www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اسلام کا سب سے پھلا سیاسی اور سماجی کارنامہ اسلامی امت کی تشکیل ہے جو مدینۃ الرسول(ص) سے شروع ھوئی اور پھر بڑے ھی حیرت انگیز اور افسانوی انداز سے کمال و ترقی کی

 منزلیں طے کرتی چلی گئی۔ ابھی اس کے با برکت وجود کو نصف صدی بھی نھیں گزری تھی کہ اسلام نے اپنے پڑوس کی تینوں عظیم و قدیم تھذیبوں، مصر، روم اور ایران کے نصف سے زائد حصے کو مسخر کر لیا۔ مزید سوسال گزرتے گزرتے درخشاں اسلامی تھذیب اور طاقتور اسلامی حکومت کے ڈنکے مشرق میں دیوار چین، دوسری طرف بحر ایٹلانٹک کے ساحلوں، شمال میں سائبیریا کے میدانوں اور جنوب میں بحر ھند کے جنوب تک بجنے لگے۔ تیسری اور چوتھی صدی ھجری اور اس کے بعد تک اسلامی تھذیب ایسی تابناک اور درخشاں تھذیب بن چکی تھی کہ آج ھزاروں سال گزرنے کے بعد بھی اس کی علمی اور ثقافتی برکتیں، عصر حاضر کی تھذیبوں میں نظر آتی ہیں۔

عالم اسلام دنیا کی نھایت قیمتی میراث اورمالامال ثقافت کی مالک ہے جس میں غیر معمولی شکوفائي اور درخشندگی پائي جاتی ہے۔ اس میں تنوع کے ساتھ ھی حیرت انگیز ھم آھنگی بھی ہے، جو اسلام کی ھمہ گیری اور گھری تاثیر اور پیکر امت میں سمائي ھوئی خالص توحید و وحدانیت کے نتیجے میں پیدا ھوئي ہے۔ جذبہ الفت و اخوت سے سرشار مختلف رنگ و نسل کی قومیں جو الگ الگ زبانوں میں گفتگو کرتی ہیں خود کو عظیم امت مسلمہ کا حصہ سمجھتی اور اس پر نازاں ہیں۔ یہ قومیں ھر روز ایک ھی مرکز کا رخ کرکے ایک ھی زبان میں اللہ تعالی سے مناجات کرتی ہیں۔ ایک ھی آسمانی کتاب سے درس و تعلیمات حاصل کرتی ہیں۔ یھی آسمانی کتاب ان کے لئے تمام ضرورتوں کی تکمیل کا وسیلہ اور تمام حقائق کی وضاحت و تشریح کا ذریعہ ہے۔ " و نزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیء و ھدی و رحمۃ و بشری للمسلمین"

وہ سرزمین جس پر امت مسلمہ آباد ہے، قدرتی ذخائر کے لحاظ سے اگر دنیا کا سب سے مالامال علاقہ نھیں تو ان علاقوں میں سے ایک ہے جو سب سے زیادہ مالامال کھے جاتے ہیں۔ امت مسلمہ کے وسائل کی فھرست میں، اقتصادی، ثقافتی، سیاسی، سماجی، افرادی سرمائے کے سیکڑوں عناوین شامل ہیں۔ جو کوئی بھی توجہ سے دیکھے، ان ذخائر سے روشناس ھو سکتا ہے۔

اس وقت عالم اسلام کے دانشوروں اور سیاسی شخصیات کے دوش پر عظیم ذمہ داری ہے۔ مسلم دانشور اسلام کے حریت پسندی کے پیغام کو جتنے مناسب انداز میں لوگوں تک پھنچائيں گےمسلم اقوام کی اسلامی ماھیت اتنی ھی صحیح شکل میں سامنے آئے گی۔ انسانی حقوق، آزادی، جمھوریت، حقوق نسواں، بد عنوانیوں کا سد باب، نسلی تفریق و امتیاز کا خاتمہ، غربت اور علمی میدان میں پسماندگی سے نجات جیسے موضوعات کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ عام تباھی ھتھیاروں اور دھشت گردی کے خلاف جد و جھد کے سلسلے میں مغربی ذرائع ابلاغ کے فریب اور دھوکے کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔ ان مذکورہ موضوعات کے تعلق سے آج مغربی دنیا کے دعوے اور نعرے عالمی راے عامہ کے نزدیک مشکوک ھو چکے ہیں۔

