زندگی خوبصورت ہے مگر شھادت خوبصورت ترین ہے، یہ ایک جملہ ہے مگر جس کی سمجھ میں آجائے، اس کیلئے ایسا رھنما ہے، جس کی ھر ایک کو تلاش ھوتی ہے، یہ دل پر دستک کی ماند ہے، اگر کوئی محسوس کرسکے تو بھت ھی زور دار دستک سنائی دے سکتی ہے، یہ ایسی دستک ہے جس کی ھر ایک کو تڑپ اور پیاس ھوتی ہے، شھادت، شھید اور اس کے بلند درجات کے بارے آیات قرآنی، احادیث نبوی، فرامین معصومین اور اقوال و اشعار کی لمبی فھرست ہے، جو ھمیں مختلف مجالس، دروس، محافل، کانفرنسز، سیمینارز، علماء کی صحبت و قربت میں سننے کا موقعہ ملا، مگر جو اثر اس ایک جملہ یا مصرعہ جو دراصل فارسی زبان میں ہے، (زندگی زیبا است ولے شھادت زیبا ترین است) ہے، کو پڑھ کے ھوا، اس کی مثال نھیں ملتی۔
اس ایک جملہ نے اس کے اندر ایسا تحرک اور جذبہ پیدا کر دیا کہ پھر وہ کبھی چین سے نھیں بیٹھا، اس نے اپنی زندگی جو خوبصورت تھی، اسے خوبصورت ترین بنانے کی ٹھان لی اور ا سے اپنا ھدف قرار دے دیا۔ اپنے ھدف کے حصول کیلئے اس کی پرخلوص کوشش اور جدوجھد بھی مثالی کھی جا سکتی ہے۔
میں تاریخ کے نھاں خانے سے جھانکنے لگا تو مجھے وہ وقت یاد آگیا، جب پاکستان کے ھمسائے ملک ایران، جھاں اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ھوا تھا تو پوری دنیا کی طاقتیں اسے نیست کرنے کیلئے سرتوڑ کوشش کر رھی تھیں اور انھی کا ایک پالتو صدام کی شکل میں سامنے آیا اور اپنے آقاؤں کے اشارے پر چڑھ دوڑا تھا۔
اتنے طویل عرصہ کے بعد اسلام حقیقی کے نفاذ اور نظام اسلامی کے طاقت میں آنے کے بعد اس کی حفاظت و نگھبانی بھی فرض کی حیثیت رکھتے تھے۔
امام خمینی(رہ) کی عظیم رھبری میں آٹھ سال تک مسلط کردہ جنگ میں دفاع مقدس ھوتا رھا۔ اس زمانے میں پاکستان کے دونوں ھمسایوں افغانستان اور ایران میں جنگیں جاری تھیں، مگر ان میں ایک واضح فرق یہ تھا کہ افغانستان کی جنگ روس کے خلاف سی آئی اے کی سرپرستی میں دنیا بھر سے لائے گئے اسلامی مجاھدین کے ذریعے سے لڑی جا رھی تھی اور پاکستان سرکاری سطح پر یہ کام کر رھا تھا جبکہ ایران میں مسلط کردہ جنگ میں صرف اھل ایران ھی شریک تھے۔
ھاں ان کے خلاف اٹھاون ممالک صدام کو مدد فراھم کر رھے تھے، ان میں وہ ممالک بھی تھے، جو افغان جنگ کے سرخیل تھے۔ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی(رہ) نے یہ حکم ضرور جاری فرمایا تھا کہ "ھر کس می توانند باید بہ جھبہ می رود" یعنی جو بھی طاقت رکھتا ہے، وہ محاذ پر جائے۔ شائد یہ اھل ایران کیلئے خصوصی حکم نھیں تھا مگر اس حکم کو ایسا ھی سمجھا گیا، اس لئے کہ کسی بھی ملک سے اس جھاد میں حصہ لینے کیلئے نوجوان شریک نھیں ھوئے بلکہ یہ جنگ اکیلے ایران نے اپنے جوانوں کے بل بوتے پہ لڑی اور لاکھوں جوانیاں لٹا کر اسلام ناب محمدی(ص) اور سرزمین اسلام کا دفاع کیا۔ یہ جنگ آج بھی جاری ہے اور ایران اسے بڑی خوبصورت حکمت عملی سے لڑ رھا ہے۔
