www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

206084
اسلامی دنیا میں اس وقت اگر کوئی ملک امریکہ کے استعماری ایجنڈے کے سامنے حقیقی معنوں میں قیام پذیر ہے تو بلاشبہ وہ ایران ہے۔ اس کا ایک ھلکا سا شائبہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجنونانہ اعلانات و اقدامات کے ردعمل کی صورت میں بھی ملتا ہے۔
نومنتخب امریکی صدر نے سات اسلامی ممالک کے شھریوں پر نہ صرف امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی ہے، بلکہ دیگر مسلمان ممالک بشمول پاکستان کے شھریوں کیلئے امیگریشن قوانین بھی انتھائی سخت کر دیئے۔
امریکی صدر نے اسی پر ھی اکتفا نھیں کیا، بلکہ ایران کے ساتھ گذشتہ برس چھ بڑی طاقتوں کے ھونے والے معاھدے کو منسوخ کرنے کی بھی دھمکی دے ڈالی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کھا کہ ایران کو مجھ سے ڈرنا چاھیئے اور امریکی صدر اوباما کا شکر گزار ھونا چاھیئے کہ اس نے ایران کے خلاف کوئی کارروائی نھیں کی۔
نئے امریکی صدر کے ان غیر عاقلانہ اقدامات و بیانات پر چند مسلمان ممالک کے امریکی تابعدار حکمرانوں نے نہ صرف واہ واہ کے ڈونگرے برسائے بلکہ اپنی خوشامدانہ اور جی حضوری کی سرشت سے مجبور ھوکر مزید سخت اقدامات کی تجویز پیش کی۔ (سادہ لوح ہیں، سمجھتے ہیں کہ شائد اس طرح اپنی ضرورت باقی رھنے کا امریکہ کو یقین دلا سکیں اور اسی ضرورت کے زینے پر کھڑے ھوکر اپنا قد بڑا کرسکیں)۔
اسلامی دنیا کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے امریکی صدر کے اس رویے پر محض رسمی سی تشویش کا اظھار کیا۔ ماسوائے ایران کے کسی بھی اسلامی ملک نے کوئی مناسب ردعمل نھیں دیا۔ ٹرمپ کے اعلانات کے جواب میں ایران نے بھی امریکی باشندوں کے ایران میں داخلے پر پابندی کا مژدہ سنایا، بلکہ محض چوبیس گھنٹوں کے اندر یکے بعد دیگر تین میزائل کے تجربات کر ڈالے۔
ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے کھا کہ ٹرمپ امریکی پالیسی میں تبدیلی نھیں لائے بلکہ امریکی پالیسیوں کو بے نقاب کیا ہے۔
ایرانی فضائیہ کے کمانڈورں سے خطاب کرتے ھوئے انھوں نے کھا کہ سابق امریکی صدر اوباما نے ایران کو کمزور کرنے کی سرتوڑ کوشش کی، ایران پر سنگین قسم کی پابندیاں عائد کرکے ایران کو نقصان پھنچایا، اگرچہ اوباما اپنی کوششوں میں ناکام رھے اور ملت ایران نے امریکی حکمرانوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ ھم سابق امریکی حکومت کا شکریہ کیا اس لئے ادا کریں کہ انھوں نے ھم پر ھر قسم کی پابندیاں عائد کیں؟ ان کا اس لئے شکریہ ادا کریں کہ انھوں نے خطے میں داعش جیسی درندہ صفت تنطیموں کو پروان چڑھایا؟ ھم اس لئے شکریہ ادا کریں کہ اوباما حکومت نے ایران کے داخلی مسائل میں دخالت کرکے سال 88 شمشی کے فسادات کی کھل کر حمایت کی۔؟ یہ ساری مثالیں اس سابق امریکی حکومت کے کارنامے ہیں، جس نے مخملی نرم دستانوں میں آھنی پنچہ چھپا رکھا تھا۔
ایران کے سپریم لیڈر نے کھا کہ ایرانی قوم کسی سے ڈرنے والی نھیں ہے۔ انھوں نے کھا کہ ایرانی قوم (10فروری) کے دن ایک بار پھر امریکی دھمکیوں کا منہ توڑ جواب دے گی۔ ایرانی سپریم لیڈر نے کھا کہ ھم صدر ٹرمپ کے شکر گزار ہیں، کیونکہ کہ انھوں نے اپنا اصلی چھرہ دینا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔
38 سالوں سے اسلامی جمھوریہ ایران امریکی تسلط پسندانہ رویوں، اقتصادی، سیاسی، اور سماجی غلط پالیسوں کو دنیا کے سامنے واضح کرتا آیا ہے، اب امریکہ نے اپنے حقیقی چھرے کو دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے اور وہ کیا چاھتا ہے۔
حال ھی میں امریکی امگریشن حکام کی جانب سے ایک 5 سالہ ایرانی بچے کو ھتھکڑیاں پھنانے کی طرف اشارہ کرتے ھوئے ان کا کھنا تھا کہ امریکی حقوق انسانی کیا ہیں، اب دنیا پر واضح ھوگیا، اللہ تعالٰی حضرت امام خمینی کو غریق رحمت کرے، وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں بار بار امریکی چال بازیوں اور شیطنت کی طرف لوگوں کو متوجہ کراتے رھے اور اسلامی جمھوریہ ایران کے حکام کو کسی بھی صورت میں امریکہ پر بھروسہ کرنے سے منع کیا اور آج امام راحل کی تمام فرمائشات سب پر واضح ھوگئیں ہیں۔
