www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حزب اللہ کے قائد نے سعودی عرب کو مشورہ دیا کہ وہ حقائق کو تسلیم کرے اور شام کے نظام حکومت کے زوال کی توقع نہ رکھے۔

لبنان کے اندر بھی سعودی حمایت یافتہ دھڑے اپنا انجام حکومت شام کے انجام سے نہ جوڑیں۔ امام موسی صدر اور چار مغوی ایرانی سفارتکاروں کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے زیادہ سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔
سید حسن نصر اللہ نے سعودی حکمرانوں کو خبردار کیا کہ موقع سے فائدہ اٹھائیں اور شام کو مزید تباھی سے دوچار کرنے سے باز رھے۔ انھوں نے لبنان میں سعودی حمایت یافتہ دھڑے 14 مارچ گروپ کو بھی مشورہ دیا کہ حکومت شام کا تختہ الٹنے کا انتظار نہ کرے اور لبنان میں سبوتاژ کی کوششوں سے باز آئے۔
سید حسن نصر اللہ نے "شفاخانہ رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ" کی تاسیس کی سالگرہ کے موقع پر اپنے نشری خطاب میں کھا:
سعودی عرب شام میں اپنے مقاصد میں ناکامی کی وجہ سے سیخ پا ہے؛
جن ممالک نے شام کے نظام حکومت کو سرنگوں کرنے کی کوشش کی انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور شام کے نظام حکومت کی شکست و ریخت کی خوشی منانے والوں کی خوش فھمیاں دھری کی دھری رہ گئیں؛
جو لوگ شام کے مسئلے کا سیاسی حل چاھتے ہیں اگر سچے ہیں تو انھیں یہ کام انجام دینا چاھئے اور او آئی سی اور عرب لیگ کو اس راہ میں موجود رکاوٹیں ھٹادینی چاھئیں؛
شام کے مسئلے کے سیاسی حل کے مخالفین مذاکرات کے لئے فراھم کردہ موقع سے فائدہ اٹھائیں تو یھی ان کے لئے بھتر ہے۔ پورے خطے کو ایک ملک کے غصے کی بنا پر تناؤ کی حالت میں نھيں رکھا جاسکتا؛ مسلح گروپوں کی جدائیوں اور تنازعات کا مقصد بحران کے حل کا راستہ روکنا ہے جبکہ مسئلہ حل کرنے میں رکاوٹیں ڈالنے کا مفھوم یہ ہے کہ جھڑپیں جاری رھیں، زیادہ سے زیادہ بےگناہ افراد موت کے بھینٹ چڑھیں، زیادہ سے زيادہ خرابی اور ویرانی شام پر مسلط ھو اور اس کے پڑوسی ممالک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔
جس محاذ کا پورا مقصد ھی شام کا نظام حکومت گرانا تھا اس نے سب کچھ کرکے دکھایا لیکن ناکام ھوا چنانچہ اب سیخ پا ہے اور اس مسئلے کے سیاسی حل کا راستہ روکنے پر پر تلا ھوا ہے۔
جنیوا 2 کانفرنس شام کے بحران سے متاثر ھونے والے ممالک و اقوام کے لئے راستہ کھول دے گی اور شام کے بحران کے سیاسی حل پر مثبت اثرات مرتب کرے گی۔ شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے سیاسی مذاکرات اور سیاسی راہ حل کو اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی حمایت حاصل ہے۔
دنیا اس مرحلے پر پھنچ چکی ہے کہ اب وہ سمجھ چکی ہے کہ شام کے بحران کا کوئی عسکری حل نھیں ہے اور واحد راہ حل سیاسی ہے اور سیاسی راہ حل کی شرط بھی یہ ہے کہ غیر مشروط مذاکرات کا سھارا لیا جائے۔
