سماجی رویوں میں جب قبائلی تفھیم در آئے تو اس کے نتیجے میں، القاعدہ، النصرہ فرنٹ، افغانی و پاکستانی طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور بوکو حرام جیسی شدت پسند تنظیمیں وجود پاتی ہیں۔ انھی رویوں کی حامل دوسری دھشت گرد تنظیمیں بھی دیگر ناموں کے ساتھ ٹمٹماتی رھتی ہیں۔ مقصد سب کا ایک ھی ہے۔ اسلام جیسے امن پسند دین کے نام پر قتل و غارت گری۔
تاریخی طور پر یہ ثابت شدہ ہے کہ سامراجی مقاصد نے مذھبی جنونیت کو اپنے کام میں لایا، مگر یہ پورا سچ نھیں۔ ھم اس تاریخی ربط پر گفتگو نھیں کریں گے۔ یہ موضوع بھی اھم ہے، مگر اسے کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔
یقیناً ھم القاعدہ، النصرہ، داعش اور افغانی و پاکستانی طالبان کے ربط اور فکری اشتراک پر بھی بات کریں گے۔ یہ کالم مگر دوسرے موضوع کا تقاضا کرتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کی غالب تعداد یا تو افغانی و پاکستانی طالبان کی وحشت ناکیوں سے واقف ہے یا ان کے فکری وارثوں کی مقامی و غیر مقامی تنظیموں سے، یا پھر داعش جیسی دھشت گرد تنظیم کے وجود کا اسے پتہ ہے، یا اسامہ بن لادن والی القاعدہ سے "جھادی شناسائی" ہے۔ بوکو حرام جو اپنے فکری رویوں اور دھشت گردی میں کلی طور طالبان، داعش اور القاعدہ کے نقش قدم پر ہے، اس کے بارے ھم بھت کم جانتے ہیں۔
افریقی ممالک دور، غیر تھذیب یافتہ، غریب ترین اور ابلاغ کے کئی مسائل ہیں، جو وھاں کی سماجی مشکلات سے ناشناسائی کی وجہ ہیں۔ اخباری دانش انسان کو کھیں کا نھیں چھوڑتی۔ ورنہ کون ہے جو دھشت گردوں کے لئے بھی "اچھے اور برے دھشت گرد" کی اصطلاح تراشتا پھرے؟
المیہ یہ ہے کہ دانشوروں کے بھی ویسے ھی گروہ بنے ھوئے ہیں، جیسے انتھا پسندانہ تنظیموں کے مختلف گروہ ہیں۔ سوشل میڈیا نے نئی امیدوں کے ساتھ کئی خرابیوں کو بھی جنم دیا، جن میں سے ایک یہ کہ دھشت گرد اور ان کے حواری سوشل میڈیا کو پروپیگنڈا چینل کے طور استعمال کرتے ہیں۔ ظواھر پرست بنا کسی تحقیق کے ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ داعش کا طریقہ کار یھی ہے۔
یورپ اور ایشیائی ممالک سے اس نے انٹڑنیٹ کے ذریعے ھزاروں افراد کو بھرتی کیا۔ کئی عورتوں کو "جھاد النکاح" کے لئے بھی۔ بوکو حرام کیا ہے اور اس کا فلسفہ کیا ہے؟ قتل و غارت گری، مسلمانوں اور غیر مسلموں کو اسلام کے نام پر قتل کرنا۔
مجھے اس امر میں کلام نھیں کہ تمام دھشت گرد تنظیمیں، جو خود کو جھادی لکھتی اور کھتی ہیں، فکری مغالطوں کا شکار ہیں۔ سب کا فکری و فقھی سلسلہ قریب قریب ابن تیمیہ کے انتھا پسندانہ نظریات سے پھوٹتا ہے۔ کئی دنوں سے اس پر سوچ رھا ھوں کہ بوکو حرام کے محمد یوسف نے کیا سوچ کر یہ نعرہ بلند کیا کہ "مغربی تعلیم حرام ہے" بوکو حرام نائجیریا کی مسلم دھشت گرد تنظیم ہے۔ اس تنظیم کا پورا نام "جماع اھل السنہ للدعو والجھاد" ہے۔
یہ تنظیم مغربی طرز تعلیم کو حرام سمجھتی ہے، اس لئے اس کا نام بوکو حرام پڑ گیا اور اسی نام سے یہ مشھور ہے۔ ھاوسا زبان میں بوکو حرام کا لفظی مطلب مغربی تعلیم حرام ہے ھوتا ہے۔
