آل سعود نے اپنی قسمت صھیونی ریاست سے جوڑ رکھی ہے چنانچہ ایران اور امریکہ کے درمیان تناؤ کم ھونے کا امکان سامنے آنے کی
بنا پر آل سعود کی حکومت بھی صھیونی ریاست کی طرح تشویش میں مبتلا ہے۔
بعض مغربی اور اسرائیلی نیز عرب سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی بحالی کا امکان سامنے آنے کی وجہ سے علاقے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا اور اگر امریکہ ایران کو رعایتیں دے تو یہ صورت حال سعودی عرب اور اسرائیل کی تشویش کا سبب ھوگی۔ اور وہ دونوں اس سلسلے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
آل سعود اور اسرائیل کو تشویش ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان تناؤ کم ھونے کی صورت میں ایران کے موقف کو تقویت ملے گی اور یہ ان کے مفاد کے خلاف ہے۔
ادھر امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل" میں ایک مضمون کے ضمن میں "جی سالومن" نے کھا کہ سعودی عرب کی آج تک کوشش رھی ہے کہ مشرق وسطی اور ایشیا کی مسلمانوں کو ایک غیر رسمی اور غیر اعلانیہ محاذ کے طور پر ایران کے خلاف منظم کرے جس کی وجہ سے بعض امریکی حکام عالم عرب میں فرقہ واریت کی نئی لھر کے امکان کی بنا پر، فکرمند ھوگئے ہیں۔ آل سعود کے حکام کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان، ملائشیا اور انڈونیشیا سے قریب تر ھوجائیں اور ان سفارتی اور عسکری مدد سے بحرین میں اقلیتی حکام کے خلاف اکثریتی شیعہ آبادی کی تحریک کے شعلے بجھا سکیں۔
سالومن کے بقول بحرین کے انقلاب میں عرب حکمران عوام کی حمایت کرنے کے بجائے ان کے خلاف آل خلیفہ کا ساتھ دے رھے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے وہ ایسا کرکے ایران کا مقابلہ کررھے ہیں۔
سالومن لکھتے ہیں: گوکہ آل سعود کی کوششیں ایران کے خلاف ہیں جو امریکہ اور آل سعود کا مشترکہ دشمن ہے لیکن اس کی وجہ سے آل سعود اور اوباما انتظامیہ کے درمیان اختلافات پیدا ھوئے ہیں۔ کیونکہ جب سعودی عرب پاکستان کو مشرق وسطی میں کردار ادا کرنے کی دعوت دیتا ہے تو اس کے نتیجے میں جنوب ایشیا میں امریکی مفادات کو نقصان پھنچ سکتا ہے اور سعودی کوششیں مشرق وسطی کے پرتناؤ حالات کو ایک پرامن نتیجے کی طرف لے جانے کی امریکی کوششوں کے لئے خطرناک ہے۔
بعض پاکستانی حکام کے مطابق، بندر بن سلطان نے مارچ 2013 میں بعض طاقتور پاکستانی جرنیلوں سے درخواست کی تھی کہ وہ بحرین میں آل سعود کی کاروائیوں کی مدد کریں۔
ان حکام کا کھنا تھا کہ بندر نے پاکستانی جرنیلوں سے کھا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں امن قائم کرنے یا جنوبی ایشیا میں پاکستان کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے امریکی وعدوں کو اھمیت نہ دیں ورنہ سعودی عرب سے متعلق امریکی عھدیداروں نے بھی امریکی پالیسیوں سے آل سعود کی مایوسی کی تائید کرچکے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ امریکہ اور آل سعود کے درمیان تعلقات میں آنے والی خرابیوں کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔
آل سعود نے 1990 سے 2003 تک عراق کے خلاف امریکہ کی مدد کی تھی لیکن وہ صدام حکومت کے خاتمے کے خلاف تھے اور صدام کو ایران کے مقابلے میں مستحکم مورچہ سمجھتے تھے لیکن امریکہ نے اس کی حکومت کا خاتمہ کردیا اور جب سے اوباما برسراقتدار ہيں آل سعود نے ایران کے ساتھ امریکہ کے طرز سلوک کو ھمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا ہے اور ان کا خیال تھا کہ اوباما ایران کے ساتھ سفارتی تعامل کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
سنہ 2009 میں آل سعود نے ایران کا مقابلہ کرنے کے بھانے شمالی یمن پر حملہ کیا اور ایک نئی پراکسی وار شروع کرنے کا عزم کیا لیکن ایک طرف سے حوثیوں نے آل سعود کے دانٹ کھٹے کردیئے اور سعودی افواج کو لینے کے دینے پڑگئے اور دوسری طرف سے اوباما انتظامیہ نے اعلان کیا کہ انھیں شمالی یمن میں ایران کی کردار کا کوئی ثبوت نھیں ملا ہے۔
آل سعود جو مصر کے سابق حکمران حسنی مبارک کی سرنگونی کے سلسلے میں امریکہ سے شکایت کررھا تھا اس وقت مرسی حکومت کے خاتمے کے بعد مصر کے حوالے سے اب سکھ کا سانس لے رھے ہیں اور مرسی حکومت کے خاتمے کے بعد آل سعود کی حکومت نے سب سے پھلے نئی حکومت کو مبارک باد کا پیغام دیا۔
سعودی حکمران مرسی اور ایران کے درمیان دوستانہ تعلقات کے قیام سے فکرمند تھے گوکہ مرسی حکومت نے آل سعود، آل صھیون اور امریکہ سے عملی اظھار عقیدت کی غرض سے ایران کے ساتھ تعلقات مزید خراب کرنے کی وسیع کوششیں کیں لیکن وہ پھر بھی اخوانی تھے اور شاہ عبداللہ کے ھاتھ چومنے اور شمعون پیرز کو ذلیلانہ پیغات دینے اور امریکہ کی خواھشات کو محترم قرار دینے کے باوجود ان کے نزدیک لائق اعتماد نہ ٹھہر سکے اور اس وقت نہ صرف وہ خود جیل می ہیں بلکہ انقلاب مصر بھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
ادھر سالومن کے مطابق سعودی عرب اور ایران دو الگ الگ کیمپوں کے طور پر ایک دوسرے کا مقابلہ کررھے ہیں۔ ایران حکومت شام ، لبنانی حزب اللہ اور فلسطینی حماس کی حمایت کررھا ہے اور یہ تینوں اسرائیل کے شدید ترین دشمن ہیں جبکہ خلیج فارس کی عرب ریاستیں، مصر اور مراکش آل سعود کے حامی ہیں اور آل سعود شام میں دھشت گرد مسلح افراد، فلسطین میں اسرائيل کو تسلیم کرنے والے فتح گروپ اور ابو مازن کی حمایت کررھے ہيں جن کے مفادات کسی طور بھی اسرائیلی مفادات سے متصادم نھيں ہیں۔