www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 قاتلوں کو 24 گھنٹے کی مھلت؛ باغیوں کامسلحانہ مظاھرہ؛ قطری مفتی کے مگرمچھ کے آنسو

 

الانبار صوبے کے آپریشن کمانڈر نے دھرنا دینے والوں کو 24 گھنٹے کی مھلت دی ہے کہ وہ فوجی جوانوں کے قتل میں ملوث پانچ دھشت گردوں کو سیکورٹی فورسز کے حوالے کریں۔ دوسری طرف سے عراقی ٹیلی ویژن نے الانبار میں رات کے نو بجے سے صبح چار بجے تک کرفیو کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔
عراق کے صوبہ الانبار میں فوج کے آپریشن کمانڈر نے الانبار میں دھرنا دینے والے باغیوں کو صرف 24 گھنٹے کی مھلت دی ہے کہ وہ فوجی جوانوں کے قتل میں ملوث پانچ دھشت گردوں کو سیکورٹی فورسز کے حوالے کریں۔ جبکہ فرانس پریس نے کرکوک سے رپورٹ دی ہے کہ "پیش مرگ" کرد فورسز نے کرکوک کے ارد گرد پوزیشنیں سنبھال لی ہیں اور "کرد پیش مرگ" فورسز کی وزارت نے دعوی کیا ہے کہ صوبائی گورنر کے ساتھ مذاکرات کے بعد طے پایا ہے کہ "سلامتی کا خلا پر کرنے" اور "شھریوں کے مال و جان کے تحفظ" کے لئے مختلف علاقوں بالحصوص کرکوک کے اطراف میں کرد پیش مرگ فورسز تعینات کی جائیں۔
ادھر عراقی اھلکاروں کی طرف سے حالات کو پرامن بنانے اور فتنہ انگیزیوں کے خاتمے کی کوشش کے ساتھ ساتھ، فلوجہ کہ خطیب جمعہ نے فوجی وردی قبول کرکے عوام کو حکومت کے خلاف جنگ کی دعوت دی۔
واضح رھے کہ شام کے ساتھ اب عراق میں بھی سعودی عرب، قطر، ترکی اور اسرائیل کی تحریک پر فتنہ انگیزی کی کوششوں نے زور پکڑ لیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق فلوجہ کے امام جمعہ شیخ علی محسن البصری نے الانبار میں مسلح باغیوں کے مجمع میں حاضر ھوکر فتنہ انگیزی کی نیت سے دعوی کیا کہ عراق میں اھل سنت اقلیت نھيں بلکہ خاموش اکثریت کو تشکیل دیتے ہیں اور وہ اپنی آواز اٹھائیں گے۔
ادھر صوبہ "صلاح الدین" کے گورنر نے کہھا ہے کہ "سلیمان بیک" کے عوان سرکاری فورسز کی مدد سے اپنے گھروں کو لوٹے ہیں اور اس علاقے کے قبائل نے ایک دستاویز پر دستخط کرکے خانہ جنگی اور عراقی شھریوں کی خونریزی کو حرام قرار دیا ہے۔
گورنر احمد عبداللہ نے کھا: صوبہ صلاح الدین کے شھر سلیمان بیک کا بحران اختتام پذیر ھوچکا ہے اور عوام حکومت کی مدد سے اپنے گھروں کو لوٹے ہیں؛ اور اس علاقے کے عمائدین نے حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کرتے ھوئے وعدہ دیا ہے کہ سرکاری فورسز کی تعیناتی سے قبل، مسلح شدت پسند اس شھر کو ترک کریں گے۔
قابل ذکر ہے کہ بغداد کے مغربی شھر فلوجہ میں گذشتہ تین دنوں سے مسلح دھشت گردوں اور سرکاری فورسز کے درمیان شدید جھڑپوں کے بعد پولیس اس شھر سے نکل گئی ہے اور اسپیشل فورسز اور مقامی پولیس نے شھر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
ادھر شام اور لیبیا میں مسلمانوں کے خون سے ھولی کھیلنے کے فتوے دے کر قطری امیر اور اسرائیل و امریکہ کے مقاصد کے لئے مزاحمت محاذ کو نقصان پھنچانے کے لئے عراق میں بھی قطری امیر، سعودی حکومت اور ترک حکومت کا ھاتھ بٹانے کے لئے عراق میں بھی فتنہ انگیزی کا بیڑا اٹھایا ہے اور دعوی کیا ہے کہ عراق میں اھل سنت کے حقوق پامال ھورھے ہیں۔
قطری امیر حمد بن خلیفہ کے مصری بھنوئی شیخ یوسف القرضاوی ـ جو کسی زمانے میں اسرائیل کے دشمن اور اتحاد بین المسلمین کے داعی مانے جاتے تھے اور باپ کے خلاف بغاوت کرکے قطر پر مسلط ھونے والے حکمران کی علاقے کے ممالک میں مداخلت کے بعد سے ان کی جارحانہ پالیسیوں کو دینی لبادہ پھنانے کی ذمہ داری سنبھالے ھوئے ہیں اور مصری نژاد ھونے کے باوجود قطری شھریت کے حامل اور دوحہ کی "شاھی مسجد" کے امام جمعہ ہیں ـ نے دوحہ میں نماز جمعہ کے خطبوں کے دوران عراق کے اقتدار میں اھل سنت کی معقول شراکت کو نظر انداز کرتے ھوئے دعوی کیا: دنیا بھر کے ممالک کے سنی ھرگز برداشت نھیں کریں گے کہ عراقی اھل سنت کو سیاسی میدان سے نکال باھر کیا جائے اور عراقی حکومت سب کچھ اپنے لئے اٹھا لے!۔
