صفین کے موقع پر فرمایا:اللہ سبحانہ تعالی نے مجھے تمہارے امور کا اختیا ر دے کر میرا حق تم پر قائم کردیا ہے ،اور جس طرح میرا تم پر حق ہے ،ویسا ھی تمھارا بھی مجھ پر حق ہے۔
یوں تو حق کے بارے میں باھمی اوصاف گنوانے میں بہت وسعت ہے لیکن آپس میں حق و انصاف کرنے کا دائرہ بہت تنگ ہے ۔دو آدمیوں میں اس کا حق اس پر اسی وقت ہے جب دوسرے کابھی اس پر حق ہو اور اس کا حق اس پر جب ہی ہوتا ہے جب اس کا حق اس پر بھی ہو اور اگر ایسا ہوسکتا ہے کہ اس کا حق تو دوسروں پر ہو لیکن اس پرکسی کا حق نہ ہو تو یہ امر ذات باری کے لئے مخصوص ہے نہ اس کی مخلو ق کے لئے کیو نکہ وہ اپنے بندوں پر پورا تسلّط و اقتدا ر رکھتا ہے ۔اور اس نے تمام ان چیزوں میں کہ جن پر اس کے فرما ن قضا جاری ہوئے ہیں عدل کرتے ہو ئے (ہر صاحب حق کا حق دے دیا ہے)اس نے بندوں پر اپنا یہ حق رکھا ہے کہ وہ اس کی اطاعت وفرمانبرداری کریں اور اس نے محض اپنے فضل و کرم او ر اپنے احسان کو وسعت دینے کی بنا پر کہ جس کا وہ اہل ہے ۔ان کا کئی گنا اجر قرار دیا ہے۔پھر اس نے ان حقوق انسانی کو بھی کہ جنہیں ایک کے لئے دوسرے پر قرار دیا ہے ۔اپنے ہی حقوق میں سے قرار دیا ہے اور انہیں اس طرح ٹھہرایا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں برابر اتریں اور کچھ ان میں سے کچھ حقو ق کا باعث ہوتے ہیں اوراس وقت تک واجب نہیں ہو تے جب تک اس کے مقابلہ میں حقوق ثابت نہ ہو جائیں اور سب سے بڑا حق کہ جسے اللہ سبحانہ نے واجب کیا ہے ۔حکمران کا رعیّت پراور رعیّت کا حکمران پر ہے ۔کہ جسے اللہ نے والی و رعیّت میں سے ہر ایک کے لئے فریضہ بنا کر عائد کیا ہے او راسے ان میں رابطہ محبت قائم کرنے اور اور ان کے دین کو سرفرازی بخشنے کا ذریعہ قراردیا ہے ۔چنانچہ رعیّت اسی وقت خوشحال رہ سکتی ہے جب حاکم کے طور طریقے درست ہوں اور حاکم بھی اسی وقت صلاح و درستگی سے آراستہ ہو سکتا ہے۔ جب رعیّت اس کے احکام کی انجام دہی کے لئے آماد ہ ہو جب رعیّت فرمان روا کے حقوق پورے کرے اور فرمانروا رعیّت کے حقوق سے عہدہ برآہو تو ان کے حق باوقار ،دین کی راہیں ا ستوار اور عدل و انصاف کے نشانات برقرار ہو جائیں گے اور پیغمبر کی سنتیںاپنے دھرے پر چل نکلیں گی اور زمانہ سدھر جائے گا ۔بقائے سلطنت کے توقعات پید ا ہوجائیں گے اور دشمنوں کی حرص و طمع یاس و ناامیدی سے بدل جا ئے گی ۔او ر جب رعیّت حاکم پر مسلّط ہوجائے یا حاکم رعیّت پر ظلم ڈھانے لگے تو اس موقعہ پر ہر بات میں اختلاف ہوگا ۔ظلم کے نشانات ابھر آئیں گے ۔دین میں مفسد ے بڑھ جائیں گے ،شریعت کی راہیں متروک ہو جائیں گی ۔خواہشوں پر عمل درآمد ہو گا شریعت کے احکام ٹھکرا دیئے جائیں گے ۔نفسانی بیماریا ں بڑھ جا ئیں گی او ر بڑے سے بڑے حق کو ٹھکرا دینے اور بڑے سے بڑے باطل پر عمل پیرا ہو نے سے بھی کو ئی نہ گھبرائے گا ۔ایسے موقعہ پر نیکو کار ذلیل، اور بد کردارباعزت ہوجاتے ہیں اور بندوں پر اللہ کی عقوبتیں بڑھ جاتی ہیں ۔لہٰذا ا س حق کی ادائیگی میں ایک دوسرے سے بخوبی تعاون کرنا تمہارے لئے ضرور ی ہے اس لئے کہ کو ئی شخص بھی اللہ کی اطاعت و بندگی میں اس حد تک نہیں پہنچ سکتا کہ جس کا وہ اہل ہے ۔چاہے وہ اس کی خوشنودیوں کو حاصل کرنے کے لئے کتنا ہی حریص ہو ،اور اس کی عملی کوششیں بھی بڑ ھی چڑھی ہوئی ہوں ۔