www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

500559
اندرونی سطح پر شام بحران کے اھم ترین اثرات میں سے ایک اس ملک میں القاعدہ کی سرگرمیوں کا آغاز تھا۔ دھشت گرد تنظیم القاعدہ گذشتہ کئی سالوں سے شام میں داخل ھونے اور اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش میں مصروف تھی۔ لھذا جب مارچ 2011ء میں شام میں سکیورٹی بحران کا آغاز ھوا تو تکفیری گروہ "دولت اسلامی عراق" میں شامل شامی دھشت گرد عناصر اور اسی طرح عراق میں موجود القاعدہ سے وابستہ دیگر گروھوں میں شامل عناصر نے شام میں ایک نام نھاد جھادی گروہ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد صدر بشار الاسد کی حکومت کو سرنگون کرنا تھا۔
اس طرح شام میں سرگرم چھوٹے چھوٹے دھشت گرد گروھوں کو متحد کرکے ایک بڑا گروہ تشکیل دیا گیا، جس کا نام "کتائب النصرہ لاھل الشام" رکھا گیا۔
22 جنوری 2012ء کو ابو محمد الجولانی کی سرکردگی میں اس گروہ نے رسمی طور پر اپنی موجودگی کا اعلان کر دیا۔ بھت ھی کم عرصے میں خطے کے بعض ممالک کی جانب سے بے تحاشہ مالی امداد اور اردن، تیونس، لیبیا، مراکش، چچنیا اور دیگر خلیجی ریاستوں سے بڑے پیمانے پر دھشت گرد عناصر بھرتی کرنے کے بعد اس گروہ کی سرگرمیوں میں غیر معمولی طور پر اضافہ ھوگیا۔ صرف چند ماہ میں النصرہ فرنٹ کا شمار شام کے اھم ترین اور طاقتور ترین مسلح گروھوں میں ھونے لگا۔
النصرہ فرنٹ کو حاصل ھونے والی مسلسل کامیابیوں اور شام کے بعض صوبوں میں بڑے پیمانے پر فتوحات نے دولت اسلامی عراق کے دل میں امید کی کرن پیدا کر دی۔ لھذا اپریل 2013ء میں ابوبکر البغدادی نے آڈیو پیغام کے ذریعے النصرہ فرنٹ کو دولت اسلامی عراق کی شاخ قرار دیتے ھوئے دونوں کو ملا کر نئے گروہ "دولت اسلامی عراق و شام" یا "داعش" کی تشکیل کا اعلان کر دیا۔
ابوبکر البغدادی کا دعویٰ تھا کہ النصرہ فرنٹ داعش کے ذیلی گروہ کے طور پر سرگرمیاں انجام دے۔ لیکن دوسری طرف الجولانی نے اس کی شدید مخالفت کی اور النصرہ فرنٹ کے دھشت گردوں نے بھی اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ جب النصرہ فرنٹ اور داعش کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرنے لگے تو القاعدہ کے رھنما ایمن الظواھری نے اختلافات ختم کرانے کیلئے مداخلت کی۔
الظواھری نے دونوں گروھوں کی علیحدگی پر زور دیا اور کھا کہ دولت اسلامی عراق ابوبکر البغدادی کی سرکردگی میں عراق میں سرگرمیاں انجام دے، جبکہ النصرہ فرنٹ الجولانی کی سربراھی میں شام میں ایک علیحدہ گروہ کے طور پر فعالیت انجام دیتا رھے۔
اسی قسم کے اختلافات کے باعث داعش نے خود کو القاعدہ سے علیحدہ کیا اور القاعدہ نے بھی اپنے سے داعش کی ھر قسم کی وابستگی کو مسترد کر دیا۔ دوسری طرف الجولانی نے القاعدہ کے ھاتھ پر بیعت کر لی۔ الجولانی نے اعلان کیا: "ھم النصرہ فرنٹ القاعدہ کے سربراہ شیخ ایمن الظواھری کے ھاتھ پر بیعت کا اعلان کرتے ہیں۔" اس اعلان کے بعد النصرہ فرنٹ نے شام میں اپنی مسلحانہ سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا۔
2012ء کے آخر سے 2013ء تک النصرہ فرنٹ بڑی مقدار میں بھاری اسلحہ حاصل کرنے میں کامیاب رھا اور اس دوران اس گروہ نے ٹینکوں کے ذریعے وسیع پیمانے پر حملوں کا آغاز کر دیا۔ لھذا انتھائی مختصر مدت میں النصرہ فرنٹ شام کے فعال ترین، موثر ترین اور شدت پسند ترین سلفی جھادی گروہ کے طور پر ابھر کر سامنے آگیا۔