امت مسلمہ کے مکار دشمن، سامراجیت، تسلط پسندی اور جارحیت کے مراکز چلانے والی قوتیں ہیں جو اسلامی بیداری کو اپنے غیر قانونی مفادات اور عالم اسلام پر اپنے ظالمانہ تسلط کے لئے بھت بڑی اڑچن تصور کرتی ہیں۔ تمام مسلم اقوام اور خاص طور پر ان کے سیاستدانوں، قومی رھنماؤں اور علما و دانشوروں کو چاھئے کہ جارح دشمن کے مقابلے میں مسلمانوں کا مضبوط محاذ قائم کریں۔ تمام وسائل کو بروی کار لاکر امت مسلمہ کو طاقتور بنائيں۔ علم و دانش، تدبیر و تدبر، فرض شناسی و احساس ذمہ داری، اللہ تعالی کے وعدوں پر توکل اور یقین، رضای پروردگار کے پیش نظر بے ارزش دنیاوی خواھشات سے چشم پوشی اور فرائض کی تکمیل امت مسلمہ کی تقویت کے بنیادی عناصر ہیں جن کے ذریعے اسے عزت و وقار، خود مختاری و آزادی اور مادی و معنوی پیشرفت حاصل ھو سکتی ہے اور مسلم ممالک میں دشمن کے تسلط پسندانہ اقدامات کا سد باب کیا جا سکتا ہے۔

موجودہ صورت حال کے دو بنیادی پھلو ہیں:

ایک تو یہ کہ دنیا میں اسلامی تشخص اور طرز فکر، خاص توقیر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جا رھا ہے اور اسلام کو دنیا کی بڑی اھم اور عظیم حقیقت کے طور پر مرکز توجہ قرار دیا جا رھا ہے۔

دوسرا اھم پھلو یہ کہ دنیا کی تسلط پسند طاقتیں اسلام سے اپنی دشمنی کا برملا اظھار کر رھی ہیں اور امریکہ نے تو کمیونزم کے خاتمے کےبعد دنیا کے لئے جس جدید نظام کا خاکہ تیار کیا ہے اس میں ایک اھم ترین باب اسلام سے مقابلے اور اسلام کی روز افزوں ترقی و ترویج کو روکنے سے مختص کیا گيا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک دو عشروں میں مسلمانوں نے عالم اسلام کے مشرق و مغرب ھی نہیں بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی بہت اھم وسیع تحریک شروع کی ہے جسے اسلام کے احیاء کی تحریک کا نام دیا جا سکتا ہے۔ علم و دانش کے زیور سے آراستہ آج کی نوجوان نسل سامراجی طاقتوں کی توقعات کے بر خلاف نہ صرف یہ کہ اسلام کو فراموش نھیں کر رھی ہے بلکہ ایمانی جذبے کے ساتھ، جو انسانی علوم کی پیش رفت کے نتیجے میں اور بھی آبدار اور درخشاں ھو گیا ہے، اپنا گمشدہ خزانہ تلاش کر رھی ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور روز بروز قوی تر ھو رہے اسلامی نظام کی تشکیل نوجوان نسل کی اس مضبوط تحریک کا نقطہ کمال ہے اور اسلامی بیداری کو عالمی سطح پر پھیلانے میں اس واقعے کا بڑا کردار رھا ہے۔ اس چیز کو محسوس کرتے ھوئے سامراجی طاقتوں نے جو ھمیشہ اپنے اوپر مذھبی آزادی کی حمایت کا خول چڑھائے رھتی تھیں اسلام کے خلاف اپنے تمام وسائل اور لاو لشکر کے ساتھ اٹھ کھڑی ھوئیں۔

سامراجی طاقتیں امت مسلمہ کی بیداری کی مسلسل پھیلتی لھر کو روکنے کے لئے، جسے وہ اپنے ناجائز اھداف کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں، جس حربے کا بھت زیادہ استعمال کرتی ہیں وہ نفسیاتی جنگ ہے۔ مایوسی اور نا امیدی پھیلانا، تحقیر اور اپنی طاقت کی حد سے زیادہ نمائش اسی طرح دیگر ھزاروں نفسیاتی حربے آج استعمال ھو رھے ہیں اور آئندہ استعمال کئے جائیں گے تاکہ مسلمانوں کو ان کے تابناک مستقبل سے ناامید کرکے اس مستقبل کی سمت بڑھنے پر مجبور کر دیا جائے جو ان طاقتوں کے شوم مقاصد کے مطابق ھو۔ سامراج کے آغاز سے اب تک نفسیاتی جنگ اور ثقافتی یلغار مسلم ممالک پر سامراج کے غلبے کا سب سے موثر ترین حربہ رھا ہے۔ آج بھی عالمی سطح کی جدید تشھیراتی مھم سامراج کا سب سے موثر حربہ ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی کی نشریات اور اخبارات و جرائد جن کی بنیادی سرگرمیاں اسلام دشمنی پر مرکوز ہیں بے شمار ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ھو رھا ہے۔ بکے ھوئے ماھرین گمراہ کن خبریں اور تجزئے تیار کرنے میں مصروف ہیں تاکہ اسلامی تحریک اور عظیم اسلامی ھستیوں کی شبیہ خراب کی جا سکے۔ دوسری جانب اسلامی جمھوریہ ایران ہے جو تحریک انقلاب کے آغاز سے اب تک بلا وقفہ ان معاندانہ تشھیراتی اقدامات کا سامنا کر رھا ہے۔