پھر بھی اس نے بندوں پر یہ حق واجب قرار دیا ہے کہ وہ مقدور بھر پندو نصیحت کریںاور اپنے درمیان حق کو قائم کرنے کے لئے ایک دوسرے کا ہا تھ بٹائیں ۔کوئی شخص بھی اپنے کو اس سے بے نیاز نہیں قرار دے سکتا ۔کہ اللہ نے جس ذمہ داری کا بوجھ اس پر ڈالا ہے ا س میں اس کا ہاتھ بٹایا جائے ،چاہے وہ حق میں کتنا ہی بلند منزلت کیوں نہ ہو اور دین میں اسے فضیلت و برتر ی کیوں نہ حا صل ہو اور کوئی شخص اس سے بھی گیا گزر ا نہیں کہ حق میں تعاون کرے یا ا س کی طرف دست تعاون بڑھایا جائے ،چاہے لوگ اسے ذلیل سمجھیں او ر اپنی حقارت کی وجہ سے آنکھوں میں نہ جچے ۔
اس موقعہ پر آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہو ئے ایک طویل گفتگو کی جس میں حضرت کی بڑی مدح و ثنا کی او ر آپ کی باتو ں پر کان دھرنے اور ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا اقرار کیا ،تو آپ نے فرمایا جس شخص کے دل میں جلال الہی کی عظمت او ر قلب میں منزلت خداوندی کی رفعت کا احساس ہو ا اسے سزاوار ہے کہ اس کی جلالت و عظمت کے پیش نظر اللہ کے ما سوا ہر چیز کو حقیر جانے اورایسے لوگوں میںوہ شخص اور بھی اس کا زیادہ اہل ہے کہ جسے اس نے بڑی نعمتیںدی ہو ںاور اچھے احسانات کےے ہوں اس لئے کہ جتنی اللہ کی نعمتےں کسی پربڑی ہوںگی اُتناہی اُس پر اللہ کاحق زےادہ ہوگا نےک بندوںکے نزدےک فرمانرواؤں کی ------------ذلیل ترین صورت حال یہ ہے کہ ان کے متعلق یہ گمان ہونے لگے کہ وہ فخروسربلندی کودوست رکھتے ہیں اور ان کے حالات کبر وغرور پر محمول ہوسکیں مجھے یہ تک ناگوار معلوم ہوتاہے کہ تمہیں اس کا وہم وگمان بھی گزرے کہ میں بڑھ بڑھ کرسراہے جانے یا تعریف سننے کو پسند کرتا ہوںبحمداللہ !کہ میں ایسا نہیں ہوں اور اگر مجھے اس کی خواہش بھی ہوتی کہ ایسا کہا جائے توبھی اللہ کے سامنے فروتنی کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیتا کہ ایسی عظمت و بزرگی کو اپنایا جائے کہ جس کا وہی اہل ہے یو ں تو لوگ اکثر اچھی کار کردگی کے بعد مدح و ثنا کو خوشگوار سمجھا کرتے ہیں(لیکن )میری اس پر مدح و ستائش نہ کر و کہ اللہ کی اطاعت اور تمہارے حقوق سے عہدہ برآہوا ہوں ۔کیونکہ ابھی ان حقوق کا ڈر ہے جنہیں پورا کرنے سے میں ابھی فارغ نہیں ہوا ،اور ان فرائض کا ابھی اندیشہ ہے کہ جن کا نفاذ ضروری ہے۔ مجھ سے ویسی باتیں نہ کیا کرو ۔جیسی جابر سر کش فرمانرواؤں سے سیکھی جاتی ہیں ۔اور نہ مجھ سے اس طرح بچاؤ کرو ۔جس طرح طیش کھانے والے حاکموں سے بچ بچاؤ کیاجاتا ہے اور مجھ سے اس طرح کا میل جول نہ رکھو جس سے چاپلوسی اور خوشامد کا پہلو نکلتا ہو ۔میرے متعلق یہ گمان نہ کرو کہ میر ے سامنے کو ئی حق بات کہی جائے گی تو مجھے گراں گزرے گی اور نہ یہ خیا ل کرو کہ میں یہ درخواست کرو ںگا کہ مجھے بڑھا چڑھا دو ۔کیونکہ جو اپنے سامنے حق کے کہے جانے اورعدل کے پیش کئے جانے کو بھی گراں سمجھتا ہو ۔اسے حق او رانصاف پر عمل کرنا کہیں زیادہ دشوار ہوگاتم اپنے کو حق کی بات کہنے اور عدل کا مشورہ دےنے سے نہ روکو ۔میں (۱) تو اپنے کو ا س سے بالا تر نہیں سمجھتا کہ خطا کروں اور نہ اپنے کسی کا م کو لغزش سے محفوظ سمجھتاہوں ۔مگر یہ کہ خد ا میرے نفس کو اس سے بچائے کہ جس پر وہ مجھ سے زیادہ اختیار رکھتا ہے ۔ہم او رتم اسی رب کے اختیار بندے ہیں کہ جس کے علاوہ کوئی رب نہیں ۔وہ ہم پر اتنا اختیا ر رکھتا ہے ۔کہ خود ہم اپنے نفسوں پر اتنا اختیا ر نہیں رکھتے ۔اسی نے ہمیں پہلی حالت سے نکال کر جس میں ہم تھے بہبو دی کی راہ پر لگایا اور اسی نے ہماری گمراہی کو ہدایت سے بدلا او ر بے بصیرتی کے بعد بصیرت عطا کی ۔