قطری مفتی جو ماضی میں اسرائیل مخالف موقف کے برعکس حال ھی میں اسرائیل کے خلاف موقف اپنانے سے پرھیز کی وجہ سے "اسرائیلی مفتی" کا لقب کما چکے ہیں؛ نے کھا کہ عراقی حکومت کا مقابلہ کیا جائے۔
واضح رھے کہ عراق میں حکومت اور پارلیمان عوامی رائے سے تشکیل پائی ہے اور عراق کے تمام مذاھب اور اقوام اپنی آراء کی تعداد کی بنیاد پر سیاست اور اقتدار میں حصہ دار ہیں اور وھابیت و القاعدہ کی طرف سے نھتے شیعہ عراقیوں کا قتل عام گذشتہ دس برسوں سے معمول بن چکا ہے؛ مگر مفتی الفتنہ جناب القرضاوی نے دعوی کیا کہ "عراق میں اھل سنت کو شدید دباؤ کا سامنا ہے اور یہ کہ "عراقی حکومت ایران اور حزب اللہ کی مدد سے سنیوں کے خلاف اقدامات کررھی ہے!!!"۔
القرضاوی نے دھشت گردی کی سرپرستی کے جرم میں پھانسی پاکر ترکی میں پناہ لینے والے سابق نائب صدر "طارق الھاشمی" کی حمایت کرتے ھوئے دعوی کیا کہ الھاشمی ایک "سنی" ہے جس کو عراق میں ظلم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
واضح رھے کہ عراق میں دھشت گردی کی کاروائیوں میں طارق الھاشمی کے ملوث ھونے کے ثبوت ملنے کے بعد وہ عراق سے بھاگ گیا اور امیر قطر کے دامن میں پناہ لی لیکن امیر قطر اس کو پناہ دینے سے انکاری ھوا تو وہ آل سعود کی پناہ میں چلا گیا اور سعودی حکام بھی اس کو پناہ دینے کے روادار نہ ھوئے جس کے بعد وہ ترکی چلا گیا جو آج کل اسرائیل کی حمایت کے لئے بننے والے محاذ میں بنیادی کردار ادا کررھا۔ ترکی میں سلطنت عثمانیہ کے احیاء کے سپنے دیکھنے والے اسرائیل نواز وزیر اعظم رجب طیب اردوگان نے اس شخص کو باقاعدہ اور دائمی پناہ دے دی۔
قطر کے سرکاری مفتی ایسے حال میں شام میں اسرائیلی پسند کی جمھوریت اور عراق میں اھل سنت کے عوام کی حمایت کے دعوے کررھے ہیں کہ قطر کے اندر سنی عوام ایک خاندان کی قید میں ہیں اور وھاں حتی شعراء کو عوامی حقوق پر مبنی شعر کھنے پر برسوں کی قید کی سزائیں سنائی جارھی ہیں اور جمھوریت کا نام لینا جرم تصور کیا جاتا ہے اور قطر کے ساتھ ساتھ خلیج فارس کی دیگر ریاستوں میں بھی نہ کوئی منتخب پارلیمان ہے اور نہ ھی منتخب حکومت کا تصور؛ اور ان میں سے بعض ریاستوں میں تو درباری مفتیوں نے ووٹ دینے کے عمل کو ھی حرام قرار دیا ہے۔ ان ریاستوں میں نہ صرف اقلیتوں کے حقوق کو تسلیم کیا جاتا ہے اور نہ ھی اقلیتوں کو کوئی حق دیا جاتا ہے حتی بحرین کی اکثریت نے حکومت تبدیل کرنے کے لئے تحریک کا آغاز کیا تو سعودی عرب نے اس ریاست پر چڑھائی کردی اور یوسف القرضاوی نے عوامی انقلاب کو فرقہ وارانہ تحریک کا نام دیا!!!
القرضاوی نے لیبیا میں قذافی کے خلاف جنگ کے دوران قذافی کے قتل کا فتوی دیا اور قطر کے حکمران کی طرف سے مال و دولت اور قرضاوی کی طرف سے فتؤوں نے تیل کی دولت سے مالامال لیبیا کو امریکہ اور یورپ کے گلے میں انڈیل دیا اور جب شام میں اسرائیل مخالف محاذ کو نقصان پھنچانے کے لئے بغاوت کا آغاز ھوا تو قطر کے امیر نے لیبیا والی پالیسی پر کاربند ھوکر القرضاوی کو اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے ایک بار پھر آلہ کار بنا کر ان سے خوب خوب فتوے جاری کروائے اور انھوں نے مختلف ممالک سے قطر، ترکی اور سعودی عرب کے بھجوائے ھوئے دھشت گردوں کی حمایت میں کوئی کسر روا نہ رکھی اور حتی کہ شام کے علماء کے قتل کے فتوے دیئے اور اب جب اسرائیل کے حامی محاذ نے عراق کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے تو القرضاوی ایک بار پھر فتنہ انگیز مفتی کی حیثیت سے آگےآگے نظر آرھے ہیں۔
دریں اثناء القرضاوی نے اپنی فتنہ انگیزی کو ایسے حال میں شدت بخشی ہے کہ شمالی عراق میں کئی دنوں سے جاری خونریز جھڑپوں کے بعد حکومت اور عوام کے باھمی تعاون سے حالات بھتر ھورھے ہیں۔ 

Add comment


Security code
Refresh