ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم ماھاتیر محمد نے انتھائی تعجب خیز بیان دیتے ھوئے کھا ہے کہ ملائیشیا میں شیعت کی تعلیم پر
پابندی عائد کی جانا چاھیے۔ ماھاتیر محمد کا یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ اس ملک میں مکتب اھلبیت (ع) کے پھیلنے سے خوفزدہ ہیں۔
ملائیشیا میں شیعہ مخالف کاروائیاں روز بروز بڑھتی جا رھی ہیں۔ اس ملک کے سابق وزیر اعظم نے انتھائی تعجب خیز بیان دیتے ھوئے کھا ہے کہ ملائیشیا میں شیعت کی تعلیم پر پابندی عائد کی جانا چاھیے۔ ماھاتیر محمد کا یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ اس ملک میں مکتب اھلبیت (ع) کے پھیلنے سے خوفزدہ ہیں۔
ملائیشیا کے سابق وزیر ماھاتیر محمد جو اس وقت عالمی امن فاؤنڈیشن Pradana کے صدر ہیں نے اس ملک میں مکتب تشیع کی تعلیمات کو مسلمانوں کے اندر اختلاف کا سبب قرار دیا اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ یہ چیز سماج کے بکھرنے کا باعث بنے گی !!!
انھوں نے نامہ نگاروں سے گفتگو میں کہ: ملک میں شیعہ اور سنی تعلیمات کا الگ الگ پایا جانا مسلمانوں کے درمیان دشمنی ایجاد کرتا ہے اور ھم نھیں چاھتے کہ ھمارے ملک میں ایسا ھو۔
ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم نے کھا: میں یہ نھیں کھتا ھوں کہ شیعہ مذھب غلط ہے یا سنی مذھب صحیح ہے۔ مذھبی تفسیریں اس قدر مختلف نھیں ھونا چاھئیں کہ خونریزی اور فساد کا باعث بنیں۔
ماھاتیر محمد نے ملائیشیا میں سنی تعلیمات کو سعادتمندی کا سرمایہ قرار دیتے ھوئے کھا کہ اب شیعہ تعلیمات بعض جگھوں پر رواج پیدا کر رھی ہیں جو پریشانی کا باعث ہے۔
عالمی امن فاؤنڈیشن Pradana کے صدر نے ملائیشیا میں شیعت کی تعلیمات کو جنگ و نزاع کی چنگاری کا عنوان دیتے ھوئے دعویٰ کیا ہے کہ ممکن ہے بات یھاں تک پھنچ جائے کہ شیعہ اپنی مساجد الگ بنائیں اور سنی الگ بنائیں جو اس ملک میں شیعہ سنی نزاع کا موجب بنے۔
ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم نے ان ایرانی شیعوں کی طرف جو ملائیشیا رفت و آمد رکھتے ہیں اشارہ کرتے ہوئے کھا: اگر ایرانی ایران میں مذھب تشیع کے پابند ہیں تو ھمیں ان پر کوئی اعتراض نھیں ہے لیکن اگر وہ ھمارے ملک میں آتے ہیں تو برائے مھربانی ھمیں اذیت نہ کریں!
یقینا ملائیشیا کے اس ذمہ دار شخص کے اس قسم کے بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ ملائیشیا کے لوگوں کے شیعت کی طرف مائل ھونے اور اس ملک میں شیعت کے کثرت سے پھیل جانے سے سخت خوفزدہ ہیں۔
ایسی باتیں اگر ملائیشیا کا کوئی دوسرا عھدہ دار کرتا تو اس پر تعجب نہ ھوتا لیکن ماھاتیر محمد جو عالمی امن فاونڈیشن کے صدر ہیں کے منہ سے اس طرح کی باتیں قابل تعجب ہیں چونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ تعلیمات تشیع نے کبھی بھی کسی جگہ فتنہ و فساد کی آگ نھیں لگائی ہے مکتب اہلبیت(ع) کی تعلیمات تو امن و شانتی اور انسان دوستی کا پیغام دیتی ہیں جبکہ مسلمانوں کے دیگر فرقے خاص طور پر وھابیت قتل و غارت، فتنہ و فساد اور مسلمان کشی جیسے کارنامے انجام دینے میں سر فھرست ہیں۔
اگر ماھاتیر محمد کے پاس کھنے کے لیے کوئی منطقی بات ہے تو وہ دلیل سے ثابت کریں اور بتائیں کہ کھاں تعلیمات تشیع نے نفرت کا بیج بویا ہے اور کھاں ایرانی شیعوں نے انھیں اذیت و آزار دی ہے؟ آج کے دور میں کوئی کسی پر اس حوالے سے پابندی نھیں عائد کر سکتا کہ وہ کس مذھب کا پابند رھے۔ حقیقت طلب جوان جو اسلام ناب کے متلاشی ہیں وہ خود بخود راہ حق کی طرف کھچے چلے آئیں گے اور کوئی انھیں روک نھیں سکے گا۔