۱۔ یہ امرکسی تصریح کا محتاج نہیں ہے کہ عصمت ملکی اور ہے اورعصمت بشریٰ او رہے ۔فرشتوں کے معصوم ہونے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ میںکسی خطاؤ لغزش کی تحریک ہی پیدا نہیں ہوتی ۔مگر انسان کے معصوم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس میں بشریٰ تقاضے اور نفسانی خواہشیں ہوتی ہیں۔مگر وہ انہیں روکنے کی ایک قوت خاص رکھتا ہے اور ان سے مغلوب ہوکر کسی خطا کا مرتکب نہیں ہوتا اور اسی قوت کا نام عصمت ہے جو کہ ذاتی خواہشات و جذبات کو ابھرنے نہیں دیتی ۔حضرت کے ارشاد فانّی لست فی نفسی بفوق اب اخطی (میں اپنے کو اس سے بالاتر نہیںسمجھتا کہ خطا کروں )میںانہی بشری ٰتقاضوں او رخواہشوں کی طرف اشارہ ہے اور الّا ان یکفی اللہ فی نفسی(مگر یہ کہ خد ا میرے نفس کو ا سے بچائے رکھے )میں عصمت کی طرف اشارہ ہے ۔چنانچہ اسی لب ولہجہ میں حضرت یوسف کی زبانی قرآن میں وارد ہے کہ وما ابّری نفسی ان النفس لامارہ بالسو ء الا مارحم ربی(میں اپنے نفس کو گناہ سے پاک نہیں ٹھہراتا ۔کیونکہ انسان کا نفس گناہ پر بہت ابھارنے والا ہے یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے ۔تو جس طرح یہاںپر الّا مارحم ربی کا جو استثناء ہے ۔اس کی وجہ سے آیت کے پہلے جز و سے آپ کی عصمت کے خلاف دلیل نہیں لائی جا سکتی ۔اسی طرح امیرالمومنین[ع]کے کلا م میں الا ان یکفی اللہ کا جو استثناء ہے اس کے ہوتے ہوئے کلام کے پہلے ٹکڑے سے آپ کے غیر معصوم ہو نے پر استدلال نہیں کیا جاسکتا ورنہ ایک نبی کی عصمت سے بھی انکار کرنا پڑے گا ۔یونہی اس خطبہ کے آخری ٹکڑے سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ آپ بعثت رسو ل سے پہلے دور جاہلیت کے عقائدسے متاثرہ رہ چکے ہوں گے اور جس طرح دوسروں کا دامن کفر و شرک سے آلود ہ رہ چکا تھا ۔اسی طرح آپ بھی تاریکی و ضلالت میں رہے ہوں گے ۔کیونکہ آپ پیدائش کے دن سے رہبر عالم کے زیر سایہ پرورش پا رہے تھے اور انہی کی تعلیم و تربیت کے اثرا ت آپ کے دل و دماغ میں چھائے ہو ئے تھے ۔لہٰذ ا یہ تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ابتدائے عمر سے پیغمبر کے نقش قدم پر چلنے والا زندگی کے کسی لمحہ میں ہدایت سے بیگانہ ہو گا ۔چنانچہ مسعودی نے تحریر کیا ہے کہ:۔
آپ نے کبھی شرک ہی نہیں کیا کہ اس سے الگ ہو کر آپ کے اسلا م لانے کا سوال پیدا ہو بلکہ تمام افعال و اعمال میں رسول کے تابع اور ان کے پیرو تھے اور اسی حالت اتبا ع میںآپ نے سر حد بلو غ میں قدم رکھا ۔
اس مقام پر ان لوگوں سے جن کو اللہ نے تاریکی و گمراہی سے راہ راست پر لگایا وہ لوگ مراد ہیں جو آپ کے مخاطب تھے ۔چنانچہ ابن الحدید لکھتے ہیں کہ:۔
یہ خود امیرالمومنین(علیہ السلام ) کی طرف اشارہ نہیں کیونکہ وہ کبھی کافر نہیں رہے کہ کفر کے بعد اسلام لاتے بلکہ لوگوں کی مختلف جماعتیں تھیں جو آپ کے مخاطب تھیں ان کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