www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

بھار اسلام کے نام پر اقتدار میں آنے والوں میں امریکہ کو بھی کوئی خاص تبدیلی نظر نھیں آئی۔ لھذا اس نے دوستی کا ھاتھ بڑھایا۔ بھار اسلام نھیں بلکہ وھاں بھار ایمان کی ضرورت ہے۔

 

 اقتدار میں آنے کے لیے تحریکات ایک ذریعہ ہیں لیکن اس کا تسلسل قائم رکھنا ایک حقیقی انقلاب ھو گا۔ مصر حالانکہ تنظیم اسلامی کانفرنس کا اھم رکن ہے لیکن وہ شام میں باغیوں کی مدد کر رھا ہے۔ ھونا تو یہ چاھئیے تھا کہ محمد مرسی ،بشار الاسد اور باغیوں میں مصالحت کی مساعی کرتے جو اسلامی روح کے عین مطابق بھی ہے۔ عرب ممالک کو جان لینا چاھئے کہ ھتھیاروں کی خریداری سے امن نھیں بلکہ خون خرابہ بڑھے گا۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی ھتھیاریوں کی مارکیٹنگ
امن اور ھتھیار کبھی یکجا نھیں ھو سکتے کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں اگر کوئی امن کا نعرہ لگائے اور ساتھ میں ھتھیاروں کی تجارت کرے تو اسے امن کا پیامبر نھیں کھا جا سکتا۔ ان دنوں دنیا میں قیام امن کانعرہ لگانے والا امریکہ مشرق وسطی میں قیام امن کے نام پر عرب ممالک اور اسرائیل میں اپنے ھتھیاروں کی مارکیٹنگ میں مصروف ہے۔ دنیا میں جھاں کھیں بھی قیام امن کی کوششیں کی گئیں ان میں ترک اسلحہ اولین ترجیح رھی لیکن امریکہ کا عجب معاملہ ہے کہ مشرق وسطیٰ جیسے حساس خطے میں اسلحہ کی دوڑ میں اضافہ کرتے ھوئے وہ امن قائم کرنے کا خواب دیکھ رھا ہے۔ علاقے کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ اسرائیل ہے جو ایک ناجائز مملکت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس پر قابض ہے۔ فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے والی اس مملکت کو امریکہ نے عصری ھتھیاروں کی سربراھی کا فیصلہ کیا اور امریکی وزیر دفاع چیک ھیگل کے حالیہ دورہ کے موقع پر ھتھیاروں کی فروخت کے سلسلے میں معاھدات پر دستخط کئے گئے۔ ظاھر ہے کہ یہ ھتھیار اسرائیل کو اس کے دفاع کے حق کے نام پر ھی دئیے جا رھے ہیں اور یہ کھنے کی ضرورت نھیں کہ ان کا استعمال کسی کے خلاف ھو گا۔ امریکی وزیر دفاع کی ذمہ داری سنبھالتے ھوئے چیک ھیگل نے ھتھیاروں کی مارکیٹنگ کا آغاز کر دیا ہے اور مشرق وسطیٰ امریکی ھتھیاروں کی ھمیشہ ھی سے اچھی مارکٹ رھی ہے۔ علاقہ کے ممالک کو ایک دوسرے سے خوف دلا کر اپنے ھتھیاروں کے کاروبار کو عروج پر پھنچانے کی کوشش کی جا رھی ہے چیل ھیگل اوباما حکومت میں ھتھیاروں کے کامیاب مارکیٹنگ اگزیکیٹیو ثابت ھو سکتے ہیں۔ ھو سکتا ہے کہ ھتھیاروں کی فروخت کے ذریعہ امریکہ اپنی معیشت میں سدھار کا منصوبہ رکھتا ھو۔ عام طور پر کسی کے دوھرے معیار اور دوچھروں کی بات کی جاتی ہے لیکن امریکہ کے تین چھرے دنیا کے سامنے آشکار ھو چکے ہیں۔ وزیر خارجہ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد جان کیری مشرق وسطیٰ اور دیگر علاقوں میں قیام امن کے مشن پر روانہ ھو گئے۔ انھوں نے مختلف تنازعات کی مذاکرات کے ذریعہ یکسوئی کی وکالت کی۔ اس طرح جان کیری نے اسرائیل اور عرب ممالک بشمول فلسطین اور ساری دنیا کو امن کا درس دیا۔ ابھی جان کیری کا امن مشن جاری ھی تھا کہ صدر امریکہ باراک اوباما دوسرے دور صدارت کا عھدہ سنبھالنے کے بعد پھلی مرتبہ مشرق وسطیٰ پھنچ گئے۔ انھوں نے اسرائیل اور فلسطین کا بھی دورہ کیا اور امن باھمی مذاکرات کے سلسلے میں دونوں ممالک کو نصیحیتیں کیں۔ اوباما چونکہ امن کا نوبل انعام بھی رکھتے ہیں لھذا اس انعام کی لاج رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ان کی نصیحتوں اور ھدایات کے بعد دنیا اسرائیل اور فلسطین میں مذاکرات کے احیاء کی منتظر تھی کہ اچانک وزیر دفاع چیک ھیگل عصری ھتھیاروں کے نئے کیٹلاک کے ساتھ اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر نکل پڑے۔ ان تنیوں ممالک سے ۱۰۰ ارب ڈٓالر مالیتی ھتھیاروں کے فروخت کے معاھدوں پر دستخط ھوئے جن میں عصری میزائیل، لڑاکا طیارے اور دیگر ھتھیار شامل ہیں۔ اس طرح جان کیری وزیر خارجہ کے بھیس میں امن کے پجاری اور چیک ھیگل وزیر دفاع کی حیثیت سے ھتھیاروں کے سودا گر ثابت ھوئے تو پھر صدر اوباما کے بارے میں کیا کھنا۔ وہ تو امن کو نوبل انعام حاصل کر کے دنیا میں کچھ بھی کرنے کا لائسنس عملا حاصل کر چکے ہیں۔ کوئی بھی ان پر تخریب پسندی اور امن دشمنی کا الزام عائد کرے تو امن کا نوبل انعام اس کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ یوں بھی امریکہ کی تاریخ رھی ہے کہ جس شخصیت نے بھی دو میعادوں کے لیے صدارت کی ذمہ داری نبھائی وہ دوسری میعاد میں خطرناک ثابت ھوا اور اس کی حقیقت دوسری میعاد میں ھی کھل کر دنیا کے سامنے بے نقاب ھوئی۔
چیک ھیگل کو جس وقت امریکہ کا وزیر دفاع مقرر کیا جا رھا تھا اس وقت اسرائیل نے تحفظات کا اظھار کیا تھا۔ ان کے مخالفین انھیں ایران کے بارے میں نرم رویہ رکھنے والے قائد کی حیثیت سے دیکھتے تھے۔ یھودی بستیوں کے قیام کے مسئلہ پر انھوں نے اسرائیل پر تنقید بھی کی تھی لیکن وزارت دفاع کا عھدہ سنبھالتے ھی وہ امریکہ کی حقیقی پالیسی پر کاربند ھو گئے۔ وزیر دفاع کی حیثیت سے اپنے دورہ اسرائیل میں چیک ھیگل نے نہ صرف کھل کر اسرائیل کی تائید کی بلکہ ایران پر حملے کے اسرائیلی حق کی بھی بات کھی۔ ان کی موجودگی میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن ننتن یاھو نے کھا کہ ایران کو نیوکلئیر طاقت بننے سے روکنے کے لیے ضرورت پڑنے پر فوجی کاروائی بھی کی جائے گی۔ اسرائیلی وزیر خارجہ موشے ایلان نے یھاں تک کھہ دیا کہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی ھی آخری راستہ ہے۔ امریکی وزیر دفاع نے اس دورہ میں اسرائیل کو فلسطینیوں پر مظالم بند کرنے یا مذاکرات کے احیاء کی کوئی تلقین نھیں کی۔ ظاھر ہے کہ یہ کام کیوں کرتے۔ ان کا ایجنڈہ تو ھتھیاروں کی فروخت کو یقینی بنانا تھا۔ بات جتنی کشیدگی کی ھو گی اسی قدر زائد ھتھیار فروخت ھوں گے۔ امریکی وزیر دفاع اور اسرائیل سے کوئی تو یہ سوال کرے کہ آپ دونوں خود نیوکلیر طاقتیں ہیں پھر ایران کو نیوکلیئر پروگرام سے روکنے کا حق آپ کو کس نے دیا؟ ویسے اب تو مصر سے بھی یہ اطلاعات آرھی ہیں کہ روس کی مدد سے نیوکلیئر پروگرام کا احیاء کیا جائے گا۔ روس کے ماھرین کا وفد عنقریب مصر کا دورہ کرے گا اور یورانیم کے ذخائر کو فروغ دینے کا کام شروع ھو گا۔
سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کیا اب مصر کو بھی نیوکلیئر پروگرام سے روک دیں گے؟ کیا مصر کے خلاف فوجی کاروائی کی جائے گی؟ امریکی وزیر دفاع کی موجودگی میں اسرائیلی وزیر دفاع نے اعتراف کیا کہ جنوری میں شام کے اندورنی حصے میں عصری ھتھیاروں کے قافلہ پر جو فضائی حملہ ھوا تھا وہ اسرائیل کی کاروائی تھی۔ اسرائیل کو اندیشہ تھا کہ یہ ھتھیار حزب اللہ کو پھنچائے جا رھے ہیں۔ اسرائیل کی اس جارحیت پر اقوام متحدہ ، عرب ممالک اور خود امریکہ کی خاموشی معنی خیز ہے۔ کسی نے یہ سوال نھیں اٹھایا کہ دوسرے ملک کے اندورنی علاقہ میں حملہ کا اختیار کس نے دیا ہے؟ ایک طرف امریکی اور اسرائیلی قائدین کی ملاقات جاری تھی تو دوسری طرف عرب لیگ نے شام کے باغیوں کو ھتھیار فراھم کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ اس فیصلہ سے شام میں خونریزی میں اضافہ ھو گیا۔ ظاھر ہے کہ مسلم ممالک اور امریکہ اور دیگر ممالک سے ھتھیار خرید کر باغیوں کے حوالے کریں گے تاکہ مسلمان ایک دوسرے کاخون بھا کر دشمنوں کا کام آسان کر دیں۔ امریکی وزیر دفاع نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کر کے ان ممالک سے بھی ھتھیاروں کی فروخت کے معاھدے کئے۔ آخر متحدہ عرب امارات کو کس سے خطرہ ہے؟ سرحدپر تو کوئی خطرہ نھیں ہے بحرین میں بھی تو حکومت کو نھیں بلکہ عوام پس رھے ہیں۔ وہ بچارے اگر اپنا دفاع بھی کرتے ہیں تو پتھروں سے۔ ایسے میں جب عرب امریکہ سے ھتھیار خریدے گا تو ان کا استعمال خود مسلمانوں کے خون کی ندیاں بھانے کے لیے ھو گا۔ ان تمام تلخ حقائق کو دیکھ کر بھی کب تک عالم اسلام سچائی سے منہ موڑتا رھے گا کب تک امریکہ کی مرضی اور اس کے اشاروں پر مسلم اور عرب ممالک کٹھ پتلی بنے رھیں گے؟ امریکہ اور اس کے حلیف کھل کر اسرائیل اور دیگر مسلم دشمن طاقتوں کی طرفداری اور حوصلہ افزائی کر رھے ہیں پھر بھی ان کی تابعداری کیوں؟ حماس اور حزب اللہ تو صرف عوامی تنظیمیں ہیں اور نھتے ھو کر بھی ان بڑی طاقتوں سے لوھا منوا رھے ہیں پھر عرب اور اسلامی ممالک کی حمیت دینی کو کیا ھوا کہ آزاد مملکتیں ھونے کے باوجود خوف زدہ ہیں۔ حالانکہ خوف اور مسلمان ، خوف اور اسلام کبھی یکجا نھیں ھو سکتے۔ عرب دنیا میں بھی ھتھیاروں کا سول ایجنٹ امریکہ ھی ہے عوام کو دیگا تو حکمرانوں کے خلاف استعمال کے لیے جیسا کہ شام میں ھو رھا ہے۔ اور حکمرانوں کو دے گا تو عوام کے خلاف استعمال کے لیے جس کی زندہ مثال بحرین ہے۔ اب تو یھی امریکہ بھار اسلام کے نام پر آنے والی مصر کی اخوان المسلمین کی حکومت سے مضبوط دفاعی تعلقات کا خواھاں ہے اس کا کھنا ہے کہ عوامی انقلابات دونوں ملکوں کے تعلقات پر اثر انداز نھیں ھوں گے۔ چیک ھیگل نے مصر کا بھی دورہ کیا۔ ظاھر ہے کہ بھار اسلام کے نام پر اقتدار میں آنے والوں میں امریکہ کو بھی کوئی خاص تبدیلی نظر نھیں آئی۔ لھذا اس نے دوستی کا ھاتھ بڑھایا۔ بھار اسلام نھیں بلکہ وھاں بھار ایمان کی ضرورت ہے۔ اقتدار میں آنے کے لیے تحریکات ایک ذریعہ ہیں لیکن اس کا تسلسل قائم رکھنا ایک حقیقی انقلاب ھو گا۔ مصر حالانکہ تنظیم اسلامی کانفرنس کا اھم رکن ہے لیکن وہ شام میں باغیوں کی مدد کر رھا ہے۔ ھونا تو یہ چاھیے تھا کہ محمد مرسی ،بشار الاسد اور باغیوں میں مصالحت کی مساعی کرتے جو اسلامی روح کے عین مطابق بھی ہے۔ عرب ممالک کو جان لینا چاھئے کہ ھتھیاروں کی خریداری سے امن نھیں بلکہ خون خرابہ بڑھے گا اور جھاں تک ان ممالک کے تحفظ کا سوال ہے تو وہ انھیں خود اپنی طاقت پر انحصار کرنا ھو گا۔ بقول منظر بھوپالی:
محافظ اپنے ھی آپ ھو تم یہ یاد رکھو
پڑوس میں بھی بچانے والا کوئی نھیں ہے
الف۔ جعفری 

Add comment


Security code
Refresh