www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

انتظار كا مفھوم
انتظار اس حالت كو كہتے ھیں جب انسان اپنی موجودہ حالت سے كبیدہ خاطر ھو اور ایك تابناك مستقبل كی تلاش میں ھو، جیسے ایك مریض جو اپنے مرض سے عاجز آچكا ھو صحت و سلامتی كی امید میں رات دن كوشاں ھے، ایك تاجر جو كساد بازاری سے پریشان ھواس كی ساری تجارت ٹھپ ھو كر رہ گئی ھو، وہ اس انتظار میں ھے كہ كس طرح یہ كساد بازاری ختم ھو اور اس كی تجارت كو فروغ حاصل ھو، اسی امید میں وہ ھمیشہ سعی و كو شش كرتا رھتا ھے۔
انتظار كے دو پہلو ھیں، اور دونوں پہلو غور طلب ھیں:
۱۔منفی: انسان كا اپنی موجودہ حالت سے كبیدہ خا طر ھونا۔
۲۔مثبت: تابناك مستقبل كے لئے كو شاں رھنا۔
جب تك انسان كی ذات میں یہ دونوں پہلو نہ پائے جاتے ھوں، اس وقت تك اسے یہ كہنے كا حق نہیں ھے كہ وہ كسی كا منتظر ھے۔ كیونكہ جو شخص موجودہ حالت پر راضی و خوشنود ھوگا اسے مستقبل كے بارے میں كیا فكر ھوسكتی ھے اور اگر وہ موجودہ حالت سے تو راضی نہیں ھے مگر اسے مستقبل كی بھی كوئی فكر نہیں ھے تو ایسی صورت میں یہ شخص كس چیز كا انتظار كرے گا۔
جس قدریہ دونوں پہلو انسانی وجود میں جڑ پكڑتے جائیں گے اسی اعتبار سے اس كی عملی زندگی میں فرق پڑتا جائے گا، كیونكہ جو بات دل كی گہرائیوں میں اتر جاتی ھے اعضاء و جوارح اپنے عمل سے اس كا اظھار ضرور كرتے ھیں۔
انتظار كے دونوں پہلو انسان كی زندگی كے لئے مفید ھیں جب انسان زمانے كی موجودہ حالت سے كبیدہ خاطر ھوگا تو اس بات كی كوشش كرے گا كہ اپنے كو ھر قسم كے گناہ سے دور ركھے، ظلم و فساد سے كنارہ كشی اختیار كرلے، جور و استبداد كے ختم كرنے كی ھر امكانی كوشش كرے۔ اسی كے ساتھ ساتھ نیكی كی طرف قدم بڑھا رھا ھو اپنے كو نیك صفات سے آراستہ كرنے كی فكر میں ھو۔
اب آپ خود ھی فیصلہ كرلیں انتظار كا یہ مفہوم انسان سے احساس ذمہ داری كو چھین لیتا ھے یا احساس ذمہ داری كو اور بڑھا دیتا ھے۔ اس بیان كی روشنی میں گذشتہ روایتوں میں ذكر شدہ باتیں كس قدر روشن ھوجاتی ھیں، انسان میں جس قدر آمادگی پائی جاتی ھے اور جس قدر وہ اپنے كو انقلاب عظیم كے لئے تیار كرچكا ھے اسی اعتبار سے وہ فضیلت كے مرتبہ پر فائز ھے آمادگی كے مراتب كو دیكھتے ھوئے روایتوں میں فضیلت و عظمت كو بیان كیا گیا ھے
جس طرح سے ایك جنگ میں شركت كرنے والوں كے مراتب مختلف ھیں كوئی وہ ھے جو رسول خدا (ص) كے ساتھ ان كے خیمے میں ھے، كوئی جنگ كے لئے آمادہ ھورھا ھے۔ كوئی میدانِ جنگ میں كھڑا ھے، كوئی تلوار چلا رھا ھے كوئی دشمن سے برسر پیكار ھے اور كوئی جنگ كرتے كرتے شھید ھوچكا ھے۔ انھیں مراتب كے اختلاف كی بنا پر جنگ میں شركت كرنے والوں كے ثواب اور مراتب میں بھی اختلاف ھے۔
