کیا بشر ان افراد کی ھدایت کا محتاج ھے جو خدا کی جانب نبی بنا کر بھیجے گئے ھیں؟
اگر پیامبران خدا، تاریخ حیات بشریت میں موجود نہ ھوتے تو انسانی زندگی میں کیا نقصان یا نقصانات رونما ھوتے؟
اگر فرض کرلیں کہ گذشتہ دور کے انسانوں کو ھدایت انبیاء کی ضرورت تھی تو کیا یہ ضرورت آج کے اس انسان کے لئے بھی جوں کی توں باقی ھے جو مختلف الجھات وسیع اور بے پناہ رشد عقلی کا حامل ھوگیا ھے؟
پیامبران خدا کیوں آئے تھے؟ ان کے وظائف وذمہ داریاں کیا تھیں؟ انبیاء جو کچھ بشریت کے لئے بطور تحفہ (دین) لے کر آئے ھیں، تاریخ بشریت میں اس کے کیا فوائد وآثار ھیں؟
یہ وہ بعض سوالات ھیں جو "نبی شناسی" کے ذیل میں پیش کئے جاتے ھیں اور ان کا جواب دیا جاتا ھے۔ اگرچہ یھاں وحی و نبوت سے متعلق تمام سوالات کا بالتفصیل جواب نھیں دیا جاسکتا کیونکہ بحث طویل ھوجائے گی پھر بھی کوشش کی جائے گی کہ ان میں سے اھم ترین سوالات وجوابات پر سادہ اور سلیس زبان میں تبصرہ کیا جائے۔
نبی کون ھوتا ھے اور وحی کیا ھے؟
نبی کون ھوتا ھے؟
لغت میں لفظ "نبی" کے دو معنی پائے جاتے ھیں:
۱۔ اھم خبر لانے والا، یہ اس صورت میں ھے جب لفظ "نبی" کو مادہٴ "نبأ"سے فرض کیا جائے کیونکہ نباٴ کے معنی اھم خبر دینے کے ھیں۔
۲۔ بلند مقام ومنزلت والا، یہ اس صورت میں ھے جب اس کے مادہ کو "نبوة" فرض کیا جائے کیونکہ نبوةکے معنی بلندی اور ارتفاع کے ھیں۔
اصطلاح علم کلام (THEOLOGICAL TERM) میں نبی وہ ھوتا ھے جس پر خدا کی جانب سے وحی نازل ھوتی ھے اور جس کو ھدایت بشر کے لئے بحیثیت نبی مبعوث کیا جاتاھے۔
استاد جعفر سبحانی اپنی کتاب ” الالھیات “ میں لکھتے ھیں :
"النبوة سفار ة بین اللہ و بین ذوی العقول من عبادہ لا زالة علتھم فی امر معادھم و معاشعھم "
نبوت یعنی خدا وند ذوی العقول بندوں کے درمیان سفارت تاکہ ان کے دنیاوی و اخروی امور کے مسائل کو حل کیا جا سکے ۔
دوسرے بھت سے متکلمین نبی کی تعریف میں کھتے ھیں :
" ھو الانسان المخبر عن اللہ بغیر واسطہ احد من البشر "
نبی وہ انسان ھوتا ھے بغیر کسی بشری واسطے کے خدا کی طرف سے خبر دے ۔
مذکورہ تعریف سے واضح ھوجاتا ھے کہ شناخت وحی کے بغیر شناخت نبی ممکن نھیں ھے۔لھٰذا ضروری ھے کہ پھلے وحی کے بارے میں مختصر وضاحت کردی جائے۔
وحی کیا ھے؟
لغت میں وحی کے مختلف معانی بیان کئے گئے ھیں مثلاً اشارہ ،کتابت، نوشتہ، رسالہ، پیغام، مخفی کلام یا گفتگو اور مخفی اعلان۔
لیکن قرآن مجید نے وحی کے چار معانی بیان فرمائے ھیں۔
۱۔ خفیہ اشارہ
جیسے"فخرج علیٰ قومہ من المحراب فاوحی الیھم ان سبحوا بکرةً وعشیاً"
اور اس کے بعد (زکریا) محراب عبادت سے قوم کی طرف نکلے اور اسے اشارہ کیا کہ صبح وشام اپنے پروردگار کی تسبیح کرتے رھو۔(۱)
۲۔ غریزی (طبیعی) ھدایت
یہ وہ ھدایت ھے جس سے ھر طرح اور ھر نوع کے موجودات مثلاً نباتات، حیوانات، انسان حتی بے جان اجسام یعنی جمادات بھی فطری اور طبیعی طور پر بھرور ھوتے ھیں اور اس کے ذریعہ اپنی زندگی کی بقاء وارتقاء کی راھوں کو طے کرتے ھیں:
