شام پر کیمیائی ھتھیاروں کے استعمال کا جھوٹا الزام لگا کر امریکہ نے صوبہ حمص میں واقع الشعیرات نامی گاؤں کی جانب 59 ٹوما ھاک میزائل فائر کئے اور اعلان کر دیا کہ شام کی فضائی افواج کے زیر استعمال ھوائی اڈے کو تباہ کر دیا ہے، حالانکہ وھاں شامی افواج کے طیاروں کی پرواز کی بحالی بھی شروع ھوچکی ہے۔
الشعیرات گاؤں کے عام شامی دیھاتیوں نے فرانسیسی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں شکایت کی کہ امریکہ کے میزائل کا نشانہ عام شھری بنے ہیں۔ اس حملے میں 6 شامی فوجی اور 9 عام شھری شھید ھوئے ہیں۔ ایسا پھلی مرتبہ نھیں ھوا کہ امریکہ نے کسی ملک پر حملے کے لئے جھوٹ پر مبنی بھانہ ڈھونڈا ھو یا اس نے کسی ملک کے عام شھریوں کو نشانہ بنایا ھو۔ ایسا بھی بالکل نھیں کہ باراک اوبامہ کے دور صدارت میں امریکہ کی پالیسی نرم تھی اور اب سخت ھوگئی ہے۔ پچھلے سال ماہ ستمبر میں امریکہ نے اعتراف کیا تھا کہ اس کی فضائی افواج کے حملے میں داعش کے دھشت گردوں کی بجائے شام کے فوجی جاں بحق ھوئے تھے۔ روس کے مطابق 63 شامی فوجی شھید ھوئے تھے اور 100 سے زائد زخمی بھی۔ تب باراک اوبامہ صدارت پر فائز تھے۔ لھذا تبدیلی کچھ بھی نھیں ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کو شام پر میزائل حملے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس کی بھت ساری وجوھات تھیں۔ الیکشن میں انھوں نے جو اعلانات کئے تھے، ان پر عمل کرنے کے مرحلے میں ٹرمپ کے اوسان خطا کر دیئے گئے تھے۔ دعویٰ انھوں نے یہ کیا تھا کہ عھدہ صدارت پر فائز ھوتے ھی چین کو کرنسیmanipulator قرار دے دیں گے، عمل یہ کرنا پڑا کہ چینی صدر کو فلوریڈا میں دعوت پر بلالیا اور تجارتی تعلقات کے عھد و پیمان کرنے پر مجبور ھوئے۔ امیگریشن پالیسی میں تبدیلی کی تو عدالت آڑے آئی اور ان کے احکامات کو معطل کر دیا گیا۔ تارکین وطن کے خلاف سختی پر امریکی عوام و خواص کا ردعمل اتنا شدید ہے کہ تاحال اس پر بھی ٹرمپ سرکار پریشان ہے۔ اوبامہ کے دور کے پیلتھ کیئر پروگرام کو ختم کرنا چاھتے تھے، لیکن ان کی اپنی ری پبلکن پارٹی کے بھت سے اراکین ان کے حق میں ووٹ ڈالنے نھیں آئے۔ مقبولیت کی سطح ھم پھلے ھی بیان کرچکے کہ انتھائی نچلی ترین سطح کی ریٹنگ سروے پول کے ذریعے سامنے آئی تھی۔ یہ داخلی دباؤ اور ناکامیاں اپنی جگہ تھیں۔
خارجی محاذ پر امریکہ کے اتحادی ممالک نالاں تھے کہ امریکہ ایران، شام، حزب اللہ اور عراق میں ایران کے اتحادیوں کے خلاف براہ راست فوجی کارروائی کیوں نھیں کر رھا؟ انھوں نے امریکہ کو طعنے بھی دیئے اور اپنی غیر نمائندہ اور غیر مقبول حکومتوں کو بچانے کے لئے متبادل ڈھونڈنے کے اشارے بھی دیئے۔ سعودی بادشاہ سلمان چین، انڈونیشیاء اور دیگر ممالک کے دورے کرنے لگے، نمائندوں کو بھیج کر رام کرنے کی کوشش بھی کی۔ شام کی صورتحال یہ تھی کہ نیابتی جنگ لڑنے والے گروہ خود کو یتیم و بے بس محسوس کرتے ھوئے جنگ بندی کے معاھدوں کے ذریعے نسبتاً محفوظ مقامات پر منتقل ھو رھے تھے۔ حلب میں شرمناک شکست کے بعد ادلب میں پناہ گزین ھونے کی درخواست کی۔ قطر کی حکومت کے توسط سے ایران سے فوعہ اور کفریا کے شیعہ عرب مسلمانوں کا محاصرہ ختم کرکے انخلاء پر راضی ھوئے، ورنہ پھلے انھیں ھیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کرتے ھوئے ان پر ظلم و ستم روا رکھے ھوئے تھے۔
