے سامنے رکھ دیا۔ رسول خدا ﷺ نے جب برتن کو کھولا تو برتن گوشت اور روٹی سے بھرے ھوئے تھے۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے حضرت زھراء سلام اللہ علیھا سے سوال کیا بیٹی اسے کھاں سے لائی ھو۔؟ آپؑ نے فرمایا: (هو من عند الله ان الله یرزق من یشاء بغیر حساب) یہ اللہ کی طرف سے ہے اور خدا جسے چاھتا ہے، بےحساب رزق عطا کرتا ہے۔
رسول خدا نے فرمایا: (الحمد لله الذی جعلک شبیهة سیدة نساء بنی اسرائیل) تمام تعریفین اللہ کے لئے، جس نے تجھے مریم جیسا قرار دیا۔ حضرت زھراء سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں کہ اس غذا کو تمام ھمسائیوں نے بھی تناول کیا اور خدا نے اس میں برکت عطا کی۔
خداوند متعال حدیث قدسی میں پیغمبر اکرمﷺ اور امام علی علیہ السلام کے وجود مبارک کو جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام کے وجود کی مرھون منت قرار دیتے ھوئے فرماتا ہے: (لولاک لما خلقت الافلاک ولو لا علی لما خلقتک و لو لا فاطمه لما خلقتکما) اے رسول آپ کو خلق کرنا مقصود نہ ھوتا تو کائنات کو خلق نہ کرتا اور علی کو خلق کرنا مقصود نہ ھوتا تو آپ کو خلق نہ کرتا اور فاطمہ کو خلق کرنا مقصود نہ ھوتا تو آپ دونوں کو خلق نہ کرتا۔ جب فرشتوں نے کساء کے اندر موجود افراد کے بارے میں سوال کیا تو خالق کائنات نے جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام کو مرکزیت قرار دیتے ھوئے آپ کے ذریعے تعارف کرایا:(هم فاطمة وأبوها و بعلها وبنوها) جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام کائنات کی واحد شخصیت ہیں، جن کا وجود جنت کے پھل کے ذریعے تیار ھوا، اسی لئے رسول خداﷺ بار بار آپ کو بوسہ دیتے اور جنت کے پھل کی خوشبو آپ سے سونگھتے۔
رسول خدا ﷺ فرماتے ہیں: (فاذا اشتقت لتلک الثمار قبلت فاطمة فاصبت من رائحتهاجمیع تلک الثمار التی اکلتها) جناب مریم علیھا السلام کے بارے میں ایسا ذکر نھیں ھوا ہے، لیکن جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام کی ولادت کے بارے میں فرماتے ہیں: (فولدت فاطمة {ع} فوقعت علی الارض ساجدة) جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام ولادت کے وقت ھی خدا کے حضور سجدہ ریز ھوئیں۔
علامہ اقبال نے حضرت مریم سلام اللہ علیھا کی ایک نسبت جبکہ حضرت فاطمہ زھراء علیھا السلام کے لئے تین نسبتیں بیان فرمائی ہیں۔ علماء جب فضائل کو تقسیم کرتے ہیں تو فضائل کی کئی قسمیں بیان کرتے ہیں، ایک فضائل نفسی اور دوسرے فضائل نسبی۔ فضائل نفسی سے مراد وہ فضائل ہیں جو کسی شخصیت کے اندر ذاتی طور پر موجود ھوتے ہیں۔ فضائل نسبی وہ صفات ہیں، جو دوسری چیز کے ساتھ نسبت دینے سے اس کے اندر لحاظ ھوتی ہیں۔ حضرت فاطمہ زھراء علیھا السلام اور حضرت مریم سلام اللہ علیھا میں دونوں طرح کی صفات اور فضائل ہیں۔ وہ فضائل جو کسی اور سے منسوب ھونے کی وجہ سے ان میں پائے جاتے ہیں، یہ بھی حقیقی فضائل ہیں اور وہ فضائل بھی پائے جاتے ہیں، جو کسی سے منسوب ھوئے بغیر خود ان کی ذات کے اندر موجود ہیں۔ جناب مریم سلام اللہ علیھا کو اگر ایک حضرت عیسٰی علیہ السلام سے نسبت دے کر دیکھیں تو مریم بھت باعظمت ہیں۔ اس لئے کہ نبی خدا کی ماں ھونا ایک صفت ہے، جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ساتھ منسوب کرنے سے حضرت مریم سلام اللہ علیھا میں آئی ہے۔ درحقیقت حضرت مریم سلام اللہ علیھا جناب عیسٰی علیہ السلام کی ماں بننے کی وجہ سے باکمال خاتون نھیں بنیں، بلکہ پھلے مریم میں کمالات رکھے، تاکہ جناب عیسٰی کی ماں بننے کے قابل ھو جائیں، پھلے کمالاتِ نفسی اور کمالاتِ ذاتی مریم میں آئے، ان کمالات کے نتیجے میں نسبی کمالات پیدا ھوئے، یعنی ھر خاتون عیسٰی کی ماں بننے کی صلاحیت نھیں رکھتی، حضرت مریم سلام اللہ علیھا کے اندر موجود کمالاتِ نفسیہ نے حضرت مریم کو اس قابل بنایا کہ وہ عیسٰی کی ماں بنے۔
جناب حضرت فاطمہ زھراء علیھا السلام کی عظمت کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیثیت والدِ گرامی، دوسری جانب بحیثیت ماں ملیکۃ العرب حضرت خدیجۃ الکبریٰ، تیسری اور چوتھی جانب مولائے کائنات علی مرتضٰی بحیثیت شوھر اور سردارانِ جنت بحیثیت اولاد تھے۔
علامہ اقبال نے جناب سیدہ کی ان نسبتوں کا ذکر کرکے یہ ثابت کر دکھایا کہ آپ کائنات کی سب سے اعلٰی و ارفع بیٹی، بھترین زوجہ اور عظیم ترین ماں ہیں۔ وہ ماں جس کی آغوش میں ایسے فرزند پروان چڑھے جو سرمایۂ دین اور حاصلِ پیغمبر اسلام تھے۔
نورِ چشم رحمة للعالمین
آن امام اولین و آخرین
حضرت زھراء سلام اللہ علیھا رسول خداؐ کی نورِ چشم ہیں، نہ صرف بیٹی ہیں بلکہ قرة العین ہیں، نورِ چشم رسول اللہؐ ہیں۔ یہ بھت خوبصورت تعبیر ہے کہ آپؐ نے فرمایا: (فاطمة بضعة منی و هی نور عینی و ثمرة فوادی و روحی التی بین جنبی و هی الحورا ء الانسیة) فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے، میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میری روح کا حصہ ہے، وہ انسانی شکل میں ایک فرشتہ ہے۔ رسول اللہﷺ کا نفس کوئی احساساتی نفس نھیں ہے، بلکہ آپ انسانِ کامل ہیں، یعنی وہ ذات جس پر احساسات غلبہ نھیں کرتے۔ رسول خدا جب بیٹی کو دیکھتے ہیں تو آنکھوں میں ٹھنڈک آجاتی ہے، ظاھر سی بات ہے کہ یہ احساساتِ پدرانہ نھیں ہیں۔
آنکہ جان درپیکر گیتی دمید
روزگارِ تازہ آئین فرید
وہ رسول اللہﷺ جنھوں نے اس جھان کے اندر ایک تازہ روح پھونک دی، مردہ عالم کے اندر آکر ایک روح پھونک دی، اس جھان کے اندر ایک نیا اور تازہ آئین اور دین لے کر آئے اور اس کے ذریعے بشریت کو زندہ کیا۔
بانوئے آن تاجدارِ ھل أتیٰ
مرتضٰی مشکل کشاء شیرِ خدا
