عراق کے وزير اعظم نے سرکاری ٹی وی پر تقریر کرتے ھوئے کھا ہے کہ عراق میں اس وقت جو کچھ ھورھا ہے اس کے پیچھے بعض ایسے عناصر ہیں
جو ملک میں فرقہ وارانہ اور قبائلی تصادم شروع کرانا چاھتے ہیں ۔ نوری مالکی نے کرکوک کے علاقے حویجہ میں ھونے والے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کھا یہ اقدام ملک میں فتنہ فساد پیدا کرنے کے لئے انجام دیا گيا ہے ۔ عراقی وزير اعظم نے القاعدہ اور بعث پارٹی کی باقیات کو عراق کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ھوئے کھا عراق میں برپا کئے جانے والے فتنے کے پیچھے بعض غیر ملکی عناصر ہیں ان کا کھنا تھا ھمارے اردگرد کے بعض ممالک میں جو فتنے و فساد برپا ہیں عراق اس سے بھی متاثر ھورھا ہے ۔ عراقی وزیر اعظم کا اشارہ بعض عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کی طرف تھا جو گزشتہ کئی سالوں سے عراق میں سرگرم دھشت گرد گروھوں سے رابطے میں ہیں اور انکی خفیہ اور علنی مدد کررھا ہے عراق میں سرگرم القاعدہ اور بعث پارٹی سے سعودی عرب کے براہ راست تعلقات ہیں اور وہ ان گروھوں کے ذریعے عراق کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا مرتکب ھورھا ہے ۔
ترکی اور سعودی عرب کی طرف سے عراق کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لاتعداد ثبوت سامنے آچکے ہیں ۔اور واضح طور پر محسوس ھوتا ہے کہ عراق میں جاری ناامنی میں ان ممالک کی بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت ہے ۔ سعودی عرب اور ترکی بعض مغربی طاقتوں کے اشارے پر عراق میں مالکی حکومت کے مخالفین القاعدہ اور بعث پارٹی جیسے گروھوں کی کھل کر حمایت کررھے ہیں تاھم عراق صرف اندرونی فتنہ سے دوچار نھیں ہے بلکہ اس کے خلاف بیرون ملک سے باقاعدہ سازشیں ھورھی ہیں ان سازشوں میں عراق کو فرقہ وارانہ اور قومی و لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنا اور اس ملک کے حصّے بخرے کرنا ہیں عراق کی سالمیت اور اتحاد کے حوالے سے جھاں بیرونی طاقتیں سرگرم عمل میں وھاں اندرون ملک گروھوں کی سرگرمیوں کو ھرگز نظر انداز نھیں کیا جا سکتا ۔ ایادعلاوی کا سیاسی دھڑا العراقیہ مختلف علاقوں بالخصوص سنی آبادی کے علاقوں میں فرقہ وارانہ فضا پیدا کرکے مالکی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کررھا ہے یھی وجہ ہے کہ عراق کے وزير اعظم نوری مالکی نے ملک کی سالمیت اور اتحاد کو نقصان پھنچانے والی اس سازش کا ادراک کرتے ھوئے عراقی عوام کے تمام حلقوں من جملہ علماء ، دانشور اور موثر گروھوں سے ا پیل کی ہے کہ وہ ملک کے اتحاد اور استحکام کو نقصان پھنچانے والے افکار و نظریات سے عوام کو آگاہ ، متنبہ اور خبردار کریں۔
عراق کے وزير اعظم اس سے پھلے بھی کئی بار کھہ چکے ہیں کہ عراق کے موجودہ بحران کا حل باھمی گفت و شنید میں مضمر ہے وہ عرصے سے اس بات پر زور دے رھے ہیں کہ تمام سیاسی گروھوں اور پارلیمنٹ کو ملک کے مشکلات سے نکالنے کے لئے مشترکہ جد وجھد کرنا چاھیے ۔