خارجہ محاذپر امریکہ کو ایک اور پریشانی یہ تھی کہ روس اور چین اقوام متحدہ میں شام مخالف قراردادوں کو مسترد کر رھے تھے۔ امریکہ کی شام پالیسی کی ناکامی کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ایران کا اثر و رسوخ بڑھ رھا تھا، حزب اللہ، فاطمیون، زینبیون، قدس فورس نے طاقت کا توازن بشار الاسد کی شامی ریاست کے حق میں کر دیا تھا۔ ان داخلی و خارجی محاذوں پر ناکامی کی بھڑاس یا کتھارسس ٹرمپ سرکار نے بڑے نپے تلے انداز میں نکالی۔ جس طرح 12 مارچ 1962ء کو کیوبا پر حملے کے خلاف جھوٹا جواز گھڑنے کے لئے آپریشن نارتھ ووڈ (یا فروری 1962ء کا Operation Mongoose) ترتیب دیا گیا تھا، جس طرح عراق پر حملے کے لئے اقوام متحدہ کو جعلی دستاویزات ثبوت کے طور پر پیش کئے گئے تھے۔
اسی پالیسی کو جاری رکھتے ھوئے امریکہ و برطانیہ کے سرکاری اداروں سمیت آٹھ ممالک کی فنڈنگ سے دھشت گردوں کے زیرقبضہ علاقوں میں مصروف عمل وائٹ ھیلمٹس نامی تنظیم کے توسط سے جعلی خبریں دنیا میں نشر کی گئیں کہ ادلب کے علاقے خان شیخون میں کیمیائی ھتھیاروں سے حملہ کیا گیا ہے اور اس کا جھوٹا الزام بشار الاسد کی حکومت پر ڈال دیا گیا۔ دو تین دن اس جھوٹ کو شد و مد سے دنیا بھر میں پھیلاکر شام کے گاؤں شعیرات پر شب خون مارتے ھوئے میزائل حملے کر دیئے۔ شعیرات حمص صوبے میں ہے، جو ادلب سے دور ہے اور ادلب اور حمص کے درمیان حماہ صوبہ واقع ہے جبکہ ادلب سے قریب ترین فوجی اڈہ صوبہ اللاذقیہ کا حمیم نامی فضائی اڈہ ہے، جو روس کے زیر استعمال ہے۔ امریکا نے دانستہ طور پر قریب کے فوجی اڈے کو چھوڑ دیا کیونکہ اس طرح نقصان روس کا ھوتا۔ اسی لئے یہ ناچیز یہ کھنے پر مجبور ہے کہ بھت ھی نپا تلا حملہ تھا جو امریکی افواج نے کیا۔
امریکا نے سعودی عرب اور جعلی ریاست اسرائیل سے بیک وقت داد سمیٹی۔ سعودی بادشاھت اور جعلی ریاست اسرائیل کی شام دشمن ھم آھنگی روز اول سے واضح تھی تو یہ ردعمل بھی حیران کن نھیں تھا، بلکہ توقع کے عین مطابق تھا۔
17 مارچ 2017ء کو عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر آئی تھی کہ شامی افواج نے شام کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے اسرائیلی فوجی طیارے کو پالمیرا (یعنی تدمر) کے نزدیک مار گرایا تھا۔ جنیوا، ویانا، آستانہ مذاکرات کے ذریعے سعودی اور ترکی کی نیابتی جنگ لڑنے والوں کو سوائے ناکامی کے کچھ نھیں ملا تھا، اس لئے سعودی عرب، جعلی ریاست اسرائیل اور ترکی کا ردعمل بھی کسی کے لئے باعث حیرت نھیں ھونا چاھیے۔ شام کی بشار الاسد حکومت کو ختم کرنے کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادی مذکورہ ممالک نے بھت بڑی سرمایہ کاری کر رکھی تھی، لیکن تاحال سوائے خسارے کے ان ممالک کی حکومتوں کو بھی حاصل وصول کچھ نھیں ھوا۔ اس لئے امریکی میزائل حملہ اور اس پر خوشی کے شادیانے بجا کر وقتی طور پر دنیا بھر میں اپنے حامیوں کو تسلی و تشفی دی گئی ہے، گویا جو کام چھ سال میں نہ ھوسکا ،وہ آئندہ چھ دن میں امریکہ کر دکھائے گا۔
