جولائی کے مھینے میں فوج کے ھاتھوں محمد مرسی کو صدر کے عھدے سے برطرف کئے جانے کے بعد سے مصر میں
سینکڑوں اسلام پسند مظاھرین مارے جا چکے ہیں۔
گذشتہ دو ماہ کے دوران اخوان المسلمین کے ھزاروں اراکین کو حراست میں لیا گیا ہے۔ محمد مرسی کے ھزاروں کی تعداد میں حامی گلیوں میں نکل آئے اور تحریر اسکوائر کی جانب جانے کی کوشش کی اور جنرل السیسی کو قاتل پکارتے رھے۔
سکیورٹی فورسز نے ان کو روکنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا اور ھوائی فائرنگ کی۔ بعض مظاھرین گولیوں کا نشانہ بنے، جس کے جواب میں مظاھرین نے پولیس اور فوج پر پتھراؤ کیا۔ قاھرہ کی گلیوں میں گھنٹوں تک لڑائی جاری رھی۔ اس سے پھلے وزارتِ داخلہ نے خبردار کیا تھا کہ 6 اکتوبر کو ھونے والی تقریبات کو خراب کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔
عرب اسرائیل جنگ کی یاد کے دن کے موقع پر سینکڑوں افراد تحریر اسکوائر میں جمع ھوئے۔ حکومت کی طرف سے 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کی یاد میں دن منانے کے موقع پر سابق صدر محمد مرسی کے حامیوں نے ملک کے مختلف شھروں میں جلوس نکالے۔ دوسری جانب مصری حکومت نے فوجی ساز و سامان کی ایک بڑی نمائش لگائی۔ وھاں موجود ھجوم نے پرجوش انداز سے جھازوں کی پریڈ کا جواب دیا۔ ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں عبوری وزیرِاعظم نے مصری عوام پر زور دیتے ھوئے کھا کہ ملک ایک نازک دور سے گزر رھا ہے، جس کے لیے مصری عوام کو ایک ساتھ کھڑے ھونا چاھیے اور مستقبل کے بارے میں پرامید رھنا چاھیے۔
مصر میں معزول صدر مرسی کے حامیوں اور فوج کے درمیان جھڑپوں میں 51 افراد ھلاک اور250 زخمی ھوئے جبکہ423 افراد کو گرفتارکر لیا گیا۔
یہ بات اب کسی پر پوشیدہ نھیں رھی کہ عالم اسلام کو مشکلات اور بحران سے دوچار کرنے میں امریکہ کا ھاتھ نمایاں ہے اور مسلمانوں کے تمام مصائب کا ذمہ دار بھی امریکہ ہے۔ لیکن اس بات کو ھرگز فراموش نھیں کرنا چاھیے کہ امریکہ تنھا یہ کام نھیں کرسکتا اور اسے کچھ ایسی قوتوں کی حمایت اور تعاون حاصل ہے کہ جو عام طور پر لوگوں کی نظروں سے اوجھل رھتی ہیں۔
افغانستان، پاکستان، عراق، یمن، بحرین،شام اورمصرمیں امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے ملک کی حثیت سے سعودی عرب کا کردار اتنا عیاں ھو گیا ہے کہ کچھ کھنے کی ضرورت ھی نھیں رہ جاتی۔ بحرین اور یمن میں تو آل سعود مردہ باد کے نعرے گونجتے رھے ہیں، اب مصر میں بھی لوگ سعودی عرب کے سفارتخانے کے باھر اجتماع کر کے سعودی سفارتخانے کے ساتھ اسرائیلی سفارتخانے والا رویہ اختیار کرنے کا عزم ظاھر کر رھے ہیں۔
آل سعود دراصل عالم اسلام میں نفاق اور افتراق کا ھدف لیکر ھی وجود میں آئے تھے اور اس خطے میں برطانوی سامراج کی مدد سے خاندان آل رشید کا خاتمہ کرنے کے بعد سے آج تک، اسی منحوس پالیسی پر کار بند ہیں۔
طالبان اور القاعدہ کی بھرپور حمایت اور مدد کے باوجود سعودی عرب کے امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات اعلٰی سطح پر قائم ہیں، جبکہ اسی حمایت کی عالم اسلام کو آج تک سزا دی جا رھی ہے۔ اسی بات سے آل سعود کے نفاق آمیز پالسیوں کا اندزہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں ذرہ برابر شک نھیں کہ اگر آج سعودی عرب میں آل سعود کا خاتمہ ھو جائے تو مسلمانوں کے درمیان بھت سے مسائل اور اختلافات آن واحد میں ختم ھو جائیں۔
