11 فروری 1979ء کو آنے والے انقلاب کو امام خمینی(رہ) نے انفجار نور کھا تھا، یہ واقعی نور کا دھماکہ تھا، اس سے ھزاروں سال سے قائم
تاریکی اور اندھیروں کا راج ختم ھوگیا تھا، مایوسیاں امیدوں اور خوابوں کی عملی تعبیر میں بدلتی نظر آرھی تھیں، غلامی کی زنجیریں ٹوٹ کر دور جا گریں تھیں، آزادی کے گیت اور نغمے پھر سے فضاؤں کو معطر کئے ھوئے تھے، خزاں کا موسم، بھار چلے آنے پر راہ فرار اختیار کر گیا تھا، انقلاب کی جدوجھد میں ھر عمر اور طبقہ فکر و حیات سے تعلق رکھنے والوں نے اپنا حصہ ڈالا، اپنا کردار ادا کیا، دنیا بھر میں اس انقلاب نے سوچوں کے زاویئے ھی بدل دیئے تھے، سیاست کے نئے رخ سامنے آگئے تھے، نہ صرف اسلامی ممالک اور تحریکیں ایک کامیاب مثال اور راستے کو پا چکے تھے بلکہ دنیا بھر کے مظلوم اور ستم رسیدہ، پسے ھوئے انسانوں کو بھی ایک امید ھو چلی تھی کہ طاقتوروں کو زیر کیا جاسکتا ہے۔
ھر سو اندھیرا چھایا ھوا تھا، تاریکی نے روشنیوں کو قید کر لیا تھا، امیدیں دم توڑ چلی تھیں، مایوسیاں راج کر رھی تھیں، ناکامیاں اپنی کامیابیوں پر جشن مناتی تھیں، ظلم اپنے عروج پر تھا، فحاشی کا دور دورہ تھا، عیاشی کا ھر رنگ میسر تھا، طاقت کا گھمنڈ انسانوں کو فرعون بنائے ھوئے تھا، ایک ایسی اسلامی مملکت جس کے پاس تیل کے وسیع ذخائر موجود تھے، اس پر صھیونست قابض ھوچکے تھا، دنیا بھر کی جاسوسی کا مرکز تھران بنا ھوا تھا، جھاں امریکہ نے اپنا ایک بھت بڑا سفارت خانہ جسے جاسوسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، قائم کر رکھا تھا، ملک کی بیشتر یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں سمیت اھم ترین منابع غیر ملکیوں کی براہ راست دسترس اور اختیار میں تھے، اس مملکت پر اڑھائی ھزار سال سے شھنشاھی نظام حکومت چل رھا تھا۔
ایسے میں ایک مرد قلندر نے نعرہ مستانہ لگایا او ر اس ملک و عوام کی تقدیر بدلنے کا عزم ظاھر کیا، ان کی آواز میں سچائی تھی، صداقت تھی، وہ پسے ھوئے مظلوم عوام کی امید تھے، ان کا شعار اللہ اکبر تھا، انھوں نے کھا کہ وہ اللہ اکبر کی طاقت سے مسلح ہیں، وہ خدا پر بھروسہ اور توکل کرنے والے تھے، وہ اپنے عزم اور ارادہ کی سچائی پر پختہ یقین رکھتے ھوئے اس کے حصول کیلئے تمام رکاوٹوں سے ٹکرانے کی طاقت رکھتے تھے، ان میں قوت فیصلہ کوٹ کوٹ کر بھری ھوئی تھی، وہ روحانی و معنوی مقامات سے منزہ و لیس تھے، انھیں اپنی منزل کے حصول کا مکمل یقین تھا اور وہ ھر قسم کی قربانی اور ایثار کیلئے ھمہ وقت تیار تھے، انھیں دنیا کی کسی طاقت کا ذرا سا بھی خوف نہ تھا۔۔۔۔۔
لھذا جب انھوں نے ساٹھ کے عشرے کے آغاز میں اپنی جدوجھد کا آغاز کیا تو تمام خطرات اور مشکلات کو جھیلتے ھوئے ھر دن اپنی منزل کے قریب ھوتے گئے، یھاں تک کہ 11 فروری 1979ء کا سورج وہ پیغام لیکر طلوع ھوا جس کیلئے ھزاروں افراد قربان ھوگئے تھے اور جس کے بارے اڑھائی ھزار سال سے قابض شاھی خاندان اور اس کے سرپرستوں نے سوچا بھی نھیں تھا، مگر اس دن سے پھلے ھی شاہ فرار ھوچکا تھا، اور اسلامی انقلاب کا نقارہ بج چکا تھا، امام خمینی(رہ) جو اس انقلاب کے بانی تھے، جب جلا وطنی ختم کرکے پیرس سے وطن لوٹے تو سب سے پھلے اس مقام پر گئے جھاں اس انقلاب کے ایثار گر اور قربانیاں پیش کرنے والے محو آرام تھے، اس جگہ کو دنیا بھشت زھرا تھران کے نام سے پھچانتی ہے، جھاں لاکھوں سپاھیان اسلام و فرزندان قرآن اسلامی انقلاب کے قیام، اس کی بقا اور مقدس دفاع کی جدوجھد میں سرخرو ھونے والے دفن ہیں۔
