www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

صھیونی اخبار نے اعتراف کیا ہے کہ ایران کی حالیہ سفارتکاری سبب ھوئی ہے کہ اب کوئی بھی ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں

 صھیونی وزیر اعظم کی "پیشنگوئیوں" پر یقین نھیں کرے گا۔
امریکی یھودیوں کی ایکزیکٹو کمیٹی کے ڈائریکٹر "ڈیویڈ ھیریس" نے یونانی افسانے "کاساندرا" کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں کاساندرا پر جادو کیا جاتا اور اس کے بعد اس کی پیشنگوئی پر کوئی یقین نھیں کرتا تھا، اور لکھا ہے: اب اسرائیلی ریاست کی صورت حال کاساندرا سے بھتر نھیں ہے اور ایران ٹرووا کے گھوڑے کی مانند مغرب میں نفوذ کرچکا ہے۔
ھیریس نے لکھا ہے: اسرائیل قبل ازیں توجھات کو ایرانی ایٹمی پروگرام کے "خطرے" پر مرکوز کرنے میں کامیاب ھوچکا تھا لیکن آج ایران کی عمومی سفارتکاری میں نئے چھرے موجود ہیں جو ایران کی سابقہ عالمی خاکہ کشی کے برعکس، مسائل کو پیچیدہ بنا رھے ہیں؛ اب یہ روحانی اور ظریف ہیں جو کام کررھے ہيں جو انگریزی پر عبور رکھتے ہیں اور بین الاقوامی فورموں میں حاضر ھوتے ہیں اور سفارتی میراتھن ریس میں دنیا کو ذمہ داری تسلیم کرنے، کھلے تعامل اور اعتدال کا پیغام دے رھے ہیں۔
ھیریس نے لکھا ہے: اس میں شک نھيں ہے کہ ایرانیوں کو یقین ہے کہ مغرب ایران کا مقابلہ کرنے کا شوق نھیں رکھتا اور ایران کے ساتھ عسکری کشمکش کے خطرے سے دور بھاگتا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا کرے تو تنھا رہ جائے گا نیست و نابود ھوجائے گا۔
واضح رھے کہ اسلامی جمھوریہ ایران کی کامیاب سفارتکاری نے نہ صرف حال ھی میں شام کو امریکی حملے سے بچایا بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر بھی ایران کی سفارتکاری نے دشمنوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
ھاآرتص نے لکھا ہے کہ ایران کی سفارتکاری اور دنیا کا اس بات پر قائل ھونا، کہ مذاکرات کا عمل نئے سرے سے شروع ھونا چاھئے، ایران کی کامیابی ہے جبکہ اسرائیل تنھا رہ گیا ہے۔
ھاآرتص نے لکھا ہے ایران اور مغربی ممالک ایک دوسرے سے قریب تر ھونے کی کوششیں کررھے ہیں؛ ایران اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقاتیں ھوئی ہیں اور ایرانی صدر نے دوسرے فریقوں سے بھت جلد مفاھمت کرنے کی یقین دھانی کرائی ہے جبکہ تھران مستقبل کے بارے میں زيادہ پرامید نظر آرھا ہے؛ اور یہ سارے واقعات اس بات کا پتہ دے رھے ہیں کہ ایران اور مغرب کے تعلقات بھت جلد بحال ھونگے۔
ھاآرتص نے مزید لکھا ہے کہ صھیونی ریاست کا وزیر اعظم بنیامین نیتن یاھو نیویارک میں اپنی تمام تر کوششیں ایران کا راستہ روکنے پر مرکوز کرے گا۔
دوسرے صھیونی اخبار یدیعوت آحارونوت نے بھی جنرل اسمبلی سے ایرانی صدر کے خطاب کی طرف اشارہ کرتے ھوئے لکھا: ایران کے صدر مسکراھٹ اور خوبصورت باتیں کرکے عالمی رائے عامہ کو اپنی جانب متوجہ کرانا چاھتے ہیں انھوں نے تجویز پیش کی ہے کہ تین سے چھ مھینوں کے دوران ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں مفاھمت حاصل ھو۔
اسی اخبار میں "شمعون شیفر" نے "تنھا میدان جنگ میں" کے زیر عنوان لکھا: روحانی دنیا والوں کو قائل کرچکے ہیں کہ مذاکرات کا آغاز ضروری ہے چنانچہ اب اسرائیلی وزير اعظم "نیتن یاھو" میدان جنگ میں اپنے آپ کو تنھا پائے گا۔
