خدا کی قسم ! مجھے سعدان کانٹوں پر جاگتے ھوئے رات گزارنا اور طوق و زنجیر میں مقید ھوکر گھسیٹا جانا اس سے کھیں زیادہ پسند ہے کہ میں اللہ او ر اس کے رسول سے
اس حالت میں ملاقات کروں کہ میں نے کسی بندے پر ظلم کیاھو ۔یامال دنیا میں سے کوئی چیز غصب کی ھو ،میں اس نفس کی خاطر کیونکر کسی پر ظلم کر سکتاھوں جو جلد ھی فنا کی طرف پلٹنے والا اور مدتوں تک مٹی کے نیچے پڑا رھنے والا ہے ۔
بخدا میں نے (اپنے بھائی)عقیل کو سخت فقر و فاقہ کی حالت میں دیکھا ،یہاں تک کہ وہ تمہارے (حصہ کے)گیہوں کے ایک صاع مجھ سے مانگتے تھے او ر میں نے ان کے بچوں کو بھی دیکھا جن کے بال بکھرے ہوئے اور فقر و بے نوائی سے رنگ تیرگی مائل ہوچکے تھے گویا ان کے چہرے نیل چھڑک کر سیاہ کر دیئے گئے ہیں۔وہ اصرار کرتے ہوئے میرے پاس آئے اور اس بات کو باربار دھرایا میں نے ان کی باتوں کو کان دے کر سنا تو انہوں نے یہ خیال کیا کہ میں ان کے ہاتھ اپنا دین بیچ ڈالوں گا اور اپنی روش چھوڑ کر ان کے پیچھے ہوجاؤں گا ۔مگر میں نے کیایہ کہ ایک لوہے کے ٹکڑے کو تپایا اور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ عبرت حاصل کریں ۔چنانچہ وہ اس طرح چیخے جس طرح کوئی بیمار درد وکرب سے چیختا ہے اور قریب تھا کہ ان کا بدن اس داغ دینے سے جل جائے ۔پھر میں نے ان سے کہا کہ اے عقیل رونے والیاں تم پر روئیں کیا تم ا س لوہے کے ٹکڑے سے چیخ اٹھے ہو جسے ایک انسان نے ہنسی مذاق میں(بغیر جلانے کی نیت سے )تپایا ہے اور تم مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہو کہ جسے خدائے قہار نے اپنے غضب سے بھڑکایا ہے ۔تم تو اذیت سے چیخو اور میں جہنم کے شعلوں سے نہ چلاؤں ۔اس سے عجیب تر واقع یہ ہے کہ ایک شخصرات کے وقت (شھد میں )گندھا ہو ا حلوہ ایک برتن میں لےے ہوئے ہمارے گھر پرآیا۔جس سے مجھے ایسی نفرت تھی کہ محسو س ہوتا تھا کہ جیسے وہ سانپ کے تھوک یا اس کی قے میں گوندھا گیا ہے ۔میںنے اس سے کہا کہ کیا یہ کسی بات کا انعام ہے یازکوٰة ہے یا صدقہ ہے کہ جو ہم اہل بیت پر حرام ہے ۔تو اس نے کہا کہ نہ یہ ہے نہ وہ ہے بلکہ یہ تحفہ ہے ۔تو میں نے کہا سپر مردہ عورتیں تجھ پر روتیں کیا تو دین کی راہ سے مجھے فریب دینے کے لے آیا ہے ۔کیا تو بہک گیا ہے ؟یاپاگل ہوگیا ہے یا یون ہی ہذیاں بک رہا ہے ۔خدا کی قسم !اگر ہفت اقلیم ان چیزوں سمیت جو آسمانوں کے نیچے ہیں مجھے دے دیئے جائیں ۔صرف اللہ کی اتنی معصیت کروں کہ میں چیونٹی سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو کبھی ایسا نہیں کروں گا ۔یہ دنیا تو میرے نزدیک اس پتّی سے بھی زیادہ بے قدر ہے جو ٹڈی کے منہ میں ہوکہ جسے وہ چبا رہی ہو ۔علی (ع)کو فنا ہونے والی نعمتوں اور مٹ جانے والی لذ ّتوں سے کیا واسطہ ۔ہم عقل کے خواب غفلت میں پڑجانے اور لغزشوں کی برائیوں سے خدا کے دامن میں پناہ لیتے ہیں اور اسی سے مدد کے خواستگار ہیں۔