شام میں حکومت اور عوام کے خلاف برسرپیکار دھشت گرد تنظیموں کو یورپ، ترکی اور یھودی ریاست کے علاوہ سعودی عرب اور قطر کی
حمایت حاصل ہے اور سعودی عرب اور قطر کے درمیان اس حوالے سے ھونے والی مسابقت امریکہ کے لئے مشکلات کا باعث ھوئی ہے۔
دفاع جمھوریت فاؤنڈیشن کے ماھر ڈیویڈ انڈریو وینبرگ (David Andrew Weinberg) نے شام میں سعودی عرب اور قطر کی ریشہ دوانیوں کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کھا: حکومت شام کا تختہ الٹنے کے لئے سعودی عرب اور قطر کے درمیان ھونے والی مسابقت امریکہ اور خطے کے لئے بھت شدید مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔
وینبرگ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے: سعودی عرب اور قطر نے کچھ عرصے سے شام کے مخالف گروپوں کو مختلف ھتھیاروں سے لیس کرنا شروع کیا مگر گذشتہ مھینے کے واقعات سے ظاھر ھوا کہ یہ دو ممالک بھت سے انتھا پسند تنظیموں کی حمایت کررھے ہیں۔
انھوں نے لکھا ہے: بعض سیاسی مبصرین خوش گمانی کی بنا پر دوحہ اور ریاض کی کار کردگی کا دفاع کررھے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ سعودی عرب انتھا پسند گروپوں کے درمیان بعض اعتدال پسندوں کی حمایت کررھا ہے اور قطر کے نئے امیر نے بھی شام کی تناؤ کے سلسلے میں بھتر خارجہ پالیسی اپنائی ہے مگر شام کے صوبے الرقہ سے تشویشناک خبریں سامنے آرھی ہیں جھاں القاعدہ سے وابستہ گروپ دولۃالاسلامیۃ في العراق والشام (داعش) کا کنٹرول ہے۔
سعودی عرب میں شائع ھونے والوں کتابوں کے ذریعے داعش کے دھشت گردوں کی تربیت
وینبرگ سیاسی مبصرین کے حوالے سے لکھتے ہیں: داعش سعودی عرب میں چھپنے والی کتب کے ذریعے جدید تعلیمات اپنے حامیوں اور نئے بھرتی ھونے والے افراد پر مسلط کررھی ہے۔ ان تعلیمات میں "دوسروں سے نفرت" کی تربیت دی جارھی ہے اور واشنگٹن میں تعینات پرشین گلف ریسرچ انسٹٹیوٹ کے سربراہ علی الاحمد کا کھنا ہے کہ ان کتابوں پر سعودی وزارت تعلیم کی مھر ثبت نھیں ھوئی ہے تاھم ان کتابوں کا مضمون و محتوی وزارت تعلیم کی طرف سے شائع ھونے والی کتب کے عین مطابق اور تفرقہ انگیز مواد پر مشتمل ہیں اور ان کتب میں ان کے مصنفین بطور خاص غیر مسلموں کے لئے قدر و قیمت کے قائل نھيں ھوئے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ سعودی عرب اور قطر کی مداخلت یھیں تک محدود نھيں ہے۔
سرزمین شام میں قطر اور سعودی عرب کے زیر سرپرستی گروپوں کے درمیان جنگ
وینبرگ نے مزید لکھا ہے: داعش نے الفاروق اور احفاد الرسول نامی گروپوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا ہے جنھیں قطر کی مالی حمایت حاصل ہے اور گویا کہ حلب میں قطر کا حمایت یافتہ سب سے بڑا گروپ داعش کے خلاف لڑنے کے بجائے دوسرے گروپوں کے ساتھ متحد ھونے کے بجائے داعش کے ساتھ مذاکرات کے درپے ہے۔
وینبرگ لکھتے ہیں: کچھ عرصہ قبل ایک مسلح گروپ کے سربراہ نے دمشق کے اطراف میں درجنوں گروپوں کے ایک دوسرے سے الحاق اور جیش الاسلام نامی ایک بڑے گروپ کی تشکیل کا انکشاف کیا تھا اور سفارتکاروں نیز حکومت شام کے مخالفین کا کھنا ہے کہ جیش الاسلام نامی گروپ کو سعودی عرب کی براہ راست امداد سے منظم کیا گیا ہے اور اس نئے گروپ کے سربراہ زھران علوش نے سعودی عرب میں تعلیم حاصل کی ہے اور اس کا باپ سعودی عرب کے وھابی ـ سلفی مبلغین میں شمار کیا جاتا ہے۔
انتھا پسندوں کی حمایت اور سعودیوں کے دعؤوں میں تضادات کا ثبوت