٭ جنگ کے میدان میں صورت حال شام کی فوج اور عوامی فورسز کے حق میں ہے وھی عوامی فورسزے جو سرکاری افواج کے دوش بدوش لڑ رھے ہیں۔
پوری دنیا شام کے مخالفین کو متحد کرنے کی کوشش کررھی ہے لیکن انھیں متحد نھيں کرپا رھی ہے۔


لبنانی مغویوں کی رھائی اور مشابہ موضوعات حل کرنے کی ضرورت
المنار، المیادین اور ایران کے "شبکہ خبر" چینلز سے براہ راست نشر ھونے والی تقریر میں سید حسن نصراللہ نے لبنانی مغویوں کی رھائی میں کردار ادا کرنے والے ممالک کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاھر کی کہ اسی طرح کے دوسرے مسائل بھی حل کئے جائیں اور اسیروں کی رھائی اور اپنے گھروں کو لوٹنے کا امکان فراھم کیا جائے۔
سید حسن نصر اللہ نے کھا:
اس موضوع سے قطع نظر، کہ یہ اسیر اغوا کئے گئے ہیں یا کسی اور روش سے اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، ھمیں امید ہے کہ ان کے موضوع پر بھی کام کیا جائے کیونکہ مذمت کرنے اور اعلامیہ جاری کرنے کا کوئی فائدہ نھیں ہے اور ھمیں عملی اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔
مجھے یاد ہے کہ اسی طرح کے ایک موضوع پر ھم نے بعض اداروں اور افراد نیز اس وقت کی اراکین حکومت سے مذاکرات کئے لیکن بعض لوگوں کی تخریبی کوششوں کی وجہ سے کوئی نتیجہ حاصل نہ ھوا حالانکہ اس طرح کے موضوعات انسانی حوالے سے قابل قدر ہیں اور واضح ھونا چاھئے کہ یہ لبنانی جو اغوا یا اسیر کئے گئے ہیں یا کسی بھی وجہ سے گرفتار ھوئے ہیں، کس حال میں ہیں؟ کیونکہ سیاسی و غیر سیاسی مسائل ھمارے اسیر شھریوں کا حال معلوم کرنے کی ذمہ داری کا ازالہ نھیں کرتے۔
جب مسافروں سے بھرا ایک بحری جھاز مختلف علاقوں میں ڈوب جاتا ہے ـ انڈونیشیا کے واقعے کی مانند ـ تو وہ ھمارے لئے اھم ھوتا ہے کہ ھم جان لیں کہ کیا ڈوبنے والے افراد کے درمیان ھمارے لبنانی ھم وطن یا حتی کہ فلسطینی باشندے ہیں جنھيں ھم وھاں سے وطن لوٹا دیں یا نھيں؟ ایسے کئی افراد ہیں جنھيں برسوں قبل سعد حداد اور آنتوان لحد نے اغوا کیا ہے اور ان کا انجام نامعلوم ہے اور اور ھمیں اب تحقیق کرکے جان لینا چاھئے کہ ان افراد کے ساتھ کیا برتاؤ رکھا گیا ہے اور وہ کھاں ہیں؟
تقریبا 8000 لبنانیوں، فلسطینیوں اور شامیوں کو اس طرح کی صورت حال کا سامنا ہے اور ایران کے چار سفارتکار ـ جنھیں برسوں قبل اغوا کیا گیا ہے ـ ایسی ھی صورت حال سے گذر رھے ہیں اور ان سب کا حال معلوم کرنے کی ذمہ داری صرف اسلامی مزاحمت تحریک پر عائد نھیں ھوتی بلکہ دوسروں کو بھی اس سلسلے میں مدد کرنی چاھئے۔
سابق وزیر اعظم سلیم الحصّ کی حکومت کے زمانے میں ایک کیس کا جائزہ لیا گیا لیکن نتیجہ خیز نہ تھا۔ بقاع کے علاقے سے اغوا کئے جانے والے شامی اور لبنانی بھائیوں کی صورت حال واضح کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے صبرو تحمل اور کیاست و درایت کی ضرورت ہے اور ھمیں اس سلسلے میں کوشش کرنی چاھئے۔
امام مزاحمت کی قسمت کا تعین کیا جانا چاھئے