ایک پیغام تو یہ تھا جو امریکی سامراج نے اپنے دوستوں کو دیا، لیکن دوسرا پیغام روس اور چین کے لئے تھا۔ چین کے صدر کے دورہ امریکہ کے وقت شام پر حملہ کرنا، یعنی ٹائمنگ نپی تلی تھی۔ امریکہ کو جب کبھی چین کو بلیک میل کرنا ھوتا ہے تو اسے شمالی کوریا کے ایٹمی ھتھیار، میزائل اور جنوبی کوریا کے خلاف بیانات کی بنیاد پر امریکی حملے سے ڈرایا جاتا ہے کہ اگر چین نے شمالی کوریا کی کلائی نہ مروڑی، اسے نہ سمجھایا تو پھر امریکہ حملہ کر دے گا اور اس طرح چین شمالی کوریا جیسے اپنے اھم اثاثے کو بچانے کے لئے کسی دوسرے محاذ پر پسپائی اختیار کر لیتا ہے، جیسا کہ اس نے ایران پر پابندیوں کے معاملے میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں کیا تھا۔
روس کو ماضی میں بھی پیغامات بھیجے جاتے تھے۔ اس مرتبہ بھی روس میں دھشت گردی کروا کر پیغام دیا گیا ہے کہ ازبک یا چیچن مسلمان نما مخلوق روس کی شام پالیسی کی وجہ سے اس پر حملہ آور ھوسکتی ہے۔ شام پر کیمیائی ھتھیاروں کے استعمال کا جھوٹا الزام در حقیقت روس پر دباؤ بڑھانے کا بھی حربہ ہے، تاکہ کل جب امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلر سن دورہ روس میں روسی حکومت سے مذاکرات کرے تو اس کا پلڑا بھاری رھے، لیکن تاحال روس کا موڈ بتاتا ہے کہ وہ شام کا ساتھ دینا چاھتا ہے۔
امریکہ، سعودی عرب، ترکی، جعلی ریاست اسرائیل اور ان کے نمک خواروں اور ھمنواؤں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ دسمبر 2016ء میں سعودی فوج کے ترجمان احمد العسیری نے یمن کے نھتے عرب مسلمانوں پر برطانوی ساختہ ممنوعہ کلسٹر بم (یعنی کیمیائی ھتھیار) کے استعمال کا اعتراف کیا تھا، امریکہ نے سعودی عرب کے اس اعتراف کے بعد سعودی افواج پر میزائل کیوں نہ برسائے؟
کیا یمن کے عرب مسلمانوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین کی لاشوں کی تصاویر دیکھ کر امریکی حکومت کو دکھ، افسوس نھیں ھوتا؟ پھر امریکہ کے اتحادی یہ ملک اور ان کے نمک خوار یہ بتائیں کہ امریکی افواج نے جو عراق اور شام میں ماہ مارچ میں 1472 عام شھریوں کو شھید کیا ہے۔ تازہ ترین رقہ شھر میں 15 سنی عرب مسلمانوں کو شام کے صوبہ رقہ میں شھید کیا ہے، سنی عرب مسلمانوں کے رقہ اور موصل میں امریکہ کے ھاتھوں قتل عام پر کیوں خاموشی ہے؟ جھوٹے الزامات پر مبنی غلیظ پروپیگنڈا امریکا اور اس کی اتحادی حکومتوں کی ناکامیوں کو کامیابی میں نھیں بدل سکتا، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔
تحریر: عرفان علی
﴿ریفرنس: مندرجہ ذیل منابع سے بھی استفادہ کیا گیا ہے﴾
1) دی انڈی پینڈنٹ US-led coalition killed more Syrian civilians than Isis or Russia in March, figures show. by Rachel Roberts Monday 3 April 2017 11:28 BST
2) ڈیلی ٹیلیگراف Coalition air strikes 'kill more than 200 people' in Mosul
by Josie Ensor, beirut 23 MARCH 2017 149 2:07 PM
3) نیشنل سکیورٹی آرکائیو Chairman, Joint Chiefs of Staff, Justification for US Military Intervention in Cuba [includes cover memoranda], March 13, 1962, TOP SECRET, 15 pp
4) دی گارجین
Saudi Arabia admits it used UK-made cluster bombs in Yemen
Rowena Mason and Ewen MacAskill
Monday 19 December 2016 18.16 GMT
5) نیو یارک ٹائمز U.S. Admits Airstrike in Syria, Meant to Hit ISIS, Killed Syrian Troops
By ANNE BARNARD and MARK MAZZETTI SEPT. 17, 2016
شام پر امریکی میزائل حملہ کیوں ھوا؟
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1579