اس گروہ نے مطلوبہ اھداف و مقاصد کے حصول کیلئے مختلف قسم کے طریقہ کار اپنائے۔ دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑیوں کے ذریعے بم حملے، خودکش بم حملے، ھلکے اور بھاری ھتھیاروں کے ذریعے حکومتی مراکز، ھوائی اڈوں اور اھم مقامات پر حملے، مرکزی راستوں اور ھائی ویز کے کنارے بم نصب کرنا اور شام آرمی اور سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں پر حملے ان کی چند ایک مثالیں ہیں۔
النصرہ فرنٹ کا خاص ھتھکنڈہ خودکش بم دھماکے ہیں، جن کے ذریعے اس گروہ نے خاص طور پر دمشق اور حلب میں کافی کامیابیاں حاصل کیں اور حکومت پر کاری ضربیں لگائیں۔ اگرچہ النصرہ فرنٹ نے اپنے اعلامیوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ عام شھریوں اور سویلین افراد کو بچانے کی پوری کوشش کرتا ہے اور اپنے حملوں کو حکومتی سکیورٹی فورسز کی وحشیانہ کارروائیوں کا ردعمل قرار دیتا رھا ہے، لیکن عملی طور پر ان کی طرف سے عام شھریوں کا قتل عام، خواتین کی آبروریزی اور شیعہ مسلمانوں اور علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے گلے کاٹنے جیسے اقدامات قابل مشاھدہ ہیں۔
النصرہ فرنٹ اب تک شام میں بڑی تعداد میں مساجد کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا چکا ہے اور حتی اھلسنت علماء دین بھی اس گروہ کے شر سے محفوظ نھیں رھے۔
النصرہ فرنٹ کی طرف سے شھید کئے جانے والے معروف سنی علماء دین میں دمشق کے علامہ محمد سعید البوطی کا نام سرفھرست ہے۔ اس گروہ کے مجرمانہ اقدامات میں فوجی قیدیوں کا قتل کثرت سے نظر آتا ہے۔ یہ دھشت گرد گروہ سویلین افراد پر بھی رحم نھیں کرتا۔ ماں کی آنکھوں کے سامنے شیر خوار بچے کا قتل، شیعہ میاں بیوی کو جسمانی اور ذھنی طور پر ٹارچر کرنا اور دیگر ھزاروں مجرمانہ اقدامات اس گروہ کے کارناموں میں شامل ہیں۔
انھیں مجرمانہ اقدامات اور وحشیانہ پن کے باعث شام میں خانہ جنگی کے آغاز سے اب تک کئی بار عالمی برادری اور انسانی حقوق کے ادارے اس گروہ کی شدید مذمت کرچکے ہیں۔
11 دسمبر 2012ء میں امریکہ نے بھی النصرہ فرنٹ کا نام دھشت گرد گروھوں کی فھرست میں شامل کر لیا۔ اقوام متحدہ نے بھی 14 مئی 2014ء میں اس گروہ کو دھشت گرد قرار دیتے ھوئے اس کا نام دھشت گرد گروھوں کی فھرست میں شامل کیا۔
عالمی برادری کی مذمت اور اقوام متحدہ کی جانب سے دھشت گرد قرار دیے جانے کے بعد ترکی اور قطر نے النصرہ فرنٹ کے قائدین پر زور ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ یا تو خود کو القاعدہ سے علیحدہ کر لیں اور یا پھر شام میں سرگرم دیگر سلفی جھادی گروھوں کے ساتھ ملحق ھوجائیں، تاکہ انھیں اعتدال پسند حکومت مخالف گروہ کے طور پر متعارف کروایا جاسکے اور ان کے دامن سے دھشت گردی کا داغ دھویا جاسکے۔
لھذا 24 مارچ 2015ء کو شام میں سرگرم سات بڑے سلفی جھادی گروھوں کے ادغام سے ایک بڑا گروہ معرض وجود میں آیا جسے "جیش الفتح آرگنائزیشن" کا نام دیا گیا۔ ان سات گروھوں کے نام النصرہ فرنٹ، احرار الشام، جند الاقصٰی، جیش السنہ، فیلق الشام، لواء الحق اور اجناد الشام ہیں۔