انقلاب ایران کے سپریم لیڈر کا یہ خطاب ایک مضبوط اور طاقتور ایران کی نشاندھی کرتا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ برسوں سے اقتصادی، دفاعی پابندیوں کا شکار رھنے والے ملک ایران کے پاس ایسی کون سی قوت ہے، جو کہ ھمہ وقت اسے استعماری ایجنڈے و پالیسیوں کے خلاف قیام پر آمادہ رکھتی ہے تو وہ قوت ماسوائے انقلاب اسلامی کے کچھ اور نھیں۔
11 فروری 1979ء میں ایران میں برپا ھونے والے عوامی اور اسلامی انقلاب نے اس وقت کے ’’امریکی پولیس مین‘‘ رضا شاہ پھلوی کے اقتدار کا تختہ الٹ کر خطے میں امریکی مفادات و اثر و رسوخ پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ 38 سال بعد تمام تر قوت و حربے استعمال کرنے کے باوجود امریکہ خطے میں اپنے عزائم و مقاصد میں کامیابی حاصل نھیں کر پایا۔
مسلمان ملکوں میں آج ایران کو اگر بھت زیادہ اھمیت و حیثیت حاصل ہے اور اسے ھر لحاظ سے مضبوط و کامیاب سمجھا جا رھا ہے، تو اس میں بنیادی دخل انقلاب اسلامی کا ہے۔ گرچہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امام خمینی کی قیادت میں برپا ھونے والے انقلاب کی، ایرانی قوم نے حفاظت کی اور ایرانی قوم اس انقلاب کی وارث ہے، مگر یہ خیال غلط ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انقلاب اسلامی نے نہ صرف ایران بلکہ دیگر مسلمان ملکوں کی نظریاتی، دفاعی، معاشی، ثقافتی سرحدوں کی بھی حفاظت کی ہے۔ انقلاب اسلامی سے قبل کوئی سوچ بھی نھیں سکتا تھا کہ ایران کے سامنے دنیا کی بڑی طاقتیں سرنگوں ھوں گی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تمام تر مخالفت، سازشوں کے باجود انقلاب کے 38 سال بعد موجودہ ایران جو تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کر رھا ہے۔ اقتصاد، معیشت، تعلیم، طب، دفاع، ثقافت، زبان الغرض ھر شعبہ ھائے زندگی میں اپنا لوھا منوا رھا ہے۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں ایران میں کاروبار کی غرض سے ڈیرے ڈالے بیٹھی ہیں۔ جو ملک طویل عرصے تک ھر قسم کی بندشوں کا شکار رھا، اس کی ترقی اس لحاظ سے بے مثل ہے کہ اپنے نظریئے پر قائم رھتے ھوئے اس نے اپنے عوام کی ضروریات کو پورا کیا اور خود کفیل ھوا۔ یھاں تک کہ اسے ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کیلئے دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کو ملکر اسی ایران سے معاھدہ کرنا پڑا۔ اس معاھدے کے فریقین ھی انقلاب کی حقیقی قوت و طاقت کا اظھار ہیں کہ ایک جانب اسلامی جمھوریہ ایران اور دوسری جانب دنیا کی چھ بڑی طاقتیں۔
اپنے نظریئے پر کسی قسم کا کمپرومائز کئے بغیر جن طاقتوں سے یہ معاھدہ ھوا، وہ قوتیں ایران کو غیر ایٹمی ایران سے بھی اس قدر خوفزدہ ہیں کہ اس پر مزید پابندیوں کی مذموم خواھشات رکھتی ہیں۔ یقینی طور پر استعماری طاقتیں ایران کے ایٹم، میزائل سے خوفزدہ نھیں بلکہ خوف زدہ ہیں تو صرف اور صرف نظام انقلاب سے، ان تحریکوں سے جو انقلاب سے متصل ہیں، ان نظریات سے جو امام خمینی نے اھل اسلام کے جوانوں کے سینوں میں پھونک دیئے۔ اس فکر سے کہ جو کسی دنیاوی طاقت کے سامنے سر تسلیم خم نھیں کرتی۔ وہ فکر جو دنیا کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے شھریوں کو بڑی طاقتوں کے سامنے قیام پر آمادہ کرتی ہے، وھی اسلامی فکر جو ایران میں عوامی انقلاب کا باعث بنی۔ پوری دنیا کے وہ انسان جو بنیادی حقوق سے محروم ہیں، مستضعف ہیں، لاچار ہیں، ظالم جابر حکمرانوں کے پنجہ استبداد میں جکڑے ھوئے ہیں، ان سب کو صرف انقلاب کے زیر سایہ نظام سے امیدیں وابستہ ہیں۔
بلاشبہ اگر صحیح معنوں میں انقلاب اسلامی کا مطالعہ کیا جائے تو خط امام خمینی﴿رہ﴾، انقلاب اسلامی میں پوری امت مسلمہ کو درپیش مسائل اور چیلنجز کا حل مضمر ہے۔
تحریر: ڈاکٹر ابوبکر عثمانی

Add comment


Security code
Refresh