دوسری نسبت یہ ہے کہ حضرت زھرا سلام اللہ علیھا اس تاجدار کی زوجہ ہیں، جن کے سر پر تاجِ ھل أتیٰ رکھا ھوا ہے، یعنی جس کے سر پر سورۂ دھر کا تاج رکھا ھوا ہے۔ ھمسری یعنی ھم پلہ ھونا، ھم پلہ ھونے سے مراد صرف جسمانیت نھیں ہے، بلکہ ھم پلہ یعنی کمالات اور فضائل جو امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات میں ہیں، ان کا ایک نمونہ حضرت زھراء سلام اللہ علیھا میں ھونا ضروری ہے، ورنہ ھم پلہ، ھمسر اور کفو نھیں بن سکتے۔
پادشاہ و کلبہ ایوان او
یک حسام و یک زرہ سامان او
اس تاجدار کا قصرِ بادشاھی ایک کلبہ اور جھونپڑا ہے اور تمام سامانِ زندگی ایک شمشیر اور ایک زرہ ہے۔ علامہ اقبال یہ بتانا چاھتے ہیں کہ فضیلتِ انسانی ان اُمور سے حاصل نھیں ھوتی۔ ایک مصنف کا جملہ ہے کہ کائنات کی عظیم ترین شخصیات مادّی دُنیا کے لحاظ سے غریب ترین گھر یعنی جھونپڑی میں پیدا ھوئیں اور آج دُنیا کی عظیم ترین عمارتوں کے اندر گھٹیا ترین لوگ پیدا ھو رھے ہیں۔
مادرِ آن مرکزِ پرکارِ عشق
مادرِ آن کاروانِ سالارِ عشق
جناب حضرت زھراء سلام اللہ علیھا پرکارِ عشق کے مرکز کی ماں ہیں، عشق کا مرکز امام حسین علیہ السلام ہیں اور امام حسین کی ماں حضرت زھراء سلام اللہ علیھا ہیں، یعنی اس کاروانِ عشق کے سالار کی ماں ہیں۔ کربلا میدانِ عشق ہے، حسین امامِ عشق ہیں، بھت چیدہ چیدہ اور انگشت شمار لوگوں کو ھی کربلا اور امام حسین علیہ السلام سمجھ میں آیا ہے۔
علامہ اقبال ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکی حسین رقم کرد و دیگری زینب
علامہ اقبال حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے فرزند اکبر امام حسن مجتبٰی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کھتے ہیں:
آن یکی شمع شبستان حرم
حافظ جمعیت خیر الامم
ایک بیٹا مرکزِ پرکارِ عشق اور سالارِ کاروانِ عشق ہے اور دوسرا شمعِ شبستانِ حرم ہے۔ اسلامی تاریخ کی یہ وہ درخشاں ترین شخصیت ہیں، جنھوں نے ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ ایک نازک دور میں بکھرنے سے بچایا اور یہ ثابت کر دیا کہ امت کی شیرازہ بندی میں امام کی حیثیت، نظامِ کائنات میں سورج کی مانند ھوتی ہے۔
تا نشیند آتشِ پیکارو کین
پشتِ پا زد برسرِ تاجِ و نگین
امام حسن مجتبٰی علیہ السلام نے تاج ونگین اور اقتدار کو ٹھکرا دیا، تاکہ یہ خیر الامم اور یہ اسلامی جمعیت و اُمت مسلمہ باقی رھے۔
آن دگر مولائے ابرارِ جھان
قوتِ بازوئے احرارِ جھان
تمام عالم کے ابراروں کے مولا سیدالشھداء امام حسین علیہ السلام ہیں، دُنیا میں جتنے بھی حریت پسند لوگ ہیں، ان سب کی قوتِ بازو، ان سب کے حوصلہ، جوش، ولولہ کے اندر جو زور اور توانائی آجاتی ہے اور جس کے تذکرے سے عزم ملتا ہے، جس کے ذکر سے ان کے اندر قوت آتی ہے، وہ بھی جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کا بیٹا ہے۔ ابرارِ جھاں اور احرارِ جھاں حسین علیہ السلام کی ذات ہے، جتنے بھی دُنیا میں حریت پسند ہیں انھوں نے حریت کا سبق حسین(ع) سے سیکھا ہے۔
اسی لئے شاعر کھتا ہے:
انسان کو بیدار تو ھو لینے دو
ھر قوم پکارے گی ھمارے ہیں حسین
