www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

701461
حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام ۱۲۸ھ کو اس دنیا پر آتے ہیں۔ ۲۰ سال کی عمر مبارک میں سن ۱۴۸ھ میں والد گرامی امام جعفر صادق علیہ السلام کی شھادت ھو جاتی ہے۔ تقریباً ۲۲ سال تک ۴ عباسی خلفاء منصور، مھدی، ھادی اور ھارون جیسے ظالم حکمرانوں کے ظلم و ستم سے گزرنے کے بعد، ھارون ھی کے زمانے میں اسی کے ظالمانہ حکم سے بغداد میں مختلف زندانوں میں رھنے کے بعد ۲۵ رجب ۱۸۳ھ میں ۵۵ سال کی عمر میں درجہ شھادت پر فائز ھوتے ہیں۔
ظالم حکمرانوں کی منافقت
ظلم و ستم کی داستانیں، حرص و ھوس کی دوڑ، دھوکہ و فریب کی کھانیاں جیسے آج کے زمانے میں ھر طرف سے سنی جا رھی ہیں، ایسے ھی اسلام کی دوسری صدی میں بھی موجود تھیں۔ بنو عباس جن کی حکومت ۱۳۲ ھ میں بنی امیہ کی سلطنت کا تختہ الٹنے کے بعد شروع ھوتی ہے اور ساتویں صدی تک باقی رھتی ہے، اس دوران اسلام کے حقیقی وارثین کو بنی امیہ کی حکومتوں کی طرح ھمیشہ نظر انداز رکھا جاتا ہے۔ منصور (۱۳۶ ـ ۱۵۸ھ)، مھدی (۱۵۸ ـ ۱۶۹)، ھادی(۱۶۹ـ۱۷۰ھ) اور ھارون (۱۷۰ـ ۱۹۳ھ) ان چاروں خلفاء عباسی کے زمانے میں امام حق، حضرت امام صادق علیہ السلام کے فرزند، امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت فاطمہ معصمہ قم سلام اللہ علیھا کے والد بزرگوار حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام زندگی گزار رھے ھوتے ہیں۔
بنو عباس اسلام کا نام لیکر اور اھلبیت کی حمایت اور پاسداری کا دعویٰ کرتے ھوئے حکومت حاصل کرتے ہیں۔ لوگوں کو دھوکہ اور فریب دیتے ہیں، منافقت کی ھر چال چلتے ہیں، اپنے آپ کو خاندان رسول سے شمار کرتے ہیں، مسجدیں تعمیر کرواتے ہیں، اسلامی حکومت کی سرحدوں کو وسعت دیتے ہیں۔ ان کی منافقت اتنی بھیانک ہے کہ آج تک ان کے دور کو اسلامی تمدن کا شاھکار کھا جاتا ہے، لیکن امام موسٰی کاظم علیہ السلام جو پیغمبراسلام﴿ص﴾، امیرالمومنین علیہ السلام اور حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کی اولاد میں سے ہیں اور اسلام کے حقیقی امام حق ہیں، ان کو زندگی کے مختلف سالوں میں بغداد کے اندر کبھی کسی زندان میں اور کبھی کسی زندان میں قیدی بنا کر رکھا جاتا ہے۔ یہ ظالم حکمران اپنے اقتدار کے سامنے اگر کسی کو رکاوٹ سمجھتے تھے تو وہ یھی امام کاظم علیہ السلام ھی تھے۔ ظالم لوگ ھمیشہ منافقت کرتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں، فریب سے کام لیتے ہیں، اسلام کا نام لیکر، دین اور قرآن کا نام لیکر، اسلامی سرحدوں کو محفوظ بنانے کا بھانہ بناتے ھوئے ھمیشہ اسلام کے خلاف اور اسلام دشمن طاقتوں کے حق میں کام کرتے ہیں۔
امام موسٰی کاظم علیہ السلام کا افراد کی تربیت کرنا
اسلام کے حقیقی پیروکار، اسلام کے حقیقی محافظ ھر زمانے میں ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے ھوئے اپنی زندگی کو اسلام کی راہ میں ایسے گزارتے ہیں کہ پاکیزہ فطرت پر باقی رھنے والے افراد کے دلوں میں ظالم حکمرانوں سے نفرت اور خود ان سے ایسی محبت و عشق ان کے دلوں میں پیدا ھوتی ہے کہ زندگی کا کوئی کام ان کی اجازت کے بغیر انجام نھیں دیتے۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ایسے افراد کی تربیت کرتے ہیں کہ جو بطور مستقل اسلامی ملک کی صحیح طور سے باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں، حکومتی نظام چلا سکتے ہیں۔ یھی وجہ ہے کہ امام نے مومنین کی خدمت کے لئے بعض افراد کو اجازت دی کہ وہ حکومتی اعلٰی عھدوں پر جائیں، لیکن یاد رکھیں کہ ھدف اسلام اور مومنین کی خدمت ہے۔ اسی دوران بعض افراد کو شخصاً حکم دیتے ہیں کہ اگر ظالم حکمرانوں کی مدد کرو گے تو تمھارا حشر بھی وھی ھوگا، جو ان کا ھوگا۔