2002ء میں قائم کی جانے والی تنظیم مغربی تعلیم کی مخالف ہے۔ تنظیم نے 2009ء میں اسلامی ریاست بنانے کے لئے کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ اس کے ھاتھوں نائجیریا بھر اور خصوصاً ملک کے مشرقی علاقوں میں ھزاروں افراد ھلاک ھوچکے ہیں۔
اپریل 2014ء میں بوکو حرام نے نائجیریا کے علاقے چیبوک کے سکول سے اس وقت 276 لڑکیوں کو اغوا کر لیا تھا، جب وہ سالانہ امتحانات دینے کے لئے وھاں موجود تھیں۔ اس گروہ کی تحویل میں 200 لڑکیاں اب بھی موجود ہیں۔ اس دھشت گرد تنظیم کی بنیاد محمد یوسف نامی ایک شخص نے رکھی، جسے مغربی میڈیا سمیت اردو میڈیا بھی ’’مذھبی سکالر‘‘ لکھتا ہے، یہ شخص 2009ء میں مارا گیا تھا۔ اس کے بعد اس گروپ کے کئی دھڑے ھوگئے۔ سب سے مضبوط دھڑا ابوبکر شیخاو کا ہے۔
حیرت اس بات پہ ہے کہ وہ مذھب جس کے واضح احکامات ہیں کہ ماں کی گود سے قبر کی گود تک تعلیم حاصل کرو اور جس دین کی الھامی کتاب کی پھلی آیت ھی تعلیم کے متعلق ھو، اس دین سے منسلک "سکالر" کیسے جدید عصری تعلیم کو حرام کہہ سکتا ہے؟
یقیناً شدید فکری مغالطہ، تفھیم دین کا شدید فکری مغالطہ ھی پاگلوں کو نفرت اور قتل و غارت گری پہ ابھارتا ہے۔ اللہ کے آخری نبی و رسول ﷺ نے جب یہ کھا کہ علم حاصل کرو، خواہ تمھیں چین جانا پڑے، تو کیا چین اس وقت دینی و فقھی تعلیم کا گھوارہ تھا؟ نھیں۔
اس کا مطلب یھی تھا کہ اپنے عھد کی جدید ترین تعلیم حاصل کرو۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ علم حاصل کرنے کے راستے میں جتنی بھی تکالیف برداشت کرنی پڑیں سہہ جاو، کیونکہ ان ایام میں چین کا سفر جان جوکھوں کا کام تھا۔
یہ کیسا مذھبی سکالر ہے جو مغربی تعلیم بلکہ لباس و ایجادات تک کو حرام کھتا ہے، اس کا کھنا ہے کہ تعلیم صرف دین کی تعلیم ہے۔ مگر اس کے پیروکار خود مغرب کی بنی جدید ترین گاڑیاں بھی استعمال کرتے ہیں اور ابلاغ کے جدید ذرائع بھی، کیا کلاشنکوف جو سارے دھشت گردوں کا پسندیدہ ھتھیار ہے اور جسے بوکو حرام والے بھی استعمال کرتے ہیں، وہ کسی مدرسے کی ایجاد ہے۔؟
یھی فکری کجی جگ ھنسائی کا باعث بھی ہے اور مسلمانوں کی تباھی کا بھی۔ جب تک مسلم معاشرہ جدید تعلیم سے دور رھے گا اور اسے خود پہ حرام سمجھتا رھے گا، اس پہ داعش، القاعدہ، طالبان اور بوکو حرام جیسے دھشت گرد مسلط ھوتے رھیں گے۔ مغرب کے غلبے کی ایک ھی وجہ ہے اور وہ تعلیم ہے۔ دین میں قبائلی و عائلی روایات اور انتھا پسندانہ تفھیم نے غور و فکر کے دروازے بند کرکے قتل و غارت گری کو شعار بنا لیا۔
بوکو حرام ھو یا الشباب، داعش ھو یا طالبان، القاعدہ ھو یا النصرہ، سب ایک ھی سلسلے کے فکری پیروکار، سب دین اسلام کی آفاقی تعلیمات پر رسوا کن داغ ہیں۔ دنیا جب چاند پہ جانے کے راستے تلاش کر رھی تھی تو مسلمانوں کے گروہ اس بات پہ بحث کر رھے تھے کہ فلسفہ کی تعلیم حلال ہے یا حرام۔
بے شک تاریخ کسی کی رشتہ دار نھیں ھوتی، ھم مگر خوا مخواہ ماضی کے میناروں تلے فکری آرام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اے کاش ھم علم کی اھمیت کو جان سکتے۔ اے کاش۔ واللہ، علم کے سارے ذرائع حلال اور جائز ہیں۔ عصری علوم کا حصول واجب ہے۔
تحریر: طاھر یاسین طاھر
مغربی تعلیم حرام، قتل و غارت گری حلال!
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1475