جن مسائل کی طرف میں نے اشارہ کیا ان کے ساتھ ساتھ ایک بھت اھم اور حساس مسئلہ ہے جو لبنانیوں کی ایک بڑی تعداد کی فکرمندی کا سبب بنا ھوا ہے۔ جب ھمارے قیدی صھیونی ریاست کے اذیت کدوں سے رھا ھو کر واپس آرھے تھے، اور میں ان کی واپسی کے مناظر دیکھ رھا تھا، مجھے بھی تمام لبنانیوں کی طرح بھت اچھا محسوس ھورھا تھا اور آرزو کررھا تھا کہ اس مسئلے کا انجام بھی کچھ ایسا ھی ھو۔ جس کیس کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے وہ امام موسی صدر کی گمشدگی کا کیس ہے۔ میں امام مزاحمت کی بات کررھا ھوں۔ میں غربت و محرومیت کے خلاف جدوجھد اور صھیونی ریاست کے خلاف جدوجھد کے امام کی بات کررھا ھوں۔ ان کے کیس کی پیروی کی جانی چاھئے۔ اس کیس کا تعلق صرف تحریک مزاحمت یا کسی ایک فرقے یا گروہ اور جماعت کا مسئلہ نھيں ہے بلکہ پورے لبنان کا مسئلہ ہے۔ دوھری کوششوں کی ضرورت ہے اور اس کیس کے بوجھ کا کچھ حصہ حکومت کے کندھوں پر ھونا چاھئے۔ یہ مسئلہ ایک قومی مسئلہ ہے اور صرف اھل تشیع کا مسئلہ نھیں ہے۔
ھم نے گذشتہ کئی مھینوں سے لیبیا کی نئی حکومت سے بھی درخواست کی وہ زیادہ سے زیادہ کوشش کریں تا کہ امام موسی صدر کا مسئلہ واضح ھوجائے۔ اس سلسلے میں دو افراد ہیں جو جیل میں بند ہیں؛ عبداللہ سنوسی اور موسی کوسا۔ یہ دو افراد قذافی حکومت کے سیکورٹی حکام میں شمار ھوتے ہیں اور امام موسی صدر کے اغوا اور گمشدگی کے بارے میں مفید معلومات دے سکتے ہیں۔ یھاں لیبیائی حکومت اور سیاسی مسائل کا موضوع نھیں ہے بلکہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور علاقائی بحرانوں جیسے مسائل کی وجہ سے فراموشی کے سپرد نھیں ھونا چاھئے۔
حکومت اغوا کنندگان کا سراغ لگائے
حلب کے شھر اعزاز میں لبنانی مغویوں کی رھائی کے مسئلے کی تفصیلات آپ کو معلوم ہیں۔ ھم نے اسی دن سے اپنی کوششوں کا آغاز کیا جب اعزاز میں ھمارے ھم وطنوں کو اغوا کیا گیا اور الحمد للہ کہ ھم نے ان کی آزادی کو دیکھ لیا۔ البتہ مجھے کھنا چاھئے کہ ھمیں آج بھی معلوم نھيں ہے کہ کس تنظیم نے انھیں اغوا کیا تھا اور اغوا کنندگان کا تعلق کن ممالک سے تھا۔ ھمارے لئے یہ مسئلہ اھم نھیں تھا بلکہ اھم بات یہ تھی کہ ان افراد کی جانوں کا تحفظ ھو۔
میں لبنان کی حکومت سے مطالبہ کرتا ھوں کہ اس مسئلے کے مختلف پھلؤوں کا جائزہ لے اور تحقیقات کرے تا کہ واضح ھوجائے کہ کون لوگ ان افراد کے اغوا کاروں کی حمایت کررھے تھے اور کون سے ممالک ان کی حمایت کررھے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ھو۔ ھم کسی پر الزام نھيں لگانا چاھتے لیکن لبنانی عوام اور مغوی افراد کے خاندانوں کو یہ جاننے کی بجا توقع ہے کہ کہ یہ کام کن لوگوں نے کیا اور لبنان کے اندر سے کن لوگوں نے ان لوگوں کی رھائی کو ملتوی کرایا۔ بعض نقاب ہیں جنھیں ھٹنا چاھئے۔
حکومت شام کے زوال کا انتظار نہ کرو
