فروشگاه اینترنتی هندیا بوتیک
آج: Wednesday, 12 February 2025

www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

دوسروں کے لئے جمھوریت کے نام پر دھشت گردی کا تحفہ، اپنوں کے لئے ظلم و جبر؛ سعودی دارالحکومت میں ایک وھابی عدالت نے

 اپنی پانچ سالہ بچی کو درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کرنے والے مجرم وھابی مبلغ کو آٹھ سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ گوکہ وھابی مفتی ناصر العمر، نے حال ھی میں شامی دھشت گردوں کی جنسی تشفی کے لئے محارم سے نکاح کا فتوی دیا تھا۔
ایک سعودی مبلغ "شیخ فیحان الغامدی" پر اپنی کم سن بچی "لمی" پر تشدد کرنے، اس کو جنسی درندگی کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا اور ریاض کی ایک عدالت میں شواھد اور ثبوتوں سے اس کا جرم ثابت بھی ھوا لیکن وھابی عدالت نے اس شخص کو آٹھ سال قید، 270 ھزار ریال جرمانہ اور 800 کوڑوں کی سزا سنائی ہے۔
الغامدی قبل ازیں وھابی دین کی تبلیغ کرنے والے ٹی وی چینلوں پر "دینی ماھر" کی حیثیت سے مختلف پروگراموں میں شرکت کرتا رھا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس وھابی مولوی و مبلغ کی دوسری بیوی کو بھی جرم میں معاونت کے الزام میں مجرم قرار دیتے ھوئے 10 مھینے جیل اور 150 کوڑوں کی سزا سنائی ہے۔ اتنے عظیم اور غیرانسانی جرم کے لئے سزا میں اتنی تخفیف کے باوجود مجرم کے وکیل نے کھا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ ناقابل قبول ہے اور وہ عنقریب اس فیصلے کے خلاف اعلی عدالت میں اپیل دائر کرے گا۔
پانچ سالہ بچی "لمی الغامدی" 25 دسمبر 2011 کو ایسے حال میں اسپتال پھنچایا گیا کہ اس کی کھوپڑی ٹوٹی ھوئی تھی اور ھاتھوں سمیت بدن کی دوسری کئی ھڈیوں کو توڑ دیا گیا تھا۔ اس مسئلے کو کچھ عرصہ صیغہ راز میں رکھنے کے بعد فروری 2013 میں قانونی ذرائع نے اعلان کیا کہ اس بچی کے بدن کے کچھ حصے جلا دیئے گئے تھے اور اس کا ایک ناخن بھی کھینچ لیا گیا تھا۔
اسپتال کے سماجی شعبے کی رکن "رندا الکلیب" نے کھا ہے کہ اس بچی کو جنسی آزار و اذیت کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
لمی الغامدی 22 اکتوبر 2012 تک اسپتال میں زیر علاج رھنے کے بعد چل بسی۔
بعض سوشل نیٹ ورکس پر سعودی صارفین نے سعودی عدالت کے اس فیصلے کو مذاق کا نشانہ بنایا ہے اور اور کا موازنہ "علی رائف" کے خلاف سعودی عدالتی فیصلے سے کیا ہے جس پر سائبر قوانین کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا اور اس کو سات سال قید اور 600 کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔
محارم یا محرم عورتوں ـ جیسے ماں، بھن، خالہ، پھوپھی، دادی، نانی، بیٹی، نواسی، پوتی، بھتیجی، بھانجی، جن سے نکاح کرنا حرام ہے ـ اگر زنا کیا جائے تو اس کی سزا بعض فقھاء کی رائے میں "پھانسی' ہے لیکن بعض فقھاء احادیث کے متن کے مطابق، اس کی سزا یہ ہے کہ اس کا سر تلوار کے ایک وار سے قلم کیا جائے اور اگر تلوار کا وار سھہ لے اور زندہ رھے تو اس کو جیل میں بند رکھا جائے حتی کہ وہ مرجائے۔ اور احتیاط یہ ہے کہ اس مؤخرالذکر حکم کی پابندی کی جائے۔ زنائے بالجبر کی سزا بھی ایسی ھی ہے۔
تاھم وھابی دین ميں نئے فتاوی کا ظھور پذیر ھونا آج کے زمانے میں معمول بن چکا ہے جن میں محمد العریفی کی طرف سے جھاد النکاح نامی فحاشی کا جواز، جو سینکڑوں افراد کو یکے بعد از دیگرے ایک خاتون کے ساتھ جسمانی تعلق کا جواز دیتا ہے اور اللہ اکبر کھہ کر کسی کو بھی کسی سے تعلق بنانے کی اجازت ملتی ہے جس میں شادی شدہ یا غیر شادی شدہ عورت کی شرط بھی نھیں ہے اور عدت بھی واجب نھیں ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس میں نکاح کا صیغہ جاری کرنے کے بجائے مرد اللہ اکبر کھتا ہے اور ۔۔۔ اور پھر اس سے بڑھ کر دوسرا فتوی شیخ ناصر العمر نے فتوی دیا اور کھا کہ اگر نامحرم عورتیں دستیاب نہ ھوں تو حکومت شام کے خلاف لڑنے والے دھشت گرد اپنی محارم کے ساتھ بھی نکاح کرسکتے ہیں اور باقی تمام بڑے اور چھوٹے وھابی مفتیوں نے خاموشی اختیار کرکے ان دو فتووں کی تائید کی ہے چنانچہ یھاں بھی عدالت کے جج عام طور پر وھابی مولوی ھی ھوتے جن کے ھاں محرم خواتین کی حرمت واضح و آشکار ہے اور وہ محارم کے ساتھ زنا کرنے اور پھر انھیں قتل کرنے کی سزا کی اسلامی حد تک کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ یہ ہے دین سے انحراف اور اپنی رائے کو اسلام قرار دینے اور نفس پرستی و صاحبان اقتدار کی حاشیہ نشینی کا نتیجہ۔
قابل ذکر ہے کہ حال ھی میں سعودی عرب ھی کے ایک شیخ سلیمان ناصر العلوان کو 15 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جس نے ایسا کوئی عمل انجام نھیں دیا تھا اور اس نے الغامدی جیسوں کی طرح اسلام کی مسلمہ حدود کو پامال نھیں کیا تھا بلکہ آل سعود اور آل عبدالوھاب (آل الشیخ) کی عدالت نے ان پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے قیدیوں کے گھرانوں سے رابطے کئے اور ملاقاتیں کی ہیں اور موقف اپنایا ہے کہ سعودی قاضی (جج) حکمرانوں کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت پر ترجیح دیتے ہیں۔
سعودی عرب میں عوام کو کچھ سوچنے اور بولنے کی اجازت نھیں ھوتی لیکن اس کے باوجود سعودی عوام جس قدر الغامدی کو سنائی جانے والی سزا پر متاسف ہیں اتنے ھی العلوان کو سنائی دینے والی سزا پر معترض ہیں۔
شیخ العلوان نے بھی عدالتی کاروائی کے وقت کھا ہے کہ جو عدالت ان پر مقدمہ چلانے کے لئے قائم کی گئی ہے وہ شرعی اور قانونی حیثیت نھيں رکھتی؛ اور یوں انھوں نے اپ اپنے کو سنائی جانے والی سزا کی شرعی اور قانونی حیثیت کو چیلنج کیا اور کھا کہ ان کا مقدمہ اور عدالتی کاروائی ایک کھیل سے زيادہ کجھ نہ تھی جس کے کھلاڑی قاضی تھے اور انھوں نے یھاں ایک میلہ جمایا اور نمائش لگائی۔
 

Add comment


Security code
Refresh