11 فروری 1979ء کو آنے والے انقلاب کو امام خمینی(رہ) نے انفجار نور کھا تھا، یہ واقعی نور کا دھماکہ تھا، اس سے ھزاروں سال سے قائم تاریکی اور اندھیروں کا راج ختم ھوگیا تھا، مایوسیاں امیدوں اور خوابوں کی عملی تعبیر میں بدلتی نظر آ رھی تھیں، غلامی کی زنجیریں ٹوٹ کر دور جا گریں تھیں، آزادی کے گیت اور نغمے پھر سے فضاؤں کو معطر کئے ھوئے تھے، خزاں کا موسم، بھار چلے آنے پر راہ فرار اختیار کر گیا تھا، انقلاب کی جدوجھد میں ھر عمر اور طبقہ فکر و حیات سے تعلق رکھنے والوں نے اپنا حصہ ڈالا، اپنا کردار ادا کیا، دنیا بھر میں اس انقلاب نے سوچوں کے زاویئے ھی بدل دیئے تھے، سیاست کے نئے رخ سامنے آگئے تھے، نہ صرف اسلامی ممالک اور تحریکیں ایک کامیاب مثال اور راستے کو پا چکے تھے بلکہ دنیا بھر کے مظلوم اور ستم رسیدہ، پسے ھوئے انسانوں کو بھی ایک امید ھو چلی تھی کہ طاقتوروں کو زیر کیا جاسکتا ہے۔
اسلامی انقلاب ایک رول ماڈل کے طور پر سامنے موجود تھا، اس سے قبل انقلاب فرانس اور انقلاب روس کی مثالیں دی جاتی تھیں، مگر ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب نے کامیابی کی نئی روشیں اور انسانوں کی فلاح و بھبود اور حکومت کا نظریہ اسلامی متعارف کروایا تھا، بانی انقلاب ھر قسم کے تعصبات سے ھٹ کر اور سرحدوں کی قید سے آزاد ھو کر اسلام کا آفاقی اور الٰھی پیغام دنیا کو دے رھے تھے کہ اسی میں ان کی آزادی و استقلال کا راستہ موجود تھا، انھوں نے تمام مظلوم اقوام کو دعوت دی کہ وہ ستم گروں اور ظالموں کے ھاتھ سے اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے ھاتھوں میں لے لیں اور اس بات کی اجازت نہ دیں کہ کوئی ان پر مسلط ھو جائے۔
امام خمینی(رہ) کے پیغام سے سب سے زیادہ خوف ایران کے پڑوس میں واقع ان عرب حکمرانوں کو ھوا جو عوام کو بادشاھت کے جبر تلے کئی برسوں سے روند رھے تھے اور ان کے جمھوری حقوق پر ڈاکہ ڈالے بیٹھے تھے، ان عرب حکمرانوں کے سرپرستوں نے بھی محسوس کیا کہ اگر تبدیلی کی یہ لھر خطے کے دیگر عرب ممالک میں بھی پھنچ گئی تو اس کے مفادات جو پھلے ھی اس انقلاب کے بعد سخت خطرے سے دوچار ھوگئے تھے، انکا حصول ناممکن ھو جائے گا، لھذا ھم نے دیکھا کہ اسلامی انقلاب کی راہ میں پھلے دن سے ھی مشکلات کے پھاڑ کھڑے کر دیئے گئے، نوزائیدہ اسلامی انقلاب کو اندرونی سازشوں سے ختم کرنے کی کوششیں سامنے آئیں، جن کو بڑی حکمت و دانائی سے ناکام بنایا گیا اور ان سازشوں کو اس کے کرداروں سمیت دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا ھونا پڑا، انھی سازشوں کے توڑ میں ھی امریکی سفارت خانہ پر قبضہ اور اس کے اندر واقع جاسوسی مرکز اور اس سے وابستہ سی آئی اے کے اھلکاروں کو ایرانی طلباء کے ھاتھوں یرغمال بنایا جانا ایک ناقابل فراموش، تاریخی کارنامہ ہے جس سے کئی اور واقعات جڑے ھوئے ہیں۔
ایران کے اسلامی انقلاب پر پھلے دن سے ھی اقتصادی پابندیاں لگا دی گئیں، اس کے اثاثے منجمد کر لئے گئے، (یہ اثاثے اب پینتیس سال گذر جانے کے بعد مذاکرات کے بعد قسط وار دینے کا وعدہ کیا گیا ہے) اس کے بعد ھم دیکھتے ہیں کہ اس انقلاب کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ھوئے اس کے بانیان، علماء، اسکالرز، اس کے اصل دماغوں اور اعلٰی حکومتی انقلابی شخصیات کو ٹارگٹ کرکے شھید کرنے کا سلسلہ چلایا گیا، جب اس سے کام نہ چلا تو ایران کے ھمسائے میں اپنے ایک مھرے صدام کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کر دی گئی، آٹھ سال تک اس مسلط کردہ جنگ میں ایک نوزائیدہ مملکت اسلامی کے مقابل ساٹھ کے قریب ممالک نے عراق کا ساتھ دیا، اور بھرپور مالی و فوجی مدد کی، تاکہ انقلاب کا خاتمہ ھوجائے، بیرونی حملہ آوروں کے سات ساتھ ایک گروہ ایسا بھی پیدا کیا گیا جس کے ذریعے داخلی انتشار و تخریب کا کام لیا گیا اور مشکلات کھڑی کی گئیں، تاکہ لوگ بیزار ھوجائیں اور حکومت اسلامی کا تختہ الٹ دیں، مگر دنیا نے دیکھا کہ تمام سازشیں ناکام ھوئیں، مسلط کردہ جنگ سے بھی وہ مقاصد حاصل نہ کئے جاسکے اور پابندیوں نے بھی اسلامی ایران کو نہ جھکایا بلکہ ایران اپنے بنیادی نعرے آزادی، استقلال، جمھوری اسلامی پر پینتیس سال سے ڈٹا ھوا ہے، جنگ اور آفات کے زمانے میں بھی اس مملکت نے انتخابات کو ایک دن کیلئے بھی ملتوی نھیں کیا، جو عوام کے جمھوری حقوق دینے کے وعدے کا پاس اور روشن مثال ہے۔
امام خمینی(رہ) کی رھبری و سیادت میں لایا ھوا اسلامی انقلاب آج جب اپنے پینتیس سالہ سفر کو طے کرچکا ہے اور اس مملکت اسلامی کی عوام نے اس کی پینتیس بھاریں دیکھ لی ہیں، تو ایران آج ایک ایسی طاقت کے طور پر نظر آتا ہے، جس کو خطے کی سیاست سے نکالنا یا نظر انداز کرنا خطے کے مسائل میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے، اسی طرح ایران آج دنیا کی سیاست پر بھی اپنا بھرپور اثر رکھتا ہے، ایران کی طرف سے کئے گئے اعلان کئی اھم ممالک کی اکانومی پر اثر انداز ھوتے ہیں اور یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نھیں کہ انقلاب کی جن لھروں کو دنیا نے بھار کے جھونکوں کی مانند محسوس کیا تھا، اسی کی بدولت مشرق و مغرب سے آزادی کی تحریکوں کو کامیابیاں ملیں اور آمریتوں سے چھٹکارا ملا، یہ الگ بات ہے کہ بعض ممالک کی قیادتوں نے اپنے ھاتھوں ھی ان کامیابیوں کو ناکامیوں سے دوچار کر لیا ہے۔
اس انقلاب کی سب سے اھم بات اس کا نظریہ ہے، جس کی وجہ سے اسے تمام تر مشکلات، مصائب، آفات، سازشوں، جنگوں، تخریبی کارروائیوں، اپنوں اور پرایوں کی بے رخیوں، الزامات اور مسائل کے انبوہ کے مقابل ھر لمحہ کامیابیاں ملیں، وہ نظریہ بے شک ولایت فقیہ کا الٰھی نظریہ ہے، یھی نظریہ حزب اللہ کو اسرائیل جیسے بدمعاش ملک کے مقابل کامیابیاں سمیٹنے کا جذبہ فراھم کرتا ہے، یھی نظریہ پینتیس سال تک پابندیوں کے شکار ملک کو ایک ترقی یافتہ، اعلٰی ٹیکنالوجی سے آراستہ مملکت بناتا ہے، یھی نظریہ ایک قوم کو دنیا کے سامنے سرخرو اور آزادی سے جینے کے گر سکھلاتا ہے اور اسی نظریہ پر قائم ھی اپنے ملک، وطن اور دین کے دفاع کیلئے لاکھوں لوگ خود کو پیش کر دیتے ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ انقلاب کے چاھنے والوں اور بھی خواہوں کو اس نظریہ کی تقویت اور مضبوطی کیلئے کام کرنا چاھیئے، تاکہ اسلامی انقلاب کی خوشبو ھر سو معاشرہ کو معطر کرے۔
اسلامی انقلاب کی پینتیسویں صبح بھار کی مبارکباد کے اصل مستحق وہ خانوادگان اور سرفروش ہیں، جنھوں نے اس الٰھی پیغام جسے انھوں نے امام خمینی (رہ) کی زبانی سنا اور لبیک کھتے ھوئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں قربانی کے ان مٹ نمونے پیش کرنے والی مائیں، جنھوں نے اپنے تین تین بچوں کو انتھائی خندہ پیشانی سے قربان گاہ میں بھیجا۔ خداوند کریم سے دعا ہے کہ اس انقلاب کو حضرت حجت عجل الہک تعالیٰ فرجہ الشریف کے انقلاب سے متصل فرمائے۔ (آمین)
تحریر: ارشاد حسین ناصر