ھیونی اخبار "یدیعوت آحارونوت" نے لکھا ہے کہ امریکہ مشرق وسطی میں اسرائیل کی حمایت کے لئے 1+4 گروپ تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کرچکا ہے۔
صھیونی اخبار "یدیعوت آحارونوت" کے رپورٹر آلیکس فش مین نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے: "امریکی حکومت نے خفیہ طور پر اسرائیل کی پشت پناھی کے لئے چار عرب حکومتوں (یعنی سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، خودمختار فلسطینی اتھارٹی) اور ایک غیر عرب ملک (ترکی) پر مشتمل گروپ تشکیل دیا ہے اور اسرائیل بھی بھت جلد اس گروپ میں شامل ھوجائے گا۔
فش مین نے لکھا ہے: معلوم نھيں ھوسکا ہے کہ کیا اسرائیلی اور سعودی سیکورٹی اھلکاروں کے درمیان حال ھی میں کوئی ملاقات بھی ھوئی ہے یا نھیں تاھم یہ اندازہ لگانا مشکل نھیں ہے کہ مستقبل قریب میں امریکی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے مشرق وسطی کے دوروں میں اضافہ ھونے والا ہے اور ان کی کوشش ھوگی کہ سعودی اور یھودی ریاستوں کے حکمرانوں کے درمیان اعلی سطحی اور براہ راستے رابطے قائم کئے جاسکیں۔
واضح رھے کہ آل سعود اور آل یھود کے رابطے کسی سے ڈھکے چھپے نھيں ہیں اور صھیونی ریاست کے حکام نے بارھا اعلان کیا ہے کہ سعودی حکومت اسرائیل کی دوست حکومت ہے جبکہ آل سعود سے وابستہ دھشت گرد کمانڈروں اور مفتیوں نے بارھا اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو ایک دوست ریاست کے عنوان سے قبول کرتے ہیں کیوں اسرائیل شام کا دشمن ہیں اور وہ بھی شام کے خلاف لڑرھے ہیں!!
فش مین نے لکھا ہے کہ صھیونی وزیر جنگ "ایھود بارک" نے ایک علاقائی دفاعی منصوبہ امریکہ حکومت سے منظور کروایا ہے اور بارک نے کھا ہے کہ علاقائی دفاعی منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ بحرین، ترکی اور سعودی عرب میں متعین ریڈاروں سے موصولہ اطلاعات بروقت اسرائیل کے حوالے کی جاتیں رھیں اور فلسطین کا پڑوسی ملک "اردن" بھی اسرائیل کی حمایت کرے۔
فش مین نے لکھا ہے کہ اردن اور اسرائیل کے درمیان ھمہ جھت تعاون موجود ہے اور وزیر اعظم نیتن یاھو کا اعلانیہ دوروں کے علاوہ خفیہ مشن پر بھی اردنی دارالحکومت امان آنا جانا جاری رھتا ہے اور اسرائیل اور اردن شامی باغیوں کو عسکری تربیت دینے کے حوالے سے بھی قریبی تعاون کررھے ہیں۔
فش مین نے لکھا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل کا تعاون دشوار نظر آتا ہے لیکن ایسے گھرے پس پردہ مسائل موجود ہیں جو رفتہ رفتہ بے نقاب ھوں گے؛ "اٹھتر سالہ سعودی ولی عھد نے اس سال فروری کے آغاز میں برلن میں وزرائے دفاع کانفرنس کے موقع اپنے مشیران اور محافظین کے ھمراہ گذر رھے تھے کہ اچانک اپنے گروہ سے الگ ھوئے اور اسرائیلی وزیر جنگ ایھود بارک کی طرف بڑھے اور اس کے ساتھ نھایت مخلصانہ انداز سے مصافحہ کیا اور ان کے وفد کے اراکین اور محافظین شدید حیرت میں ڈوبے نظر آئے کیونکہ یہ دو افراد کچھ اس طرح سے آپس میں گفتگو کررھے تھے کہ گویا بھت پرانے دوست ہیں"۔
فش مین نے لکھا: امریکی حکومت جانتی ہے کہ سعودی مرکزیت کی بنیاد پر عرب ممالک کا مشترکہ محاذ اسرائیل کی حمایت و تحفظ کے لئے بھت اھم ہے جس طرح کہ اردن کے ساتھ قریبی تعاون اور امارات کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اسرائیل کو تزویری عمق (Strategic Depth) عطا کرتے ہیں۔
فش مین ترکی کے بارے میں لکھتا ہے: ترکی کے ساتھ تعلق و تعاون آسان ہے کیونکہ دو ملکوں کے درمیان قریبی سیکورٹی، معاشی اور سفارتی تعاون پایا جاتا ہے اور دوطرفہ معاشی تعلقات میں مسلسل اضافہ ھورھا ہے۔
فش مین نے لکھا ہے کہ اس اتحاد میں ابھی تک سب سے بڑے عرب ملک مصر کو شامل نھیں کیا جاسکا ہے کیونکہ وھاں اخوان المسلمین کی حکومت ہے اور یہ حکومت مذکورہ بالا پانچ ممالک سے مختلف ہے اور اس کی فکرمندیاں بھی مختلف ہیں تاھم امریکیوں کو امید ہے کہ مصر کو بھی فوجی کمانڈروں کے ذریعے اس اتحاد میں شامل کیا جاسکے گا کیونکہ فوج، سیکورٹی معاھدوں کے سلسلے میں خودمختار ہے۔