"واوحیٰ ربک الیٰ النحل ان اتخذی من الجبال بیوتاً ومن الشجر ومما یعرشون ثم کلی من کل الثمرات فاسلکی سبل ربک ذللاً ۔ ۔ ۔"
اور تمھارے پرودرگار نے شھد کی مکھی کو اشارہ دیا کہ پھاڑوں اور درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں اپنے گھر بنائے اس کے بعد مختلف پھلوں سے غذا حاصل کرے اور نرمی کے ساتھ خدائی راستے پر چلے……. (۲)
۳۔ الھام:
عظیم انسان اپنی زندگی میں ایسے پیغامات کو محسوس کرتے رھتے ھیں جو ماورائے طبیعت اور عالم غیب سے ان پر نازل ھوتے ھیں۔ یہ پیغامات یا الھامات ان لوگوں کے دل میں ایک نور کا کام کرتے ھیں مخصوصاً اس وقت جب یہ لوگ مجبوری یا اضطرار میں گرفتار ھوں یا پھر کسی ایسے دوراھے پر کھڑے ھوں جھاں راستے کا تعین دشوار ھو۔
ان پیغامات کو جو عنایات الٰھی کی بنیاد پر غیب سے ان عظیم اور خداترس لوگوں کی مدد کرنے کے لئے نازل ھوتے ھیں، قرآن نے وحی سے تعبیر کیا ھے:
"واوحینا الیٰ ام موسیٰ ان ارضعیہ فاذا خفت علیہ فالقیہ فی الیم ولا تخافی ولا تحزنی انا رادوہ الیک وجاعلوہ من المرسلین"
او رھم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنے بچے کو دودھ پلاؤاور اس کے بعد جب اس کی زندگی کا خوف پیدا ھو تواسے دریا میں ڈال دواور بالکل ڈرو نھیں اور پریشان نہ ھو کہ ھم اسے تمھاری طرف پلٹا دینے والے اور اس کو مرسلین میں سے قرار دینے والے ھیں۔(۳)
استاد ھادی معرفت اس سلسلے میں رقمطراز ھیں:
"جب حضرت موسیٰ پیدا ھوئے تو آپ کی والدہ پریشان ھوگئیں۔ ناگھاں آپ کے دل میں خیال پیدا ھوا کہ خدا پر توکل وبھروسہ کریں، بچے کودودھ پلائیں اور جب بھی اس بچے کے سلسلے میں خوف کااحساس پیدا ھواس کو ایک لکڑی کے صندوق میں رکھ کر دریا میں بھادیں نیز انھیں اس بات کا بھی احساس ھواکہ ان کا بچہ ان کی طرف پلٹا دیا جائے گا لھٰذا اس سلسلے میں قطعاً پریشان نہ ھوں کیونکہ خدا پر اعتماد وبھروسہ کیا ھے اور بچے کو اسی کے حوالے کیا ھے ۔ یہ وہ خیالات تھے جو مادر جناب موسیٰ کے دل میں پیدا ھوئے تھے۔ یہ وہ امید کی کرن تھی جو ان کے دل میں روشنی کی مانند چمکی تھی کیونکہ انھوں نے اس وقت ذات خدا کے علاوہ کسی اور کے بارے میں اصلاً سوچا بھی نھیں تھا۔ اس طرح کے خیالات راستے کومشخص اور معین کرنے والے اور ناامیدی و خوف سے نجات دینے والے ھوتے ھیں جو وقت ضرورت الھام رحمانی وعنایت الٰھی کی بنیاد پر بندگان صالح کی مدد کے لئے نازل ھوتے ھیں۔" (۴)
البتہ قرآن مجید نے وحی کو بطور وسوسہٴ شیطان بھی استعمال کیا ھے:
"وان الشیاطین لیوحون الیٰ اولیائھم لیجادلوکم وان اطعتمو ھم انکم لمشرکون"
اور شیاطین اپنے والوں کی طرف خفیہ اشارہ کرتے ھی رھتے ھیں تاکہ وہ لوگ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم لوگوں نے ان کی اطاعت کی تو تمھارا شمار بھی مشرکین میں ھو جائے گا۔(۵)
۴۔ وحی رسالتی
یہ وھی وحی ھے جو پیغمبروں اور نبوت سے مخصوص ھے۔ قرآن کریم میں اس معنی میں وحی کا ذکر ستر مرتبہ سے زیادہ ھوا ھے:
"وکذلک اوحینا الیک قرآناً عربیاً لتنذر ام القریٰ ومن حولھا"