میرے خیالوں کی دنیا میں یہ بھی ابھر رھا تھا کہ ایران عراق جنگ جو ایران پر مسلط کی گئی تھی اور آٹھ برس تک جاری رھی تھی، کے دوران پاکستانی شیعہ نوجوانوں کیلئے بالکل اسی طرح عظیم موقعہ تھا، جیسے دوسرے مکاتیب فکر بالخصوص دیوبندی و سلفی نوجوانوں کو روس افغان جنگ میں حصہ لینے سے جنگی تربیت اور گوریلا جنگ لڑنے کے تجربات نیز ھتھیاروں و اسلحہ و گولہ بارود تک رسائی کے مواقع میسر آئے تھے، مگر شیعہ قائدین اور علماء نے اس جانب دھیان ھی نھیں دیا، ان کی حکمت عملی کا محور پاکستان ھی تھا، اس کیوجہ ضیاءالحق کی جابر و ظالم حکومت بھی ھو سکتی ہے، جس نے اس دوران شیعوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ یہ ایک فرق اور عدم توازن تھا جو اس دوران پیدا کیا گیا، اس کے فوائد اپنی جگہ مگر نقصانات کا اندازہ لگانا بے حد مشکل ہے۔
آج بھی پاکستان پر جولوگ حملہ آور ہیں، ان میں وھی نوجوان ہیں جنھیں سی آئی اے کی سرپرستی میں سلفی و دیوبندی مدارس سے نکال کے بظاھر روس کیلئے تیار کیا تھا، مگر وہ ھمارے ھی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے پہ جت گئے۔
چار سال قبل جب مصر، تیونس اور یمن و لیبیا میں عرب سپرنگ کا غوغہ اٹھا تو استعمار نے اپنی چال چلی، اس کے سامنے ایران کی مثال تھی اور وہ کسی بھی طور اس بیداری اسلامی کو کامیاب ھوتا نھیں دیکھ سکتا تھا۔ اسلئے اس نے ان تمام ممالک میں اپنے مھروں کو استعمال کیا، عرب سپرنگ کے نام پر اس نے فقط مزاحمت اسلامی کے بلاک کو ختم کرنے کی سازش کی اور بیداری کی لھر کو جعلی طریقہ سے شام لے آیا۔
دنیا بھر سے اسلامی شدت پسندوں کو جمع کر کے شام میں لایا گیا اور بشارالاسد کی مزاحمت دوست حکومت کے خلاف لا کھڑا کیا۔عجیب اور مضحکہ خیز بات یہ ھو گئی کہ سعودی عرب اور خطے کے عرب شاھی حکمران شام میں جمھوریت کے نفاذ کیلئے سر توڑ کوشش کرتے دکھائی دینے لگے، حالانکہ یھی حکمران مصر میں بیداری کے نتیجہ میں حسنی مبارک کی کرپٹ حکومت کے خاتمہ کے بعد وجود میں آنے والی اخوان کی جمھوری حکومت کے خاتمہ کیلئے بھی سرگرم تھے اور جنرل سیسی کو بھاری امداد دے رھے تھے۔
شام میں اسد حکومت کے خاتمہ کیلئے دنیا بھر سے آنے والے دھشت گردوں کی تکفیری فکر نے اپنا گند باھر نکالا اور ان کے اندر موجود تعصب نے رنگ دکھانا شروع کیا، پھر کیا تھا، مزارات مقدس انبیاء و اھلبیت و صحابہ کرام کی قبور کو اپنے زیر اثر علاقوں میں بارود کے ڈھیر لگا کر مٹی کے ڈھیر میں بدلے جانے لگے، انسانوں کو بھیڑ بکریوں اور غیر انسانی و غیر اسلامی انداز میں شھید کرنے کے مناظر نظر آنے لگے، سعودی عرب سے مفتیان فتوے جاری کرتے نظر آئے کہ مزارات مقدس کو زمیں بوس کر دیا جائے۔