جیش الفتح کی اھم ترین کامیابی شام کے شھر ادلب پر قبضہ ہے۔ لیکن بعد میں جند الاقصٰی اور فیلق الشام اس اتحاد سے علیحدہ ھوگئے، جس کے باعث یہ اتحاد کمزور پڑ گیا۔ دوسری طرف النصرہ فرنٹ کی حامی قوتوں کی جانب سے اس گروہ کے لیڈران پر القاعدہ سے علیحدگی پر زور دیا جا رھا تھا۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران النصرہ فرنٹ کی "مجلس شوریٰ" نے کئی میٹنگز منعقد کیں، جس میں القاعدہ سے علیحدگی کے مسئلے پر بحث مباحثہ ھوا۔
آخرکار الجولانی نے یہ بیان صادر کیا: "النصرہ فرنٹ القاعدہ سے علیحدگی کا اعلان کرتا ہے اور آج کے بعد مکمل طور پر آزادانہ اور خودمختار انداز میں سرگرمیاں انجام دے گا۔ یہ گروہ امارت الشام اور جیش الشام تشکیل دے گا۔" النصرہ فرنٹ کے رھنماوں نے اپنے اس فیصلے کی تائید کیلئے سلفی جھادی مفتی "ابو محمد المقدسی" سے فتویٰ بھی حاصل کر لیا۔ اسی طرح چند دن قبل القاعدہ کی "شوریٰ جھاد" نے بھی شام میں اپنی شاخ کے طور پر سرگرم النصرہ فرنٹ سے ھر قسم کا رابطہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک طرف القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواھری اور دوسری طرف النصرہ فرنٹ کے سربراہ ابو محمد الجولانی کی مرضی سے کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں النصرہ فرنٹ ایک خود مختار گروہ میں تبدیل ھوجائے گا۔ لھذا النصرہ فرنٹ نے اپنا نام تبدیل کرکے "فتح الشام فرنٹ" رکھ لیا ہے اور اپنا پرچم بھی تبدیل کرکے سفید پرچم اختیار کر لیا ہے۔
النصرہ فرنٹ اور القاعدہ میں علیحدگی کی وجوھات:
1۔ القاعدہ سے النصرہ فرنٹ کی علیحدگی کی کئی وجوھات ہیں، جن میں سے ایک اھم وجہ النصرہ فرنٹ کے علاقائی اور بین الاقوامی حامیوں کی جانب سے شدید دباو ہے۔ قطر اور ترکی کے حکام نے دوحہ اور استنبول میں انجام پانے والی النصرہ فرنٹ کے رھنماوں سے اپنی اکثر میٹنگز میں القاعدہ سے علیحدگی پر زور دیا ہے۔
النصرہ فرنٹ کے حامی ممالک نے اس گروہ کے رھنماوں کو یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر وہ القاعدہ سے علیحدہ نھیں ھوتے تو سیاسی طور پر گوشہ گیر ھوجائیں گے اور ان کی ھر قسم کی سیاسی اور مالی امداد روک دی جائے گی۔
2۔ النصرہ فرنٹ کی القاعدہ سے علیحدگی کی دوسری اھم وجہ امریکہ اور روس کے درمیان انجام پانے والے حالیہ معاھدے کی طرف پلٹتی ہے۔ اس معاھدے کی رو سے دونوں ممالک کے حکام نے مشترکہ طور پر شام میں سرگرم تکفیری دھشت گرد گروھوں داعش اور النصرہ فرنٹ کے خلاف ھوائی حملوں کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح امریکہ اور روس کے درمیان یہ بھی طے پایا ہے کہ وہ شام کے اعتدال پسند حکومت مخالف گروھوں کے خلاف کارروائی نھیں کریں گے۔ لھذا ابو محمد الجولانی نے النصرہ فرنٹ کو حتمی نابودی سے بچانے اور امریکہ اور روس کے ھوائی حملوں سے بچنے کی غرض سے القاعدہ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا اور اپنے گروپ کا نام بھی تبدیل کر لیا ہے۔