اسی اخبار میں صھیونی قلم کار "سمادر کادمون" نے لکھا: ھم کس چیز سے خائف ہیں؟ ممکن ہے کہ ھم ایسی باتیں سنیں جو اس سے قبل سننے میں نھيں آئی تھیں۔
صھیونی قلمکار "سمادار بیری" نے صدر روحانی کے خطاب کی طرف اشارہ کرتے ھوئے "انھیں ثابت کرنا پڑے گا" کے عنوان سے لکھا ہے: غلط تصورات سے بچنا چاھئے، ایرانی کسی حال میں بھی اپنے جوھری پروگرام کو ترک نھيں کرے گا اور یورینیم کی افزودگی کی سطح معین کرنے، جوھری بجلی گھر اور ایران کی تمام جوھری تنصیبات پر نگرانی کے بارے میں مذاکرات کا سلسلہ بدستور جاری رھے گا۔
بیری نے مزید لکھا ہے: امریکہ ایران کے مطالبات کے سامنے سرتسلیم خم کرے گا اور ایران پر لگی ھوئی پابندیاں یکے بعد دیگرے منسوخ ھوجائیں گی۔
صھیونی اخبار "معاریو" نے ایک مضمون بعنوان "کونسی چیز اس مسکراھٹ کے پیچھے چھپی ھوئی ہے؟" میں لکھا ہے: ایران کے صدر جمھوریہ نے عالمی رائے عامہ کا اعتمال حاصل کرکے جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران تجویز دی کہ ایران کی جوھری سرگرمیوں پر بین الاقوامی نگرانی وسیع تر کی جائے؛ اور انٹیلجنس اداروں کا کھنا ہے کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ھوگئے۔
یدیعوت آحارونوت نے لکھا ہے کہ ایرانی صدر کا دور نیویارک بھت کامیاب رھا اور اب ایران کے ایٹم بم کے بارے میں نیتن یاھو کا کاغذی کارٹون اس کے کام نھيں آئے گا بلکہ اب اس کو اقوام متحدہ کے فورم میں حقیقی دھماکہ کرنا پڑے گا۔
"ناحوم برنیاع" صھیونی نامہ نگار نے اسی اخبار میں لکھا ہے کہ صدر روحانی کا انتخاب اور اور رائے عامہ کو اپنے متوجہ کرنے کے لئے ان کا لب و لھجہ ایرانیوں کو دو دانشمندانہ اقدامات تھے۔
برنیاع لکھتا ہے: نیتن یاھو ایسے حال میں نیند سے جاگ اٹھا کہ اس کے ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ جمع ھوا تھا؛ اس نے کوئی راستہ پانے کی خواھش کی جو نیویارک میں پیش آنے والے گذشتہ ھفتے کے تمام واقعات کو مٹا ڈالے!۔ نیتن یاھو نے گذشتہ سال جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک ایٹم بم کے کارٹون پر ایک سرخ لکیر کھینچی اور دنیا کو حیرت زدہ کردیا کیونکہ کوئی بھی ـ حتی کہ وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے ملازمین میں سے کوئی فرد ـ اس لکیر کے معنی نھیں سمجھ سکا اور اس کی وضاحت نھیں کرسکا اور یہ نھیں کھہ سکا کہ ایران کس وقت اور کن حالات میں اس سرخ لکیر سے عبور کرے گا اور اسرائیل کب جوابی کاروائی کرے گا۔۔۔ بشرطیکہ جواب دینے کے قابل ھو!؟۔
برنیاع نے مزید لکھا: یہ تصویر ایک دو روز تک یوٹیوب پر اور دنیا کے ذریعے ابلاغ پر نشر ھوتی رھی اور اب دنیا کے لوگ ایک نئے تشھیری دھوکے کا انتظار کررھے ہیں؛ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیلی وزیر اعظم اس بار ایک کاغذی بم کے بجائے ایک حقیقی بم ساتھ لے جائے گا اور اس وہ اقوام متحدہ کے فورم میں حقیقی دھماکہ کرے گا؟
یدیعوت لکھتا ہے: ایران کے صدر اور وزیر خارجہ کے موقف کو مدنظر رکھتے ھوئے، لگتا ہے کہ ایرانی ماضی کے برعکس اب مفاھمت کے درپے ہیں لیکن وہ اپنے جوھری پروگرام کو روکنے کی بات نھیں کرتے اور اوباما سمیت مغربی ممالک کے سربراہ نے ایران سے ایسی درخواست بھی نھيں کی ہے۔
اس صھیونی لکھاری نے لکھا: ایرانی بارگیننگ کرتے ہیں اور وہ حتی کولمبس کے توسط سے براعظم امریکہ دریافت ھونے سے بھی صدیاں قبل سے، جانتے تھے کہ انھيں کس طرح بارگیننگ کرنی چاھئے۔
 

Add comment


Security code
Refresh