قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 10 بھمن سنہ 1390 ھجری شمسی مطابق 30 جنوری سنہ 2012 عیسوی کو ملاقات کے لئے آنے والے "نوجوان نسل اور اسلامی بیداری" کے زیر عنوان تھران میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں
آمریت کے خلاف خطے کی اقوام کی تحریک کو صھیونیوں کی عالمی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجھد کا مقدمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو امت مسلمہ کا بھترین سرمایہ قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیا کے تھتر ملکوں سے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب میں فرمایا کہ عالم اسلام کے نوجوانوں کی بیداری نے پوری دنیا کی مسلم اقوام کی بیداری کی امیدوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں قوموں کے انقلابات سے استکباری طاقتوں کو پھنچنے والے نقصانات اور ان پر لگنے والی کاری ضربوں کی تلافی کے لئے ان طاقتوں کے ذریعے کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن، ناپاک منصوبے اور سازشیں تیار کرنے میں مصروف ہے اور اسلامی اقوام، خاص طور پر مسلم ملکوں کے نوجوانوں کو جو اسلامی بیداری میں کلیدی رول کے حامل ہیں، اس بات کی اجازت نھیں دینی چاھئے کہ عالمی استبدادی نیٹ ورک ان کے انقلابوں کو ستوتاژ کرے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.
میں آپ تمام معزز مھمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامیہ کے مستقبل کے تعلق سے خوش خبری کے حامل لوگوں کو خوش آمدید کھتا ھوں۔ آپ میں سے ھر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ھو جاتا ہے تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ھمارے نوجوان بیدار ھو چکے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے گئے لیکن غیور اور بلند ھمت مسلم نوجوان نے خود کو ھر جال سے نجات دلائی۔ آپ دیکھ رھے ہیں کہ تیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں کیا ھوا۔ دیگر اسلامی ممالک میں کیسی تحریک اٹھی۔ یہ سب نوید اور خوش خبری ہے۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ آپ یقین جانئے کہ آج تاریخ عالم اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پھنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ھو رھا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجھات کا مرکوز ھو جانا، اللہ تعالی کی لا متناھی قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الھی پر تکیہ کرنا ہے۔
انسانیت مادی مکاتب فکر کو عبور کرکے آگے بڑھ آئی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت کی کوئی رمق ہے۔ آپ خود دیکھ رھے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کے گھوارے کے اندر، امریکہ اور یورپ کے اندر کیا حالات ہیں؟! شکست کا اعتراف کیا جا رھا ہے۔
اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نھیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامیہ کی سطح پر سب سے زیادہ کشش اسلام میں نظرآرھی ہے، قرآن میں نظر آرھی ہے، وحی الھی پر استوار مکتب فکر میں نظرآرھی ہے، اللہ تعالی نے یقین دلایا ہے کہ الھی مکتب فکر، وحی پر استوار مکتب فکر اور عزیز دین اسلام میں انسان کو سعادت اور کامرانی کی منزل تک پھنچنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ یہ ایک نھایت اھم، بامعنی اور مبارک راستہ ہے۔
آج اسلامی ممالک میں اغیار پر منحصر آمریتوں کے لوگ اٹھ کھڑے ھوئے ہیں۔ یہ اس عالمی آمریت اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف علم بغاوت بلند ھونے کا مقدمہ ہے جو استکباری طاقتوں اور صھیونیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک سے عبارت ہے۔
آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے پیروؤں کی ڈکٹیٹر شپ اور صھیونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ھو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف چالوں سے اور گوناگوں حربوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رھے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رھے ہیں، بحرین میں انجام دے رھے ہیں، بعض دیگر ممالک میں اس کے جذبات و احساسات برانگیختہ ھو چکے ہیں، یہ سب اس خطرناک اور زیاں بار ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جدوجھد کا ایک جز ہے جو دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ھوئے ہے۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الھی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ھونے والی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ تبدیلی آکر رھے گی، آپ اسے بعید نہ سمجھئے!
