آیت "یاایھاالانسان ماغرّک بربّک الکریم "اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے پروردگار کریم کے با رے میں دھوکا دیا "کی تلاوت کرنے کے بعدارشاد فرمایا:
یہ شخص جس سے سوال ہو رہا ہے جواب میں کتنا عاجز اور یہ فریب خوردہ عذر پیش کرنے میں کتنا قاصر ہے وہ اپنے نفس کو سختی سے جہالت میں ڈالے ھوئے ہے ۔
اے انسان کس چیز نے تجھے گناہ پر دلیر کردیا ہے اور کس چیز نے تجھے اپنے پروردگار کے بارے میں دھوکا دیا ہے اور کس چیز نے تجھے اپنی تباہی پر مطمئن بنادیا ہے ۔کیا تیرے مرض کے لئے شفا اور تیرے خو ا ب(غفلت) کے لئے بیداری نہیں ہے ،کیا تجھے اپنے پر اتنا بھی رحم نہیں آتا جتنا دوسروں پر ترس کھاتا ہے ۔بسا اوقات تو جلتی دھوپ میں کسی کو دیکھتا ہے تو اس پر سایہ کر دیتا ہے یا کسی کو درد و کرب میں مبتلا پاتا ہے تو اس پر شفقت کی بنا پر تیرے آنسو نکل پڑتے ہیں ۔مگر خود اپنے روگ پر کس نے تجھے صبر دلایا ہے اور کس نے تجھے اپنی مصیبتوں پر توانا کردیا ہے اور خود اپنے اوپر رونے سے تسلی دے دی ہے ۔حالانکہ سب جانوں سے تجھے اپنی جان عزیز ہے اور کیوں کر عذاب الہی کے رات ہی کو ڈیرے ڈال دینے کا خطرہ تجھے بیدار نہیں رکھتا حالانکہ تو اپنے گناہوں کی بدولت اس کے قہرو تسلّط کی راہ میں پڑا ہوا ہے ۔دل کی کوتا ہیوں کے روگ کا چارہ عزم راسخ سے آنکھوں کے خواب غفلت کا مداوا بیداری سے کرو ۔اللہ کے مطیع و فرمانبردار بنو اور اس کی یاد سے جی لگاؤ ،ذرا اس حالت کا تصور کرو ،وہ تمہاری طرف بڑھ رہا ہے اور تم اس سے منہ پھیرے ہوئے ہو اور وہ تمہیں اپنے دامن عفو میں لینے کے لئے بلارہا ہے اور اپنے لطف و احسان سے ڈھانپنا چاہتا ہے اور تم ہو کہ اس سے روگرداں ہو کر دوسری طرف رخ کئے ہوئے ہو ،بلند برتر ہے وہ خدائے قوی و توانا کہ جو کتنا بڑا کریم ہے،اور تو اتنا عاجز و ناتواں اور اتنا پست ہوکر گناہوں پرکتنا جری اور دلیر ہے حالانکہ اسی کے دامن پناہ میں اقامت گزیں ہے اور اسی کے لطف و احسان کی پہنائیوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے ۔اس نے اپنے لطف و کرم کو تجھ سے روکا نہیں اور نہ تیرا پردہ چاک کیا ہے ،بلکہ اس کی کسی نعمت میں جو اس نے تیرے لئے خلق کی یا کسی گناہ میں کہ جس پراس نے پردہ ڈالا یاکسی مصیبت و ابتلا ء میں کہ جس کا رخ تجھ سے موڑا تو اس کے لطف و کرم سے لحظہ بھر کے لئے محروم نہیں ہوا یہ اس صورت میں ہے کہ جب تو اس کی معصیت کرتا ہے تو پھر تیرا اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟اگر تو اس کی اطاعت کرتا ہوتا ۔خدا کی قسم !اگر یہی رویہ دو ایسے شخصوں میں ہوتا جو قوت و قدرت میں برابر کے ہم پلہ ہوتے (اور ان میں سے ایک تو ہوتا جو بے رخی کرتا اور دوسرا تجھ پراحسان کرتا تو تو ہی سب سے پہلے اپنے نفس پر کج خلقی اور بد کرداری کا حکم لگاتا ،سچ کہتا ہوںکہ دنیا نے تجھ کو فریب نہیں دیا بلکہ تو خود (جان بوجھ کر)اس کے فریب میں آیا ہے ۔اس نے تو تیرے سامنے نصیحتوں کو کھول کر رکھ دیا او ر تجھے (ہر چیزسے)یکساں طور پر آگاہ کر دیا ۔اس نے جن بلاؤں کو تیرے جسم پر نازل ہونے اور جس کمزوری کے تیرے قو ٰی پر طاری ہونے کا وعدہ کیا ہے اس میں راستگواور ایفائے عہد کرنے والی ہے بجائے اس کے کہ تجھ سے جھوٹ کہا ہو یا فریب دیا ہو ۔کتنے ہی اس دنیا کے بارے میں سچے نصیحت کرنیوالے ہیں جو تیرے نزدیک ناقابل اعتبار ہیں او رکتنے ہی اس کے حالات کو صحیح صحیح بیان کرنے والے ہیں جو جھٹلائے جاتے ہیں ۔اگر تو ٹوٹے ہوئے گھروں اور سنسا ن مکانوں سے دنیا کی معرفت حاصل کرے تو تو انہیں اچھی یاد دہانی اور موثر پند دہی کے لحاظ سے بمنزلہ ایک مہربان کے پائے گا جو تیرے (ہلاکتوں میںپڑنے سے )بخل سے کا م لیتے ہیں یہ دنیا اس کے لئے اچھا گھر ہے جو اسے گھر سمجھنے پر خو ش نہ ہو،او راسی کے لئے اچھی جگہ ہے جو اسے اپنا وطن بناکر نہ رہے ۔اس دنیا کی وجہ سے سعادت کی منزل پر کل وہی لوگ پہنچیں گے جو آج اس سے گریزاں ہیں۔
جب زمین زلزلہ میںاورقیامت اپنی ہولناکیوں کے ساتھ آجائے گی اور ہر عبادت گاہ سے اس کے پجاری ہرمعبود سے اس کے پرستار او رہر پیشواسے اس کے مقتدی ملحق ہوجائیں گے تو اس وقت فضائیںشگاف کرنے والی نظر اور زمین میں قدموں کی ہلکی چاپ کا بدلہ بھی اس کی عدالت گستری و انصاف پروری کے پیش نظر حق و انصاف سے پورا پورا دیا جائے گا ۔اس دن کتنی ہی دلیلیں غلط و بے معنی ہوجائیں گی اور عذرو معذرت کے بندھن ٹوٹ جائیں گے تو اب اس چیز کو اختیار کرو جس سے تمہارا عذر قبول اور تمہاری حجّت ثابت ہو سکے جس دنیا سے تم نے ہمیشہ بہر و یاب نہیں ہونا اس سے وہ چیزیں لے لو جو تمہارے لئے ہمیشہ باقی رہنے والی ہیںاپنے سفر کے لئے تیارر ہو(دنیا کی ظلمتوں میں )نجات کی چمک پر نظر کرو او رجدو جہد کی سواریوں پر پالان کس لو۔