خطے کی انقلابی تحریکوں اور ممالک سے متعلق سعودی عرب کے اقدامات اور موقف سے اس بات کی نشاندھی ھوتی ہے کہ اس وقت سعودی عرب ان تمام ممالک پر دباؤ ڈالنے کے سلسلے میں امریکہ کا آلۂ کار بن چکا ہے جن کو واشنگٹن اپنا دشمن جانتا ہے، یا جن ممالک میں امریکہ کے مفادات خطرے میں ہیں۔ سعودی عرب نے خطے کے عرب ممالک میں جاری انقلابی تحریکوں کو کچلنے کے لئے ان ممالک کے حکام کو بے تحاشا دولت سے نوازا ہے، لیکن شام کے سلسلے میں اس نے ایسا نھیں کیا ہے۔
ریاض نے دوحہ کے ساتھ مل کر شام کے عوام کی حمایت کے بھانے اس ملک کے خلاف دشمنی کا پرچم اٹھا رکھا ہے اور امریکہ کی ھاں میں ھاں ملاتے ھوئے شام کے صدر بشار اسد کی حکومت کے ساتھ دشمنی کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے اور جھاں تک عراق کا تعلق ہے تو سعودی عرب عراق کی عدالت اور پولیس کو مطلوب اس ملک کے نائب صدر طارق الھاشمی کو پناہ دے کر بغداد حکومت کو کمزور کرنے کے درپے ہے۔ طارق الھاشمی پر دھشتگردانہ واقعات میں ملوث ھونےکے الزام میں بغداد میں مقدمہ چلنا چاھۓ، لیکن سعودی عرب، قطر اور ترکی اسے عراقی حکومت کے خلاف استعمال کرنا چاھتے ہیں۔
سعودی عرب اس وقت معزول ڈکٹیٹروں کی پناہ گاہ بن چکا ہے۔ تیونس کا ڈکٹیٹر گزشتہ ایک برس سے سعودی عرب میں پناہ لئے ھوئے ہے۔ ریاض نے یمن کے معزول ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح کی میزبانی کے لئے بھی اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ بحرین میں بھی سعودی عرب آل خلیفہ کی حمایت کے ذریعے عملی طور پر عوامی انقلاب کا مقابلہ کر رھا ہے۔ بحرینی عوام کے قتل عام کے سلسلے میں سعودی عرب کے فوجیوں کی جانب سے آل خلیفہ کے فوجیوں کا ساتھ دیئے جانے سے یہ بات ثابت ھو جاتی ہے کہ ریاض بدستور خطے میں ڈکٹیٹروں اور ڈکٹیٹر حکومتوں کی حمایت کر رھا ہے۔
اس وقت مصر بھی سعودی عرب کی سازشوں کی زد میں ہے حالانکہ سعودی عرب کے حکام خود اپنے ملک کے حالات سے بے خبر ہیں جھاں لاکھوں افراد نے آل سعود کی حکومت کے خلاف جاری جدوجھد کی حمایت کی ہے۔ آل سعود حکومت کے خلاف تحریک کہ جو انٹرنیٹ پر " ھماری تنخواھیں کافی نھیں ہیں" کے نام سے شروع ھو چکی ہے۔ اس تحریک میں سعودی عرب کے ایک کروڑ اسی لاکھ افراد نے آل سعود کے خلاف اس جدوجھد کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس انٹرنیٹ تحریک میں حصہ لینے والے شھریوں نے آل سعود حکومت کی اقتصادی پالیسیوں اور عوام کی معاشی مشکلات پر شدید نکتہ چینی کی ہے اور اس صورتحال پر اپنی تشویش کا اظھار کیا ہے۔
سعودی عرب دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس ملک کی اکثریت غربت کا شکار ہیں اور لوگوں کی قوت خرید بھت ھی کم ھو گئی ہے۔ ادھر سعودی عرب کے شھر ریاض میں شیعہ عالم دین شیخ سلمان العلوان کو سزا سنائے جانے کے خلاف سینکڑوں افراد نے مظاھرے کئے اور انکی رھائی کا مطالبہ کیا ہے۔ شیخ سلمان العلوان کو سن 2004 میں گرفتار کر کے جیل کے قید تنھائی میں رکھا گیا تھا اور اس مدت میں ان کو ان کے اھل خانہ سے ملنے کی بھی اجازت نھیں تھی۔ جب سے سعودی عرب میں متعصب فرقہ وھابیت نے اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں، عالم اسلام بھت سے تلخ اور ناگوار واقعات کا شاھد رھا ہے۔ یہ منحرف اور متعصب فرقہ سعودی عرب کے تیل کی دولت اور مغربی ممالک کے مستکبرین کی حمایت کے نتیجہ میں پھیلا ہے۔
دوسرے ممالک کے امور میں آل سعود کی واضح مداخلت کے سبب ھی بحرین، شام ،عراق اور مصر کے حالات کشیدہ ھو گئے اور سعودی عرب ان ممالک میں مزید جلتی پر تیل کا کردار ادا کر رھا ہے، شاید یھی وجہ ہے کہ مصری معاشرہ محمد مرسی کے خلاف مصری فوج کے کودتا اور مرسی کی قانونی حکومت کی برطرفی کے بعد شدید دھڑے بندی کا شکار ھوکر رہ گيا ہے جس کے نتیجے میں اب تک سینکڑوں افراد ھلاک اور زخمی ھوچکے ہیں۔