یہی صورت ان لوگوں كی بھی ھے جو ایك عظیم مصلح كے انتظار میں زندگی كے شب و روز گذار رھے ھیں، ایك عالمی انقلاب كی امید لگائے ھوئے ھیں جس كے بعد دنیا امن و امان، سكون و اطمینان كا گہوارہ ھوجائے گی۔ ظلم و جور و استبداد كی تاریكی كافور ھوجائے گی اب جس میں جتنی آمادگی، جذبۂ فدا كاری، شوق شھادت اور عزم و استقلال پایا جاتا ھے اسی اعتبار سے روایتیں اس كے شاملِ حال ھوتی جائیں گی۔
وہ شخص جو پیغمبر اسلام (ص) كے ھمراہ خیمے میں موجود ھے وہ كبھی بھی حالات سے غافل نہیں رہ سكتا، وہ ھمیشہ حالات پر نگاہ ركھے گا، ماحول كو باقاعدہ نظر میں ركھے گا، كیوں كہ وہ ایسی جگہ پر ھے جہاں غفلت اور لاپروائی سے دامن چھڑا كر یہاں آیا ھے۔ اسے اس بات كا احساس ھے كہ اس كی غفلت سے كیا نتائج برآمد ھوں گے، اس كی معمولی سی چوك كس قدر تباھی اور بربادی كا پیش خیمہ ھوسكتی ھے۔
وہ شخص جو میدان جنگ میں برسرِ پیكار ھے اسے كس قدر ھوشیار ھونا چاھئے، معمولی سے معمولی چیز سے بھی فائدہ اٹھانا چاھئے، ھر لمحہ كو غنیمت شمار كرنا چاھئے۔ فتح حاصل كرنے كے لئے ھر امكانی كوشش كرنی چاھیئے، اگر یہی شخص غافل ھوجائے، فرصت سے استفادہ نہ كرے، لمحات كو غنیمت نہ شمار كرے اس كا لازمی نتیجہ ھزیمت اور شكست ھوگی۔
یہی صورت ان لوگوں كی ھے جو "انتظار" میں زندگی بسر كررھے ھیں اور منتظر كو مجاھد كا جو درجہ دیا گیا ھے اس كی وجہ یہی ھے كہ منتظر كو مجاھد كی طرح ھمیشہ ھوشیار رھنا چاھیئے۔ ماحول پر فتح حاصل كرنے كے لئے ھر امكانی كوشش كرنا چاھئے۔ فساد كی بساط تہ كرنے كے لئے ھمیشہ كوشاں رھنا چاھیئے۔ تاكہ انقلاب عظیم كے مقدمات فراھم ھوسكیں۔
یہ بات بھی یاد ركھنے كے قابل ھے كہ انسان اسی وقت میدان جنگ میں ایك بہادر اور دلیر ثابت ھوگا جب باطنی اور روحی طور پر بھی اس میں شجاعت اور دلیری پائی جاتی ھو ورنہ اگر دل ھی بُزدل ھے تو تیغ بُراں بھی بیكار ھے، حقیقی انتظار كرنے والے كے لئے ضروری ھے كہ اپنے كو باطنی طور پر اس قدر آمادہ كرلے كہ وقتِ انقلاب اس كا شمار مجاھدین میں ھو۔
اس بیان كی روشنی میں "ھر سچّا منتظر" روایات میں اپنی جگہ ڈھونڈھ لے گا۔
قارئین خود ھی فیصلہ كرلیں كہ انتظار كا یہ مفہوم انسانی زندگی كے لئے ضروری ھے یا نہیں، اس كے ضمیر كی آواز ھے كہ نہیں۔؟
انتظار، یا آمادگی
اگر میں خود ھی ظالم اور ستم گر ھوں تو كیونكر ایسے انقلاب كا متمنی ھوسكتا ھوں جس میں ظالم اور ستم گر پہلے ھی حملے میں نیست و نابود ھوجائیں گے۔
اگر میں خود ھی گناھگار، بدكار اور بداخلاق ھوں تو كیونكر ایسے انقلاب كی آرزوكرسكتا ھوں جس میں گناھگاروں كے لئے كوئی خاص گنجائش نہ ھو۔
وہ فوج جو آمادۂ جنگ ھے كیونكر اس كے سپاھی غافل اور بے پروا ھوسكتے ھیں، فوج ھمیشہ اس فكر میں رھتی ھے كہ معمولی سے معمولی كمزوری كو جلد از جلد دور كیا جائے اور ھماری فوج میں كوئی بھی ضعف باقی نہ رھے اور جو ضعف ھیں ان كی فوراً اصلاح كرلی جائے۔
انسان كو جس چیز كا انتظار ھوتا ھے اسی اعتبار سے وہ خود كو آمادۂ استقبال كرتا ھے۔