اسلام کے نام پر اسلام کے محسنین کے ساتھ یہ سلوک کسی بھی طور برداشت نھیں کیا جاسکتا تھا، غیرت مند نوجوان جسے اھلبیت نبوت کیساتھ محبت تھی، وہ کیسے اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں کے سامنے نبی آخر کی دختر کی قبر کو بارود کے ڈھیر سے مٹی میں بدلتا دیکھ سکتا۔
تکفیری مفتیان کی دھمکیوں سے بھرپور فتاویٰ نے دوطرفہ کام کیا، ایک طرف تو تکفیریوں کو تقویت دی، دوسری طرف کئی ایک ممالک سے تعلق رکھنے والے عقیدت و جذبوں سے سرشار محبان اھلبیت کو بھی آمادہ کرنے اور حرمین مقدس کے دفاع کیلئے خود کو پیش کرنے کی راہ دکھائی اور وہ اس مادی دنیا کی خوبصورتی کو چھوڑ کر شھادت کی زیبا ترین دنیا کو حاصل کرنے کیلئے کسی نا کسی طرح مقامات مقدس تک پھنچ گئے۔
یہ خوشبخت نوجوان ھم سب کیلئے باعث فخر ہیں، جنھوں نے یہ راستہ اختیار کیا ہے۔ اگرچہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نھیں، مگر بحیثیت قوم ان کی موجودگی سے ھماری قوم کا نام بھی اس فھرست میں شامل ھوگیا ہے، جنھوں نے دنیا کی آلائشوں پر دفاع مقامات مقدس کو ترجیح دی ہے اور اپنی جانوں کو اس راستے پر فدا کیا ہے۔
دنیا اسے جو مرضی نام دے، مگر یہ حقیقت ہے کہ ان نوجوانوں نے مقامات مقدس کے دفاع کیلئے جان کی بازی لگائی ہے اور ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے ملک، وطن اور اس کے محافظین و اداروں کے خلاف صف آراء نھیں ھوا، نہ ماضی میں ایسا ھوا اور نہ ھی مستقبل میں اس کے چانسز ہیں۔
میرے سامنے ایسے ھی ایک شھید کا نورانی میت رکھا ھوا ہے، جس کے بوڑھے والدین پاکستان سے اپنے لخت جگر کو اس زندگی سے خوبصورت زندگی کے سفر پر روانہ کرنے آئے ہیں، میں یہ ساری باتیں جن کا تعلق ماضی قریب سے بھی ہے، اس جوان کی میت کے سامنے بیٹھا سوچ رھا ھوں، مجھے یہ لکھتے ھوئے کوئی خوف یا ڈر نھیں کہ یہ شھید اور اس راہ کے دیگر شھداء ھم سب پہ بازی لے گئے ہیں، ھم ھاتھ ملتے رہ گئے اور انھوں نے منزل کو چھو لیا۔
ھم سوچتے رہ گئے اور وہ ھدف کو پاگئے۔ ھم دیکھتے رہ گئے اور وہ عھد نبھا گئے، حقیقت یہ ہے کہ یھی وہ جوان ہیں، جنھوں نے لشکر خمینی میں آج کے دور میں شمولیت اختیار کی ہے۔
یھی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے دور کی کربلا کو اپنے خون سے سجایا ہے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ھم سب کو بھی ان پاک طینت عاشقان کی صف میں شمار فرمائے۔
تحریر: ارشادحسین ناصر
ھم دیکھتے رہ گئے اور وہ عھد نبھا گئے
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1550