امریکہ کے شھر بوسٹن میں میراتھن ریس میں دو بم دھماکوں اور اسکے بعد ان بم دھماکوں میں ملوث دوافراد کے ناموں کا اعلان کیا گيا،
ان واقعات کے بعد ایک بار پھر امریکی انٹلجنس ایجنسیوں پر غفلت اور تساھلی کا الزام لگایا جارھا ہے۔ امریکہ میں آگاہ ذرائع کا کھنا ہےکہ روس نے تین برسوں قبل امریکہ کو خبردار کرتےھوئے تیمورلنگ سارنایف کے بارے میں شکوک و شبھات ظاھر کئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ تین برسوں سے امریکہ کی فیڈرل پولیس ایف بی آئي نے اس چیچن جوان کو زیر نظر رکھا تھا۔ ان مسائل کے پیش نظر امریکہ کی انٹلجنس ایجنسیوں پر ایک بار پھر غفلت کے الزامات لگائے جارھے ہیں اور یہ سوالات کئے جارھے ہیں کہ انٹلجنس ایجنیسوں بالخصوص ایف بی آئي نے ان واقعات کو روکنے کے لئے کوئي موثر اقدام کیوں نھیں کیا؟ آج امریکی انٹلجنس ایجنسیوں کے حالات دوھزار ایک میں گيارہ سمتبر کے حالات کے پیش آنے والی صورتحال جیسے ہیں۔ گيارہ ستمبر کے واقعات کے بعد بھی یہ واضح ھوگيا تھا کہ ان واقعات میں ملوث کچھ لوگ ایف بی آئي کی تحویل میں تھے اور ایف بی آئي نیز سی آئي اے کے حکام نے وھائٹ ھاوس کو خبردار کردیا تھا کہ امریکہ میں القاعدہ کے عناصر دھشتگردانہ کاروائياں کرسکتے ہیں۔ یہ بھی کھاجاتا ہےکہ امریکی انٹلجنس ایجنسیوں نے دس ستمبر دوھزار گيارہ کو ان واقعات میں ملوث بعض عناصر کے ٹیلیفونی مکالمے ریکارڈ کرلئے تھے جن میں اگلے دن بڑے واقعے کی باتیں کی گئي تھیں۔ اس وقت کے امریکی صدر جارج بش کو بھی یہ رپورٹ دی گئي تھی لیکن وائٹ ھاوس کے حکام نے دعوی کیا ہےکہ جارج بش کے فلوریڈا میں رھنے کی وجہ سے انھیں اس رپورٹ کا علم نہ ھوسکا تھا۔ اس بات سے قطع نظر کہ امریکی حکام کو گيارہ ستمبر کی کس حدتک اطلاع تھی اور یہ رپورٹیں کس حد تک سچ ہیں اس بات میں توکوئي شک نھیں ہے کہ امریکہ کی سرزمیں پرھونے والے سب سےبڑے دھشتگردانہ واقعے میں امریکی انٹلجنس ایجنسیوں کی غفلت اور تساھلی بھی شامل ہے، اسی وجہ سے امریکی انٹلجنس ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں کی گئي تھیں۔ سب سےپھلے قومی انٹلجنس ادارہ قائم کرکے انٹلجنس ایجنسیوں کا کمانڈ سی آئي اے سے لے لیا گيا اور متعدد انٹلجنس ایجنسیوں کو اکٹھا کرکے ملکی سلامتی وزارت تشکیل دی گئي۔ گذشتہ ایک دھائي میں انٹلجنس اور سکیوریٹی ایجنسیوں کو عوام سے ٹیکس کی صورت میں حاصل کئے گئے سیکڑوں ارب ڈالر دئے گئے تا کہ شاید یہ ایجنسیاں مستقبل میں گيارہ ستمبر جیسے واقعات کی روک تھام کرسکیں۔ یہ پالیسی ایک دھائي تک کامیاب رھی لیکن ان دنوں بوسٹن میں دو بم دھماکوں سے ایک بار پھر امریکی حکام کے اوسان خطا ھوچکے ہیں اور اسکی انٹلجنس ایجنسیاں بوکھلا گئي ہیں۔ اب یہ سوال اٹھتا ہےکہ اگر امریکہ کی لمبی چوڑی انٹلجنس ایجنسیاں ایک شناختہ شدہ مشکوک شخص کو دھشتگردی سے نھیں روک سکتیں تو ان ایجنسیوں کو اربوں ڈالروں کا بجٹ دینے سے کیا فائدہ ؟ البتہ بوسٹن بم دھماکوں کےبارے میں کچھ مفروضے بھی پیش کئے جارہے ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ دھشتگردوں کے پاس جدید ترین ٹکنالوجی اور بلاوقفہ ٹریننگ کی وجہ سے دھشتگردی کے خطروں کی بیخ کنی ناممکن ھوچکی ہے۔ کچھ ماھرین یہ کھتے ہیں کہ خود امریکہ میں دھشتگرد تیار کئے جارھے ہیں اور عالمی مسائل کے تعلق سے امریکی حکومت کے رویئے نے اس کے لئے بھت سے دشمن پیدا کئے ہیں۔ ماھرین کاایک گروہ ہے جو یہ کھتا ہےکہ گيارہ ستمبر اور بوسٹن میرتھن ریس میں بم دھماکے دیگر ملکوں پر حملہ کرنے کے لئے بڑی طاقتوں کی سازش ہیں۔اب یہ فیصلہ کرنا کہ کون سانظریہ صحیح ہے اس کے لئے مزید تجزیوں کی ضرورت ہے۔ البتہ امریکہ میں دھشتگردانہ واقعات کے بعد ایک خاص روش دیکھی جارھی ہے وہ یہ کہ ھر دھشتگردانہ واقعے کے بعد امریکہ میں عوام کی آزادی اور حقوق سلب کرلئے جاتے ہیں اور خاص طور سے دینی اور نسلی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