ایک کالم خادم حرمین شریفین کی خدمت میں بھی لکھیں!
باسمہ تعالٰی
محترم جناب ذوالفقار احمد چیمہ
السلام علیکم
آج انٹرنیٹ پر آپ کا 13 جولائی کا جنگ کالم ’’ایران کے رھبر علی خامنہ ای کی خدمت میں‘‘ پڑھا۔ عام طور پر اس طرح کے کھلے خطوط کے مخاطب چونکہ مکتوب الیہ کے علاوہ عوام و خواص کی کثیر تعداد بھی ھوتی ہے، لھذا جواب کا حق بھی ان سب کو ھوتا ہے۔
بندہ کو آپ کی نیک نیتی پر کوئی شبہ نھیں کیونکہ مومن کے بارے حسن ظن رکھنے کا حکم ہے، لیکن اس کالم کے چند نکات کے بارے عرض کیا جاتا ہے، مگر پھلے ایک ضروری تجویز عرض ہے۔ راقم چونکہ آپ کا مستقل قاری نھیں، نھیں معلوم آپ نے دینی حمیت کا مظھر ایسا کوئی کالم سعودی شھنشاہ کے نام بھی لکھا ہے یا نھیں، کیونکہ سرزمین وحی و اسلام ھونے کے ناطے اسلام و مسلمانوں کی خدمت و حمایت کے جتنے فرائض اس مملکت پر عائد ھوتے ہیں، ایران و پاکستان سمیت اور کسی ملک پر نھیں۔ اگر ایسا کالم لکھا ہے تو مطلع فرمائیں، نھیں تو اپنے علم و دانش کے مطابق بلا تاخیر تحریر کریں۔
راقم کی فھم کے مطابق بادشاہ سلامت کو ان نکات کی طرف ضرور متوجہ کریں:
1۔ سرزمین حجاز وحیء الٰھی، پیغمبر ﷺ، آل و اصحاب پیغمبر کی سرزمین ہے۔ اس سرزمین پر رسول اکرم، ان کی آل و اصحاب نے اسلام کے نفاذ کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں۔ رسول اکرم نے اسلامی حکومت قائم فرمائی، خلفاء راشدین کے ادوار تک اسے اسی طرح چلانے کی کوشش کی گئی، مگر پون صدی کے قریب اب آل سعود کی موروثی شھنشاہیت ہے، جس کے بارے جوش جیسے رند کو بھی کھنا پڑا
اسلام کا شاھی سے تعلق کیا ہے؟
کیا مذکورہ بالا اسلاف کی قربانیاں آل سعود کی شھنشاہیت کیلئے تھیں؟ رسول اکرم ﷺ کی قائم کردہ حکومت کا نظام تو اپنی جگہ۔ اس مقدس سر زمین کا نام بھی پیغمبر، ان کی آل یا اصحاب سے منسوب کرنے کی بجائے سعود کے نام پر رکھ دیا گیا۔ سعودی شاھی خاندان اپنے رھن سھن، طور طریقوں میں کس حد تک سیرت رسول و اصحاب رسول کی پیروی کرتا ہے، اسے واقفان حال خوب جانتے ہیں۔
سادہ لوح مسلمان آل سعود کو خادم حرمین کھتے نھیں تھکتے جبکہ اس خاندان نے مسلمانان عالم کی دلآزاری کرتے ھوئے 75 سال قبل مدینہ منورہ کے تاریخی قبرستان جنت البقیع کو مسمار کیا، جس میں جگر گوشہء رسول سیدہ فاطمہ زھراء، امھات و اصحاب رسولﷺ کے مزارات بھی تھے۔ کیا اس ظلم سے روح رسول نہ تڑپی ھوگی؟ آج بھی عاشقان رسول کو روضۂ رسول پر اظھار محبت و عقیدت کی اجازت نھیں۔
خادم حرمین سے یہ سوال بھی ضرور کریں کہ اسی سال اپریل میں اوباما کے سعودیہ دورہ کے دوران شاہ سلمان نے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم پر بات کرنے کی بجائے امریکی صدر کے آگے سعودی عرب کو ایران سے لاحق خطرات کا رونا رویا (ایکسپریس 21 اپریل) جبکہ انھی دنوں سعودی حکمران نے پاکستانی وزیراعظم و آرمی چیف کی ایران سعودی کشیدگی کم کرنے کی مصالحتی پیشکش کو ٹھکرا دیا، جسے ایران نے قبول کر لیا تھا۔