شام کے مسئلے نے خطے اور لبنان پر کافی اثرات مرتب کئے ہیں اور کررھا ہے اور شام کا مسئلہ لبنان میں سیکورٹی، انسانی، معاشی اور سماجی شعبوں کو بلا واسطہ طور پر متاثر کئے ھوئے ہے۔ لبنان میں کچھ لوگ ہیں جو منتظر ہیں اور دیکھنا چاھتے ہیں کہ شام کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور ان لوگوں نے تمام مسائل کو شام کے مسئلے سے جوڑا ھوا ہے۔ وہ یہ دیکھنے کا انتظار کررھے ہیں کہ کیا شام کی حکومت گرتی ہے، اور حتی بعض لوگ تو ایسے واقعے کی آرزو کررھے ہیں تاکہ ان کے وھم کے مطابق محاذ مزآحمت کمزور پڑ جائے اور ان کو موقع فراھم کیا جائے۔
انھوں بار بار ھم پر الزام لگایا ھم نے لبنان میں سیاسی عمل میں خلل ڈالا ھوا ہے لیکن لبنانی عوام حقائق کو جانتے ہيں۔ وہ جانتے ہں کہ کن لوگوں نے پارلیمانی عمل کو معطل کررکھا ہے اور کس دھڑے نے حکومت کی تشکیل کے عمل میں خلل ڈالا ھوا ہے؟ ھم نے بار بار کھا ہے کہ ھمارے لئے لبنان میں حکومت اور اقتدار اھم نھيں ہے بس جو بھی منتخب ھوتا ہے اس کو کام کرنے دیں۔
شام کے بحران کا عسکری حل ممکن نھيں ہے
شام کے حالات ایک واضح سمت کی طرف جارھے ہیں۔ میدان جنگ کی صورت حال شامی افواج کے حق میں ہے اور مسلح گروپ میدان جنگ میں کوئی خاص سرگرمی نھيں دکھا سکے ہیں بس وہ جنیوا کانفرنس پر اثر انداز ھونا چاھتے ہیں۔ حتی کہ ان کے آپس میں بھی لڑائیاں ھوئی ہیں۔
مسلح گروپوں کی جنگ کی روشیں بدل گئی ہیں، شام کی اندرونی رائے عامہ اور دنیا کی رائے عامہ بدل چکی ہے، اور شام کی حکومت کے خلاف جو اتحاد قائم ھوا تھا اس وقت وجود نھيں رکھتا۔ مصر کے حالات بھی حکومت شام کے مخالفین کے حامی ممالک کے درمیان اختلافات کا سبب بنے ہیں اور حکومت شام کا تختہ الٹنے کا موضوع بھی ایجنڈے سے خارج ھوچکا ہے۔
المختصر سب اس نتیجے پر پھنچے ہیں کہ شام کے بحران کے خاتمے کا کوئی عسکری حل نھيں ہے اور قابل قبول راہ حل سیاسی راہ حل ہے اور یہ راہ حل غیر مشروط مذاکرات سے مشروط ہے۔
سعودی عرب ناراض ہے لیکن حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا
جنیوا 2 کانفرنس کے بارے میں قیاس آرائیاں بھت ہیں۔ یہ کانفرنس شام کے بحران کے خاتمے کے لئے ایک واضح حد نطر کا تعین کرسکتی ہے اور سب کو سیاسی راہ حل کی طرف بڑھنا پڑے گا۔
البتہ ایک ملک اس خطے میں ہے جو ان حالات سے بھت ناراض اور غیظ و غضب میں مبتلا ہے۔ یہ ملک سعودی عرب ہے۔ یہ ملک سیاسی راہ حل کا خیر مقدم نھیں کرتا۔ انھوں چیچنیا، قفقاز، اسلامی ممالک اور یورپی ممالک حتی کہ امریکہ سے ھزاروں جنگجو شام روانہ کئے ہیں اور انھیں ھتھیاروں سے لیس کیا ہے۔ وہ جو بھی کرسکتے ہیں کرچکے ہیں لیکن جو محاذ شام کے نظام حکومت کو گرانا چاھتا تھا اور اس سلسلے میں کسی بھی کوشش سے باز نہ رھا وہ ناکام ھوچکا ہے۔ ہم سب نے دیکھا کہ نتیجہ کیا ھوا۔
میں سعودی حکام سے کھنا چاھتا ھوں کہ علاقے کو آگے کے شعلوں میں جلانے سے باز رھو۔ اس خطے کو امن و سکون کی ضرورت ہے۔ اب بھی سعودی بادشاہ جنیوا 2 کانفرنس کی منسوخی کے درپے ہیں۔ وہ نئی تنظیموں کی تشکیل اور مختلف دعوؤں جیسے اقدامات کے ذریعے کانفرنس کے انعقاد کی راہ میں روڑے اٹکا رھے ہیں تاکہ شام مزید ویراں ھوجائے اور اس ملک اور پڑوسیوں کو مزید نقصانات کا سامنا کرنا پڑے۔