علامہ اقبال امام حسین علیہ السلام کے بارے میں مزید فرماتے ہیں:
در نوائے زندگی سوز از حسین
اھلِ حق حریت آموز از حسین
آغوشِ فاطمہ کے دوسرے پروردہ امام حسین علیہ السلام نے بھی اپنی ماں کی تربیت کا مظاھرہ میدان کربلا میں کیا۔ دلبندِ زھراء امام حسین علیہ السلام نے میدانِ کربلا میں جو تین دن انتھائی گرسنگی اور تشنگی کے عالم میں گزارے۔ اس کی مشق حضرت زھراء سلام اللہ علیھا نے انھیں بچپن میں کروائی تھی۔ جس ھستی نے بچپن ھی میں ایک سائل کی خاطر بارھا بھوک برداشت کی ھو، اس کے لئے یہ امر کافی آسان ہے کہ اسلام کی بقاء کی خاطر مع اھل و عیال اور احباب و اصحاب مصائب و آلام کا پھاڑ دوش صبر پر اٹھائے۔
این حسین کیست که عالم همه دیوانه ی اوست
این چه شمعی است که جانها همه پروانه ی اوست
علامہ اقبال حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا کو بطور ماں پیش کرتے ھوئے فرماتے ہیں:
سیرتِ فرزندھا از اُمّھات
جوھرِ صدق و صفا از اُمّھات
ایک حکیم کا قول ہے کہ ’’کسی قوم کی تھذیب کو جانچنے کا صحیح معیار یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس میں عورت کا کیا مقام ہے۔ اگر عورت ذلیل ہے تو سمجھ لیجئے کہ قوم بھی ذلیل اور تھذیب سے عاری ہے۔ مائیں جس قدر بالغ نظر، پاکدامن اور تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ھوں گی، اُسی قدر قوم میں دور اندیش، صالح خصلت اور صاحبِ فراست افراد پیدا ھوں گے۔
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوۂ کامل بتول
عظیم ماؤں سے محروم اقوام عظیم فرزندوں سے بھی تہی دست ھوتی ہیں۔ نتیجتاً یہ قومیں زوال آمادہ ھو جاتی ہیں اور آھستہ آھستہ فنا کے گھاٹ اترتی جاتیں ہیں۔ حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا ماوٴں کیلئے اسوۂ کاملہ ہیں، مائیں اتنی پاکیزہ ھوں، ان کا وجود اتنا آمادہ ھو، تاکہ اس جیسا پھل ماوں کے شجرۂ وجود پر لگے۔
بھر محتاجی دلش آن گونہ سوخت
بہ یھودی چادرِ خود را فروخت
ایک ضرورت مند کی خاطر اتنا حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا دل جلتا ہے کہ اپنی شادی کے لباس کو بھی بخش دیتی ہے۔ اسی طرح ایک سائل کی مشکل کو حل کرنے کی خاطر حضرت زھراء سلام اللہ علیھا نے اپنی چادر حضرت سلمان کو یہ کہہ کر دے دی کہ اسے گروی رکھ کر سائل کی شکم سیری کا اھتمام کر دو۔
نوری وھم آتشی فرمانبرش
گم رضائش در رضائش شوھراش
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی رِضا اپنے شوھر کی رِضا میں فانی ہے، حضرت علی علیہ السلام کی بات کے آگے ان کی کوئی بات نھیں ہے، حضرت فاطمہ زھراء علیھا السلام اس چیز پر راضی ہیں، جس پر حضرت علی علیہ السلام راضی ھوں۔
آن ادب پروردۂ صبر و رضا
آسیا گردان و لب قرآن سرا