جلالۃ الملک شاہ سلیمان سے ان خبروں کی بابت بھی استفسار کریں کہ قبلہٴ اول پر قابض، مظلوم فلسطینیوں کے سفاک قاتل اسرائیل سے دوستی کی پینگیں اور اس سے برسر پیکار حزب اللہ سے عناد کون سی قرآنی تعلیمات کے مطابق ہیں؟
نیز یہ کہ جمھوری حقوق کی جدوجھد کرنیوالے یمنی عوام پر ظلم و ستم کے پھاڑ نبیء رحمت کے کن فرامین کی رو سے جائز ہیں؟
چند ماہ قبل سعودی وزیر دفاع نے پاکستان کو دی جانیوالی سعودی امداد کو ’’صدقہ و خیرات‘‘ کھہ کر جس طرح پاکستانی قومی وقار کی توھین کی ہے، اس پر بھی ضرور احتجاج کریں۔ آپ سینیئر پولیس افسر رھے ہیں، بخوبی جانتے ہیں شیعہ کافر، واجب القتل کے نعرے اور ھزاروں شھریوں کو شیعہ ھونے کی بنا پر قتل کرنوالی دھشتگرد تنظیموں کی سرپرستی میں آپ کی ممدوح مملکت بالواسطہ، بلاواسطہ کس حد تک ملوث ہے۔
کیا یہ حقیقت نھیں ماضی قریب میں ھلاکت سے کچھ عرصہ قبل تک بھی سفاک دھشتگرد ملک اسحاق جب بھی عمرہ پر جاتا وھاں سے خطیر رقومات لاتا۔
چیمہ صاحب! مذکورہ بالا نکات کے علاوہ بھی کافی باتیں ارض مقدس حجاز کے بادشاہ سے کی جا سکتی ہیں، اختصار کے پیش نظر ذکر نھیں کیا جا رھا، جنھیں آپ جیسی صاحب مطالعہ باخبر شخصیت بھتر جانتی ہے۔
یہ الزامات بے بنیاد ہیں:
جن مفروضوں کی بنیاد پر آپ نے دنیائے اسلام کی ایک جلیل القدر علمی ھستی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کو قرآنی آیات کی رو سے سمجھانے کی کوشش کی ہے، ان کی بنیاد منفی پروپیگنڈہ اور الزامات پر ہے۔
اگر آپ ٹھنڈے دل سے غور کریں تو آپ کی تحریر دانستہ، نادانستہ طور پر فرقہ واریت کو ھوا دینے کے مترادف ہے، جس کا وطن عزیز متحمل نھیں۔ ان ابحاث کو کالم کے مجمع عام میں بیان کرنے کی بجائے مربوطہ افراد و فورم پر پیش کرکے اپنی کئی غلط فھمیوں کا ازالہ کرسکتے تھے۔
آپ کی تحریر راقم سمیت ایک بڑے طبقے کی دل آزاری کا سبب بنی ہے، کیونکہ ھم ایران کی حمایت شیعہ ملک کی وجہ سے نھیں کرتے، ورنہ شاہ ایران بھی شیعہ تھا مگر یھاں کے ذمہ دار شیعہ اسے باطل قوت سمجھتے تھے۔ ھم ایرانی علماء کی حکومت کو رسول اکرمﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں قائم حکومت اسلامی سمجھ کر حمایت کرتے ہیں، (جزئیات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے)۔ ان باکردار، باعمل علماء کو رسول خدا، آل و اصحاب رسول کا جانشین سمجھتے ہیں۔ امام خمینی دو کمرے کے مکان میں زندگی گزار گئے۔ موجودہ رھبر کی سیرت، کردار، رھن سھن کا تقابل ارض حجاز کے حکمرانوں سے کریں۔