3۔ النصرہ فرنٹ کے سربراہ الجولانی اور دیگر رھنماوں کی جانب سے شام میں جاری جنگ سے متعلق زمینی حقائق کو صحیح طور پر درک کرنا بھی ان کے اس فیصلے میں موثر واقع ھوا ہے۔ النصرہ فرنٹ کے رھنما بھت اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ اور روس کی جانب سے النصرہ فرنٹ کو دھشت گرد گروہ قرار دیئے جانے اور بیرونی امداد کٹ جانے کے بعد حلب اور شمالی شام میں ان کی شکست یقینی ھوچکی ہے، جس کے باعث میدان جنگ میں ان پر دباو کی شدت میں بھت زیادہ اضافہ ھوچکا ہے اور اگر صورتحال ایسی ھی رھی تو ان کا گروہ کمزور ھوتے ھوتے مکمل طور پر نابودی کا شکار ھو جائے گا۔ لھذا النصرہ فرنٹ کے رھنماوں نے ان حالات کے پیش نظر القاعدہ سے علیحدہ ھونے کا فیصلہ کیا۔
القاعدہ سے النصرہ فرنٹ کی علیحدگی کے نتائج:
النصرہ فرنٹ کی القاعدہ سے علیحدگی اس گروہ کیلئے فائدہ مند بھی ثابت ھوسکتی ہے اور نقصان دہ بھی۔ القاعدہ سے علیحدگی کے بعد النصرہ فرنٹ کیلئے سب سے بڑا چیلنج اس گروہ کے رھنماوں اور جنگجووں کے درمیان ممکنہ اختلافات پھوٹنے کا خطرہ ہے۔ النصرہ فرنٹ میں شامل دھشت گردوں کی اکثریت غیر ملکی ہے، جو ایمن الظواھری سے شدید متاثر ہیں اور اسی سلفی جھادی مفتی کے فتوے پر شام آئے ہیں۔ اسی طرح النصرہ فرنٹ میں شامل مختلف کمانڈرز اور گروپس جیسے خراسان گروپ بھی ایمن الظواھری کے افکار و نظریات سے شدید متاثر ہیں اور اسے اپنا روحانی لیڈر تسلیم کرتے ہیں۔ لھذا اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ مستقبل قریب میں چچن اور قفقازی جنگجووں سمیت غیر ملکی دھشت گردوں کی بڑی تعداد النصرہ فرنٹ چھوڑ کر داعش اور جند الاقصٰی سے جا ملے گی۔
دوسری طرف درپیش چیلنجز کے علاوہ القاعدہ سے علیحدگی کے بعد النصرہ فرنٹ کو بعض مواقع بھی فراھم ھوجائیں گے۔ القاعدہ سے جدائی کے بعد مستقبل میں اس بات کا امکان پیدا ھو جائے گا کہ النصرہ فرنٹ کو نئے نام سے ایک اعتدال پسند گروہ کے طور پر تسلیم کر لیا جائے اور یہ تصور قائم کر لیا جائے کہ النصرہ فرنٹ القاعدہ کے شدت پسندانہ افکار و نظریات ترک کرچکا ہے۔
النصرہ فرنٹ سے دھشت گردی کی چھاپ ختم کرکے ترکی اور خلیجی عرب ریاستیں خاص طور پر قطر اور سعودی عرب بغیر کسی ھچکچاھٹ اور جھجک کے اعلانیہ طور پر اس گروہ کی مالی اور سیاسی حمایت کرسکیں گے۔ اسی طرح دھشت گرد گروھوں کی فھرست سے النصرہ فرنٹ کا نام خارج ھو جانے کے باعث النصرہ فرنٹ شام میں موجود دیگر اعتدال پسند حکومت مخالف گروھوں کی مانند جنگ بندی تک اپنی موجودیت کو محفوظ بنا سکے اور مستقبل میں انجام پانے والے سیاسی عمل میں نئے نام سے شرکت کرسکے گا۔ ایسی صورت میں یہ گروہ مستقبل قریب میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر شام سے متعلق منعقد ھونے والی میٹنگز میں شرکت بھی کرسکتا ہے۔
آخر میں یہ کھنا بے جا نہ ھوگا کہ النصرہ فرنٹ کی القاعدہ سے علیحدگی اور جدائی نظریاتی نھیں کیونکہ دونوں گروھوں میں پائے جانے والے تکفیری – جھادی افکار و نظریات میں کسی قسم کا کوئی فرق نھیں بلکہ یہ جدائی صرف ظاھری حد تک ہے، جو عارضی اور مصلحتی امور کے تحت انجام پا رھی ہے۔ اس عارضی جدائی کا مقصد امریکہ اور روس کے ھوائی حملوں سے خود کو بچانا اور خطے کے حامی ممالک کی حمایت اور مدد بدستور برقرار رکھنا ہے۔ یہ امر النصرہ فرنٹ کی دوبارہ تقویت کا باعث بن سکتا ہے، جس کا نتیجہ شام میں خانہ جنگی میں شدت آجانے اور شام کا بحران مزید طولانی ھو جانے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
تحریر: سید علی نجات

Add comment


Security code
Refresh