اگر كسی مسافر كے آنے كا انتظار ھے تو ایك قسم كی تیاری ھوگی، اگر بہت ھی قریبی، اور جگری دوست آرھا ھے تو دوسرے قسم كی تیاریاں ھوں گی۔ اور اگر كسی طالب علم كو اپنے امتحان كا انتظار ھے تو اب اس كی تیاریاں ایك خاص قسم كی ھوں گی، اگر صحیح معنوں میں اسے امتحان كا انتظار ھے، ایسا ھرگز نہیں ھے جسے امتحان كا انتظار ھو وہ گھر كی صفائی اور اس كے نظم و ضبط میں منہمك ھو اور جسے ایك مسافر كا انتظار ھو وہ اپنی كاپی، كتاب كی اصلاح اور ترتیب میں مصروف و مشغول ھو، اب دیكھنا یہ ھے كہ ھم كس كا انتظار كر رھے ھیں اور كس انقلاب كی آس لگائے ھیں۔
انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو زمین كے كسی خطے سے مخصوص نہیں۔
انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں جغرافیائی حدود كی كوئی قید و شرط نہیں۔
انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو زندگی كے خاص شعبے میں محدود نہیں۔
انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اتنا عظیم انقلاب جس كی مثال تاریخ بشریت كے دامن میں نہ ھو۔
انقلاب۔ اور اتنا
انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو سیاست كو ایك نیا رخ دے، جو علم و ھنر میں ایك تازہ روح پھونك دے۔
انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اقتصادی الجھنوں كو دور كردے
انقلاب ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اخلاقی قدروں كو سرفراز كردے
اب دیكھنا یہ ھے كہ ایسے انقلاب كے انتظار میں زندگی گزارنے كے اثرات كیا ھیں۔ یہ بات پہلے ذكر كی جاچكی ھے كہ انتظار كے دو پہلو ھیں:۱۔ منفی ۲۔ مثبت
انتظار كی طرح انقلاب كے بھی دو پہلو ھیں: ۱۔ منفی۲۔ مثبت
۱۔منفی: موجودہ حالت كو ختم كرنا، فساد و تباھی كو ان كی آخری حد تك پہونچانا۔
۲۔مثبت: ایك جدید اور زندگی بخش نظام كو پرانے اور فرسودہ نظام كا جانشین قرار دینا۔
اب جو لوگ واقعاً منتظر ھیں اور صحیح معنوں میں ایك "عالمی انقلاب" كی اُمّید لگائے ھوئے ھیں، صرف زبانی اور خیالی جمع خرچ میں مبتلا نہیں ھیں، تو ان لوگوں میں كچھ صفات ضرور پائے جائیں گے ان میں سے چند صفتیں نذر قارئین ھیں۔
۱۔انفرادی اصلاح ۔ اِصلاحِ نفس
اس عظیم انقلاب كے لئے ایسے افراد كی ضرورت ھے جن كا ذھن عالمی اصلاحات كو قبول كرنے كی صلاحیت ركھتا ھے، ضرورت ھے ایسے افراد كی جو میدان علم كے شھسوار ھوں، افكار میں گہرائی ھو، دل میں وسعت ھو كہ دشمن كو بھی جگہ مل سكے، ضمیر زندہ اور بیدار ھو، اخلاق و مروت كے پرستار ھوں، ایسے افراد كی ضرورت ھے، جو تنگ نظر نہ ھوں، كج فكر اور كج خلق نہ ھوں، كینہ و حسد سے دور ھوں، اختلاف كی خانماں سوز آگ كو صلح و صفا و اخوت كے پانی سے بُجھا چكے ھوں۔
كیوں ۔۔۔ اس لئے كہ اگر كوتاہ فكر ھوں گے تو عالمی اصلاحات كو قبول كرنے سے انكار كردیں گے یا پھر اسے ایك دشوار گذار مرحلہ تصوّر كریں گے، اگر دل میں وسعت اور قلب میں محبّت نہ ھوگی، تو اپنے علاوہ دوسرے كے فائدے كو پسند نہیں كریں گے اگر آپس میں نفاق اور اختلاف ھوگا تو ایك عالمی حكومت سے تعاون نہیں كریں گے، اور دنیا میں افراتفری پھیلائیں گے۔