آپ نے کالم کا آغاز ھی 34 سال پرانی ایران عراق جنگ کے غیر ضروری ذکر سے کیا، جبکہ اب دونوں ملک شیر و شکر ہیں۔ صدام کے مسلک کا ذکر کیا۔ صدام کیسا سنی تھا؟ یہ آپ اس کی سفاکیت کے شکار عراقی سنی عوام سے پوچھیں۔ انقلابی علماء نے تو ایران کے شیعہ شھنشاہ کا تختہ الٹا تھا۔ آپ کیا فرمائیں گے؟ ایران کے حکمران علماء پر تنگ نظری و فرقہ پرستی کا الزام بے بنیاد ہے۔ جس قدر مظلوم فلسطینیوں کی ایران نے حمایت کی ہے، کسی اور اسلامی ملک نے نھیں کی جبکہ فلسطین میں ایک بھی شیعہ نھیں۔ اقلیت میں ھونے کے باوجود آج تک کسی سنی مسلمان کو آپ کے الفاظ میں، تنگ نظر، فرقہ پرست ایرانی حکمران علماء نے قتل نھیں کرایا۔ اگر سنی قتل ھوئے بھی تو دھشتگرد تنظیم جنداللہ کے ھاتھوں، جب زاھدان کی جامع مسجد میں دھماکوں کے ذریعے سنی، شیعہ نمازیوں کو شھید کیا گیا۔ آپ بخوبی جانتے ہیں ’’جنداللہ‘‘ کا سرغنہ، سفاک دھشتگرد عبدالمالک ریگی بلوچستان سے ایرانی سکیورٹی فورسز اور عوام پر حملے کرتا تھا، ریگی کے پاکستانی شناختی کارڈ پر کراچی کے معروف دینی مدرسہ کا پتہ درج تھا۔
ایران بھارت دوستی پر اعتراض تب ٹھیک تھا، جب فقط اسی مؤقف پر ھی عالم عرب ھمارے ساتھ کھڑا ھوتا۔ پھر بھی ایران نے کشمیریوں پر حالیہ بھارتی مظالم کی شدید مذمت سمیت ھمیشہ کشمیر کی حمایت کی ہے۔ آج 8 اگست کے نوائے وقت میں بھی ایرانی سفیر نے اسی مؤقف کا دوٹوک اعادہ کیا ہے کہ ایران، پاکستان پر بھارت سمیت کسی ملک کو ترجیح نھیں دے گا۔ اگر یہ علماء تنگ نظر ھوتے تو ھمیشہ ھماری طرف دوستی کا ھاتھ نہ بڑھاتے، جبکہ ھماری سرزمین پر پچیس کے قریب مھمان ایرانی علماء، سفارتکار، انجینئر، تاجر و طلبہ دھشتگردی کا شکار ھوئے۔ (چند ماہ قبل صدر ڈاکٹر روحانی کو بلا کر جس طرح ان کی ’’عزت افزائی‘‘ کی گئی، اس پر بھی غور فرمائیں)۔ آپ نے پاک ایران دوستی میں امریکی دباؤ قبول نہ کرنے کا انکشاف کیا ہے، جبکہ کئی ارب ڈالر کی لاگت سے ایران کی طرف سے گیس پائپ لائن ھماری دھلیز تک پھنچا دی جانے کے باوجود اس پر پیشرفت کس کے دباؤ پر نھیں کی جا رھی۔؟
تھران میں ھمارے کلچرل سنٹر کے قیام کی اجازت نہ دیئے جانے کی اطلاع درست ہے تو یہ تشویشناک امر ہے۔ راقم کا معلومات میں اضافہ کیلئے سوال ہے کہ کن کن ممالک میں ھمارے کلچرل سنٹر کام کر رھے ہیں؟ آپ کا ایرانی روحانی رھبر کو یہ سمجھانا کہ رسول اکرمﷺ کے بعد کے اختلافات کا تعلق دین نھیں بلکہ سیاست و تاریخ سے ہے۔
آپ کے احترام کے پیش نظر اس پر تبصرہ سے گریز ہے، مگر اتنا عرض ہے کہ اس بارے میں مجھ جیسا عام آدمی بھی کافی معلومات رکھتا ہے کہ یہ اختلافات صد در صد دینی تھے، چہ جائیکہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای۔ آپ نے اقبال کا ذکر بھی کیا۔ سچ بتائیں 60 اسلامی ممالک میں کونسا ملک فکر اقبال کی ترویج کر رھا ہے؟ اقبال کا جتنا کلام ایرانی علماء، حکمرانوں اور قوم کو یاد ہے، شاید خانوادہء اقبال میں سے بھی کسی کو نہ ھو۔
پاکستانی شیعہ کی مسجد کا تھران میں سنی مسجد سے تقابل اور تذکرہ آپ جیسی ذمہ دار شخصیت کو موجودہ حالات میں ھرگز نھیں کرنا چاھئے۔ اول تو آپ کا دعویٰ حقائق کے برعکس ہے دوسرے یہ کہ اس طرح کا تقابل قطعی طور پر منطقی و معقول نھیں۔ اس کے دلائل کی یہ چند سطور متحمل نھیں۔