لیکن میری رائے کے مطابق بھتر یھی ہے کہ وہ بھی اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ کیونکہ ان کی موجودہ روش مستقبل یں ان کے مفاد میں نھیں ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ کون جنگ کا خاتمہ نھیں چاھتا؛ اور یہ سب خفیہ معلومات نھیں ہیں اور مکمل طور پر آشکار ہیں۔
حقائق کو تسلیم کرو اور عناد کو ترک کرو اور شام کی تعمیر نو کے راستے پر گامزن ھوجاؤ۔ یہ عالم عرب اور عالم اسلامی کی ذمہ داری ہے۔
مخالف لبنانی دھڑوں کو مشورہ
اگر المستقبل دھڑے (جس کو سعودی حمایت حاصل ہے) اور دوسرے مخالف دھڑوں کی تفسیر مختلف ہے اور کسی اور واقعے کے منتظر ہیں، تو یہ بحث ھی الگ ہے۔ لیکن انھيں جان لینا چاھئے کہ جو دھڑے ملک میں بدامنی پھیلاتے ہیں تو ان کے مخالف دھڑوں کی پوزیشن زيادہ بھتر ھوتی ہے۔
میں کسی کو دھمکی نھيں دینا چاھتا لیکن 14 مارچ گروپ (المستقبل دھڑے) کو نصیحت کرنا چاھتا ھوں۔ یہ ایک دوستانہ مشورہ ہے۔ میرے خیال میں اگر وہ بھی موجودہ واقعات کا بغور جائزہ لیں تو اپنا موقف بدل دیں گے۔ میں ان سے کھنا چاھتا ھوں کہ موقع ضائع نہ کریں۔ میں نے اس سے پھلے بھی ان سے کھا تھا کہ آپ نے 2005 بعض چیزوں سے دل خوش کر رکھا تھا جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نھیں تھا اور مسلسل ناکامیوں کا منہ دیکھا پڑا۔ اب بھی آپ نے حکومت شام کی سرنگونی سے دل خوش کئے بیٹھے ہیں اور کسی نتیجے پر نھیں پھنچ سکیں گے۔ آئیں اور لبنان کا مسئلہ لبنان میں حل کرنے دیں اور لبنان کے مختلف سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے مل کر کام کریں۔
آج لبنان کو نھایت حساس صورت حال کا سامنا ہے اور ملک کے بھت سے معاملات معطل ھوچکے ہیں اور سب اس صورت حال کو دیکھ رھے ہیں اور محسوس کررھے ہیں۔ ھم ایک عمومی معطلی کا سامنا کررھے ہیں کیونکہ مذاکرات کسی نتیجے پر نھیں پھنچ سکے ہیں۔ 14 مارچ دھڑے کا اس معطلی میں ھاتھ ہے کیونکہ وہ مذاکرات میں شریک نھیں ھوئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ نتیجہ کیا ھوا؟ عوام بھت سی عمومی خدمات سے محروم ھوچکے ہیں، حکومت تشکیل نھیں پاسکی ہے اور تمام معاملات بند پڑے ہیں۔
ھماری خواھش ہے کہ قومی گفتگو کا اھتمام کیا جائے اور پارلیمان میں ان مسائل پر بحث کی جائے اور انھیں حل کیا جائے جن پر عوام نے نظریں لگائی ھوئی ہیں اور ان کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ بجلی کا مسئلہ، ملازمین کے مسائل اور دوسری خدمات اور سروسز کے مسائل مذاکرات کے ذریعے قابل حل ہیں۔
ھمیں دو ممکنہ صورتوں کا سامنا ہے؛ ایک یہ کہ یھی صورت حال جاری رھے اور ملک کی اسی طرح چھٹی ھو اور اختلافات جاری رھیں لیکن کیا یہ صورت حال لبنان کے لئے مفید ہے؟
دوسرا امکان یہ ہے کہ ھم مذاکرات کا آغاز کریں۔ حتی ان ھی سابقہ مذاکرات کی بنیاد پر کابینہ تشکیل دیں اور یہ کابینہ ملکی امور کا انتظام سنبھالے۔