حضرت زھراء سلام اللہ علیھا ادب پروردۂ رسول خداﷺہیں، یعنی رسول اللہﷺ نے آپ کی تربیت کی اور صبر و رِضا کے ادب سے مؤدب کیا، اس لئے تو آپ مقامِ رِضا پر فائز تھیں۔ اپنے ھاتھ سے چکی چلاتی تھیں، یہ باعظمت بی بی اپنے ھاتھ سے چکی چلاتی ہے اور چکی کے دوران زبان پر شکوہ بھی نھیں ہے کہ چکیاں چلا چلا کر ھاتھوں پہ چھالے پڑ گئے ہیں، بلکہ چکی چلاتی ہے اور ھمیشہ زبان پر قرآن کا ورد ہے۔

ابو نعیم اصفھانی نقل کرتے ہیں: (لقد طحنت فاطمة بنت رسول الله حتی مجلت یدها ،وربا،و اثر قطب الرحی فی یدها) آپ فرماتی ہیں: (حبب الی من دنیا کم ثلاث: تلاوة کتاب الله و النظر فی وجه رسول و الانفاق فی سبیل الله) تمھاری دنیا میں میری پسندیدہ چیزیں تین ہیں:
1۔ تلاوت قرآن
2۔ رسول خدا (ص) کے چھرہ مبارک کی طرف دیکھنا
3۔ خدا کی راہ میں انفاق و خیرات کرنا
حضرت فاطمہ زھراء علیھا السلام اپنے گھر کے کام اپنے ھاتھ سے کرتی تھیں، اس وقت گھر کا سخت ترین کام چکی چلانا ھوتا تھا، لوگ غلاموں سے چکی چلواتے تھے اور تاجدارِ ھل اتٰی کے گھر میں ملکہ قصر حضرت فاطمہ زھراء علیھا السلام خود چکی چلا رھی ہیں اور ساتھ قرآن پڑھ رھی ہیں۔
گریہ ھائے او زبالین بے نیاز
گوھر افشاندی بہ دامانِ نماز
حضرت فاطمہ زھراء علیھا السلام نماز میں روتی تھیں. عبادت و ریاضت کا یہ عالم تھا کہ سیدۂ کونین شب و روز اس قدر عبادتِ الہٰی میں مشغول رھتیں کہ کہ والدِ گرامی کی مانند آپ کے پائے مبارک متوّرم ھو جاتے۔
امام خمینی ﴿رہ﴾ فرماتے ہیں: میں نے حضرت مریمؑ کے بارے میں نھیں دیکھا کہ آپؑ کے پائے مبارک عبادت الٰھی میں مشغول رھنے کی وجہ سے متورم ھوگئے ھوں، لیکن حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کے قدم مبارک کثرت عبادت الٰھی کی وجہ سے متورم ھو جاتے تھے۔ عبادت میں ھمیشہ دوسروں کو دعا کرتیں، یھاں تک کہ حسنین علیھم السلام کے سوال کے جواب میں فرمایا: (الجار ثم الدار) پھلے ھمسایے اس کے بعد گھر والے۔
اشک او برچید جبرئیل از زمیں
ھمچو شبنم ریخت بر عرشِ بریں
جبرئیل امین آسمان سے زمین پر آتے تھے اور حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کے آنسو اکٹھے کرتے اور عرشِ بریں پر جاکر ان کو شبنم کی طرح بکھیرتے تھے۔ لہٰذا علامہ اقبال کے نزدیک عرشِ بریں کا معطر ھونا حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کے آنسووٴں سے تھا۔ عرشِ بریں جناب زھراء سلام اللہ علیھا کے آنسووٴں سے معطر اور منور ہے۔
امام خمینی ﴿رہ﴾ فرماتے ہیں: حضرت زھراء علیھا السلام کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد جبرئیل امین آپ کے پاس تشریف لاتے، آپؑ کو تسلیت پیش کرتے اور آئند رونما ھونے والے واقعات سے آپ کو آگاہ کرتے۔
آخر میں علامہ اقبال کی اس والھانہ عقیدت کا اندازہ ذیل کے دو اشعار سے کیا جا سکتا ہے:
رشتہ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جنابِ مصطفٰے است
ورنہ گرد تربتش گر دید مے
سجدہ ھا بر خاک او پاشید مے