انسانی معاشرے دو طرف سے نشانہ بنتے ہیں۔ ایک تو اندرونی مسائل کی یلغار ان پر ھوتی ہے جو نتیجہ ھوتے ہیں انسانی کمزوریوں، شکوک و شبھات، عقیدے کی خرابی، اغیار کے مقابلے میں احساس کمتری کا، جو نتیجہ ھوتے ہیں خود فراموشی، اللہ تعالی سے غفلت، دنیا پرستوں کے سامنے خود سپردگی، اپنے بھائیوں سے بدگمانی، ان کے بارے میں دشمنوں کی باتوں پر بھروسے اور اطمینان، مسلم امہ کے مستقبل کے سلسلے میں احساس ذمہ داری کے فقدان اور امت مسلمہ کی اجتماعی اھمیت سے عدم واقفیت کا، جو نتیجہ ھوتے ہیں دیگر اسلامی ممالک کے حالات سے بے خبری، اسلام و مسلمین کے خلاف دشمن کی سازشوں سے لا علمی، فرقہ پرستی، انتھا پسندانہ قومی جذبے جس کی ترویج کے لئے عموما گمراہ علما اور بکے ھوئے قلم استعمال کئے جاتے ہیں، اور اسی طرح دیگر مھلک بیماریوں کا جو مسلمانوں کی تقدیر اور سیاسی مستقبل پر نا اھل افراد کا غلبہ ہو جانے کے نتیجے میں مسلمانوں کو نقصان پھنچاتی رھی ہیں۔ یہ بیماریاں گزشتہ صدیوں میں خطے میں اغیار کی موجودگی کے باعث اور دنیا پرست اور بکے ھوئے افراد کے ھاتھوں بڑی بھیانک اور تباہ کن صورت حال اختیار کر چکی ہیں۔

دوسری طرف بیرونی دشمنوں کی یلغار ھوتی ہے جو ظلم و استبداد، تسلط پسندی و جارحیت اور دشمنی و عناد کے تحت انسانی زندگی کی فضا کو مکدر اور انسانی معاشروں کے لئے عرصہ حیات تنگ کر دیتے ہیں اور ظلم و ستم، جنگ و جدل اور زور زبردستی کے ذریعے ان کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ اسلامی علاقے کے افراد اور قومیں بھی ھمیشہ انھیں دو خطروں سے دوچار رھی ہیں اور آج یہ خطرات بھت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ مسلم ممالک میں سازش کے تحت بد عنوانیوں کی ترویج، مغربی ثقافت کا پرچار جس میں بعض بے ضمیر حکومتیں بھی مدد کر رھی ہیں اور جس کی زد پر انفرادی زندگی سے لےکر شھر کی ساخت، اخبارات اور اجتماعی طرز زندگی سب ہیں، یہ ایک طرف اور دوسری جانب لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان میں قتل عام فوجی، سیاسی اور اقتصادی دباؤ مسلم امہ کو لاحق ان دونوں خطرات کی واضح مثالیں ہیں۔

اس وقت سب سے اھم مسئلہ فلسطین کا ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے یہ عالم اسلام کا بلکہ شاید عالم انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ رھا ہے۔ یہ ایک قوم کے رنج و غم اور مظلومیت کا مسئلہ ہے۔ یہ ایک ملک پر غاصبانہ قبضے کا مسئلہ ہے۔ یہ مسلم ممالک کے قلب اور عالم اسلام کے مشرقی و مغربی علاقوں کے نقلہ وصال پر سرطانی پھوڑا پیدا کئے جانے کا مسئلہ ہے۔ یہ تسلسل سے جاری ظلم و ستم کا مسئلہ ہے جس کا پے در پے دو فلسطینی نسلوں نے سامنا کیا ہے۔

اس طرح اسرائيلی حکومت عالم اسلام اور مسلمانوں کے حال اور مستقبل کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے جسے رفع کرنے کے لئے موثر طریقوں کی ضرورت ہے۔ ھمیں یقین ہے کہ وہ دن دور نھیں جب فلسطینی قوم کی قربانیوں اور عالم اسلام کی بیداری کے نتیجےمیں ملت فلسطین کو اس کا حق ملے گا اور یہ قوم جارح اور ظالم دراندازوں کو اپنی سرزمین سے نکال باھر کرے گی تاھم اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اگر مسلم قوموں اور حکومتوں کا پختہ ارادہ اور ٹھوس فیصلے بھی ساتھ ھوں تو اس عمل میں تیزی آسکتی ہے اور رکاوٹیں دور ھو سکتی ہیں۔

Add comment


Security code
Refresh