واشنگٹن میں ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان کے ھمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ھوئے امریکی صدر باراک اوباما نے کھا کہ ان کا ملک شام کے معاملے میں
سفارتی اور فوجی آپشنز سمیت ھر قسم کے اقدامات پر غور کر رھا ہے۔ صدر اوباما کا کھنا تھا کہ شام میں استعمال ھونے والے کیمیائی ھتھیار ھماری قومی سلامتی کے ساتھ ساتھ ھمارے اتحادیوں اور ھمسایہ ممالک کے لئے بھی خطرناک ہیں۔ امریکی صدر نے مزید کھا کہ شام میں مرنے والوں کی تعداد ھزاروں میں ہے اور صرف یھی بات ھی بین الاقوامی برادری کے لیے کافی ہے کہ وہ اس مسئلے میں مداخلت کرے۔
اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد امریکی صدر کی شام میں مداخلت کرنے کے حوالے سے دو ٹوک پریس کانفرنس منظر نامے کو واضح کرتی ہے۔ امریکہ شام میں براہِ راست فوجی کارروائی کا سنجیدگی سے سوچ رھا ہے۔ ترکی اس کا ھم نوا ہے اور دیگر عرب ممالک بھی قراردادوں کا نیا سلسلہ ان اقدامات کا نقطۂ آغاز ہے، جو خطے میں پیش آنے والی تبدیلیوں کے پیشِ نظر سامراجی مفادات کے لیے اٹھائے جائیں گے۔ترکی کی حکومت تو امریکی ایجنڈے پر کام کر رھی ہے لیکن ترک عوام میں اردوگان حکومت کے خلاف نفرتوں میں اضافہ ھو رھا ہے۔ترکی کے مختلف شھروں میں ھونے والے حالیہ مظاھرے اس بات کا عملی مظھر ہیں کہ ترک عوام نہ صرف اردوگان کی امریکہ نوازی پر برھم ہیں بلکہ شام کے حوالے سے حکومت کی موجودہ پالیسیوں پربھی کڑی تنقید کر رھے ہیں۔
ترکی نے جب سے امریکی پالیسیوں کے ساتھ ھم آھنگ سیاست اپنا رکھی ہے شدید قسم کے خطرات سے روبرو ھو گیا ہے۔ شام کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت نے حتی ترکی کے اپنے عوام کے نزدیک اس کا چھرہ خراب کر دیا ہے۔ کیونکہ ترکی کے عوام دیکھ رھے ہیں کہ انکی حکومت اسرائیل کی مخالفت کرتے کرتے یکدم شام کے خلاف اور اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں صف آرا ھو گئی اور ایسا موقف اپنا لیا جس کا سو فیصد فائدہ اسرائیل کو پھنچ رھا ہے۔ اس مسئلے نے اردگان حکومت کی عزت کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور آئندہ انتخابات میں حکمران پارٹی کے ووٹ گرنے کا قوی امکان پیدا ہو گیا ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ ترکی کی جانب سے القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کی حمایت اور انہیں فوجی ٹریننگ مہیا کرنا ہے۔ ترکی کے عوام رجب طیب اردگان اور آزادی و عدالت پارٹی سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اسلام کا حقیقی اور صحیح چھرہ متعارف کروائے نہ یہ کہ القاعدہ کے دھشت گردوں کو فوجی تربیت دے کر شام کی سرزمین کی جانب روانہ کر دے۔ ترکی کی حکومت اس اقدام کے باعث نہ فقط اپنے عوام کی نظر میں گر گئی ہے بلکہ علاقائی سطح پر بھی اسکا امیج بری طرح متاثر ھوا ہے۔ شام کو داخلی و خارجی طور پر کمزور کرنے اور خاص طور پہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو نقطۂ کمال تک لے جانے کے لئے وہ ساری طاقتیں یک آواز ہیں، جو اسرائیل کو خطے میں مضبوط دیکھنے کی خواھشمند ہیں۔