آئینِ حق میرے پاوں کی زنجیر بنا ھوا ہے اور مجھے اسلام اجازت نھیں دیتا اور اسی طرح جنابِ رسول خداﷺکے فرمان کا مجھے پاس ہے اور فرمانِ مصطفٰے ﷺاگر مانع نہ ھوتا تو میں ساری عمر آپؑ کی قبر کے گرد طواف کرتا اور میرا ایک ھی کام ھوتا کہ میں تربتِ پاکِ حضرت فاطمہ زھراء علیھا السلام پر فقط سجدہ کرتا۔
کاش علامہ اقبال اپنے اس خوبصورت اشعار میں نام نھاد مسلمانوں کے اس کردار کی بھی عکاسی کرتے، جو انھوں نے بعد از رحلت رسول خدا ﷺ حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کے ساتھ انجام دیئے۔ ان مشکلات اور مصیبتوں کا تذکرہ جناب حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا اپنے اشعار میں یوں بیان کرتی ہیں:
ما ذا علی من شم تربة احمد
الا یشم مدی الزمان غوالیا
صبت علی مصائب لو انها
صبت علی ایام صرن لیالیا
اے بابا! آپ کے بعد مجھ پر اتنے ستم ڈھائے گئے کہ اگر یہ روشن دنوں پر پڑتے تو وہ سیاہ راتوں میں بدل جاتے۔
آیۃ اللہ اصفھانی کمپانی کے چند اشعار کے ذریعے اس مقالہ کو ختم کرنا چاھتا ھوں، تاکہ حضرت زھراء سلام اللہ علیھا پر ڈھائی گئی مصیبت کا کچھ اندازہ ھو۔
ماأجهل القوم فان النار
لا تطفی نور الله جل و علا
یہ لوگ کس قدر جاھل اور ناداں تھے، جو یہ نھیں جانتے تھے کہ نور خدا کو آتش کے ذریعے خاموش نھں کرسکتے۔
الباب و الدماء و الجدار
شهود صدق ما بها خفاء
دروازہ، خون اور دیوار یہ سب گواہ ہیں، ان چیزوں پر جسے دنیا چھپانا چاھتی ہے۔
و لست أدری خبر المسمار
سل صدرها خزانة الاسرار
دراوزے میں موجود کیل کا مجھے کوئی علم نھیں، اگر جاننا چاھتے ھو تو جناب حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کے سینہ اطھر سے پوچھ لو، جو اسرار الٰھی کا خزانہ ہے۔
خداوندومتعال ھمیں مقام حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کو سمجھنے اور انھیں اپنی زندگی میں اسوہ قرار دینے کی توفیق دے۔
﴿السّلام علیک أیّتها الصدّیقة الشهیدة الممنوعة إرثُها﴾
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی
حوالہ جات:
حلیۃ الاولیاء ج2ص40۔
المستدرک علی الصحیحین ، ج3 ص154۔
سورہ انسان،9۔
سورہ آل عمران،164۔
سورہ احزاب، آیت ٢١۔
بحار الانوار، ج53، ص178، باب31۔
آل عمران ،37۔
زھراء﴿س﴾ برترین بانوی جھان،آیۃ اللہ مکارم شیرازی۔
زمحشری نے کشاف میں اور سیوطی نے در المنثور میں سورۃ آل عمران کی آیت 37 کی تفسیر میں اس واقعے کو نقل کئے ہیں۔
احمد رحماني همداني، فاطمة بهجة قلب المصطفي، ص 9، به نقل از كشف اللئالي، صاحب بن عبدالوهاب بن العرندس۔
مفاتيح الجنان، ص 1211،
ذخائر العقبی، ص36۔
ذخائر العقبی، ص44۔
ریاحیین الشریعۃ ،ج1ص31۔ زھراء﴿س﴾ برترین بانوی جھان، آیۃ اللہ مکارم شیرازی۔
فکر اقبال، خلیفہ عبدالحکیم۔
مشرب ناب، ش 5۔
حلیۃ الاولیاء ج2ص41۔
وقایع الایام خیابانی، جلد صیام، ص295
سخنرانی امام خمینی ﴿رہ﴾ ، تلویزن ایران، شبکہ یک۔
صحيفه نور، ج‏19، ص 278۔
زندگانی حضرت زھراء سلام اللہ علیھا، سید ھاشم محلاتی

Add comment


Security code
Refresh