عقل و منطق کیا کھتی ہے؟ کیا اول الذکر فرض ـ جس کا مستقبل روشن نھيں ہے ـ کو مطمع نظر قرار دیں؟ اگر ھم ذمہ داری سے دیکھیں تو کس نتیجے پر پھنچیں گے؟
اگر چودہ مارچ دھڑا قوم پرستی کا دعویدار ہے اور اس نے خود ھی مذاکرات کا عمل معطل کردیا ہے تو اب اس کو قدم آگے بڑھانا چاھئے تاکہ حکومت تشکیل پائے۔
اس وقت حالات مناسب نھيں ہیں اور حتی حکومت جو اخراجات اٹھا رھی ہے وہ قانونی نھیں ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں کوئی قانون بنائیں تو یہ عمومی قانون نھيں ہے کیونکہ حکومت کو ملکی آئین اور پارلیمان کے منظور کردہ قوانین کے تحت کام کرنا چاھئے۔
میری معلومات کے مطابق موجودہ وزراء بھی میری اس تجویز سے اتفاق کرتے ہیں اور جناب صدر بھی متفق ہیں؛ لیکن وزیر اعظم کو روز اول سے نھایت شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رھا ہے جس کی وجہ سے وہ مستعفی ھوئے۔ ان کی بھت زیادہ بےحرمتی کی گئی اور ھم سب جانتے ہیں کہ آل سعود اور المسقبل دھڑے نے ان پر بھت زيادہ دباؤ ڈالا اور نتیجہ وہ ھوا جو نھیں ھونا چاھئے تھا۔
میں جناب صدر اور وزراء سے اپیل کرتا ھوں کہ اپنے اجلاس منعقد کریں اور سیاسی دھڑے لبنان اور لبنانی عوام پر رحم کریں اور حکومت تشکیل پانے دیں۔
دو اھم کیسز
ھمارے سامنے دو اھم کیسزم ہیں اور ھم تیل اور لبنان کی قومی دولت کے بارے میں غیر مشروط مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ صھیونی ریاست عرصہ دراز سے ھمارے تیل کے ذخائر لوٹ رھی ہے اور ھمیں خیال رکھنا چاھئے۔ لبنانیوں کا حق ضائع ھورھا ہے۔
دوسرا اھم کیس ملکی سلامتی سے تعلق رکھتا ہے۔ امن و امان کا مسئلہ صرف طرابلس تک محدود نھيں ہے اور مشکل کے حل کے لئے تعاون اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ فوج کو امن و امان کا مسئلہ اپنے ھاتھ میں لینا چاھئے اور اس کو طرابلس اور اس کے نواح میں تعینات ھونا چاھئے۔ فوج کو اس کی اجازت دینی چاھئے اور فوج کو اختیار ھونا چاھئے کہ ھر جگہ موجود ھو اور امن و امان قائم کرے دوسرا کوئی راستہ بھی قابل تصور نھيں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری فورسز اور فوج میدان میں آجائے نہ کہ داعش اور النصرہ کو لایا جائے؛ وہ کیونکہ ھمارے ملک میں امن قائم کرسکتے ہیں؟ انھوں نے کھاں امن قائم کیا ہے؟ وہ تو جھاں بھی گئے ہیں وھاں بدامنی اور جنگ و جدل کا دور دورہ ہے۔
سب کی ذمہ داری ہے کہ طرابلس میں امن کے قیام میں مدد دیں۔ علماء عوام کو ھدایت دیں کہ فوج کا احترام کریں تا کہ بدامنیوں کا خاتمہ ھو۔ یہ بات واضح ھونی چاھئے کہ بم دھماکے کس نے کرائے ہیں۔ وہ وھاں عوام پر حملے کرتے ہیں اور جھگڑتے ہیں۔ ان کی شناخت ھونی چاھئے اور انھیں سزا ملنی چاھئے۔ واضح ھونا چاھئے کہ پس پردہ قوتیں کون ہيں اور دھشت گردی کی پشت پناھی کون کررھا ہے۔
 

Add comment


Security code
Refresh