وینبرگ لکھتے ہیں: جیش الاسلام کی تشکیل سے ثابت ھوا ہے کہ آل سعود کا یہ دعوی بےبنیاد ہے کہ ان کی حکومت بھت زیادہ اعتدال پسند سلفیوں کی حمایت کرتی ہے جو سیاسی اسلام کے خلاف ہیں کیونکہ زھران علوش شام میں اسلامی خلافت کے احیاء کا دعویدار ہے اور شام کے پرچم کے بجائے سیاہ رنگ کا پرچم استعمال کرتا ہے اور علوش بذات خود بھی داعش کے خلاف اقدام کے درپے نھیں ہے اور نسل کشی کی حمایت کرتا ہے۔
وینبرگ نے مزید لکھا ہے کہ سعودی عرب کو اس سے قبل بھی جھادی گروپوں کی حمایت کا خمیازہ بھگتنا پڑا تھا اور آج سے 10 سال قبل القاعدہ نے سعودی عرب میں کئی کاروائیاں کیں لیکن سعودی عرب اور قطر شام میں انتھاپسند گروپوں کی حمایت کرکے ـ یا کم از کم ان گروپوں کے کرتوتوں سے چشم پوشی کرکے ـ ان گروپوں کے اقدامات سے اپنے خاص اھداف کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔
وھابی سلفیوں کی حمایت اور مذاھب کے درمیان اختلاف اندازی
وینبرگ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے: سعودی نظام حکومت عرصۂ دراز سے اندرونی اور بیرونی سطح پر وھابی سلفیت کی حمایت کرتا آیا ہے اور عرب ممالک میں انقلابات کے آغاز سے تو وہ سنجیدگی سے "مذاھب کے درمیان تفرقہ انگیزی اور فتنہ پروری" کی پالیسی پر کاربند ہے تا کہ اس ملک کے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے اتحاد کو ناممکن بناسکے اور انھیں مل کر حکومت سے زیادہ حقوق کا مطالبہ نہ کرسکیں۔
قطر جبھۃالنصرہ کی حمایت کررھا ہے
وینبرگ نے لکھا ہے: قطر نے بھی فعال خارجہ پالیسی اپنائی ہے اور علاقے میں اپنے پیروکاروں اور حامیوں کی تعداد بڑھانے کے درپے ہے چنانچہ قطر نے شام میں اپنے حمایت یافتہ شدت پسند گروپوں کے انتھا پسندانہ اصولوں اور افکار کو اھمیت نھیں دی اور کھا جاتا ہے کہ قطر علاقے میں اخوان المسلمین کا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے شام میں بھی فعال کردار ادا کرتا رھا ہے اور امریکہ نے جبھۃالنصرہ کی حمایت کے حوالے سے قطر پر تنقید کی ہے۔
وینبرگ نے واضح کیا کہ قطر کو مئی کے مھینے میں شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ اس نے سعودی عرب کو اجازت دی کہ وہ شام مخالف گروپوں کی سرپرستی اپنے ھاتھ میں لے لیکن سعودی عرب کو ـ جو شامی باغیوں کے فیصلے خود کرتا ہے ـ اسد حکومت کے خلاف مؤثر اقدامات کے لئے ایک بڑے اتحاد کی ضرورت ہے اور اس نے گویا اس قسم کے اتحاد کی تشکیل کے لئے عملی اقدامات بھی شروع کئے ہیں لیکن یہ ایک سیاسی اتحاد نھیں ہے بلکہ مسلح گروپوں کا اتحاد ہے۔
انھوں نے مزید لکھا ہے کہ جنگ سے قبل شام میں سلفیوں کی موجودگی اتنی وسیع نہ تھی لیکن انھوں نے صورت حال سے ناجائز فائدہ اٹھا کر خلیج فارس کی عرب ریاستوں سے اربوں ڈالر وصول کئے اور سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ زھران علوش جیسے انتھا پسند شام کے میدان جنگ میں محض کھلاڑی ہیں اور جس قدر شدت پسند اور انتھا پسند گروپوں کا اثرو رسوخ شام میں بڑھے گا شام کے مخالفین کے لئے مغربی ممالک کی امداد کا حصول اتنا ھی مشکل ھوجائے گا۔
وینبرگ نے لکھا ہے: ان تمام تبدیلیوں کا مفھوم شاید یہ ہے کہ سعودی عرب اور نام نھاد انقلابی تنظیمیں شام پر امریکی حملے کو بعید از قیاس سمجھتے ہیں۔ شام پر عسکری حملے سے امریکیوں کی پسپائی سعودیوں کے غیظ و غضب کا سبب ھوئی ہے اور شام کے کیمیاوی ھتھیاروں کی تلفی پر امریکیوں کے اکتفا نے اسد حکومت کو اپنا اقتدار محفوظ رکھنے کا موقع فراھم کیا ہے۔
وینبرگ نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھا ہے: خلیج فارس میں امریکی حلیف بشار اسد کی اقتدار سے فوری علیحدگی کے خواھاں ہیں اور سعودی عرب اور قطر شام کی جنگ میں کامیابی کی تمام تر کوشش کررھے ہیں اور انتھاپسند گروپوں کی حمایت کررھے ہیں جو بے شک امریکہ اور علاقے کے لئے کثیر مسائل اور مشکلات کا سبب ہے۔