یہ اللہ کا وعدہ ہے"ولينصرنّ اللَّه من ينصره"(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ نے اللہ کی مدد کی تو وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بھت سی چیزیں ہیں جو بعید معلوم ھوتی تھیں مگر رونما ھو گئیں۔
کیا آپ ایک سال اور دو تین مھینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت (ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا اقتدار) اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ ختم ھو جائے گا؟
اگر اس وقت لوگوں سے کھا جاتا کہ مبارک کی بدعنوان اور (بیرونی طاقتوں پر) منحصر حکومت ختم ھو جائے گی تو بھت سے لوگ اس کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ھوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ھونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کھتا کہ مومن نوجوانوں کی ایک تنظیم صھیونی حکومت اور پوری طرح مسلح صھیونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ ھوا۔ اگر کوئی کھتا کہ اسلامی جمھوری نظام مشرق و مغرب سے جاری مخاصمتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رھے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ھوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ھوا۔
"وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما"(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رھنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ھمیں روشناس کرا رھا ہے۔ جب عوام میدان میں آجائيں اور ھم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو نصرت الھی کا حاصل ھونا یقینی ہے۔
اللہ تعالی ھمیں راستا بھی دکھاتا ہے "و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا".(3) اللہ تعالی ھدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات پر بھی پھنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ھم میدان میں ثابت قدم رھیں۔
اب تک جو کچھ رونما ھوا ہے وہ بھت عظیم شئے ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت اسلامیہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انھوں نے امت اسلامیہ پر تسلط قائم کیا۔ جھاں تک ھو سکا اسلامی امت کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقے کے قلب میں صھیونیت نامی کینسر لاکر ڈال دیا اور پھر ھر طرف سے اسے تقویت پھنچائی اور مطمئن ھو رھے کہ اب دنیا کے اس اھم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ھمت و شجاعت، اسلامی ھمت و شجاعت اور عوامی شراکت نے ان تمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان سارے اھداف پر پانی پھیر دیا۔
آج عالمی استکبار کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس ھو رھا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ فتحیاب ہیں، مستقبل آپ کے ھاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بھت عظیم کارنامہ ہے، لیکن کام یھیں ختم نھیں ھوا ہے۔
یہ بھت اہم نکتہ ہے۔ ابھی شروعات ھوئی ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاھئے کہ اپنی جدوجھد جاری رکھیں تاکہ دشمن کو مختلف میدانوں سے باھر کر دیں۔
یہ مقابلہ عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ھمت و حوصلے کی زور آزمائی ہے۔ جس فریق کا ارادہ مضبوط ھوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر تکیہ کئے ھوئے ہیں اسے غلبہ حاصل ھوگا۔ "ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم"؛(4) اگر آپ کو نصرت الھی کا شرف حاصل ھو گیا تو پھر کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نھیں کر سکے گا، آپ کو پیشرفت حاصل ھوگی۔ ھم چاھتے ہیں کہ مسلم اقوام جن سے عظیم امت اسلامیہ کی تشکیل عمل میں آئی ہے، آزاد رھیں، خود مختار رھیں، باوقار رھیں، کوئی ان کی تحقیر نہ کر سکے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ (دشمنوں نے) برسوں سے ھمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، ھماری ثقافت کو پامال کیا، ھماری خود مختاری کو ختم کر دیا۔اب ھم بیدار ھوئے ہیں۔ ھم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمھوریہ کی تشکیل عمل میں آئی تو دشمن کھتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ھو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ھائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ھوگا اور سرانجام پیچھے ھٹ جائے گا۔
آج ھمارے نوجوان اسلام کی برکت سے علم و دانش کے شعبے میں ایسے کارھائے نمایاں انجام دینے میں کامیاب ھوئے ہیں، جو خود ان کے بھی تصور سے باھر تھے۔
آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیاں انجام دے رھا ہے۔ یورینیم افزودہ کر رھا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رھا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رھا ہے، خلائی شبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ اللہ اکبر کے ثمرات ہیں۔۔۔۔۔(5)۔