ایسا بھی نہیں ھے كہ انتظار كرنے والے كی حیثیت صرف ایك تماشہ دیكھنے والے كی حیثیت ھو، اور اس كو انقلاب سے كوئی سروكار نہ ھو، یا تو وہ اس عالمی انقلاب كا موافق ھوگا یا پھر مخالف۔ كسی تیسری صورت كی گنجائش نہیں ھے۔
بیدار ضمیر اور روشن فكر شخص جب كبھی اس انقلاب كے بارے میں فكر كرے گا اور اس كے نتائج پر نظر ركھے گا تو كبھی وہ مخالفین كی صف میں نہ ھوگا، كیونكہ اس انقلاب كے اصول اس قدر فطرت اور ضمیر كے نزدیك ھیں كہ ھر وہ شخص جس كے پہلو میں انسان كا دل ھے وہ ان اصولوں كو ضرور قبول كرے گا۔ مخالفت صرف وھی كریں گے جو ظلم و فساد كے دلدادہ ھوں، یا مظالم ڈھاتے ڈھاتے ظلم كرنا ان كی فطرت ثانیہ بن گئی ھو۔
جب انسان اس "عالمی انقلاب" كے طرفداروں میں ھوگا اور ھر انصاف پسند طرفدار ھوگا، ان لوگوں كے لئے ناگزیر ھے كہ انفرادی طور پر اپنی اصلاح كرلیں اور نیك اعمال بجالانے كے خوگر بنیں، عمل سے زیادہ نیت میں پاكیزگی ھو، تقویٰ دل كی گہرائیوں میں جاگزیں ھو علم و دانش سے سرشار ھو۔
اگر ھم خود فكری یا عملی طور پر ناپاك ھیں تو كیونكر ایسے انقلاب كے متمنی ھیں جس كی پہلی ھی لپیٹ ایسے لوگوں كو نگل جائے گی۔ اگر ھم خود ظالم اور ستم گر ھیں تو كیونكر ایسے انقلاب كا انتظار كررھے ھیں جس میں ظالم اور ستم گر كے لئے كوئی جگہ نہ ھوگی۔
اگر ھم خود مفسد ھیں اور فساد پھیلانے میں لگے رھتے ھیں تو كیوں ایسے انقلاب كی امید میں زندگی كے شب و روز گذار رھے ھیں جس میں مفسد اور فساد پھیلانے والے نیست و نابود ھوجائیں گے۔
خود فیصلہ كرلیجئے كیا اس عالمی انقلاب كا انتظار انسان كو باعمل اور باكردار بنا دینے كے لئے كافی نہیں ھے۔؟ یہ انتظار كی مدّت كیا اس بات كی مہلت نہیں ھے كہ انسان آمد انقلاب سے پہلے خود اپنی اصلاح كرلے اور خود كو انقلاب كے لئے آمادہ كرلے۔
وہ فوج جو ایك قوم اور ملّت بلكہ ایك ملك كو ظلم و ستم سے آزادی دلانا چاھتی ھے اس كے لیے ضروری ھے كہ وہ ھمیشہ مستعد رھے، اپنے اسلحوں كو پركھ لے، اگر كوئی اسلحہ خراب ھوگیا ھے یا زنگ آلود ھوگیا ھے تو اس كی فوراً اصلاح كرلے، حفاظتی اقدام میں كوئی كسر نہ اُٹھا ركھے، اپنی چوكیوں كو مضبوط كرلے، اور جو مضبوط ھیں انھیں مضبوط تر بنالے سپاھیوں كا شمار كرلے، ان كی قوت آزمالے، ان كے جذبات كا جائزہ لے لے، جن كی ھمتیں پست ھوں ان میں ایك تازہ روح پھونكی جائے۔ ھر ایك كو اس كی ھمت اور جذبہ كے مطابق كام سونپا جائے۔ اگر فوج ان خصوصیات كی حامل ھے تب تو اس بات كی امید كی جاسكتی ھے كہ وہ اپنے مقاصد میں كامیاب ھوگی، ورنہ اس كے تمام دعوے جھوٹے اور تمام منصوبے محض خواب و خیال ھوں گے۔
