عباسی خلفاء جب اپنی حکومت کو مشروعیت بخشنے کی خاطر اپنی نسبت اور نسب رسول خدا﴿ص﴾ سے جوڑتے اور یہ ظاھر کرتے کہ بنو عباس رسول خدا﴿ص﴾ کے نزدیکی رشتہ داروں میں سے ہیں، جیسا کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور ھارون کے درمیان ھونے والی گفتگو میں ھوا، تو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام آیت مباھلہ سمیت قرآنی آیات سے استناد کرتے ھوئے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے ذریعے اپنے نسب کو رسول خدا﴿ص﴾ سے ملا کر ثابت کرتے ہیں۔
جب مھدی عباسی رد مظالم کر رھا تھا تو آپ نے اس سے فدک کا مطالبہ کیا، مھدی نے آپ سے تقاضا کیا کہ آپ فدک کی حدود معین کریں تو امام نے فدک ایسی حدود معین کی، جو کہ اس کی حکومت کے برابر تھی۔ ساتویں امام اپنے اصحاب کو عباسی حکومت سے تعاون نہ کرنے کی سفارش کرتے، چنانچہ آپ نے صفوان جمال کو منع کیا کہ وہ اپنے اونٹ ھارون کو کرائے پر مت دے۔ اسی دوران ھارون الرشید کی حکومت میں وزارت پر فائز علی بن یقطین کو عباسی حکومت میں باقی رھنے کو کھا، تاکہ وہ شیعوں کی خدمت کرسکے۔
اس کے باوجود تاریخی مستندان میں حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی طرف سے عباسی حکومت کی کھلم کھلا مخالفت کی کوئی خبر مذکور نھیں ھوئی ہے۔ آپ اھل تقیہ تھے اور اپنے شیعوں کو اسی کی وصیت کرتے، جیسا کہ آپ نے مھدی عباسی کو اس کی ماں کی وفات پر تسلیت کا خط لکھا۔
روایت کے مطابق جب ھارون نے آپ کو طلب کیا تو آپ نے فرمایا: حاکم کے سامنے تقیہ واجب ہے، لھذا میں اسکے سامنے جا رھا ھوں۔ اسی طرح آپ آل ابی طالب کی شادیوں اور نسل کو بچانے کی خاطر ھارون کے ھدایاجات قبول کرتے، یھاں تک کہ آپ نے علی بن یقطین کو خط لکھا کہ خطرے سے بچاؤ کی خاطر کچھ عرصہ کیلئے اھل سنت کے مطابق وضو کیا کرے۔
علویوں کا قیام
حضرت موسیٰ بن جعفر علیھما السلام کے زمانے میں عباسیوں کی حکومت کے دوران علویوں نے متعدد قیام کئے۔ عباسیوں نے اھل بیت کی حمایت اور طرفداری کا نعرہ بلند کرکے قدرت حاصل کی تھی، لیکن کچھ ھی مدت میں علویوں کے سخت دشمن بن گئے۔ لھذا اسی بنا پر بھت سے علویوں کو قتل کیا اور بھت سوں کو زندانی کیا۔ عباسیوں کی اس سخت گیری کی وجہ سے بھت سے علویوں نے ان کے خلاف قیام کا اقدام کیا۔ قیام نفس زکیہ، ادریسیوں کی حکومت کی تشکیل اور شھید فخ کا قیام انھی قیاموں میں سے ہیں۔ قیام فخ سال ۱۶۹ق ھجری میں موسی بن جعفر علیھما السلام کی امامت اور ھادی عباسی کی خلافت سے متصل ہے۔ امام ان قیاموں کا حصہ نھیں بنے اور نہ ھی امام کی جانب سے ان قیاموں کی واضح طور پر کھیں تائید نقل ھوئی ہے۔ یھاں تک کہ یحییٰ بن عبدالله نے طبرستان میں قیام کے بعد امام کو ایک خط میں اسکی تائید نہ کرنے کا گلہ کیا۔
قیام فخ مدینہ میں رونما ھوا، اس کے متعلق دو نظریئے پائے جاتے ہیں:
ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ آپ اس قیام کے موافق تھے۔ اس نظریئے کی تائید میں شھید فخ کے بارے میں امام کے اس خطاب کو دلیل کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے: "اپنے کام میں سنجیدگی کا مظاھرہ کرو، کیونکہ لوگ ایمان کا اظھار کر رھے ہیں، لیکن وہ اندرونی طور پر شرک کر رھے ہیں۔" دوسرا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ یہ قیام امام کا مورد تائید نھیں تھا۔
بھرحال جب امام نے شھید فخ کا سر دیکھا تو کلمہ استرجاع کی تلاوت کی اور اس کی تعریف کی۔ ھادی عباسی قیام فخ کو امام کے حکم سے سمجھتا تھا، اسی وجہ سے ھادی نے امام کو قتل کرنے دھمکی بھی دی تھی۔ زمانے کے حالات کے مطابق حکمت سے کام لینا ھمارے اماموں کی سیرت طیبہ کا حصہ رھا ہے، ساتھ ھی ان ھستیوں نے تمام تر سختیوں کے باوجود اصل اسلام کی حٖفاظت اور دشمن شناسی کے بنیادی اصولوں کی محوریت میں اپنے سیاسی مخالفین کا مقابلہ کیا اور دین کے حقیقی پیغام کو انتھائی شجاعت اور بھادری کیساتھ ھم نے منتقل کیا۔ جن موارد میں ان عظیم ھستیوں نے تقیہ سے کام لیا ہے، وھاں بھی اصل ھدف دینی غیرت و حمیت اور اقدار عالیہ کی حفاظت تھی۔
تحریر: جان محمد حیدری
منابع مآخذ:
جعفریان، حیات سیاسی و فکری امامان شیعہ، ص۴۰۶
صدوق، عيون أخبار الرضا، ج۱، ص۸۴-۸۵
شبراوی، الاتحاف بحب الاشراف، ص۲۹۵
طوسی، تہذیب الاحکام، ج۴، ص۱۴۹
قرشی، حیاة الامام موسی بن جعفر، ص۴۷۲
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی سیاسی حکمت عملی
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1606