اور ھم نے اسی طرح آپ کی طرف عربی زبان میں قرآن کی وحی بھیجی تاکہ آپ مکہ اور اس کے اطراف والوں کو ڈرائیں۔ (۶)
وحی رسالتی ایک طرح کی ھدایت الٰھی ھے جس کوخداوند عالم برگزیدہ اور چنے ھوئے افراد کو عطا کرتا ھے تاکہ وہ بھی راہ سعادت تک رسائی حاصل کریں اور بشریت کے لئے بھی رھبری و راھنمائی کے فرائض انجام دیں۔
پیغمبران خدا بشری پیکر میں ایک وسیلہ و ذریعہ ھیں جن کی ذمہ داری اور فریضہ یہ ھوتا ھے کہ خدا کی جانب سے الٰھی پیغامات کو حاصل کریں اور پھر انھیں بشریت کے حوالے کردیں۔ یہ وہ عظیم واعلیٰ اور کمال یافتہ انسان ھوتے ھیں جو اپنے اندر صلاحیت کو پیدا کرتے ھیں کہ اس طرح کے پیغامات یعنی وحی کو حاصل کریںیہ وہ صلاحیت ھے کہ جس کا اختیار صرف اور صرف خدا کے پاس ھے کہ جس کو چاھتا ھے عنایت کرتا ھے :
"الله اعلم حیث یجعل رسالتہ"
الله بھتر جانتا ھے کہ اپنی رسالت کو کھاں رکھے گا۔(۷)
رسول اکرم فرماتے ھیں:
"ولا بعث الله نبیاً ولا رسولاً حتی یستکمل العقل ویکون عقلہ افضل من جمیع عقول امتہ"
خدا نے کسی نبی یا رسول کو مبعوث نھیں کیا مگر یہ کہ اس نے اپنی عقل کو کامل کرلیا ھو اوراس کی عقل اپنی امت کی عقل سے کامل وافضل ھوگئی ھو۔ (۸)
امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ھیں:
"ان الله وجدقلب محمدٍ افضل القلوب واوعا ھا فاختارہ لنبوتہ"
خداوندعالم نے رسول کے قلب و روح کوتمام قلوب میں بھترین اور افضل پایا اور پھر آپ کو بحیثیت نبی مبعوث کردیا۔(۹)
وحی رسالتی، الھام (معنائے سوم وحی) کے مانند غیبی خبر اور ھدایت الٰھی سے بھرور ھونا ھے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ الھام میں، الھام ھونے والے شخص کو اس کے سرچشمہ اور منبع کا علم نھیں ھوپاتا ھے جب کہ وحی میں، جس شخص (نبی) پر وحی ھوتی ھے اس کوو حی کا سرچشمہ اور منبع معلوم ھوتا ھے اور اسی وجہ سے انبیاء ورسول آسمانی الھامات ، پیغامات اور خبرو وحی کے نازل ھوتے وقت ھر گز حیرت و اشتباہ یا غلطی کا شکار نھیں ھوتے ھیں۔
زرارہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا: آخر رسول کس طرح مطمئن ھوگئے تھے کہ جو کچھ ان تک پھونچ رھا ھے وہ وحی خدا ھے نہ کہ وسوسہٴ شیطانی؟
امام نے فرمایا: "ان الله اذا اتخذ عبداً انزل علیہ السکینة والوقار فکان الذی یاتیہ من قبل الله مثل الذی یراہ بعینہ"
جب خدا کسی بندے کا انتخاب کرتا ھے تو اس پر ایک طرح کا وقار و سکینہ نازل کرتا ھے جس کے ذریعے وہ خدا کی طرف سے آنے والے پیغامات کو اس طرح محسوس کرتا ھے جیسے وہ اپنی آنکھوں سے نازل ھوتے ھوئے دیکھ رھا ھو۔ (۱۰)
حوالہ جات:
۱۔ سورہٴمریم،آیت نمبر۱۱،
۲۔ سورہٴ نحل، آیت نمبر ۶۸ تا ۶۹،
۳۔ سورہٴقصص، آیت نمبر ۷۔
۴۔ آیت الله محمد ھادی معرفت، تاریخ قرآن، طباعت اول، تھران، انتشارات سمت، ص۱۰،۹۔
۵۔ سورہٴ انعام، آیت نمبر ۱۲۱، نیز آیت نمبر ۱۱۲۔
۶۔ سورہٴ شوریٰ، آیت نمبر ۷۔
۷۔ سورہٴانعام، آیت نمبر ۱۲۴۔
۸۔ مرحوم کلینیۺ اصول کافی
۹۔ بحار الانوار: ج۱۸،حدیث۳۶۔
۱۰۔ تفسیر عیاشی، ج۲،حدیث۱۰۶، بحارالانوار،ج۱۸،حدیث۱۶۔