اسی طرح وہ لوگ جو اپنے كو حضرت امام زمانہ علیہ السلام كا منتظر كہتے ھیں اور یہ كہتے ھوئے فخر محسوس كرتے ھیں كہ ایك امام غائب كے انتظار میں زندگی بسر كر رھے ھیں ان كے لئے ضروری ھے كہ وہ اپنے كو اس عالمی انقلاب كے لئے آمادہ كریں۔ اپنے نفوس كا خود امتحان لے لیں، اپنے جذبات كو حقائق كی كسوٹی پر پركھ لیں، كیونكہ ایك قوم جو ھمیشہ اپنی اصلاح میں منہمك ھو، نہایت شوق و ولولے كے ساتھ نیك اعمال بجا لارھی ھو، سچے جذبات اور خلوص نیت كے ساتھ كردار كے اعلیٰ مراتب طے كر رھی ھو وہ قوم اور سماج كس قدر عالی اور بلند ھوگا، وہ ماحول كس قدر روح افزا اور وہ فضا كس قدر انسانیت ساز ھوگی، وہ صبح كس قدر تابناك ھوگی جس میں ایك ایسی عظیم قوم جنم لے گی۔ وہ قوم كوئی اور نہیں ھوگی بلكہ ھم اور آپ ھی ھوں گے بشرطیكہ متوجہ ھوجائیں اور اصلاحات میں لگ جائیں۔
یہ ھیں اس انتظار كے معنی جس كے بارے میں روایتیں وارد ھوئی ھیں، اور یہ ھے وہ "سچّا منتظر" جس كو روایت میں "مجاھد" اور "شھید" كا درجہ دیا گیا ھے۔
ضرورت ھے ایسے افراد كی جن كے ارادے كے سامنے مصائب كا طوفان خود چكر میں آجائے، جن كے عزم كے سامنے پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں، جن كی امید كے سامنے مایوسی كی چٹانیں پاش پاش ھوجائیں۔ فكر اس قدر وسیع ھوكہ آسمان اور زمین كی وسعتیں كم ھوں، اخلاق اس قدر بلند ھوكہ دشمن بھی كلمہ پڑھیں۔ كردار اتنا مستحكم ھوكہ ملائك بھی سجدہ ریز ھوں۔
۲۔سماج كی اصلاح
سچّا منتظر وہ ھے جو صرف اپنی اصلاح پر اكتفا نہ كرے بلكہ اس كے لیے ضروری ھے كہ دوسروں كی بھی اصلاح كی فكر كرے۔
كیونكہ جس انقلاب كا انتظار ھم كررھے ھیں، اس میں صرف جزوی اصلاحات نہیں ھوں گی بلكہ سماج كے سبھی افراد اس میں برابر كے شریك ھوں گے، لھذا سب مل كر كوشش كریں، ایك دوسرے كے حالات سے آگاہ رھیں، ایك دوسرے كے شریك رھیں اور شانے سے شانہ ملاتے ھوئے انقلاب كی راہ پر گامزن رھیں۔
جب كام سب مل كر انجام دے رھے ھوں تو اس میں كوئی ایك دوسرے سے غافل نہیں رہ سكتا۔ بلكہ ھر ایك كا فریضہ ھے كہ دوسروں كا بھی خیال ركھے۔ اطراف و جوانب كا بھی علم ركھتا ھو، جہاں پر كوئی معمولی سی كمزوری نظر آئے، فوراً اس كی اصلاح كرے۔ كوئی كمی ھوتو فوراً اس كو پورا كیا جائے۔
اسی بناء پر جہاں ھر انتظار كرنے والے كا یہ فریضہ ھے كہ خود كی اصلاح كرے، كردار كے جوھر سے آراستہ ھو وھاں اس كا یہ بھی فریضہ ھے كہ دوسروں كی بھی اصلاح كرے، سماج میں اخلاقی قدروں كو اجاگر كرے۔
صحیح انتظار كرنے كا یہ دوسرا فلسفہ ھے، ان باتوں كو پیش نظر ركھ كر روایات كا مطالعہ كیا جائے تو معنی كس قدر صاف اور روشن ھوجاتے ھیں۔ منتظر كو كہیں مجاھد كا درجہ، كہیں راہ خدا میں شمشیر بكف كا درجہ، اور كہیں پر فائز بہ شھادت كا درجہ دیا گیا ھے۔ بدیہی بات ھے اپنی اصلاح یا دوسروں كی اصلاح، انفرادی زندگی كے ساتھ حیات اجتماعی كو بھی سنوارنا كس قدر دشوار گذار مرحلہ ھے۔ ان مراحل میں وھی ثابت قدم رہ سكتا ھے جو عزم و عمل كا شاھكار ھو، جس كے قدم ثبات و استقلال كی آپ اپنی مثال ھوں۔

Add comment


Security code
Refresh