علی ابن یقطین اور ابراھیم جمال کا واقعہ
علی ابن یقطین ایک بھت ھی قابل شخص ہے، امور سیاست میں کافی مھارت رکھتا ہے۔ حکومت ھارون اسے وزارت عظمٰی کا منصب پیش کرتی ہے، جسے یہ شخص امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی اجازت سے قبول کرتا ہے، لیکن امام شرط لگاتے ہیں کہ اس منصب پہ رھتے ھوئے مومنین کے حقوق کی پاسداری کرنی ہے۔ ایک دفعہ تنگ آکر یہ منصب ترک کرنا چاھتا ہے، لیکن امام حکم دیتے ہیں کہ تیرا وھاں پر رھنا ضروری ہے اور اسے یہ منصب چھوڑنے کی اجازت نھیں دیتے۔ یہ شخص وھاں پر رہ کر مومنین کے بھت سے امور کی رعایت کرتا ہے، ان سے بھاری بھر کم مالیات جو حکومت وقت ھر سال لیتی تھی، ان میں بھی خصوصی توجہ رکھتا تھا اور اکثر اوقات یہ مالیات ان کو واپس کر دیا کرتا تھا۔
ایک دفعہ ابراھیم جمال جو کوفہ کا رھنے والا ہے، امام کو ملنے کے لئے مدینہ جانا چاھتا ہے، ارادہ کرتا ہے کہ پھلے بغداد جا کر علی ابن یقطین کو ملتا ھوں، شاید کوئی کام بھی تھا۔ بغداد آتا ہے، لیکن علی ابن یقطین کی طرف سے اسے ملنے کا وقت نھیں دیا جاتا، بھت کوشش کرتا ہے، لیکن علی ابن یقطین اسے نھیں ملتے، اسے بھت تکلیف ھوتی ہے، مدینہ جاتا ہے، امام اس سے باقی باتوں کے ساتھ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا علی ابن یقطین سے بھی کبھی ملنے کا اتفاق ھوا ہے تو یہ سارا واقعہ سنا دیتا ہے، ابراھیم امام سے ملنے کے بعد چلا جاتا ہے۔ اسی سال علی ابن یقطین حج کے لئے مکہ آتا ہے اور وھاں سے انتھائی احتیاط سے امام کو ملنے آتا ہے، لیکن امام اسے ملنا قبول نھیں کرتے، کافی پریشان ھوتا ہے۔ دوسری رات پھر ملنے آتا ہے، امام اب بھی اسے قبول نھیں کرتے۔ تیسری رات پھر کوشش کرتا ہے، روتا ہے، گریہ کرتا ہے، روضہ رسول پر جاتا ہے، اب امام کی خدمت میں آکر جب وجہ پوچھتا ہے تو امام فرماتے ہیں تو جب ھمارے ماننے والے ابراھیم کو ملنا گوارا نھیں کرتا تو ھمیں ملنے کی بھی صلاحیت نھیں رکھتا۔
علی ابن یقطین معافی مانگتا ہے اور پوچھتا ہے کہ مولا اب اس کی تلافی کیسے کروں تو امام معجزانہ طور پر اسے کوفہ میں ابراھیم کے گھر کے سامنے پھنچاتے ہیں۔ یہ دستک دیتا ہے، ابراھیم جب باھر آتا ہے تو جیسے ھی اس کی نگاہ علی ابن یقطین پر پڑتی ہے تو حیران ھو جاتا ہے۔ علی ابن یقطین اس سے معافی مانگتا ہے اور وہ فوراً اسے معاف کر دیتا ہے، لیکن علی ابن یقطین اپنا سر اور چھرہ زمین پر رکھتا ہے اور اسے کھتا ہے کہ اس پر پاوں رکھ، تاکہ امام کی بارگاہ میں سرخرو ھو سکوں اور اس سب کام کے بعد ابراھیم سے پوچھتا ہے کہ کیا آپ مجھ سے راضی ہیں اور میں جو تجھ سے نھیں مل سکا تھا، کیا تو نے مجھے معاف کر دیا ہے۔ ابراھیم اسے گلے لگاتا ہے کہ میں نے تو پھلے مرحلے میں ھی معاف کر دیا تھا۔
غور طلب نکتہ
کیا آج مومنین کے درمیاں ایسا تعلق پایا جاتا ہے، اگر کوئی کسی کی مدد کر سکتا ہے تو کیا مدد اور عزت کرتا ہے؟ یا اس کی توھین کرتا ہے؟ یا اور زیادہ مشکلات میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے؟ کیا بڑے بڑے عھدوں پر فائز شیعہ افراد مومنین کے حقوق کے لئے کوشش کرتے ہیں۔؟ کیا مولانا حضرات، علماء کرام، تنظیمی عھدوں پر فایز افراد اور ذاکرین حضرات بھی، کیا ھر مومن کی عزت و وقار اپنے دل میں رکھتے ہیں یا اپنی پارٹی کے لوگوں کی عزت کرتے ہیں؟ کیا مومن ھونے کے ناطے سے ھر امیر و غریب کی تکریم دل میں ہے، یا صرف امیر لوگوں ھی کا احترام کیا جاتا ہے؟ یہ سب ایسے سوالات ہیں، جو امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے ھر ماننے والے کو اپنے پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے، اس لئے کہ امام معصوم ھمارے ظاھر و باطن سے آگاہ ہے۔ اللہ تعالٰی کا وہ خلیفہ حق زمین پر ہے، اگر امام موسٰی کاظم علیہ السلام اپنے ایک ماننے والے کو اس لئے قبول نھیں کرتے کہ اس نے ایک مومن کو ملنے کا وقت نھیں دیا تو امام زمان (عج) کیسے ان افراد کو قبول فرمائیں گے، جنھوں نے امام کے نام سے، شیعہ کے نام سے، اپنا نام تو بنایا لیکن شیعہ قوم کی مدد کرنے کی بجائے شیعہ قوم کے وقار کو خراب کیا۔ البتہ ایسے افراد بھت کم ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کل امام کے سامنے بڑے بڑے نام ھونے کے باوجود حاضر ھوں گے، مگر امام شاید ان کو قبول نہ فرمائیں تو یہ لوگ وھاں پر حسرت کے علاوہ کیا کرسکیں گے۔
صفوان جمال کے اونٹوں کا واقعہ
امام موسٰی کاظم علیہ السلام اپنے ماننے والوں کے تمام امور کی نظارت اور نگرانی فرمایا کرتے تھے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے صفوان جمال جو مولا کا ایک خاص صحابی ہے، اس نے اونٹ رکھے ھوئے تھے۔ ایک دفعہ کرائے پر اس نے یہ اونٹ ھارون الرشید کو دیئے، اس نے کاروان کے ساتھ حج پر جانا تھا۔ جب امام کو ملنے کے لئے صفوان آیا تو امام نے اسے فرمایا کہ تیری ھر صفت اچھی ہے، سوائے ایک صفت کے، تو صفوان نے پوچھا مولا وہ صفت کونسی ہے، تو امام نے فرمایا کہ تیرا اس ظالم کو کرایہ پر اونٹ دینا اچھا نھیں ہے۔ تو صفوان کھتا ہے مولا میں تو اپنے اونٹ صرف سفر حج کے لئے دیتا ھوں اور خود بھی ساتھ نھیں جاتا۔ امام نے فرمایا چونکہ انھوں نے تجھے کرایہ دینا ھوتا ہے، پس تیرے دل کے اندر ان کے لئے یہ خواھش ھوتی ہے کہ وہ خیریت سے واپس آئیں، تاکہ ان سے کرایہ وصول کر سکوں۔؟ اس نے کھا ھاں مولا یہ تو ھوتی ہے۔
امام نے فرمایا کسی ظالم کے لئے اس قسم کی آرزو رکھنا بھی اسی کے ساتھ شمار فرمائے گا۔ اس کے بعد صفوان نے اپنے اونٹ فروخت کر دیئے، تاکہ ظالم کی کسی حوالے سے بھی مدد نہ کرسکے۔ اس کے بعد امام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: "وَ لا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَ ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِياءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُون"
ظالم کے وقار کو ختم کرنا
ایک دفعہ ھارون پیغمبر اکرم﴿ص﴾ کی قبر کے سامنے آکر سلام کرتا ہے کہ اے میرے چچا کے بیٹے آپ پر میرا سلام ھو۔ اس سے ھارون اپنی قرابت پیامبر اکرم﴿ص﴾ سے ثابت کرنا چاہ رھا تھا، لیکن امام نے فوراً پیامبر اکرم﴿ص﴾ کو خطاب کرکے فرمایا، اے میرے باپ آپ پر میرا سلام ھو۔ اس بات پر ھارون کو غصہ آیا اور امام سے کھا کہ تم ھم سے زیادہ پیامبر کے قریبی نھیں ھو، تو امام نے دلیل دے کر بتایا کہ اگر اس وقت رسول اللہ آجائیں تو وہ مجھ سے میری بیٹی کا رشتہ طلب نھیں کرسکتے، اگر تجھ سے مانگیں تو تو دے سکتا ہے۔ پس امام نے فرمایا چونکہ وہ میرے باپ ہیں، مجھ سے رشتہ طلب نھیں کریں گے۔
شھادت
بالآخر ۲۵ رجب سن ۱۸۳ھ میں ھارون خلیفہ عباسی کے حکم سے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو بغداد میں زندان میں زھر دے کر شھید کر دیا جاتا ہے۔ امام کا جنازہ اٹھانے کے لئے چار مزدورں کو بلایا جاتا ہے، جو امام کا جنازہ اٹھاتے ہیں اور پل بغداد پر رکھ دیتے ہیں اور یہ اعلان کروایا جاتا ہے کہ یہ رافضوں کے امام ہیں۔ شیعہ جمع ھوتے ہیں، امام کا جنازہ اٹھایا جاتا ہے۔ بالآخر امام کو موجودہ کاظمین میں دفن کر دیا جاتا ہے۔
تحریر: محمد اشرف ملک

Add comment


Security code
Refresh