آپ کا سوال یوں ھونا چاھیئے تھا کہ تمام اسلامی ممالک کے دارالخلافوں میں شیعہ مسلک کی مساجد ہیں تو تھران میں سنی مسلک کی مسجد کیوں نھیں؟ نہ جانے یہ بات کن ثبوتوں کی بنا پر لکھی ہے کہ ایرانی حکومت تمام مسلم ممالک کو تھران میں مسجد بنانے کی اجازت نھیں دے رھی۔ کتنے مسلم ممالک نے تھران سے کھا کہ جناب ھمارے ملک کے دارالخلافہ میں تو شیعہ مسلک کی مسجد ہے، تھران میں کیوں نھیں۔؟
عالم اسلام کا مشترکہ ملک سعودیہ جب یہ نھیں کھہ سکتا تو اور کون کھے گا؟ یہ نوٹ فرما لیں کہ ایران میں سنی آبادی والے علاقوں میں ھزاروں مساجد و دینی مدارس ہیں، جن میں یھاں سے ھمارے دیوبندی علماء جاتے ہیں۔ ان علماء سے راقم کا بھی رابطہ ہے۔ وھاں شیعہ سنی مثالی اتحاد ہے۔ جھاں شیعہ کم تعداد میں ہیں، ان کیلئے بھی الگ مسجد نھیں، اھلسنت کی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل آپ کے بیوروکریٹ ساتھی جناب اوریا مقبول جان ھمارے ھاں تشریف لائے اور بتایا کہ ECO کے تھران میں ڈائریکٹر کے فرائض کی ادائیگی کے دوران کئی مرتبہ ایرانی شیعوں نے ان کے پیچھے نماز ادا کی۔
آپ تجربہ کار افسر ہیں۔ راقم کا مشورہ ہے ان فرقہ وارانہ ابحاث کو چھیڑنے کی بجائے ملکی و اسلامی دنیا کی بھتری کیلئے مثبت کالم سپرد اخبار کریں۔ اگر کسی ملک یا مسلک سے کوئی شکایت ہے تو ذرائع ابلاغ سے تشھیر سے قبل اس کے متعلقہ اداروں سے رابطہ کرکے اصل صورتحال سے آگاھی حاصل کی جائے۔
ربع صدی سے زیادہ عرصہ سے فرقہ وارانہ تشدد سے بے حال وطن عزیز اس انداز کا متحمل نھیں۔ اگر آپ لاھور مقیم ہیں یا تشریف لاتے رھتے ہیں تو اس طرح کے مسائل پر تبادلہٴ خیال کیلئے جامعۃ المنتظر ماڈل ٹاؤن تشریف لائیں، جو کہ ملک بھر کے شیعہ مسلک کے دینی مدارس کی مرکزی تنظیم وفاق المدارس الشیعہ کا مرکز بھی ہے۔ (یہ وھی مدرسہ ہے جھاں بطور ایس ایس پی لاھور آپ کی کمان میں 16 تھانوں کی پولیس نے جولائی 1997ء میں دھاوا بولا تھا، بزرگ علماء، سادات کے گھروں کی بیحرمتی کی گئی تھی، پونے 200 کے قریب بے گناہ طلباء، اساتذہ کو گرفتار کیا گیا تھا، لوٹ مار کی گئی۔ کیوں؟ آج تک کسی نے نھیں بتایا۔ اگر یہ اقدام حق بجانب تھا تو اللہ کی عدالت میں کوئی مواخذہ نہ ھوگا، بصورت دیگر اس کی بارگاہ میں ذرہ بھر ظلم کا بھی حساب دینا پڑے گا۔ تمام مسالک کے علماء متفق ہیں کہ اوپر کے حکم کی آڑ میں کسی پر ظلم جائز نھیں۔ اللہ بھی اس وقت تک معاف نہ کرے گا جب تک مظلوم معاف نہ کرے)
نصرت علی شھانی
وفاق المدارس الشیعہ پاکستان
جامعۃ المنتظر ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن لاھور
کالم نگار ذوالفقار احمد چیمہ کے نام کھلا خط
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1523