ھمیں اپنی صلاحیتوں کو معمولی نھیں سمجھنا چاھئے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انھوں نے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نھیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ھی علم و دانش کے میدان میں۔ کھہ دیا کہ "آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فھمی میں پڑے رھے اور پسماندگی کا شکار ھوتے چلے گئے۔ دوسرا غلط تاثر جو ھمارے اندر پھیلایا گيا وہ ھمارے دشمنوں کی طاقت کے لامتناھی اور ان کے ناقابل شکست ھونے کا تاثر تھا۔ ھمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغرب کو تو پسپا کیا ھی نھیں جا سکتا۔ ھمیں ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ھی ھماری بھلائی ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں ھی خیالات سراسر غلط تھے۔ مسلمان قومیں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی، دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن کو تمام میدانوں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی روحانیت کی صدی ہے۔ اسلام نے معقولیت، روحانیت اور انصاف کو یکجا قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کی تلقین کرنے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جھاد کا درس دینے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب اللہ تعالی اور اسلام سے ھمیں ملنے والی تعلیمات ہیں۔
آج جو چیز سب سے اھم ہے، یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو ھزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ھوشیار رھنے کی ضرورت ہے کہ (دشمن) عوامی انقلابوں کو سبوتاژ نہ کر لے، اسے راستے سے منحرف نہ کر دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور مجاھدتوں اور بھنے والے لھو کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رھا ہے۔ بھت محتاط رھنے کی ضرورت ہے، بھت ھوشیار رھنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ھوشیار رھئے، آپ محتاط رھئے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ھمیں بڑے تجربات حاصل ھوئے ہیں، بتیس سال سے ھم نے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور دشمنیوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نھیں ہے جو مغرب اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انھوں نے نہ کی ھو۔ اگر کوئی اقدام انھوں نے نھیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نھیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انھوں نے کیا اور ھر دفعہ انھیں منہ کی کھانی پڑی، ھزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رھے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمھوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انھیں شکست ھوگی۔ یہ ھم سے اللہ کا وعدہ ہے جس کے بارے میں ھمیں کوئی شک و شبہ نھیں ہے۔
ھمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت میں کوئی شک و ترید نھیں ہے۔ ھمیں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بے اطمینانی نھیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے تعلق سے بے اطمینانی میں مبتلا ھوتے ہیں۔ "و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا"(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ھم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاھدت کے میدان میں داخل ھو چکے ہیں، ملت ایران اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ھو چکی ہے لھذا نصرت الھی کا حاصل ھونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یھی صورت حال ہے تاھم بھت محتاط رھنے کی ضرورت ہے۔ ھم سب کو ھوشیار رھنا چاھئے، ھم سب کو دشمنوں کے مکر و حیلے کی طرف سے چوکنا رھنا چاھئے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رھا ہے، اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کر رھا ہے۔
آج عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کے فرق پر یقین نھیں کرتیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کے فرق کو نھیں مانتیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نھیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ھمیں کوشش کرنا چاھئے کہ دشمن ھمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ھمیں اپنے اندر باھمی اخوت کا جذبہ پیدا کرنا چاھئے، ھدف کا تعین کر لینا چاھئے۔ ھدف اسلام ہے، ھدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جھاں اشتراکات موجود ہیں، وھیں کچھ فرق بھی ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد آئیڈیل نھیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاھم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ھم سب مخالف ہیں، اسرائیل نامی کینسر کے سب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جھاں بھی یہ محسوس ھو کہ کوئی نقل و حرکت اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رھی ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رھی ہے، ھمیں وھاں ھوشیار ھو جانا چاھئے، یہ سمجھ لینا چاھئے کہ یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مھم نھیں ھو سکتی۔ جب صھیونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ھوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وھاں سب "اپنے" لوگ ہیں۔ وھاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وھاں قومیت کا فرق ہے نہ شھریت کا۔ وھاں سب کو ایک ھی نھج پر سوچنا ہے۔
آپ غور کیجئے! اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔
دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رھے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وھاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کر دیں۔
مقصد کیا ہے؟
یہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاھتے ہیں۔ تفرقہ کا بیج بونے کی کوشش کر رھے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مومنین کے درمیان جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض دیگر کسی اور مسلک سے وابستہ ہیں، کوئی فرق نھیں ہے۔
اسلام نے سب کو ایک ھی لڑی میں پرو دیا ہے۔ سب امت اسلامیہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امہ کا جز ہیں۔۔۔۔ (10) فتح کا راز، تحریک کے دوام کا راز اللہ کی ذات پر توکل، اللہ کے تعلق سے حسن ظن، اللہ تعالی پر اعتماد اور اتحاد اور مربوط کوششوں کا جاری رھنا ہے۔
میرے عزیزو! میرے بچو! آپ بھت محتاط رھئے، اپنی تحریک کو رکنے نہ دیجئے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگھوں پر اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ "فاستقم كما امرت"،(11) "و استقم كما امرت"؛(12) استقامت کا مظاھرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائیداری، یعنی راستے پر اٹل رھنا، حق کے جادے پر آگے بڑھتے رھنا، قدم نہ رکنے دینا۔ یھی کامیابی کا راز ہے۔
ھمیں آگے بڑھتے رھنا ہے، یہ تحریک کامیاب ہے، اس کا مستقبل تابناک ہے، اس کے افق روشن ہیں۔ مستقبل بالکل درخشاں ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت اسلامیہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں کو چھو لے گی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ھوئے اللہ اور اسلام کے سائے میں جمع ھو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ ایسا ھو گيا تو امت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ھمارے ممالک زمین دوز ذخائر سے مالامال ہیں، ھمارے پاس اسٹریٹیجک اور سوق الجیشی اھمیت کے حامل خطے موجود ہیں، ھمارے پاس بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، نمایاں ھستیاں ہیں، با صلاحیت افرادی قوت ہے، ھمیں ھمت سے کام لینا چاھئے۔ اللہ تعالی ھماری ھمتوں میں اور بھی اضافہ کرے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاھتا ھوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے اور انشاء اللہ اپنے افتخارات آئندہ نسلوں کو منتقل کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حوالہ جات:
۱۔ حج: 40، اور جو بھی اللہ کی مدد کرے وہ اس کی یقینا مدد کرےگا۔
۲۔ فتح: 20، اللہ نے تم سے بھت سارے فوائد کا وعدہ کیا جو تم کو حاصل ھوں گے۔ پھر (خیبر کے) مال غنیمت سے فورا ھی تم کو بھرہ مند کر دیا اور لوگوں کے ھاتھ تم تک پھنچنے سے روک دیئے کہ اھل ایمان کے لئے یہ ایک نشانی بن جائے اور تم کو سیدھے راستے پر لگا دے۔
۳۔ عنكبوت: 69، اور جنھوں نے ھمارے لئے جھاد کیا ہے ھم انھیں اپنے راستوں کی ھدایت کر دیں گے۔
۴۔ آلعمران: 160، اگر اللہ تمھاری نصرت و مدد کرے تو تم پرکوئی بھی غالب نھیں آ سکے گا۔
۵۔ اللہ اکبر کے نعرے۔
۶۔ اللہ اکبر اور لبيك ياخامنهاى کے نعرے۔
۷۔ امریکہ مردہ باد کے نعرے۔
۸۔ فتح: 6، اور منافق مرد اور عورتیں جو اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں وہ ان سب پر عذاب نازل کرے گا، ان کے سر پرعذاب منڈلا رھا ہے، ان پر اللہ کا غضب ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ ان کے لئے جھنم کی آگ تیار کی ہے اور یہ کس قدر بدترین انجام ہے۔
۹۔ شعار "اسرائيل مردہ باد کے نعرے"۔
۱۰۔ اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ "وحدة وحدة اسلامية"۔
۱۱۔ هود: 112، پس آپ کو جس طرح کا حکم ملا ہے اس پر ثابت قدم رھیں۔
۱۲۔ شورى: 15، اور آپ اسی طرح استقامت سے کام لیں کہ جیسا آپ کو حکم ملا ہے۔
۱۳۔ هيهات منّا الذّلة کے نعرے۔